سعودی عرب کی حیثیت ایک ملک سے زیادہ ایک کنبہ یا خاندان کی ہے اور وہاں کا بادشاہ در ھقیقت اس کنبہ یا خاندان کا والی ووارث ہوتا ہے ، گزشتہ دنوں ولی عہد شاہزادہ کالد نے جو شاہ فیصل مرحوم کے سوتیلے بھائی ہیں، سعودی تخت سلطنت پر جلوہ افروز ہوکر اس خاندانی روایت کی تکمیل کی جو سعودی عرب میں ہر بادشاہ کے انتقال کے بعد ادا کی جاتی ہے۔ وہ سعودی عرب کے بادشاہ ہونے کے ساتھ ہی ساتھ سعودی عرب کے شاہی خاندان کے صدر بھی ہیں جو تین ہزار شاہزادوں پر مشتمل ہے۔۔ دراصل یہی خاندان حکومت، معیشت اور ملک کے ہر شعبہ زندگی کو چلاتا ہے۔ ان شاہزادوں میں بھی کئی زمرے ہیں، کئی درجن شاہزادوں میں سب سے اہم مقام حاصل ہے لیکن ان شاہزادووں میں سب سے اہم مقام صرف سات افراد کو حاصل ہے " یہ سات صَدَیْری" کے نام سے جانے جاتے ہیں اور سعودی عرب میں سیاسی قوت کا سر چشمہ ہیں۔ یہ سات افراد سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز ابن سعود کی سب سے چھوٹی۔۔ بیوی کے بیٹے ہیں جو صَدَیری خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ، اور سعودی عرب میں ان سے مشورہ کئے بغیر کوئی بھی کام نہیں کیاجاتا۔
شاہ زادہ خالد کو شاہ فیصل کا جانشین بھی ان سات صدیریوں کے مشورے ہی سے بنایا گیا۔ نئے بادشاہ خالد بھی عبدالعزیز ہی کے بیٹے ہیں مگر صدیری نہیں ہیں ، وہ ابن سعود کی جیلووی قبیلہ کی ایک بیوی کے بطن سے پیدا ہوئے تھے ، انہوں نے اپنے 52 سالہ صدیری بھائی، فہد کو اپنا ولی عہد شاہزادہ مقرر کیا ہے۔ شاہ خالد کے مقابلہ میں شاہزادہ فہد زیادہ سیاسی سوجھ بوجھ کے مالک ہیں اور عام طور پر ابھی سے یہی سمجھاجاتا ہے کہ وہی۔۔ سلطنت سعودی عرب کے مرد آہن ہیں ، گزشتہ چند برسوں سے وہ چیف شاہی مشیر، وزیرداخلہ اور تیل کی پیداوار اور سرمایہ کاری کی کلیدی کونسل کے چیرمین تھے۔۔ فہد کے بھائیوں (سات صدیریوں)میں بچپن ہی سے بڑی مفاہمت ہے ، وہ ایک دوسرے سے بڑ ی محبت کرتے ہیں اور 1969ء میں اپنی والدہ کے انتقال کے وقت تک ساتوں بھائی ایک ساتھ مل کر اپنی ماں کے ساتھ کھانا کھاتے تھے۔آج بھی وہ ایک دوسرے صلاح و مشورہ کرتے رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک بھائی 51 سالہ شہزادہ سلطان وزیر دفاع ہیں اور ان کے سپرد سعودی عرب کی فوج کو عصری تقاضوں کے مطابق بنانے کاکام ہے۔ دو چھوٹے بھائی ترکی اور نائف بالترتیب، نائب وزیرر دفاع اور نائب وزیر داخلہ ہیں، ایک اور بھائی سلمان شاہی دارالخلافہ ریاض کے گورنر ہیں اور احمد مکہ مکرمہ کے نائب امیر(ڈپٹی گورنر) ہیں۔ شاہزادہ احمد کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ہر سال لاکھوں کی تعداد میں حج بیت اللہ کے لئے آنے والے مسلم زائرین کی ضروریات کی دیکھ بھال کرنا بھی ہے۔
سات صدیریوں میں شاہزادہ عبدالرحمن کو مغربی مبصرین "پراسرار" شخصیت قرار دیتے ہیں ، وہ کسی بھی سرکاری عہدے پر فائز نہیں ہیں اور تجارت کرتے ہیں۔ مغربی مبصرین کا کہنا ہے کہ وہ سات صدیریوں کے درمیان قوت رابطہ کا کام کرتے ہیں۔ بہت سے سعودی شاہزادوں نے مغربی ملکوں کے بہترین اسکولوں میںاعلی تعلیم حاصل کی ہے اور اس کے باوجود انہیں سعودی طرز زندگی اور۔۔ اسلامی روایات عزیز ہیں، ان صدیری بھائیوں کے علاوہ شاہ خالد کے حقیقی جلیووی بھائی شاہزادہ عبداللہ بھی کافی طاقتور انسان ہیں جو 26 ہزار ارکان پر مشتمل نیشنل گارڈ کے کمانڈر ہیں۔ مگر سعودی خاندان کی روایتی ہم آہنگی اور جذبہ مفاہمت کی دولت سے وہ بھی مالا مال ہیں۔ اور شاید ان کے اسی جذبۂ اتحاد و اتفاق کی وجہ سے امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ایک مبصر نے یہ پیشین گوئی کی ہے کہ"شاہزادوں کے مابین کسی اختلاف کی کوئی علامت نہیں ملتی اور اگر کوئی اختلاف رونما بھی ہوا تو صدیری اسے دور کردیں گے۔" ریگ زار عرب میں سعودی خاندان پانچ سو سال سے چلا آرہا ہے اور اس خاندان کی زندگی اس قد ر طویل ہوئی ہے جو ہر اعتبار سے طاقت ور اور دوسروں سے مضبوط ومستحکم ہے۔
سعودی خاندان کی تاریخ: سعود خاندان کی تاریخ کا آغاز قطیف کے ایک فرد سے ہوتا ہے جو ترک وطن کرکے ریاض کے قریب منفوحہ گاؤں میں جاکر آباد ہوا تھا۔ وہ وہاں اپنے چچیرے بھائی ابن درو سے ملاقات کرنے کے لئے گیا تھا جو درو قبیلہ کا سردار تھا۔ اس سردار نے اسے پہاڑیوں پر جہاں سے وادی نظر آتی تھی۔ کچھ زمین دے دی جہاں وہ بس گیا اور یہاں درو قبیلہ کے لوگ بسنے لگے۔ان ہی میں سے ایک خاندان سعودابھرکر سامنے آیا۔ جس نے برسوں بعد ایک تاریخی اہمیت اختیار کی اور اس نے وادی کی قیادت کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ مورخین کا کہنا ہے کہ درو کی امارت "سعود ابن محمد مقرقم" کے ہاتھ میں آئی اور انہوں نے 1720ء میں سعودی حکمرانی کی بنیاد ڈالی۔1725ء میں ان کی موت کے بعد قیادت ان کے چچیرے بھائی زید ابن مرخان کو سونپی گئی۔لیکن زید قتل کردئے گئے اور اس کے بعد 1726ء کے اواخر میں محمد ابن سعود کو امیر منتخب کیا گیا۔
محمد ابن سعود وہ پہلے حکمراں تھے جنہوں نے جزیرہ نمائے عرب کے اتحاد اور اس کی آزادی کے لئے طویل اور خونیں جدو جہد شروع کی۔ اور جب 1765ء میں محمد ابن سعو کا انتقال ہوا تو عبدالعزیز وارث امارت بنے۔ اپنے والد کے زمانہ میں وہ بہت سے جنگی معرکوں کے کمانڈر رہے تھے انہوں نے اپنے والد کے مشن کو آگے بڑھایا۔ سعودی حکومت کا دائرہ عراق کی سرحدوںتک وسیع ہوگیا۔ بلکہ بعض اوقات عراق کی سرحدوں کو پار کرکے کربلاے معلی تک پہنچ گیا۔ مکہ معظمہ بھی عبدالعزیز کے زیر اقتدار آگیا۔ چنانچہ ان کے بعض دشمنوں نے ریاض میں ایک سازش کی اور انہیں مسجد سے باہر نکلتے ہوئے قتل کردیا لیکن ان کے بیٹے فیصل نے جلد ہی قاتلوں سے اس کا انتقام لے لیا اور ریاض پر پھر ان کا قبضہ ہوگیا گر یہ حکومت ساڑھے چار سال رہی اور اس کے بعد انگریزوں کی سازش سے ترکوں اور مصریوں نے ان پر حملہ کردیا اور کچھ غداروں کی مدد سے نجد پر کنٹرول حاصل کرلیا۔ فیصل کو گرفتار کرکے ایک قیدی کی حیثیت سے قاہرہ بھیج دیا گیا۔ ان کے بیتے ان کے ساتھ تھے۔
لیکن ابھی کچھ زیادہ زمانہ نہ گزرا تھا کہ 1843ء میں وہ قاہرہ کے قید خانے سے نکل بھاگنے اور جبل الشمس پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جہاں ان کے ایک دوست عبداللہ رشید نے ان کا پرجوش استقبال کیا۔ فیصل اپنے پرانے دوستوں کی مدد کے ذریعے نجد پر پھر اقتدار جمانے میں کامیاب ہوگئے۔ 1865ء میں ان کے انتقال کے بعد سلطنت پر اقتدار رکھنے کے لئے بھائی بھائیوں میں جھگڑے شروع ہوگئے۔عبداللہ جانشین بنے۔ لیکن ان کے بھائی سعود نے ان کے خلاف سازشیں جاری رکھیں جن میں وہ کامیاب ہوا اور اس نے ریاض کو تباہ کرڈالا۔ اس مرتبہ ریاض کے عوام بھی میدان میں آگئے اور انہوں نے سعود کی حکمرانی ختم کردی۔ دونوں بھائیوں کے درمیان لڑائی چلتی رہی یہاں تک کہ ان کے تیسرے بھائی عبدالرحمن بن فیصل تیسرے فریق کے طور پر میدان میں آگئے۔
مورخوں کا بیان ہے کہ 1865ء اور 1876ء کے درمیان آٹھ مرتبہ حکومتوں کی تبدیلیاں عمل میں آئیں ، معرکہ آرائیاں خود فیصل کے بیٹوں کے درمیان تھیں اور تینوں ایک دوسرے کا خون بہانے پر تلے ہوئے تھے۔ سعود خاندان کے نجد میں آکری حکمراں عبداللہ کے بھائی عبدالرحمن ،سعود بن فیصل تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے عبدالعزیز کو اس قابل بنادیا کہ آئندہ دس سال کے بعد جزیرہ نمائے عرب کی شان کو اس طرح واپس لایا کہ اس کی توقع خود سعودی خاندان کے افراد کو بھی نہ تھی۔ جہاں تک عبدالرحمن سعود بن فیصل کا تعلق ہے وہ قطر چلے گئے اور اس کے بعد کویت میں مستقلاً بود و باش اختیار کرلی۔
1901ء میں عبدالعزیز بن عبدالرحمن سعود اپنے 40دوستوں کے ساتھ ریاض پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے اور یکے بعد دیگرے مختلف علاقوں پر یلغار کرتے ہوئے نجد اور حجاز مقدس پر انہوں نے قبضہ کرلیا اور آخر میں مکہ معظمہ میں شریف مکہ کو شکست دی۔ وہ جس طرف بھی بڑھے کامیابی ان کے قدم چومتی گئی۔ ان کی بڑے عزم و ارادے کی شخصیت تھی۔ یہی وہ عبدالعزیز ہیں جنہوں نے موجودہ سعودی عرب کی بنیاد ڈالی۔
عبدالعزیز بن سعود بہت ذہین لیڈر تھے وہ اپنی قائدانہ صلاحیت کی بنا پر جزیرۃ العرب کی ایک عظیم المرتبت شخصیت بن گئے۔ انہوں نے 1926ء میں مکہ میں ایک موتمر اسلامی منعقد کی 1932ء میں شرق اردن کے شاہ عبداللہ اور 1936ء میں عراق کے ساتھ دوستی اور اچھی ہمسائیگی کے ساتھ معاہدے ہوئے۔ نیز 1929ء میں ترکی اور ایران کے ساتھ دوستی کے معاہدات کی تکمیل ہوئی خصوصاً ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدے نے دیرینہ نفرت کی جگہ مفاہمت اور قلبی تعلقات پیدا کردئے۔ 1936ء میں مصر کے ساتھ معاہدہ ہوا اور 1939ء میں معاہدۂ طائف کی رو سے سعودی عرب اور یمن کے درمیان عداوتوں کا خاتمہ ہوگیا۔
تیل کی دریافت ہونے تک سعودی عرب ایک غریب ملک تھا اور 1928ء میں اس کی آمدنی تقریباً ستّر لاکھ ڈالر تھی لیکن تیل کی دریافت نے اس کی آمدنی میں اضافہ کیا۔ 48۔1947ء میں آمدنی ساڑھے پانچ کروڑ ڈالر اور 55۔1954ء میں ساڑھے 36 کروڑ ڈالر تک جاپہونچی ہے، اس طرح سعودی عرب کا کلیتاً انحصار تیل پر ہوگیا۔
9/نومبر 1953ء کو شاہ عبدالعزیز نے وفات پائی تو ان کے بڑے صاحبزادے سعود بن عبدالعزیز تخت نشین ہوئے۔
2/نومبر 1964ء کو سعودی عرب کی مجلس شوریٰ کے متفقہ فیصلے کی رو سے شاہ سعود اپنے چھوٹے بھائی امیر فیصل کے حق میں دست بردار ہوگئے۔
جلالۃ الملک فیصل نے 2/نومبر 1964ء سے 25/مارچ 1975ء تک سعودی عرب کی عنان حکومت سنبھالی۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 69/برس کی تھی وہ 1906ء میں ٹھیک اسی روز پیدا ہوئے جب ان کے والد عبدالعزیز بن سعود نے چالیس شتر سواروں کے قافلہ کے ہمراہ صحرائے ربع الخالی" سے ریاض کا سفر کیا تھا اور پانچ افراد کی مدد سے ریاض پر قبضہ کیا تھا۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے ریاض اور نجد کے علماء سے اور دینی تعلیم اپنے نانا عبداللہ بن عبداللطیف الشیخ سے حاصل کی۔15/برس کی عمر میں 1921ء میں انہیں عصیر میں ہونے والی بغاوت کی قیادت سونپی گئی۔ اس کے بعد انہیں متعدد ذمہ داریاں سونپی گئیں۔
25/مارچ 1975ء کو شاہ فیصل کی شہادت کے بعد ان کے چھوٹے بھائی خالد بن عبدالعزیز کو سعودی عرب کا حکمران بنایا گیا ہے۔
سعودی عرب میں بادشاہت دوسرے ملکوں کی بادشاہت سے مختلف ہے۔ یہاں بادشاہ کا بیٹا شاہ نہیں ہوتا بلکہ شاہی خاندان کسی کو بادشاہ منتخب کرتا ہے۔ وہ خواہ بادشاہ کا بیٹا ہو یا بھائی ہو یا کوئی رشتہ دار۔۔۔ خاندانی انتخاب کے بعد علمایء سے رائے لی جاتی ہے جو لازمی ہے بلکہ بعض صورتوں میں شاہی خاندان سے پہلے علماء سے پوچھا جاتا ہے کہ کون شہزادہ موزوں ہے۔ ان دو مرحلوں کے بعد سعودی عرب کے قبائل کے امراء اور نمائندے بادشاہ کی بیعت کرتے ہیں اور اس کے بعد عامۃ المسلمین اپنے اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ ان چار مرحلوں میں کسی ایک مرحلے پر اعتماد کا ووٹ نہ ملے یعنی بیعت نہ ہو تو بادشاہت کا جوا زنہیں بنتا، اس طرح اس بادشاہت کو نیم بادشاہت کہا جا سکتا ہے۔
ماخوذ از رسالہ: ھما (جون 1975ء)
مدیر: عبدالوحید صدیقی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں