انجمن اسلامیہ کرنول کی مختصر تاریخ - نشو و ارتقا - 1896 تا 1952 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-09-21

انجمن اسلامیہ کرنول کی مختصر تاریخ - نشو و ارتقا - 1896 تا 1952

anjuman-e-islamia-arabic-college-kurnool

مغلیہ سلطنت کے دور آخر کی تعیش پسندیوں اور امراء اور رہنماؤں کی ناعاقبت اندیشیوں نے مسلمانوں کی سماجی زندگی کو ایسا نقصان عظیم پہنچایا کہ آج تک اس کی مناسب تلافی نہ ہو سکی۔ کمال علمی اور کمال عملی اور محاسن و مکارم اخلاق کی تحصیل و طلب کا اگلا شوق باقی نہ رہا۔ ضعف و بیچارگی نے راہ پائی۔ کثرتِ وسائل کے باوجود انگریزوں کے تسلط سے اپنے تئیں بچا نہ سکے، اور جب انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی اور مسلمانوں کے اقتدار کے آثار مٹائے جانے لگے تو ان کی ہمتوں میں بے پناہ ضعف و کمزوری پیدا ہو گئی۔
نہ صرف یہ کہ انگریزوں کے سیاسی اقتدار کے سامنے سر تسلیم خم کیا، انگریزوں کی تہذیب و تمدن کے مظاہر سے بھی مرعوب ہو گئے۔ خود اپنی قومی روایات سے بے پروائی اور بعض صورتوں میں ان کی تحقیر و انکار سے بھی دریغ نہ ریا۔ انگریزی اور مغربی علوم جدیدہ کی دنیوی برکتوں کے مشاہدہ نے اگر اسلامی و دینی علوم کے حاصل کرنے سے باز رکھا تو تن آسانی، فقدان عزم و ہمت، گمراہئ خیال اور ضعیف الاعتقادی نے اکتساب علوم جدیدہ کی راہ میں سخت رکاوٹیں پیدا کیں۔ 'نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم'، نہ دینی علوم کا شوق رہا نہ دنیوی علم کی ہمت رہی۔ بے علمی اور جہل کا مہلک مرض وبا کی طرح پھیلنے لگا۔


ایسے میں قوم کے جو چند سچے بہی خواہ تھے انہوں نے محسوس کیا کہ اگر اس وبا جہل کو پھیلنے سے روکا نہ گیا تو مسلمانوں کی زندگی زمین کا بوجھ بن جائے گی ، اور وہ وقت آجائے گا جب کہ:
بطن الارض خیرکم من ظھرھا
ان پر صادق آئے گا۔ اس لئے ان بہی خواہوں نے مسلمانوں کو مد و جزرِ اسلام کا ترانہ سنا کر ان کی موجودہ پستی کا احساس دلایا اور اسلاف کے علمی و عملی کمالات کی داستانیں یاد دلا کر حصول علم و حکمت کی رغبت دلانا شروع کی۔ چاہے وہ علم، علم قدیم ہو یا علم جدید ، مشرقی ہو یا مغربی ، دینی ہو یا دنیوی۔ ان بہی خواہوں نے صرف تنبیہ و تذکیر، ترغیب و تحریض پر اکتفا نہیں کیا، علی گڑھ میں انگریزی کا مدرسہ مدرسۃ العلوم قائم کیا تو دیوبند میں دارالعلوم کی بنیاد رکھی۔


ان سچے بہی خواہوں میں مولانا مولوی سلطان احمد صاحب مرحوم و مغفور خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ آپ کا مولد و منشا راولپنڈی تھا، مگر سچے مسلمان کی طرح وہ خدا کی راہ میں سیاح تھے۔ جس جگہ خدمت خلق کے موقعے ملتے تھے اسی کو اپنا وطن بنا لیتے تھے۔ دور افتادہ علاقوں میں پہنچ کر مسلمانوں کو ان کی ضروریات سے آگاہ اور متنبہ کرتے اور تحصیل کمال علمی اور کمال عملی اور تہذیب اخلاق کا شوق دلاتے تھے۔
دوران سیاحت کرنول پہنچے تو اپنے اخلاص اور سحر بیانی سے باشندگان کرنول کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ ایک مدرسۂ عربیۂ اسلامیہ قائم کریں۔ جناب حاجی احمد صاحب نے پانچ سو روپیہ کا گرانقدر عطیہ دے کر دوسروں کے لئے ایک عمدہ مثال قائم کی اور تھوڑی ہی مدت میں تقریباً ڈھائی ہزار روپے جمع ہو گئے۔ مولانا مرحوم نے اس رقم سے جائداد خریدی تاکہ اس کی آمد سے مدرسہ کا خرچ نکلے۔ پھر مولانا مرحوم خود بلہاری گئے اور وہاں سے مولانا مولوی محمد عمر صاحب مرحوم و مغفور کو جو مولانا احمد حسن کانپوری کے ارشد تلامذہ میں سے تھے اپنے ساتھ لائے تاکہ اس مدرسہ میں تعلیم و تدریس کی ذمہ داری ان کے سپرد کی جائے۔ خود صدر مہتمم تھے۔ اپنی نگرانی میں آئین و ضوابط تیار کئے اور دستور العمول مرتب کیا اور 6/ذی الحجہ 1313ھ (جون 1896ء) کے دن "مدرسۂ عربیۂ اسلامیہ" کا افتتاح فرمایا۔


مخیر حضرات نے مالی اعانت پہنچائی ، اور مدرس اعلیٰ جناب مولانا مولوی محمد عمر صاحب نے عرق ریزی اور تندہی اور جانفشانی سے کام کیا۔ تائید ایزدی شامل حال رہی اور مدرسہ ترقی کرتا گیا۔ قیام مدرسہ کے سات سال بعد نومبر 1902ء میں پہلا جلسہ تقسیم اسناد و دستار فضیلت منعقد کیا گیا۔ جس میں مدراس، حیدرآباد، بنگلور اور ویلور کے علماء شریک رہے۔ جلسہ عام میں بیرونجات کے علماء نے طلبا کا امتحان لیا اور سات طلبا کو سند تحصیل عطا کی گئی۔


موجودہ کرایہ کی عمارت ضروریات مدرسہ کے لئے ناکافی ثابت ہونے لگی تو جناب محمد اکبر صاحب مہتمم مدرسہ نے لب نہر ہندری ایک نئی عمارت تیار کروائی جس میں مدرسہ منتقل کیا گیا۔ پرانی عمارت کو بطور دارالاقامہ استعمال کیا جانے لگا۔ مدرسہ روز افزوں ترقی کرتا گیا۔ مگر 1908ء میں آفت ناگہانی آئی، ہندری ندی میں سیلاب آیا اور مدرسہ کی عمارت بہہ گئی۔ لاچار مدرسہ کو پرانی عمارت میں منتقل کرنا پڑا۔ چونکہ مدرسہ اور دارالاقامہ دونوں کے لئے اس عمارت میں گنجائش نہ تھی ، لازمی طور پر مدرسہ کی کارروائیوں میں بڑا خلل واقع ہوا۔ اور یہ حالت 1912ء تک باقی رہی۔ جب کہ سیلاب زدہ عمارت کو از سر نو تعمیر کیا گیا ، اس وقت دارالاقامہ کے ساتھ مطبح بھی ملحق کیا گیا۔ جس کے نہ ہونے سے طلبہ کو بہت سی دقتیں پیش آتی تھیں۔


منتظمین مدرسہ نے اسی زمانہ میں یہ بھی محسوس کیا کہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے ابتدائی مدرسوں کا قائم کرنا بھی ضروری ہے ، چنانچہ ایک لڑکوں کا تحتانیہ مدرسہ جس میں پانچ جماعتیں تھیں اور ایک لڑکیوں کا مدرسہ قائم کیا۔ لڑکیوں کو مدرسہ تک لانے اور لے جانے کے لئے پردہ دار گاڑیوں کا بھی انتظام کیا گیا۔

anjuman-e-islamia-arabic-college-kurnool

جب 1914ء میں پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی تو اس سے مدرسہ کی مالی حالت متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ عطیوں اور چندوں سے آمد میں کمی ہوگئی۔ مگر منتظمین مدرسہ نے ہمت شکن احوال کے باوجود مدرسہ اور اس سے متعلق اداروں کی کارروائیوں میں کوتاہی آنے نہ دی۔ مصیبت تنہا نہیں آتی۔ جنگ عظیم سے پیدا شدہ احوال کے نہ ہونے پائے تھے کہ 1916ء میں ہندری میں پھر سیلاب آیا اور مدرسہ کی عمارت بہہ گئی۔
مدرسہ کو اس قدر زیادہ مالی نقصان ہوا کہ لڑکیوں کا مدرسہ بند کرنا پڑا۔ خود مدرسہ عربیہ اسلامیہ کے چلانے میں بڑی دشواریاں نمودار ہونے لگیں۔ اور ہر گھڑی یہ اندیشہ ہونے لگا کہ کہیں مدرسہ چلانا ہی نا ممکن نہ ہو جائے۔ ایسے وقت میں بھی منتظمین نے بفحو ای لاتھنوا ولا تحزنوا ضعف و حزن کو غالب آنے نہ دیا۔ خدا کی رحمت پر یقین راسخ تھا کہ ناامیدی کفر ہے۔ جذبہ خدمت علوم اسلامیہ اتنا کمزور نہ تھا کہ آمدنی کے چند دروازوں کے بند ہو جانے سے ہمت ہار دیتے۔
1918ء میں جناب مولانا مولوی محمد عمر صاحب مدراس آئے تو تائید غیبی شامل حال رہی۔ انہوں نے جناب نواب سی۔ عبدالحکیم صاحب اور بڑی میٹ کے مسلم تاجروں سے مدرسہ کی اعانت کی درخواست کی تو نواب صاحب موصوف اور تاجران بڑی میٹ نے بڑی ہمت افزائی کی۔ خود بھی چندہ دیا اور دوسروں سے بھی دلوایا۔ ان حضرات کی بروقت تائید سے ایک نہایت کٹھن اور نازک وقت پر منتظمین مدرسہ کو سہارا مل گیا۔ اس طرح جب مدرسہ کی مالی حالت کی طرف سے ایک گونہ اطمینان ہو گیا تو 1919ء میں تعلیم کی اصلاح کے مد نظر نصاب تعلیم میں ترمیم و تجدید اور اس کو ضروریات زمانہ کے مطابق کرنے کی پہلی کوشش کی گئی۔ نصاب میں علوم جدیدہ کے ضروری مبادی و اصول کی تعلیم لازمی قرار دی گئی۔ دارالاقامہ اور دارالمطالعہ کو زیادہ مفید بنانے کے مناسب انتظامات اور نظم و آئین مدرسہ میں بھی اصلاح کی خاطر چند تغیرات کئے گئے ، سیلاب زدہ عمارت کی دوبارہ از سر نو تعمیر شروع کی گئی اور مدرسہ نسواں کو دوبارہ جاری کیا گیا۔


اپریل 1921ء میں یہ محسوس کیا گیا کہ مدارس ابتدائیہ کے انتظامات مدرسہ اسلامیہ عربیہ کی کمیٹی کے تحت ہی رکھے جائیں تو انتظامی پیچیدگیوں کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس لئے مناسب سمجھا گیا کہ ایک نئی انجمن، انجمن اسلامیہ کے نام سے قائم کی جائے جو تمام مدارس ابتدائیہ (مردانہ و زنانہ) اور مدرسہ عربیہ اسلامیہ کا بھی انتظام کرے۔ اب تک مدرسہ عربیہ اسلامیہ کمیٹی کے جو اراکین تھے وہ انجمن اسلامیہ کے اراکین قرار دئے گئے اور جب انجمن کی تاسیس کے تمام انتظامات مکمل ہوگئے تو جنوری 1923ء میں زیر دفعہ نمبر 21 بابت 1860ء انجمن اسلامیہ کرنول کی باقاعدہ رجسٹری کرائی گئی۔


1921ء سے ہی اس بات کی کوششیں شروع کر دی گئی تھیں کہ مدرسہ عربیہ اسلامیہ کا مدارس یونیورسٹی سے امتحانات السنہ مشرقیہ کے لئے الحاق ہو جائے۔ انجمن اسلامیہ کی باقاعدہ رجسٹری کے بعد ماہ جولائی 1923ء میں مدارس یونیورسٹی کے سنڈیکٹ نے مدرسہ عربیہ اسلامیہ کا الحاق منظور کر لیا۔ چنانچہ الحاق کی اطلاع ملنے کے بعد فوراً مدرسہ میں منشی فاضل کی جماعت کا افتتاح کیا گیا۔
عربی کے طلبا کو افضل العلماء کے نصاب کے مطابق تعلیم دی جانے لگی ، طلبہ کی تعداد میں معتد بہ اضافہ ہوا ، اور بہت سے طلبہ نے بعد میں مدارس یونیورسٹی سے سندیں حاصل کیں اور آج وہ علاقہ مدارس کے بہت سے مقامات پر عربی، فارسی اور اردو کی تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔


ہندری ندی کے سیلاب کی وجہ سے مدرسہ کی عمارت کو دو مرتبہ شدید نقصان پہنچا تھا، اس لئے یہ تجویز کی گئی کہ سطح کو دو گز بلند کیا جائے اور مدرسہ اور دارالاقامہ کے لئے ایک جدید عمارت بنائی جائے۔ اس سلسلہ میں جب تمام انتظامات مکمل ہو گئے تو جون 1928ء میں خان بہادر سر محمد عثمان صاحب بہادر کے ہاتھوں اس جدید عمارت کا سنگ بنیاد رکھوایا گیا۔
1930ء میں کرنول میں ایک سرکاری زنانہ مدرسہ قائم ہوا تو انجمن نے اپنے مدرسہ نسواں کو بند کر دیا۔
1935ء میں جدید عمارت مدرسہ و دارالاقامہ مکمل ہو گئی تو جناب نواب سی، عبدالحکیم صاحب بہادر نے اس عمارت کی رسم افتتاح ادا کی ، اس جلسہ میں بہت سے اکابر قوم اور عمائدین کا اجتماع تھا۔ نواب صاحب موصوف نے پچاس ہزار روپیوں کے گرانقدر عطیہ کا وعدہ کیا۔ اور 1936ء میں موجودہ رقم میں سے بیس ہزار کی لاگت کے املاک انجمن کو عطا کئے۔ بقیہ رقم موعودہ عطا کرنے نہ پائے تھے کہ 1937ء میں ان کی وفات پرملال واقع ہوئی۔
نواب صاحب مرحوم کی فیاضی اور مدرسہ اسلامیہ اور علوم اسلامیہ سے ان کی دلچسپی اراکین انجمن کی ہمت افزائی کا باعث تھی ، ان کی ذات سے انجمن کو بہت سی توقعات وابستہ تھیں مگر کیا کیا جائے اللہ کی قضا کو کون رد کرے۔

anjuman-e-islamia-arabic-college-kurnool

1940ء میں لڑکوں کے تحتانیہ مدرسہ کو ترقی دے کر مدرسہ وسطانیہ بنا دیا گیا۔
چونکہ ہماری قوم میں مدرسہ معلمین کے سند یافتہ معلمین اور اساتذہ کی کمی تھی۔ 1942ء میں ایک سکنڈری گریڈ ٹریننگ اسکول قائم کیا گیا۔ جس کے صدر مدرس جناب جعفر حسین صاحب بی۔اے مقرر ہوئے۔ بیس طالب علم داخل کئے گئے ، جن میں ایک لڑکی بھی شامل تھی۔ دو سال بعد 1944ء میں اس مدرسہ کو ہائیر ایلمنٹری گریڈ ٹریننگ اسکول بنا دیا گیا۔ جو دو سال تک کے لئے کامیابی کے ساتھ چلا یا گیا۔ جب متعدد طالب علموں نے سندیں حاصل کرلیں اور اس مدرسہ معلمین کی مزید ضرورت باقی نہ رہی تو 1946ء میں بند کر دیا گیا۔


جولائی 1946ء میں مولانا مولوی الحاج محمد عمر صاحب قبلہ کے انتقال سے انجمن کو ایک ایسا نقصان عظیم پہنچا، جس کی تلافی ممکنات سے نہیں۔ قیام مدرسہ عربیہ کے روز اول سے مرحوم نے اپنی زندگی مدرسہ اور مدرسہ کی ترقی کے لئے وقف کردی تھی۔ مرحوم کے شغف علمی اور خدمت علم کے جذبہ کو دیکھ کر سلف کو دور یاد آجاتا تھا۔ مدرسہ عربیہ اسلامیہ کی پچا س سال کی زندگی میں بہت سے کٹھن وقت آئے، مگر کبھی آپ کے استقلال میں کوئی فرق اور آپ کی استقامت میں کوئی تزلزل نہ ہوا۔ انجمن اسلامیہ قائم ہوئی اور مدرسہ عربیہ اسلامیہ کا انتظام اس کے سپرد ہوا ، اراکین کو بھروسہ تھا تو آپ کی جواں ہمتی کا ، اعتماد تھا تو آپ کی صائب رائے پر اور وثوق کامل تھا تو آپ کی مخلصانہ راہنمائی کا، حقیقی معنوں میں آپ ہی مدرسہ اور مدرسہ کی روح رواں تھے، قوم پر ان کے بے حد احسانات ہیں، ہم ان کی جزا نہیں دے سکتے۔ اے اللہ تو انہیں جزادے اور ہمیں توفیق دے کہ ان کی اس یادگار کو اس طرح باقی رکھیں اور ترقی دیں کہ ان کی روح کو شادمانی حاصل ہو۔


مولوی صاحب مرحوم کی وفات پر جناب مولوی سید ظہور اللہ صاحب حسینی کو صدر مدرس مقرر کیا گیا۔
اکتوبر 1946ء میں انجمن نے فیصلہ کیا کہ انگریزی اور علوم جدیدہ کی تعلیم کے لئے بھی ایک فرسٹ گریڈ کالج قائم کیاجائے ، جو امتحانات انٹرمیڈیٹ اور بی۔اے کے لئے مدراس یونیورسٹی سے ملحق ہو، فوراً انتظامات شروع کر دئے گئے۔ نومبر 1946ء میں مدراس یونیورسٹی سے الحاق کی درخواست بھی دے دی گئی۔ جناب مولوی حاجی نذیر حسین صاحب نے پانچ ہزار روپے کا عطیہ دے کر مالی امدا د میں پہل کی اور 6/ذی الحجہ 1365ھ (26/جنوری 1947ء) کو کالج کے لئے عمارت کی تعمیر شروع کر دی گئی۔


اپریل 1947ء میں نظام گورنمنٹ نے اس کالج کے قیام کے لئے دو لاکھ روپیہ کا عطیہ دیا۔ اس کے علاوہ سیلون، صوبہ مدراس کے مختلف اضلاع، ریاست تراونکور، حیدرآباد، میسور، بمبئی سے بھی معتد بہ مالی امداد حاصل ہوئی۔ اس اثناء میں عمارت کی تعمیر اور دیگر انتظامی امور کی تکمیل کا کام جاری رہا۔


اپریل 1947ء میں مدراس یونیورسٹی کا ایک کمیشن بقیادت وائس چانسلر سر لکشمن سوامی مدلیار برائے معائنہ و تحقیق آیا۔ اس کمیشن کے دیگر اراکین کالج مدراس کے پرنسپل ، پچیپاس کالج مدراس کے پرنسپل اور ہندو کالج ترناویلی کے پرنسپل تھے۔ کمیشن نے انتظامات کے تشفی بخش ہونے کی رپورٹ پیش کی تو مدراس یونیورسٹی نے مجوزہ کالج کا الحاق جون 1947ء میں منظور کر لیا۔


چنانچہ یکم/جولائی 1947ء کو عثمانیہ کالج کا افتتاحی جلسہ منعقد ہوا ، جلسہ کی صدارت جناب خان بہادر سر محمد عثمان صاحب نے کی اور حکومت مدراس کے وزیر تعلیم آنربیل مسٹر اونا شلنگم چٹیار نے کالج کا رسمی طور پر افتتاح کیا۔ کالج کے طالب علموں کے لئے "حیدرآباد ہوز" کے نام سے ایک دارالاقامہ بھی قائم کیا گیا۔
خان بہادر مولوی محمد صاحب، ایم اے ، ایل۔ایل۔بی سابق ڈپٹی ڈائرکٹر تعلیمات مدراس پرنسپل مقرر ہوئے، انٹرمیڈیٹ جونیر اور بی۔اے جونیر کی جماعتوں میں مختلف مذاہب و ملل کے 125 طالب علم داخل کئے گئے۔


اکتوبر 1947ء میں امتحان بی، کام اور امتحان بی، اے کے لئے ریاضی اور علم الحیوانات کے مضامین میں مدراس یونیورسٹی سے کالج کے الحاق کی درخواست پیش کی گئی ، چنانچہ فروی 1948ء مٰں ایک دوسرا یونیورسٹی کمیشن برائے معائنہ و تحقیق آیا جس کی سر کردگی پریسیڈنسی کالج مدراس کے پرنسپل مسٹر من والا راما نوجم نے کی اور یونیورسٹی نے ان مزید امتحانات کے لئے تعلیمی انتظامات کے اطمینان بخش ہونے پر الحاق کی درخواست منظور کرلی۔


جنوری 1949ء میں کالج کا سالانہ جلسہ حضرت مولانا مولوی ڈاکٹر محمد عبدالحق صاحب کی صدارت میں منعقد ہوا ، اور جناب مولوی حاجی نذیر حسین صاحب نے اس جلسہ میں انعامات تقسیم کئے۔


جنوری 1950ء کا سالانہ جلسہ حکومت مدراس کے وزیر اعظم آنر بیل شری کمار سوامی راجہ کی صدارت میں منعقد ہوا ، اور آنر بیل شری گوپال ریڈی وزیر مال حکومت مدراس نے انعامات تقسیم کئے۔ جلسہ میں دیگر اعیان و اکابر قوم کے علاوہ جناب جسٹس بشیر احمد سعید صاحب بھی شریک تھے۔ جن کے اعزاز میں کالج نے ایک عصرانہ دیا۔ فروری 1951ء کے سالانہ جلسہ کی صدارت حکومت مدراس کے وزیر تعلیم شری مادھوا مینن نے فرمائی۔


عثمانیہ کالج میں اب مختلف امتحانات کے لئے حسب ذیل مضامین میں تعلیم و تدریس کا انتظام ہے :
انٹر میڈیٹ:
قسم اول : انگریزی
قسم دوم : تلنگی، ہندی، اردو، فارسی، عربی
قسم سوم:
(1) فزکس، کیمسٹری، میتھمیٹکس
(2) فزکس، کیمسٹری، نیچرل سائنس
(3) ماڈرن ہسٹری، انڈین ہسٹری، لاجک
(4) ماڈرن ہسٹری، انڈین ہسٹری، ایلیمنش آف کامرس اینڈ اکاؤنٹنسی
(5) ماڈرن ہسٹری، اسلامک ہسٹری، لاجک
(6) ماڈرن ہسٹری، اسلامک ہسٹری، یلیمنٹس آف کامرس اینڈ اکاؤنٹنسی
(7) ماڈرن ہسٹری، اینشینٹ ہسٹری، لاجک یا یلمینٹس آف کامرس اینڈ اکاؤنٹنسی
(8) ماڈرن ہسٹری یا اسلامک ہسٹری، میتھمیٹکس، یلیمنٹس آف کامرس اینڈ اکاؤنٹنسی
گروپ ڈی، عربی یا فارسی یا اردو


بی۔ اے ڈگری
قسم اول: انگریزی
قسم دوم: عربی، فارسی، اردو، تلنگی، ہندی
قسم سوم : گروپ(4ب) یکنامکس اور ہسٹری
گروپ(4ڈی) اسلامک ہسٹری اینڈ کلچر


بی کام ڈگری:
قسم اول: انگریزی
قسم دوم : ہندی، تلنگی، اور اردو
قسم سوم: مضمون خاص کو آپریشن


بی۔ او۔ ایل۔
قسم اول: انگریزی
قسم دوم: جنرل انڈین ہسٹری اور عربی (نصاب افضل العلماء)
یا فارسی (نصاب منشی فاضل) یا اردو( نصاب ادیب فاضل)


مدرسہ عربیہ اسلامیہ میں علوم عربیہ کی ابتدائی تعلیم کی چار جماعتیں ہیں۔چوتھی جماعت کے طلبہ افضل العلماء کے امتحان داخلہ میں شریک کرائے جاتے ہیں۔ اس امتحان میں کامیابی کے بعد افضل العلماء کے چہار سالہ نصاب کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے ، منشی فاضل اور ادیب فاضل کے امتحانات کے لئے بھی ایسے ہی انتظامات ہیں۔ مزید براں انٹر میڈیٹ گروپ ڈی کے امتحان داخلہ کے لئے انگریزی کے دو مدرس مقرر ہیں جو طلبہ کو مدراس یونیورسٹی کے مٹرکیولیشن امتحان کے نصاب کی انگریزی کتابیں پڑھاتے ہیں۔
علاوہ ان جماعتوں کے حفظ قرآن اور علم تجوید کی تعلیم کے لئے ایک اور جماعت ہے۔

انجمن اسلامیہ کے تحت مذکور ذیل ادارے قائم ہیں اور کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں:
(1) ہائی یریلیمنٹری اردو اسکول (مدرسہ و سطانیہ) اس میں تین سو طلبہ ہیں۔
(2) اسلامیہ عربک کالج(مدرسہ عربیہ اسلامیہ) اس میں 77 طالب علم ہیں۔
(3) عثمانیہ کالج، اس میں طلبہ کی تعداد 591 ہے۔
(4) دارالاقامہ:
(1) حیدرآباد ہوز جس میں 84 طلبہ کے قیام کا انتظام ہے۔
(2) عثمانیہ کالج کے دو ہاسٹل جو کرائے کے مکانوں میں ہیں، ان دونوں مکانوں میں 40 طلبہ ہیں۔
(3) مدرسہ عربیہ اسلامیہ کا دارالاقامہ جس میں 80 طلبہ کے قیام کا انتظام ہے۔ اس دارالاقامہ میں مدرسہ کے عربی طلبہ سے قیام و طعام کی کوئی فیس نہیں لی جاتی۔ عثمانیہ کالج کے غریب مسلم طلبہ بھی داخل کئے جاتے ہیں ، اور ان سے ان کے خوراکی خرچ کا ایک حصہ وصول کیاجاتا ہے۔ ادیب فاضل کے طلبہ سے بھی یہی رعایت کی جاتی ہے۔


مدرسہ عربیہ اسلامیہ جب 1896ء میں پہلے پہل قائم ہوا تو سال بھر میں 775 روپیہ کی آمد اور 475 روپیوں کا خرچ ہوا تھا۔ اور گذشتہ سال (1950ء/1951ء) مختلف اداروں پر دو لاکھ چوالیس ہزار تین سو اکسٹھ روپیہ خرچ ہوئے۔


اگر آمد و خرچ کے اندازے ہی سے کسی ترقی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے تو یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ انجمن کے اداروں نے پچپن سال کی مدت میں تین سو گنا ترقی کی ہے۔
ابھی چند دن ہوئے کہ حکومت مدراس نے کرنول میں جولائی 1952ء سے ایک ٹیچرس ٹریننگ کالج کھولنے کا اس شرط کے ساتھ فیصلہ کیا کہ عثمانیہ کالج کمیٹی مجوزہ ٹریننگ کالج اور اس سے متعلق ماڈل ہائی اسکول کے لئے مناسب عمارتیں فراہم کرے۔ اس لئے کہ کرنول میں کالج کے لئے موزوں عمارت موجود نہیں ہے۔
مجوزہ ٹریننگ کالج جنوبی ہند کا سب سے پہلا کالج ہوگا جہاں نصاب میں زبان اردو کا طریق تعلیم بھی شامل کیا جائے گا۔ عثمانیہ کالج کمیٹی نے یہ ذمہ لے لیا تاکہ ان عمارتوں کے کرائے کی رقم سے مدرسہ عربیہ اسلامیہ کا مالی موقف زیادہ مضبوط ہو اور اس میں خاطر خواہ ترقی کی جائے۔ عثمانیہ کالج کمیٹی کی درخواست پر انجمن نوجوانان اسلام کرنول نے ایک قطعہ زمین جو پونے دو ایکڑ پر مشتمل ہے ، ان عمارتوں کی تعمیر کے لئے بطور عطیہ دیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں نیک اجر دے لیکن ظاہر ہے کہ مجوزہ کالج کی ضرورتوں کے مطابق عمارت کی تعمیر کے لئے رقم کثیر کی ضرورت ہے۔ جس طرح ہر ضرورت کے وقت قوم نے ہماری مدد کی ہے اب بھی ہمیں امید ہے کہ وہ پھر اس ضرورت کے موقعہ پر اپنی مدد سے دریغ نہیں کرے گی۔


مذکور بالا اداروں کے حسن انتظام اور ترقی کے علاوہ انجمن چاہتی ہے کہ طب یونانی کی تعلیم کا بھی انتظام کیاجائے۔ جس سے علوم دینیہ کے طلبہ کو آئندہ اپنی معاش حاصل کرنے میں سہولت ہو، مجوزہ طبی درسگاہ کا مدراس یونیورسٹی سے الحاق ہو، تاکہ طالب علم یونیورسٹی سے سند طب حاصل کریں۔ چونکہ یونیورسٹی اس وقت تک طبی درسگاہ کا الحاق منظور نہیں کرتی جب تک کہ درسگاہ کے ساتھ ایک ہسپتال بھی وابستہ نہ ہو، اس لئے طبی درسگاہ کے علاوہ ایک دارالشفاء بھی قائم کرنا ضروری ہوگا۔
ملک میں ان دنوں ٹکنیکل اور صنعتی قابلیت رکھنے والے افراد کی روز افزوں ضرورت محسوس کی جارہی ہے ، اور سرکاری ٹکنیکل اسکولوں اور کالجوں میں ہماری قوم کے نوجوان کافی تعداد میں داخلہ نہیں حاصل کرسکتے۔اس لئے انجمن ایک ٹکنیکل اور صنعتی ادارہ بھی قائم کرنا چاہتی ہے۔


مدرسہ عربیہ اسلامیہ میں علوم اسلامیہ متداولہ اور عربی ، فارسی، اور اردو زبان کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اگرچہ جولائی 1948ء میں حفظ قرآن و تجوید کی جماعت کا بھی افتتاح کیا گیا، جس میں قلت و سایل کی بنا پ صرف دس طالب علم داخل کئے گئے۔ مگر اب ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ درس قرآن کی ایک ایسی جماعت بھی شروع کیجائے جہاں نہ صرف مدرسہ عربیہ اسلامیہ کے طلبا حقائق و معارف قرآن کا سبق حاصل کریں بلکہ عثمانیہ کالج کے مسلم طلبہ اور وہ شہری بھی مستفید ہوں جو قرآن سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ گزشتہ چند صدیوں میں مسلمانوں نے قرآن کے متعلق کچھ ایسی روش اختیار کرلی کہ وہ اس کو اپنی زندگی کا دستور العمل نہ بناسکے۔ قرآن سے عقیدت اور اس کے تقدس کی کچھ ایسی شکل ہوگئی کہ وہ اب نذر طاق و زینت محراب ہوکر رہ گیا۔ شاید وہ ہمیں ہیں جن کی بابت خود قرآن میں رسول کریم علیہ الصلوۃ کی پر حسرت شکایت کا ان الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے:
وقال الرسول یا رب ان قومی اتخذوا ہذاالقرآن مھجورا۔
اور فرمایا رسول نے: اے میرے رب ، بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا یا منسوب بہ ہذیان کیا۔
اگر ہم اپنی موجودہ کوتاہیوں اور خرابیوں کو دور کرنا اور فلاح و کامیابی کی راہ پر گامزن ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں پھر اسی قرآن کی طرف رجوع کرنا ہے۔ جو شفاء للناس ہے اور جس کو اپنی زندگی کا دستور العمل بنا کر دور اول کے مسلمانوں نے دین و دنیا کی برکتوں اور سعادتوں کو حاصل کیا۔


پس انجمن اب طب یونانی کی درسگاہ ، اس کے ساتھ وابستہ درالشفا ایک ٹکنیکل اسکول اور درسگاہ قرآن قائم کرنے کا ارادہ کرچکی ہے۔ او ر اس سلسلہ میں ضروری انتظامات کی طرف اقدام بھی کیاجاچکا ہے ، مگر ظاہر ہے کہ ذی استطاعت مسلمانوں کی زیادہ سے زیادہ مالی اعانت کے بغیر ان اداروں کا قیام اور کامیابی کے ساتھ ان کا انتظام ممکن نہیں۔
اب تک جو کچھ ہوا یا ہوسکا وہ انہیں کی مدد سے ہوا اور آئندہ جو بھی ترقیاں ہونگی یا جو بھی اصلاحی کام انجام پائیں گے یا ضروری اداروں کا قیام اور ان کا حسن انتظام ہوگا یہ سب کچھ ان کی اعانت اور تائید سے ہوگا۔


انجمن کے منصوبے اب قوم کے سامنے ہیں، ان منصوبوں کی اہمیت واضح ہے ، قوم کے ذی استطاعت اصحاب کو وقت کی ضرورتوں کا شدید احساس ہے اور ان سے یہ درخواست ہے کہ وہ ان منصوبوں کے پور اکرنے میں ان اداروں کے قیام اور حسن انتظام میں انجمن کی امداد فرمائیں۔ ان اداروں کے متعلق مالی پریشانیوں سے رہائی ملے تو ان کو قوم کے لئے زیادہ سے زیادہ مفید بنانے میں انجمن مصروف سعی و عمل ہو سکے گی۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے شکر گزار بندوں کو اب فضل الٰہی کا ذخیرہ فراہم کرنے کا ایک اور موقع ہے۔
لئن شکرتم لازیدنکم۔
اگر تم شکر کروتو ہم تمہارے لئے بلا شبہ اور یقینا فضل و نعمت میں اضافہ اور فراوانی بخشیں گے۔
اور وہ بھی کس قدر:
مثل الذین ینفقون اموالھم فی سبیل اللّٰہ کمثل حبۃ انبتت سبع سنابل فی کل سنبلۃ مائۃ حبۃ واللّٰہ یضعف لمن یشاء واللّٰہ واسع علیم۔ (2:261)
مثال ان لوگوں کی جو اللہ کی راہ میں اپنا مال جمع کرتے ہیں، ا س دانہ کی سی ہے جس سے سات خوشے اگتے ہیں اور ہر خوشہ میں سو دانے ہوتے ہیں، اور اللہ جس کے لئے وہ چاہے (سات سو سے) زیادہ کرتا ہے اور اللہ بہت بخشنے والا اور بہت جاننے والا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:
کرنول میں ڈاکٹر عبدالحق اردو یونیورسٹی کی تعمیر - 20 کروڑ روپے منظور
جدید سائنسی اور تیکنیکی تعلیم - ڈاکٹر عبدالحق اردو یونیورسٹی کرنول میں دو روزہ ورکشاپ
رپورتاژ - اردو میں مہجری ادب - کرنول سمینار
کچھ افضل العلماء ڈاکٹر عبدالحق کے بارے میں

***
ماخوذ از کتابچہ:
انجمن اسلامیہ کرنول کی مختصر تاریخ، نشو و ارتقا (1896ء تا 1952ء)

The history, growth and development of Anjuman-e-Islamia Kurnool, Andhra Pradesh.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں