جدید سائنسی اور تیکنیکی تعلیم - ڈاکٹر عبدالحق اردو یونیورسٹی کرنول میں دو روزہ ورکشاپ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-02-13

جدید سائنسی اور تیکنیکی تعلیم - ڈاکٹر عبدالحق اردو یونیورسٹی کرنول میں دو روزہ ورکشاپ

ahuu-kurnool-workshop

جدید سائنسی اور ٹیکنیکی تعلیم بذریعہ اردو : مسائل اور حل
ڈاکٹر عبدالحق اردو یونیورسٹی، کرنول میں دو روزہ ورکشاپ کا آغاز

اردو زبان شعر و شاعری کے ساتھ ساتھ سائنس و ٹکنالوجی کی بھی زبان ہے۔ زبان اردو ایک علمی و ثقافتی زبان ہے۔ اردو زبان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کی روایت کو آگے بڑھانے کی کوششوں کو جاری رکھنا چاہیے تاکہ موجودہ نسل اور آنے والی نسلوں کے لیے اس راہ کو آسان بنایا جا سکے۔
ان خیالات کا اظہار آندھراپردیش کے شہر کرنول میں واقع ڈاکٹر عبدالحق اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر مظفر شہ میری نے اپنے کلیدی خطبہ میں کیا۔

آندھراپردیش کی پہلی اردو یونیورسٹی، ڈاکٹر عبدالحق اردو یونیورسٹی میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (این سی پی یو ایل) حکومت ہند، نئی دہلی کی جانب سے دو روزہ قومی ورکشاپ بعنوان "جدید سائنسی اور ٹیکنیکی تعلیم بذریعہ اردو : مسائل اور حل" کا انعقاد 12/13 فروری 2021 کو عمل میں آیا۔
پروفیسر مظفر شہ میری نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ فی زمانہ اردو میں جدید سائنسی و ٹیکنیکی تعلیم کی ترویج میں کئی مسائل حائل ہیں۔ ان مسائل اور اس کے اسباب سے کماحقہ واقفیت حاصل ہو جائے تو ان کے حل تلاش کرنا دشوار نہ ہوگا۔ ہندوستان ہمہ لسانی ملک ہے اور ہر زبان والا اپنی علمی، سائنسی اور ٹیکنیکی اصطلاحیں بنانا چاہتا ہے۔ ہندوستان میں اردو ایک بین صوبہ جاتی زبان ہے۔ ا س لیے اردو کو ثروت مند بنانے کے لیے اہل اردو کو بھی پیش قدمی کرنا چاہیے۔ ملک کی نئی قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی) میں بھی مادری زبان میں تعلیم پر زور دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ورکشاپ اسی مقصد کے تحت منعقد کیا جا رہا ہے۔ تاکہ اردو ذریعہ تعلیم کے میدان میں اساتذہ اور طلبہ کو پیش آنے والی مشکلات کو حل کیا جائے۔

قومی ورکشاپ کی مزید تصاویر یہاں ملاحظہ فرمائیے

قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (این سی پی یو ایل) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عقیل احمد نے اپنے خصوصی خطاب میں کہا کہ اردو زبان میں مختلف علوم و فنون کے باہمی روابط کو بڑھانا چاہیے۔ جس سے ترجمہ اور اصطلاح سازی میں مدد مل سکے۔ جس طرح مذہب اور سائنس میں کوئی ٹکراو نہیں ہے، اسی طرح اردو زبان اور مختلف علوم و فنون میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ سائنسی علوم ہمیں تجربہ و تحقیق اور مشاہدہ کے ذریعہ حقائق تک براہ راست پہنچاتی ہیں۔ اسی لیے اردو میں سائنسی اور معلوماتی ادب سے متعلق نصابی مواد کو پیش کرنا ضروری ہے۔
موجودہ دور کی اہم ضرورت ہے کہ اردو ذریعہ تعلیم کے طلبہ میں سائنس کا ذوق و شوق پیدا کیا جائے تاکہ وہ بھی ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھ سکیں۔ اردو ذیعہ تعلیم کے طلبہ اس ترقی یافتہ دور میں اپنے کو کسی سے کم تر تصور نہ کریں کیونکہ ترقی اور کامیابی کے مواقع ہر ایک کو یکساں میسر ہیں۔ ان مواقع کو اپنے صلاحیتوں اور علم کی بنیاد پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔

معروف ادیب اور متعدد سائنسی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر عابد معز نے اس ورکشاپ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مادری زبان عطیۂ خداوندی ہے۔ جس طرح ہم اپنے والدین کی عزت و تعظیم کرتے ہیں، اسی طرح فخر کے ساتھ اپنی مادری زبان سے ہم اپنے تعلق کا اظہار کریں۔
ڈاکٹر عابد معز نے کہا کہ آج کا دور کسی ایک زبان پر ہی اکتفا کرنے کا نہیں بلکہ ہمیں کئی زبانوں پر عبور حاصل کرنا چاہیے۔ کوئی بھی زبان ترسیل کا بہترین ذریعہ ہوتی ہے۔ مادری زبان میں حصول علم سے کسی بھی موصوغ پر مکمل اور گہری معلومات حاصل ہوتی ہے۔ مادری زبان میں تحصیل علم کے بعد دوسری زبانوں میں بھی علم حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔

ڈاکٹر شفیع اخلاص نے اس دو روزہ ورکشاپ "جدید سائنسی اور ٹیکنیکی تعلیم بذریعہ اردو - مسائل اور حل" کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ اردو زبان کو جدید سماجی، ثقافتی، سائنسی علوم اور ٹکنالوجی سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں ان علوم میں نصاب کی تیاری اور اس کے مسائل کے حل کو پیش کرنا بھی اس ورکشاپ کا اہم مقصد ہے۔ تاکہ اردو اور اہل اردو کو نئے علوم و فنون سے آشنا کیا جا سکے۔

ڈاکٹر عبدالحق اردو یونیورسٹی، کرنول کے رجسٹرار ڈاکٹر بی سری نواسلو نے اپنی افتتاحی تقریر میں تمام مہمانوں کا خیر مقدم کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹر عبدالحق اردو یونیورسٹی کا قیام سنہ 2016 میں ریاستی حکومت کی سرپرستی میں عمل میں آیا۔ جس کا مقصد اردو تہذیب کا تحفظ اور اس کا فروغ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اردو مادری زبان کے طلبہ و طالبات کو اعلی تعلیم کے مواقع فراہم کرنا بھی اردو یونیورسٹی کے مقاصد میں شامل ہے۔
ڈاکٹر بی۔ سری نواسلو نے بتایا کہ اردو کسی مخصوص مذہب کے ماننے والوں کی نہیں بلکہ ہندوستانی زبان ہے۔ جس کو فروغ دینا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ انھوں نے کہا کہ غیر اردو طبقہ میں اردو کے فروغ کے لیے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (این سی پی یو ایل) کے تعاون سے ایک ڈپلومہ کورس شروع کیا گیا ہے۔ یہاں فی الوقت 256 سے زائد طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ جنہیں بہترین اساتذہ، معقول انتظامات اور سازگار ماحول میں تعلیم دی جا رہی رہے۔

این سی پی یو ایل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عقیل احمد نے اپنے ورچوئیل خطاب میں خصوصی طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اردو زبان میں سماجی علوم، جغرافیہ، نباتات، حیوانات، کیمیا، انسانی علوم، ایجادات و اختراعات، جنرل نالج، وضع اصطلاحات اور سائبر ٹکنالوجی سے متعلق نصابی کتب اور مواد کی تیاری وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس ورکشاپ کے موقع پر کوئی مفید تجویز سامنے آئے گی تو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (این سی پی یو ایل) مکمل تعاون کرے گی۔

دو روزہ ورکشاپ میں شعبۂ ترجمہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے ڈائریکٹر پروفیسرمحمد ظفر الدین، ماہر تعلیم فاروق طاہر، یونیورسٹی آف حیدرآباد کے سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر رحمت یوسف زئی، ڈاکٹر سید سلطان معین الدین حسینی، خالد قیصری، ڈاکٹر امین اللہ، ڈاکٹر نثار احمد (ایس وی یونیورسٹی، تروپتی)، ڈاکٹر امان اللہ (چینائی)، ڈاکٹر نجی اللہ (مانو) وغیرہ نے شرکت کی اور مختلف موضوعات پر اپنے علمی و تحقیقی مقالات کو پیش کیا۔
افتتاحی پراگرام کے بعد تکنیکی سیشن میں ڈاکٹر پرویز، معروف صحافی اعظم شاہد (بنگلور)، عطا اللہ سنجیری (کیرالہ) کے علاوہ دیگر پروفسران اور ریسرچ اسکالرز نے اپنے اپنے مقالات کو پیش کیا اور مباحث میں حصہ لیا۔
ورکشاپ کے پہلے دن مقالات کی پیشکشی کے ساتھ ساتھ اجتماعی بحث و مباحثہ کا دورانیہ بھی رکھا گیا۔ پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کے بعد یونیورسٹی کے ترانہ 'جامعہ اردو ہماری نازش ہندوستاں' سے ہوا۔ مقامی دانشوران پروفیسر بشیر احمد، ڈاکٹر امیر احمد (کرسپانڈینٹ انجمن اسلامیہ کرنول)، سید ظہور اللہ حسینی ، فیض اللہ اور حافظ نذیر احمد کے علاوہ دیگر اساتذہ اور طلبہ و طالبات کی کثیر تعداد موجود تھی۔

Contemporary education in Science & Technology in Urdu, Problems and solutions. Two days National workshop at Dr. Abdul Haq Urdu University.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں