عالم خیال میں : نو شعرا کا نوسر ہار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-07-08

عالم خیال میں : نو شعرا کا نوسر ہار

گلبرگہ برسوں پہلے حضرت خواجہ گیسودراز بندہ نوازؒ سے پہچانا جاتا تھا۔ پھر روایتی، کلاسیکی اورپھر جدید طرزِ فکر کے کئی اہم قلم کاروں نے گلبرگہ کا نام ادبی نقشے میں قائم رکھنے کے جتن کیے۔ اسی سلسلے کا ایک اہم نام ڈاکٹر غضنفر اقبال ہیں۔
فکشن رائٹر جناب حمید سہروردی کے فرزند ارجمند ہونے کی وجہ سے یہ بھی نثرکے آدمی ہیں مگر شاعروں سے بھی انھیں دلی تعلق ہے جس کا بین ثبوت "عالم خیال میں" چند نمائندہ شعرا کے مخاطبے ہیں۔ دو بہ دو گفتگو یا تحریری سرنوشت کو مصاحبہ کا نام دیا جاتا رہا ہے مگر عالم خیال میں سوال و جواب کو مخاطبے سے موسوم کیا گیا ہے۔ یہ اختراع نہیں بلکہ آں جہانی نریش کمار شاد کا اتباع ہے جن کے اس طرح کے انٹرویوز ماہ نامہ "بیسویں صدی" میں شائع ہو کر بہت مقبول ہوتے رہے بعد میں کتابی شکل میں بھی آئے۔


مخاطبہ تخلیقی جہت سے عبارت ہے کہ جواب کی بنیاد پر ایک مفروضہ سوال قائم کیا جاتا ہے یا پھر سوال کا ایک خود ساختہ جواب تیار کیا جاتا۔ اس طرح سوال اور جواب دونوں خلاقانہ ذہن (FERTILE MIND) کا شناس نامہ بن کر سامنے آتے ہیں۔ ڈاکٹر غضنفر اقبال بلاشبہ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ہیں اور کچھ نہ کچھ نیا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
انھوں نے نو شاعروں کو اس "نو سرہار" کی زینت بنایا ہے۔


ابن صفی اس میں شک نہیں شاعر بھی تھے اور اسرار ناروی کے تخلص کی لاج کی کوششِ ناکام بھی کرتے رہے۔ ان کی بنیادی شناخت تو جاسوسی ادب کے حوالے ہی سے ہے۔ انھوں نے اپنے جاسوسی ناولوں میں ایسے ایسے سماجی و اخلاقی و نفسیاتی نکتے بیان کیے ہیں جو "دیوانوں کے دیوانوں"پر بھاری ہیں۔ شاید اسی خیال سے پروفیسر صادق نے بڑی بے باکی سے فرمایا:
"میں جناب شمس الرحمن فاروقی کی ناراضی کا خیال کیے بغیر شب خون مرحوم کے کم از کم دو درجن جدید افسانہ نگار ابن صفی پر قربان کر سکتا ہوں۔"


غضنفر اقبال کی فراخ دلی کی داد دینا چاہیے کہ انھوں نے صادق کی بے باکانہ رائے کو بے باکانہ طور پر درج کرنے میں پس وپیش سے کام نہیں لیا جب کہ اس رائے کی بھینٹ ان کے اپنے بھی چڑھ جاتے ہیں۔
ابنِ صفی سے کیے گئے سوال کا جواب ان کے شعر کے بجائے ان کے کسی ناول کا لمحۂ فکر دینے والا کوئی جملہ ہوتا جو عمران، فریدی یا حمید کی زبانی ادا کیا گیا ہوتا تو مخاطبے کا لطف دوبالا ہو جاتا مگر مشکل یہ ہے کہ عالم خیال میں صرف "شاعر" کی قید لگا دی گئی ہے۔


حیدرآباد کے ایک ترقی پسند شاہ افسانہ نگار نے غلو کی حد کرتے ہوئے فرمایا کہ "ایک چادر میلی سی" ایک پلڑے میں اور دوسرے پلڑے میں ابن صفی کے تمام جاسوسی ناول رکھ دیے جائیں تو ایک میلی چادر کا پلہ بیٹھ جائے گا۔"
ہم نے بھی بڑی بے باکی سے ابن صفی سے اپنی خوش عقیدگی کو لفظوں کا جامہ پہناتے ہوئے کہہ دیا کہ جس نے ابن صفی کو نہیں پڑھا اُسے قلم نہیں پکڑنا چاہیے۔ یوں "فٹ پاتھ کی شہزادی" کا "ایک وقت کا کھانا" بھی معرضِ بحث میں پڑ گیا۔ (مخفی مباد کہ یہ دونوں کتابیں قلمِ عاتق رقم کا نتیجہ رہے ہیں)


دکنی زبان میں سلیمان خطیب سے بڑا شاعر شاید ہی کوئی اور ہے۔ ان کی نظم "سانپ" فلم "شعلے" میں استعمال کی گئی ہے جب امیتابھ بچن ہیروئن ہیما مالینی کی نانی کے پاس اپنے دوست دھرمیندر کے رشتے کی بات کرنے جاتا ہے۔ سلیمان خطیب پہلے تو ہنساتے تھے۔ اور جب نظم موڑ اختیار کرتی تو سننے /پڑھنے والے ہچکیاں لے لے کے رونے لگتے تھے۔ یہ کمال کسی اور شاعر کو نصیب نہیں ہوا۔ غضنفر اقبال نے تجریدی آرٹ پر سلیمان خطیب کا طنز خوب پیش کیا:
بے وزن شعر صرف ترنم سے پڑھ لیے
بے معنی نظمیں لکھی ہیں جدت کے نام سے


ماہ نامہ "شاعر" کے مدیر اعجاز صدیقی کا انتخاب بھی غضنفر اقبال کی خوش ذوقی کا ثبوت ہے۔ "رہنمائے تعلیم " دہلی کے بعد سب سے زیادہ قدیم رسالہ "شاعر" بمبئی ہی ہے، جس کی آبیاری میں سیماب اکبرآبادی، اعجاز صدیقی، ناظر نعمان و افتخار امام تن من دھن سے مصروفِ تگ و تاز ہیں۔
شاعر کے کئی دستاویز ی نوعت کے نمبر بھی نکلے تھے۔ تبھی تو غضنفر کے ایک سوال کے جواب میں اعجاز صدیقی فرماتے ہیں:
وہ دیکھیں چاند تاروں تک رسائی میرے ہاتھوں کی
جو کہتے تھے نہیں ممکن زمیں کا آسماں ہونا
مگر آج کل یہ چاند تارے آسماں کے بجائے امریکہ، لندن، کینڈا، سعودی عرب ، دوبئی وغیرہ میں پائے جاتے ہیں۔ اعجاز صدیقی کا ایک ضرب المثل شعر ہے:
قحطِ وفا میں کاش کبھی یوں بھی ہو سکے
اک اجنبی کا ہاتھ ہو، اک اجنبی کے زخم


ڈاکٹر غضنفر اقبال جب کسی شاعر سے سوال پوچھتے ہیں تو اس کے بارے میں اپنی پوری "باخبری" کا ثبوت بھی مہیا کرتے ہیں اور اپنے پڑھنے والوں کو خبر بھی مہیا کرتے ہیں۔ جیسے وہ اُردو صحافت و ادب کی افسانوی شخصیت محمود ایاز صاحبِ "سوغات" سے پوچھتے ہیں:
"س: اپنی نصف بہتر محترمہ مریم ایاز کی محبتوں کو آپ کس طرح اپنی یاد کا حصہ بناتے ہیں؟
محمود ایاز کا جواب:
"تیری محبتیں بھی سچ، میری وفا بھی بے غرض
پر اک انا تھی درمیاں، جس نے ہمیں جدا کیاــ"
ان سے مخاطبے میں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی محبوبہ زینب کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر تھے بلکہ ایمرجنسی کے زمانے میں باقاعدہ دھارواڑ جیل کی ہوا بھی کھائی تھی۔


ذہن جدید کے حامل زبیر رضوی کی خود نوشت "گردشِ پا" کے حوالے سے سوال کے جواب میں زبیر کہتے ہیں:
اپنی ذات کے سارے خفیہ رستے اُس پر کھول دیے
جانے کس عالم میں اُس نے حال ہمارا پوچھا تھا
اس شعر کی عملاً داد تو انھیں جوش و فراقؔ ہی دے سکتے تھے۔


کرناٹک کے ایک بہت کم سخن وکم آمیز شاعر حمید الماس کو مخاطبے کے لیے چن کر غضنفر اقبال نے اپنی خوش مذاقی کا ثبوت اور مٹی کا قرض چکانے کے جتن بھی کیے۔ حمید الماس کے حسنِ اتفاق Coincidence کے سلسلے میں غضنفر کہتے ہیں کہ ہفتہ Saturday کو حمید الماس پیدا ہوئے، عقد بھی ہفتے کو ہوا اور دو صاحب زادے بھی ہفتے ہی کو پیدا ہوئے۔ اسی لیے وہ ہفتے کو مسرت بخش دن تسلیم کرتے تھے۔ ماشاء اللہ حمید الماس کے لیے "یوم سبت" آزمائش کا دن نہیں بلکہ اکرام وتکریم کا روز ثابت ہوا۔


جاوید ناصر اورنگ آباد کے ایک نابغۂ روزگار تھے۔ قابل باپ (اخترالزماں ناصر) کے قابل بیٹے تھے۔ غضنفر اقبال نے ان کے تعارف میں ان کے شعری مجموعوں کی رعایت سے بہت اچھا جملہ لکھا ہے:
جاوید ناصر نے حیات کے جوار بھاٹے سے جو کچھ "حاصل" کیا اس کی "تلافی"، "تازیانہ" کی صورت میں اُردو شعریات میں محفوظ ہے۔"
غضنفر اقبال نے غضب کیا کہ ان سے ایک نجی قسم کا سوال بھی کر ڈالا:
"پان، سگریٹ جیسی مکروہات کے ساتھ ساتھ آپ نے شراب جیسی حرام شے کا استعمال بڑے چاؤ سے کیا؟"
جس کے جواب میں جاوید ناصر اپنا شعر سناتے ہیں:
جاوید پھر خموش ہوئے دن کے شور میں
کل ہی ملے تھے رات کو بے حد پیے ہوئے


دو سال پہلے وجد پر ایک سمینار میں مقالہ پڑھنے میں اورنگ آباد گیا تھا۔ جناب عارف خورشید اور اسلم مرزا نے اورنگ زیب کے مزار، ایلورا کے غار دکھائے۔ واپسی میں حسن سجزی (س ج زی) اور آزاد بلگرامی کے مزارات بھی دکھائے۔ ایک ہی چوکھنڈی میں دونوں بزرگوں کے مزارات ہیں۔ سیڑھیوں پر شکر بچھی ہوئی ہوتی ہے۔ یہ روایت مشہور ہے کہ اگر شرابی وہ شکر چکھ لے تو اس سے شراب چھٹ جاتی ہے۔ عارف خورشید نے سنایا کہ بشر نواز اور جاوید ناصر نے شراب چھوڑ دینے کی نیت سے وہ شکر چکھی۔ دونوں جب چوکھنڈی کے باہر آئے تو،جناب بشر نواز سے جاوید ناصر نے کہا :
"لاؤ یار شراب کی بوتل نکالو۔ منہ کا مزہ خراب ہو گیا۔"
غضنفر اقبال نے جاوید کی کتاب کی ورق گردانی کی:
مضمون جس کا بھول چکے ہیں تمام لوگ
شاید اسی کتاب کا میں اقتباس ہوں


یقیناً جناب صابر، شاہ آباد کی پہچان بن کر اُبھرے تھے۔ اس سرزمین سے پھر کوئی ایسا نہ اُٹھا۔ غضنفر اقبال کے مخاطبے سے معلوم ہوا کہ کرناٹک اُردو اکادمی نے صابر شاہ آبادی کو بعد ازمرگ پانچ لاکھ روپے کے اعزاز سے نوازا۔ اس سے شاعر کا کیا بھلا ہوا؟ غالباً 1965-66 میں صفی اورنگ آبادی کے مجموعۂ کلام "پراگندہ" کی رسمِ اجرا کے موقع پر فراق گورکھپوری کی صدارت میں ایک کل ہند مشاعرہ پتھر گٹھی حیدرآباد میں منعقد ہوا تھا۔ جناب صابرشاہ آبادی نے اپنے دل آویز ترنم اورکلام سے وہ مشاعرہ لوٹ لیا تھا۔ ان کی غزل کا مقطع مجھے آج تک یاد ہے:
صابر کے لیے تیرا سلام پس پردہ
سب کچھ ہے مگر شوق کا انعام نہیں ہے


رائل سیما کے قادر الکلام شاعر عقیل جامد کی عجیب و غریب ردیفوں والی غزلیں "شب خون" میں شائع ہوا کرتی تھیں کہ وہ "گل دیگر شگفت" تھے۔ اس کے علاوہ دو شعری انتخاب "لہجے" اور "انتس سللہ" (سنسکرت نام کا اُردو شعری انتخاب) میں بھی دیگر شاعروں کے ساتھ ان کا کلام شائع ہوا تھا۔ غضنفر اقبال نے ان کا انتخاب کرکے ایک فراموش کردہ عقیل کو جامد کرنے کی کوشش کی جو قابل داد ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ شاعر اعظم(بے جاہ) اپنی نصف بہتر درِشہوار کا گرویدہ تھا۔ بہ قول عقیل جامد:
پتھر ہوں یا گہر ہوں کھلے گا یہ راز جب
مائل بہ نقد کوئی گہر آشنا ملے


مختصر یہ کہ "عالم خیال میں" درحقیقت غضنفر اقبال کا ایک اور کارنامہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
جدید شاعری میں علامت نگاری - ڈاکٹر رؤف خیر
ملک الشعرا اوج یعقوبی - کچھ ملاقاتیں - از ڈاکٹر رؤف خیر
فائق باپ کی لائق اولاد
***
raoofkhair[@]gmail.com
موبائل : 09440945645
Raoof Khair, Moti Mahal, Golconda, Hyderabad - 500008
رؤف خیر

Posthumous Interviews of some urdu poets, a book by Ghazanfar Iqbal. Reviewer: Raoof Khair

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں