ناول - تھینک یو ۔۔۔ کورونا - منیر ارمان نسیمی - قسط: 04 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-07-08

ناول - تھینک یو ۔۔۔ کورونا - منیر ارمان نسیمی - قسط: 04

novel-thankyou-corona-episode-04

پچھلی قسط کا خلاصہ:
وہ لوگ پکنک سے واپس دہلی لوٹ آئے۔ دو دن تک نگار کالج نہیں آئی۔ فرہاد۔۔۔ دل ہی دل میں اللہ سے دعا کررہے تھے کہ پروردگار نگار صحیح سلامت ہوں، کسی طرح ان کی خیریت کی خبر مل جائے۔ پھر رخسانہ نے نگار کو بتایا کہ نگار اور فرہاد کو دراصل ایک دوسرے سے پیار ہو گیا ہے۔ اور یہ افواہ سارے کالج میں پھیل چکی ہے۔ امتحانات کے ختم ہونے کے بعد۔۔۔ مہینے بھر کے لئے کالج کی چھٹی ہو گئی اور فرہاد اپنے وطن حیدرآباد کو چلے گئے۔۔ اب چوتھی قسط ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

« قسط : 4 »

فرہاد حیدرآباد چلے گئے، جب تک ان کی فلائٹ نظر آتی رہی نگار اس کو دیکھتی رہی اور جیسے ہی وہ نظروں سے اوجھل ہوا۔۔۔ نگار کی آنکھوں سے دو قطرے آنسو نکل کر اس کے رخسار کو بھگونے لگے۔ وہ حیرت سے ان کو پوچھنے لگی کہ پتا نہیں یہ آنسو کہاں سے آگئے؟ آنسوؤں کی بھی فطرت عجیب ہے۔۔۔ خوشی میں بھی نکل پڑتے ہیں اور دکھ میں بھی۔ یہ کہاں سے آتے ہیں اور کیوں بلاوجہ نکل پڑتے ہیں؟ آنسوؤں پہ کسی کا کوئی اختیار کیوں نہیں ہے؟ نگار کو رخسانہ نے کندھے سے پکڑ کر اپنی طرف گھمایا اور بولی۔۔۔" ارے میری جان! تو ایسے روئے گی تو تیرا چہرہ اتر جائے گا۔ گھر جائے گی تو سب کو پتا چل جائے گا، کیا جواب دیگی سب کو؟ خود کو سنبھال اور بس دیکھ کیسے یوں۔۔۔ یوں گزر جاتے ہیں یہ بیس پچیس دن چٹکی بجاتے ہوئے۔ پھر ترا فرہاد تیرے پاس اور میں۔۔۔ دودھ کی مکھی کی طرح نکال باہر!"۔ نگار اس کی بات پہ ہنس پڑی اور رخسانہ کو بڑی محبت سے دیکھنے لگی کہ کتنی اچھی ہے یہ لڑکی، میرے ہر دکھ سکھ میں ہمیشہ ساتھ دیتی ہے۔ ہمیشہ ہنستی مسکراتی رہتی ہے، کیا اس کو کوئی غم نہیں ہے؟


فلائٹ میں بیٹھے فرہاد سوچ رہے تھے کہ کیسے نگار کے بارے میں سب کو بتائیں؟ وہ بچپن سے اپنی امی کے دلارے تھے۔ اکلوتی اولاد تھے تو ماں باپ دونوں نے بے انتہا محبت و شفقت سے انہیں پالا تھا۔ ان کی ہر خواہش کو پورا کیا تھا۔ خاندانی نواب تھے تو دولت کی ریل پیل تھی۔ حیدرآباد میں اتنی زمین جائداد تھی کہ ان کی سات پشتیں بیٹھ کر کھا سکتی تھیں۔ ان کے والد صاحب نے بازار میں تقریباً چالیس دکان تعمیر کرکے کرائے پر ڈال دیا تھا۔ ہر ماہ لاکھوں کی آمدنی ہوجاتی تھی۔ باقی کی زمین پہ کھیتی باڑی ہوتی تھی۔ ان کی رعایا میں سے ہزاروں کسان ان کی زمین پہ کھیتی باڑی کرتے تھے اور آدھا ان کے حصے کا ہی اتنا ہو جاتا تھا کہ نواب صاحب۔۔۔ رائس مل والوں کو فروخت کردیتے تھے۔ ان کا تھا ہی کون کھانے والا؟ کل تین لوگ ہی تھے فیملی میں۔ کبھی کبھی ایک بیوہ بہن تھیں جو آجاتی تھیں۔ ویسے بھی نواب صاحب سال بھر کا راشن اپنی بیوہ بہن کے گھر بھیج دیتے تھے۔


فرہاد نے سوچا کہ دو تین دن تک۔۔۔ امی ابو سے نگار کے بارے میں کچھ نہیں بولیں گے۔ جب وہ گھر جائیں گے تو امی ابو دعوت پہ دعوت کریں گے۔ رشتے دار ملنے آئیں گے۔ جب یہ سب کام دو تین دن میں ختم ہوجائے گا پھر موقع دیکھ کر وہ سب سے پہلے اپنی امی کو اس بارے میں بتائیں گے۔ اور پھر امی سے کہیں گے کہ وہ ابو کو بتائیں اور نگار کا فوٹو بھی دکھائیں۔ انہیں مکمل یقین تھا کہ نگار کو دیکھنے کے بعد ان کی امی بھی اس کی گروہ دیدہ ہو جائیں گی۔ اچھا خاندان ہے، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور وہ بھی ڈاکٹر تو پھر انکار کا سوال ہی پید انہیں ہوتا ہے۔


حیدرآباد پہنچ کر فرہاد۔۔۔ کئی دن تک بہت مصروف رہے۔ دوستوں کے ساتھ، رشتے داروں کے یہاں دعوتیں وغیرہ میں اور ان کو موقع نہیں ملا کہ امی سے اپنے دل کی بات کریں۔ ہر گھڑی کوئی نہ کوئی خالہ ، مامی، پھوپی یا ان کی بیٹی امی کے پاس رہتی تھیں اور فرہاد اپنے دل کی بات دل میں دبائے کڑھتے رہتے تھے۔ چار دن کے بعد۔۔۔ایک دن شام کے وقت امی کو فری دیکھ کر فرہاد نے اپنے کالج کے فوٹو اور نینی تال کے فوٹو دکھانے کے بہانے۔۔۔ نگار کے دو تین سنگل فوٹو بھی دکھا دئیے۔ امی بھی جہاں دیدہ تھیں سمجھ گئیں کہ لاڈلا بیٹا اس لڑکی میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہا ہے۔ انہوں نے بھی پوچھ لیا کہ کون ہے یہ لڑکی؟ کہاں کی ہے؟ کون سے خاندان کی ہے؟ فرہاد خوشی خوشی بتانے لگے کہ ان کا نام سید نگار صدیقی ہے، دہلی کی ہیں اور ان کے والد صاحب کا دہلی صدر بازار میں چار دکانیں اور فیکٹری ہے۔ ایک بڑے بھائی ہیں جو انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں افسر ہیں۔ یہ میرے ساتھ پڑھتی ہیں اور میری بہت ہی اچھی دوست ہیں۔


امی سمجھ گئیں۔۔۔"بہت اچھی دوست" کا مطلب اور ان کا دل ہول کھانے لگا کہ اب کیا ہوگا؟ فرہاد کے ابو کو اگر اس بات کا پتہ چلے گا تو وہ آگ بگولہ ہو جائیں گے۔ اپنے خاندان سے باہر کی لڑکی سے شادی کا تو وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ نواب صاحب وہی پرانے دقیانوشی خیال کے کٹرپنتھی باپ تھے۔ بچپن سے ہی فرہاد کو انہوں نے اپنی سالی کی بیٹی۔۔۔ زرین سے منسوب کردیا تھا۔ فرہاد کوہلکا ہلکا پتا تھا جب ان کے خالہ زاد یا ماموں زاد بھائی بہن ان کو دلہابھائی کہہ کرپکارتے تھے تو وہ غصہ کرتے تھے مگر ان کو پتا نہیں تھا کہ۔۔۔ بچپن میں والدین بچوں کی مرضی جانے بغیر ان کو ایک دوسرے سے منسوب کرکے۔۔۔ کتنا بڑا ظلم کر رہے ہیں۔


فرہاد کی امی بھی چاہتی تھیں کہ انکی بہن کی بیٹی ان کے گھر کی بہو بنے۔ وہ زرین کو بچپن سے ہی اپنی بہو بنا چکی تھیں اور خاندان بھر میں سب زرین کو فرہاد کی دلہن کہہ کر بلاتی تھیں۔ وہ لڑکی بیچاری۔۔۔ جب سے ہوش سنبھالی تھی تب سے یہی سنتی آئی تھی کہ وہ فرہاد کی دلہن ہے اور وہ۔۔۔ جوانی کی دہلیز میں پہنچ کر فرہاد کو ہی اپنا سب کچھ مان چکی تھی۔ ان کے خیال سے شرماتی تھی اوران کی یاد سے دل بہلاتی تھی۔ گھروالوں کو انتظار تھا کہ فرہاد جلدی ڈاکٹر بن کر دہلی سے واپس آئیں تو دونوں کی شادی کر دی جائے۔
فرہاد کی امی نے اپنی بہن کو زبان دیدیا تھاکہ اتنے دن انتظار کیا بس دو تین سال اورانتظار کر لو۔ فرہاد ڈاکٹر بن جائیں گے تو پھر۔۔۔آرام سے شادی خانہ آبادی ہوگی۔


فرہاد کی امی۔۔۔ ایک طرف بیٹے کی محبت اور دوسری طرف۔۔۔ خاندان والوں کی عزت اور ان سے کیا گیا وعدہ کو لیکر عجیب کشمکش میں پڑگئیں اور ان کی طبیعت خراب ہوگئی۔ ٹینشن کی وجہ سے بخار میں مبتلا ہوگئیں۔ فرہاد یکدم گھبرا گئے کہ یہ اچانک کیا ہوگیاامی کو؟ ان کا چہرہ کیوں زرد پڑگیا ہے؟ نگار کے بارے میں جان کر کوئی تبصرہ کیوں نہیں کیں؟ فرہاد ان کو دوا وغیرہ کھلا کر ان کے بیڈپر آرام سے لٹا کران کے سرہانے بیٹھ گئے اور ہلکے ہلکے ہاتھوں سے امی کے سر کو سہلانے لگے۔ ماں نے بیٹے کی محبت کو محسوس کیا مگر آگے جو طوفان آئے گا اس کا سوچ کر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور۔۔۔ آنکھ کے کونے سے بہہ کر تکیہ بھیگونے لگے۔


فرہاد ماں کو روتا دیکھ کر تڑپ گئے۔ "کیابات ہی امی۔۔۔ یہ آپ کی آنکھوں میں آنسو کیوں؟ کوئی پریشانی ہے، کچھ ایسی بات ہے جو آپ سوچ کر رو رہی ہیں؟ کیا ہوا ہے بولیئے، ابو نے کچھ کہا ہے کیا آپ کو؟ کچھ تو بولیں کہ مجھے چین ملے۔"
"بیٹا، میں آنے والے طوفان کی آہٹ سن کر پریشان ہوں۔ تم نے جس لڑکی کی تصویر ہمیں دکھائی ہے وہ بلاشبہ بہت ہی حسین ہے اور سید خاندان سے ہے مگر۔۔۔ کیا تمہیں پتہ نہیں کہ ہمارے خاندان میں۔۔۔ باہر کا خون نہیں آسکتا۔ ہمار ے یہاں خاندان میں آپس میں شادی بیاہ ہوتا ہے۔ تمہارے ابو میرے پھوپی زاد ہیں اور۔۔۔ تم بچپن سے اپنی شگفتہ خالہ کی بیٹی۔۔۔ زرین سے منسوب ہو۔ ہم لوگوں نے یہ رشتہ خود پکا کیا ہے اور تمہاری خالہ کب سے کہہ رہی ہیں شادی کے لئے مگر ہم نے ان کو روک رکھا ہے کہ پہلے تم ڈاکٹر بن جاؤ پھر دھوم دھام سے شادی ہوگی۔ تم ہماری اکلوتی اولاد ہو اور ہم کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے اس شادی کو یادگار بنانے کے لئے۔ مگر فرہاد بیٹے یہ تم نے کس مصیبت میں ڈال دیا ہے مجھے۔ ایک طرف تم ہو تو دوسری طرف۔۔۔ تمہاری خالہ خالو ہیں، وہ معصوم لڑکی ہے جو بچپن سے تمہارے سپنے دیکھ دیکھ کر جی رہی ہے اور سب سے بڑی بات۔۔۔ تمہارے ابو کا وعدہ ہے جو انہوں نے تمہاری خالہ اور خالو سے کرچکے ہیں۔ "


فرہاد کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ وہ تو سوچ رہے تھے کہ وہ اکلوتی اولاد ہیں اور ان کی پسند لاجواب ہے تو امی ابو بڑی آسانی سے راضی ہوجائیں گے۔ نگار کو ان کی دلہن بننے میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ مگر وہ بھول گئے تھے کہ وہ نواب خاندان کے چشم وچراغ ہیں اور ان کی زندگی کا فیصلہ ان سے بنا پوچھے۔۔۔ بچپن میں ہی کر دی گئی ہے۔ یہ کیسا منطق ہے کہ ہمارے خاندان میں باہر کا خون نہیں ملے گا۔ شادیاں آپس میں ہی ہونگی۔ وہ یہ سب فرسودہ رسم و رواج کو نہیں مانتے تھے۔ وہ آجکل کے لڑکے تھے مگر۔۔۔ماں باپ، خالہ خالو اور دیگر خاندان کے لوگوں کی سوچ تو وہی پرانی تھی۔


"میں نہیں مانتا آپ کے ایسے بیہودہ رسم و رواج کو کہ ہمارے خاندان میں باہرکا خون نہیں ملے گا۔ باہر کی لڑکی یا لڑکے سے رشتہ نہیں ہوسکتا۔ جب آپ کے خاندان کے لوگ ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں تب جو خون آپ کو چڑھائی جاتی ہیں کیا وہ۔۔۔ باہر کا خون نہیں ہوتا ہے؟ کیا ہمارے مذہب میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ایسا فرمایا ہے؟ ؟ اگر ہمارے خاندان میں لڑکی نہیں ہوگی تو کیا ہمارے خاندان کے باقی کے لڑکوں کی شادی نہیں ہوگی؟ کیا آپ لوگوں نے ہم سے پوچھ کر ایک دوسرے سے وعدہ کیا تھا؟ بچپن میں ہی وعدہ کرلیا اور یہ نہیں سوچا کہ بڑے ہوکر بچوں کی پسند کیا ہوگی؟ ہماری زندگی ہے اور کس کے ساتھ گزاریں گے یہ فیصلہ ہم کریں گے آپ نہیں"۔۔۔ فرہاد غصے میں تمتماتے ہوئے بولے اور کمرے سے نکل گئے۔


دوسرے دن تک ان کی امی کی علالت کی خبر سب کو ہو گئی۔ خاندان کے لوگوں کے ساتھ ساتھ۔۔۔ خالہ خالو اور۔۔۔زرین بھی آئی ان کی عیادت کو۔ فرہاد کی امی۔۔۔ اپنی بہن سے نظریں چرا رہی تھیں کہ بیٹے کا فیصلہ ان کے دل و دماغ میں ہتھوڑے کی طرح چل رہا تھا۔ کیسے کہیں اپنی بہن سے کہ فرہاد اس شادی سے انکار کررہے ہیں۔۔۔ کیسے کہیں زرین سے کہ وہ فرہاد کا خواب دیکھنا بند کردے۔ اس بیچاری کا کیا قصور تھا جو وہ یہ سب سہے گی۔ یہ خبر سن کر تو اس کی جان نکل جائے گی، کس دل سے یہ بات بتائیں اپنی بہن بہنوئی کو؟؟؟


مگر انہونی ہو گئی۔ وہ سوچ رہی تھیں کہ کیسے فرہاد کے ابو کو یہ بات بتائیں، کیسے اپنی بہن اور بہنوئی کو یہ روح فرسا خبر سنائیں؟ مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ باہر بارہ دری میں سب مہمان بیٹھے تھے، آپس میں بات چیت کر رہے تھے کہ اچانک فرہاد باہر سے اندر آگئے۔ سب کو سلام کیا اور اپنے کمرے میں جانے کو ہو رہے تھے کہ زرین کے بھائی ذاکر نے انہیں پکار لیا۔۔۔"دلہا بھائی، کدھر جارہے ہیں۔ آئیے ہمارے ساتھ بیٹھئے۔۔۔ کچھ باتیں سنائیے دہلی کی۔ اتنے دنوں کے بعدتو ملاقات ہورہی ہے اور آپ شرما کے بھاگ رہے ہیں"۔
فرہاد تو پہلے سے ہی بہت ٹینشن میں تھے۔ امی کی باتوں کی وجہ سے ان کا دماغ گھوم رہا تھا۔ وہ یوں اچانک سب کے سامنے ذاکر کے منھ سے "دلہا بھائی" سن کر بپھر گئے اور غصے سے بولے۔۔۔"خبردار۔۔۔ آئیندہ مجھے دلہا بھائی مت کہنا۔ میرا نام فرہاد ہے" اور وہاں سے پیر پٹکتے ہوئے چلے گئے۔


سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ یہ کیا ہوگیا ؟ فرہاد نے یہ کیا کہہ دیا؟ زرین کے والد صاحب نے فرہاد کے ابو کی طرف دیکھا، ان کی آنکھیں سراپا سوال تھیں۔ زرین کی امی سکتے کی حالت میں تھیں ان کی زبان سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ خود فرہاد کے ابو بھی اس واقعہ سے حیرت زدہ تھے کہ۔۔۔ یہ کیا بول گئے فرہاد میاں؟؟؟


زرین بیچاری آئی تھی اپنے امی ابو کے ساتھ کے خالہ کی عیادت کے بہانے۔۔۔ اپنے سپنوں کے راجکمار کی زیارت بھی ہو جائیگی۔ مگر اس کو کیا معلوم تھا کہ۔۔۔ قیامت ہو جائیگی؟ اس کے امی ابو بھی حیرت زدہ تھے کہ فرہاد نے ایسا کیوں کہا؟ آج تک فرہاد نے اتنے سخت الفاظ میں کبھی کسی سے گفتگو نہیں کی تھی۔ سب پریشان تھے اور زرین کے دل کی دھڑکن بڑھ گئی تھی۔
نواب صاحب نے فوراً سب کو فرہاد کی امی کے کمرے میں بلایا اور میٹنگ شروع ہوئی۔ اس کی امی بیچاری، بخار میں تپ رہی تھیں اور ان کو پتہ تھا کہ فرہاد نے ایسا کیوں کہاہے لیکن وہ اپنی بہن بہنوئی کے سامنے وہ بات کہہ نہیں سکتی تھیں کہ۔۔۔ فرہاد اپنی کلاس فیلو سے محبت کرتے ہیں اور زرین سے شادی کے سخت خلاف ہیں۔ انہوں نے سوچا تھا کہ صحت یاب ہونے کے بعد۔۔۔ فرہاد کے ابو سے موقع دیکھ کر بات کریں گی اور پھر تدبیر کیا جائے گا کہ یہ بات کیسے شگفتہ اور اس کے شوہر کو بتا یا جائے۔ ان کو پتہ تھا کہ فرہاد کے انکار کو سن کر ان کے ابو ہتھے سے اکھڑ جائیں گے، نوابی خون جوش میں آجائے گا مگر وہ جانتی تھیں کہ۔۔۔ فرہاد کی رگوں میں بھی وہی خون دوڑ رہا ہے اور وہ بھی اپنے باپ کی طرح ضدی ہیں۔


مگر یوں اچانک حالات ایسے بدل جائیں گے انہوں نے سوچا ہی نہیں تھا۔ نواب صاحب نے کسی کو بھیج کر فرہاد کو امی کے کمرے میں بلایا۔ وہ آئے اور سب کو ایک جگہ دیکھ کر سمجھ گئے کہ۔۔۔ آج فیصلہ ہو ہی جائے گا۔ انہوں نے بھی دل ہی دل میں فیصلہ کرلیا کہ وہ آج اس فرسودہ رسم و رواج کو توڑ دیں گے کہ ہمارے خاندان میں باہر کے خون کا ملاوٹ نہیں ہوگا۔ زمانہ آج چاند اور مریخ تک پہنچ چکا ہے مگر ہم اسی دقیانوسی خیالات میں بندھے ہوئے ہیں۔


"فرہاد میاں! یہ آپ نے ذاکر کو کیوں ڈانٹ دیا؟ انہوں نے کوئی نازیبا الفاظ تو نہیں کہا تھا؟ آپ کو "دلہا بھائی" کہا تھا جو کہ۔۔۔ آپ ہیں نہیں مگر دو ایک سال میں ہو جائیں گے پھر آپ کے غصے کی کیا وجہ ہے؟ ذاکر آپ کا خالہ زاد بھائی ہے، عمر میں دو سال چھوٹا ہے مگر آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ آپ اس کی بے عزتی کریں، معذرت کیجئے، سوری بولیئے"۔۔۔ نواب صاحب رعب کے ساتھ بولے۔


"میری شادی نہیں ہوئی ہے اور میں کسی کا "دلہا بھائی وائی" نہیں ہوں۔ اگر میری بات سے ذاکر کا دل دکھا ہے تو۔۔۔ آئی ایم ریئلی سوری۔۔۔ مگر آج کے بعد کوئی مجھے دلہا بھائی نہیں کہے گا۔ میں کسی کا دلہا بھائی نہیں ہوں"۔ فرہاد نے بھی دو ٹوک جواب دیدیا۔


زرین کے ابو بول پڑے۔۔۔
"مگر فرہاد بیٹے، تم بچپن سے ہماری بیٹی زرین سے منسوب ہو۔ اس رشتے سے تم ذاکر، نوید اور دوسرے بھائی بہن کے لئے۔۔۔ بہنوئی ہوئے تو وہ تمہیں شروع سے ہی 'دلہا بھائی' کہتے ہیں اور ایسا کہنے میں حرج ہی کیا ہے؟ سال دو سال میں تم ان کے دلہا بھائی بننے والے ہو بیٹا، پھرغصہ کس بات کا؟؟
"شادی ہماری ہوگی اور ہم سے بنا پوچھے آپ لوگ ہمیں بچپن سے ایک دوسرے کے ساتھ منسوب کر دیتے ہیں، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ ہم نہیں مانتے ایسے کسی رشتے کو۔ زرین ہمارے لئے چھوٹی بہن کی طرح ہے اور ہم اس سے شادی نہیں کر سکتے"۔ فرہاد نے دوٹوک کہہ دیا۔


ان کا اس رشتے سے انکار سن کر۔۔۔ نواب صاحب غصے سے لال ہوگئے اور ادھر شگفتہ خالہ اور ان کے شوہر، بیٹے وغیرہ کو بہت بے عزتی محسوس ہوئی۔ دروازے کے باہر خاندان کی دوسری لڑکیوں کے ساتھ زرین بھی کھڑی سن رہی تھی۔۔۔ اس کا تو دل ہی دھڑکنا بھول گیا۔ یہ کیا کہہ دیا فرہاد نے؟ جن کو یاد کر کے میرے ہر دن کی شروعات ہوتی اور جن کا نام لے کرمیں تکیے سے سر لگاتی ہوں وہ۔۔۔ اسے رشتے سے انکار کر رہے ہیں؟ جن کی خیریت کی دعا ہر نماز میں مانگتی ہوں ، جن کے فوٹو کے ساتھ گھنٹوں باتیں کرتی ہوں وہ کہتے ہیں کہ میں زرین سے شادی نہیں کرسکتا؟ ہائے۔۔۔ میرا کیا ہوگا؟ ؟ اور دھڑام سے گر کر زرین ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی۔


دروازے کے باہر۔۔۔ لڑکیوں کی چیخ سن کر سب ادھر دوڑے اور دیکھا تو زرین بیہوش فرش پہ پڑی ہے اور گھر کی لڑکیاں اس کو ہلا رہی ہیں اور اس کا نام لے کر پکار رہی ہیں۔ زرین کی امی ہائے میری بچی کہہ کر اس کے پاس پہنچیں اور اس کا سر اپنی گود میں لے کر رونے لگیں۔ کسی نے پانی منگوائی اور زرین کے منھ پر چھینٹے مارنے لگے مگر۔۔۔ اس کو ہوش نہیں آیا۔ سب نے کہا جلدی سے ہسپتال لے چلتے ہیں، فرہاد کی باتوں سے اس کو صدمہ لگا ہے، کہیں کچھ ہو نہ جائے۔ فوراً گاڑی نکالی گئی اور زرین کواس کے بھائی ذاکر اور نوید نے اٹھا کر گاڑی میں ڈالا۔ اس کی امی، ابو اور نواب صاحب بھی گاڑی میں سوار ہوگئے اور ہسپتال چلے گئے۔


فرہاد سوچ رہے تھے کہ کیا کریں؟ وہ بھی ہسپتال جائیں یا نہ جائیں؟ جائیں بھی تو کس منھ سے؟ سب ان سے روٹھے ہوئے ہیں اور کوئی ان سے بات ہی نہیں کرتا ہے۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ فیصلہ کرتے ان کی امی نے ان کو آواز دی۔۔۔ فرہاد بیٹا، تم گاڑی نکالو۔۔۔ میں بھی ہسپتال جاؤنگی۔ راستے بھر فرہاد یہ سوچتے رہے کہ امی کچھ کہیں گی، شاید غصہ کریں گی یا کچھ اور مگر۔۔۔ہسپتال پہنچنے تک امی خاموش رہیں، ان سے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ بس بیچ بیچ میں اللہ سے دعا کرتی تھیں زرین کے لئے۔


فرہاد ڈاکٹری کی پڑھائی کر رہے تھے اور ان کو پتہ تھا کہ زرین کو صدمہ لگا ہے اور اس کا بلڈپریشر اچانک لو ہوجانے کی وجہ سے وہ چکرا کے گر گئی ہے۔ ہسپتال میں ایڈمٹ کردیا گیا اور ڈاکٹر نے بھی وہی کہا کہ۔۔۔ ان کو اچانک کسی بات کا صدمہ لگا ہے اور پریشر ایکدم لو ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر نے انچکشن لگوا دیا اور نرس کو سیلائین لگانے کا کہہ کر چلا گیا۔ زرین کا چہرہ۔۔۔ دکھ اور صدمے سے زرد پڑگیا تھا اور اس کی امی اس کو دیکھ دیکھ کر بنا آواز کے رو رہی تھیں۔ فرہاد کی امی پہنچیں تو دونوں بہن ایک دوسرے سے لپٹ کر رونے لگیں۔
" ہائے باجی! یہ کیا ہوگیا ہے فرہاد بچے کو؟ میری پھول جیسی زرین میں کوئی کمی ہے کیا جو وہ اس سے شادی سے انکار کررہے ہیں؟ بچپن سے وہ فرہاد کو ہی اپنا سب کچھ مان کر جی رہی ہے، اب کیسے جئے گی؟ خاندان والوں کو کیا منھ دکھائیں گے ہم؟ بہت بدنامی ہوگی ہماری کہ ہو نہ ہو زرین میں ہی کچھ کمی تھی جو فرہاد نے شادی سے انکار کردیا"۔ زرین کی امی کہتی جارہی تھیں اور روتی جارہی تھیں۔ فرہاد کی امی ان کو تسلی دے رہی تھیں کہ سب ٹھیک ہوجائے گا شگفتہ، تو کیوں گھبرا رہی ہے، کیوں پریشان ہو رہی ہے؟ مگر وہ خود اندر سے بہت پریشان تھیں۔


نواب صاحب یعنی فرہاد کے ابو اور زرین کے ابو۔۔۔ دونوں ہسپتال کے ویٹنگ روم میں بیٹھے سر جوڑے کچھ باتیں کر رہے تھے۔ فرہاد دور کھڑے سب کو دیکھ رہے تھے۔ امی کیسے خالہ کو دلاسہ دے رہی ہیں، ابو کیسے خالو کے ساتھ گرما کرم بحث میں مشغول ہیں۔ ذاکر اور نوید دونوں ڈاکٹر اور نرس سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔ فرہاد سوچ رہے تھے کہ اب کیا کریں؟ یہ کس جرم کی سزا مل رہی ہے ان کو؟ کچھ نہ کرکے بھی سب ان کو ایسے دیکھ رہے تھے جیسے وہ ہی ذمہ دار ہیں ان سب حالات کے۔ کوئی ان سے بات نہیں کررہا تھا۔ وہ ایک عضوئے معطل کی طرح ہسپتال میں ایک طرف کھڑے ہوئے سب دیکھ رہے تھے۔


پھر نرس نے آ کر بتایا کہ زرین کو ہوش آ گیا ہے۔ سب اس کے کیبن کی طرف بھاگے۔ سب سے آخر میں فرہاد گئے اور چپ چاپ دیکھتے رہے۔ نواب صاحب زرین کے سر پہ ہاتھ پھرا رہے تھے اور کہہ رہے تھے۔۔۔
" ارے زرین بٹیا، تم تو ہمارے گھر کی لاج ہو، تم ہمارے گھر کی بہو ہو۔ فرہاد کی باتوں کو اتنی سنجیدگی سے لے لیا تم نے؟ ہم نے تمہارے ابو امی کو زبان دیا ہے کہ تم ہی ہمارے گھر کی بہو بنوگی مطلب بنوگی۔ خود کو سنبھالو اور جلدی سے اچھی ہوجاؤ! آج بدھ ہے، پرسوں جمعہ ہے، مبارک دن ہے اور بعد نماز جمعہ۔۔۔ تم دونوں کا عقد ہوگا"۔
اس کے بعد وہ اور کیا کیا بول رہے تھے وہ فرہاد سن نہیں پائے۔ پرسوں ان کی شادی زرین سے ہے یہ سن کر ان کے ہوش اُڑ گئے اور وہ۔۔۔ الٹے قدم کیبن سے باہرنکل آئے۔ اب کیا ہوگا؟؟؟ یہی سوچ سو چ کر ان کا سر درد سے پھٹا جارہا تھا۔


اب حالات یکسر بدل چکے تھے۔ اتنے سنگین ہو چکے تھے کہ کچھ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جو شادی دو سال بعد ہونے والی تھی اب دو دن میں ہوگی۔ کون سمجھائے گا ابو کو ؟ حالات ایسے تھے کہ سب فرہاد کے خلاف ہوگئے تھے۔ سب کی ہمدردی زرین کے ساتھ تھی۔ فرہاد راستے بھر یہی سوچتے آرہے تھے کہ کیا کروں؟ اس شادی کو روکنے کا کوئی راستہ انہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ بار بار نگار کا چہرہ ان کے سامنے آرہا تھا جس کے ساتھ انہوں نے محبت کی تھی، عہد و پیماں کئے تھے اور زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا تھا۔ پھر اچانک زرین کا ہسپتال کے بیڈ پر پڑا ہوا زرد چہرہ آجاتا تھا۔۔۔ جو ناکردہ گناہوں کی سزا پارہی تھی۔
والدین بھی کتنے ظالم ہوتے ہیں نا۔۔۔ بچوں کی شادیاں بچپن میں طے کردیتے ہیں یہ بھی نہیں سوچتے کہ جب بچے بڑے ہونگے ان کی پسند کیسی ہوگی؟ انہیں کسی اور سے محبت ہو سکتی ہے، وہ کسی اور کو جیون ساتھی بنانا چاہتے ہیں مگر۔۔۔ والدین کی جھوٹی شان اور زبان کی وجہ سے۔۔۔ کتنے خواب ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں، کتنی محبتیں وقت سے پہلے۔۔۔ رسم و رواج اور خاندانی آن ، بان اور شان کے قبرستان میں دفن ہوجاتے ہیں۔۔۔!!


فرہاد کو اور کوئی راستہ نظر نہیں آیا۔ان کی مدد کے لئے گھر میں ایسا کوئی نہیں تھا جو نواب صاحب کو سمجھا سکتا تھا۔ ایک امی تھیں مگر وہ بھی بیمار اور اب تو زرین کی بیماری کی وجہ سے ان کی ہمدردی بھی اس لڑکی کی طرف ہو گئی تھی۔ انہوں نے دل ہی دل میں فیصلہ کرلیا کہ اب یہاں سے رفو چکر ہوجاناہی بہتر ہوگا ورنہ پرسوں خاندانی عظمت کے نام ان کی محبت کو شہید کردیا جائے گا اور وہ کچھ نہیں کر پائیں گے۔ انہوں نے گھر آتے ہی بیگ میں اپنے چند کپڑے ٹھونس کر نکل گئے۔ ٹیکسی کر کے سیدھا ائیرپورٹ گئے اور خوش قسمتی سے آدھا گھنٹے بعد ائیرانڈیا کی ایک فلائٹ میں ان کو دہلی کے لئے سیٹ مل گئی۔


رابطہ مصنف منیر ارمان نسیمی (بھدرک، اوڈیشہ)
Munir Armaan Nasimi
Chota Shakarpur, Bhadrak - 756100. Odisha.
Mobile: +919937123856
WhatsApp: +919090704726
Email: armaan28@yahoo.com / armaan28@gmail.com

Novel "Thank you...CORONA" by: Munir Armaan Nasimi - episode:4

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں