دلیپ کمار کی کہانی - خود ان کی زبانی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-07-07

دلیپ کمار کی کہانی - خود ان کی زبانی

dilip-kumar-story-by-himself

دلیپ کمار (اصل نام: محمد یوسف خاں ، پیدائش: 11/دسمبر 1922ء ، پشاور)
ہندوستانی فلمی صنعت کے شہنشاہِ جذبات، مشہور و مقبول اداکار و فلمساز آج 7/جولائی 2021ء کی صبح بعمر 98 سال ممبئی میں انتقال کر گئے۔
ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے تعزیتی ٹوئٹ میں لکھا کہ:
دلیپ کمار جی کو سینما کی ایک افسانوی علامت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ دلیپ کمار کو اپنے کام اور صلاحیتوں کی وجہ سے ایک خصوصی مقام حاصل تھا اور انہوں نے اپنی منفرد اداکاری سے نسل در نسل ناظرین کے دل جیتے۔ ان کا انتقال ہماری ثقافتی دنیا کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ ان کے انتقال پر میں ان کے اہل خانہ، دوستوں اور ان گنت مداحوں سے تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔
اسی طرح پڑوسی ملک پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اپنے تعزیتی ٹوئٹ میں لکھا:
دلیپ کمار کی رحلت پر رنجیدہ ہوں۔ شوکت خانم اسپتال کی تعمیر کے منصوبےکا آغازکیا گیا تو عطیات جمع کرنے کیلئے انہوں نے نہایت سخاوت سے وقت دیا جسےمیں کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ یہ پہلے دس (10) فیصد عطیات جمع کرنےکا کٹھن مرحلہ تھا چنانچہ لندن و پاکستان میں ان کی رونمائی یہ خطیر رقم جمع کرنے میں معاون ثابت ہوئی۔ اس سب کے سوا، دلیپ کمار میری نسل کے لئے سب سے عظیم اور ہر فن مولا اداکار تھے۔

ذیل میں خود دلیپ کمار کی زبانی بیان کردہ ان کی خودنوشت سعید احمد کی کتاب "دلیپ کمار - عہدنامۂ محبت" کے حوالے سے پیش ہے۔

دیکھیں جی! میں تیسری دہائی کے شروع میں پشاور کے عام گھرانے میں پیدا ہوا۔ ہمارے ہاں بہت غربت یا بہت زیادہ خوشحالی نہیں تھی۔ وہ زمانے رشتوں کی باریکیاں ڈھونڈنے کے نہیں تھے۔ مروتیں اور محبتیں نہھانے کے زمانے تھے۔ محلہ کے بزرگوں کا ہی نہیں شہر بھر کے بزرگوں کا احترام ایسے ہی کیا جاتا تھا جیسے خون کے رشتوں کا اور اسی طرح بڑے لوگ بھی شفقت کا تعلق نبھاتے تھے۔
اگرچہ پشاور میں میرا قیام اوائل عمر کے بھی مختصر عرصے کا تھا پھر بھی جائے پیدائش کے رشتے کی جڑیں بڑی گہری اور عزیز ترین ہوتی ہیں۔ اتنی دنیا دیکھنے کے بعد بھی اس مٹی کی مہک مجھے نہیں بھولتی۔ اتنے لوگوں کے ساتھ عمر بھر بِتانے کے باوجود مجھے اپنے سرحد کے سادہ لوگ، ان کی خوشیاں غم ، مسکراٹیں یاد آتی رہتی ہیں اور اگر اسے میری لفاظی نہ سمجھا جائے تو میں یہ کہوں گا کہ میں اپنی زندگی میں حاصل ہو نے والی نیک نامی، شہرت اور دولت کے باوجود اگر کبھی کوئی کسک اور کوئی کمی با تشنگی محسوس کرتا ہوں تو محض اس بات کی کہ کاش مجھے پشاور میں کچھ وقت گزارنے کے زیادہ مواقع مل جاتے۔ شاید یہ بھی ہوتا کہ اگر میں پشاور میں ہی رہتا تو آج یہ الفاظ نہ کہہ رہا ہوتا۔


اس وقت کے پشاور کو یاد کرتے وقت میری آنکھیں خلاؤں میں وہ کچھ ڈھونڈتی ہیں جو آج کل کے پشاور کو دیکھ کر نہیں ملتا۔ ویسے تو ہر شخص کو اپنا ماضی بڑا حسین لگتا ہے شاید اس لیے مجھے بھی پشاور شہر کا وہ ماحول ایک حسین ترین خواب کی صورت محسوس ہوتا ہے۔ ایک ایسا خواب جسے میں فرصت کے اوقات میں اکثر دیکھتا رہتا ہوں۔
پشاوریوں کے رہن سہن، رسم و رواج اور کھانے پینے کی جزئیات کو تو چھوڑیے صرف ان کی بنیادی چیز زبان دانی کا ہی ذکر کیا جائے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ آج کے پشاور میں بولی جانے والی ہندکو کا لب و لہجہ بیسویں صدی کے اوائل میں بولی جانے والی ہندکو سے مختلف تھا۔ ہم لوگ گھروں میں ذرا مختلف قسم کی ہندکو بولا کرتے تھے جو ہندکو یا پشاوری زبان تقریباً پچاس برس بعد مجھے پشاور جا کر سننے کو ملی ، وہ ہمارے وقتوں میں صرف بازاروں اور دکانوں میں بولی جاتی تھی۔ اسے ہم "ٹکسالی لہجہ" کہا کرتے تھے، اگرچہ لہجہ بھی اتنا ہی عزیز ہے جتنی میری اپنی ہندکو، مگر ہماری ہندکو اور تھی۔ ہمارے والد صاحب بڑی روانی سے پشتو اور فارسی بولتے تھے۔ میرے آباؤ اجداد کا تعلق غزنی (افغانستان) سے تھا۔ میں آج بھی پشتو پوری طرح سے سمجھ لیتا ہوں اور ٹوٹی بھوٹی بول بھی لیتا ہوں مگر لہجے میں روانی اور سلاست نہیں ہے۔


میرے والد اپنے پھلوں کے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے دور دراز کے علاقوں یعنی کوئٹہ، بمبئی اور کلکتہ جاتے رہتے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے محسوس کیا کہ کاروبار کو مکمل بمبئی منتقل کر دینے میں مالی فوائد زیادہ ہیں تو انہوں نے اپنے والد یعنی میرے دادا سے اپنے بال بچوں سمیت بمبئی میں مستقل سکونت کی اجازت چاہی۔ میرے دادا روایتی پٹھان تھے اور گھر کی خواتین کے باہر جانے کے سخت خلاف تھے۔ ان کے انکار پر والد صاحب اکیلے ہی بمبئی میں رہنے لگے مگر انہیں ہماری یاد بہت ستاتی تھی۔
ایک دن انہوں نے وہاں ایک پارسی بچے کو دیکھا ، اس میں انہیں میری شباہت دکھائی دی، بےتاب ہو کر انہوں نے اس بچے کو گود میں اٹھا لیا۔ اس بچے کی آیا یہ دیکھ کر گھبرا گئی اور چلانے لگی کہ پٹھان بچے کو اٹھائے لیے جا رہا ہے۔ والد صاحب نے اسے سمجھایا کہ انہیں ان کا اپنا بچہ یاد آ گیا تھا۔ یہ واقعہ جب دادا جان کو معلوم ہوا تو وہ موم ہو گئے اور والد صاحب کو بیوی بچے بمبئی لے جانے کی اجازت دے دی۔ ہمارے والد صاحب نے یہ محسوس کیا کہ کاروباری مصروفیت کی وجہ سے وہ بمبئی میں گھر میں بچوں کو زیادہ وقت نہیں دے سکتے تو انہوں نے ہم سب کو اپنے بڑے بیٹے نور محمد (جن کا 1991ء میں انتقال ہوا ہے) کے پاس دیولالی بھیج دیا۔ جہاں مجھے پہلے مسلم اسکول اور بعد میں کسی دوسرے سکول میں داخل کیا گیا۔


ایک دفعہ ہماری دادی پشاور سے ہمیں ملنے آئیں ، انہیں اپنے سب پوتوں سے پیار تھا مگر مجھ پر خاص مہربان تھیں۔ کہتے ہیں بچپن میں میرے بال بہت خوبصورت تھے۔ میری دادی کہا کرتی تھیں کہ یوسفے کے بال اتنے لمبے ہیں کہ اس کو کسی کی نظر لگ جائے گی۔ لہذا بال زیادہ لمبے ہونے سے پہلے میری دادی اکثر میرے بالوں کو کٹوا دیتیں۔ میں اسی بات سے بہت چڑتا کہ سب بچوں میں سے میری ہی ٹنڈ کیوں کی جاتی ہے؟ میری دادی بہت مذہبی خاتون تھیں وہ اکثر نماز روزہ میں مصروف رہتی تھیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دفعہ گرمیوں میں وہ دیولالی تشریف لائیں اور حسب معمول ایک کمرے میں بیٹھ کر قرآن شریف پڑھنا شروع کیا تو میں نے پلنگ کے نیچے چھپ کر گراموفون بجانا شروع کر دیا اور میری دادی سٹ پٹا گئیں اور زور زور سے قرآنی آیات کا ورد کر نے لگیں اور ماں کو کہنا شروع کر دیا کہ اس گھر میں جن بھوت بستے ہیں۔ میری ماں جو پہلے ہی ہم بچوں سے عاجز تھیں، نے مجھے پلنگ کے نیچے سے گھسیٹ کر باہر نکالا اور کہا کہ واقعی اس گھر میں ہر عمر کے جن بھوت بستے ہیں۔


بمبئی میں ہمارا قیام پہلے پہل گرافٹ مارکیٹ میں والد صاحب کے پھلوں کے اسٹور کے قریب ہی واقع پاٹکا مینشن میں تھا۔ پہلی دفعہ جب میرے دادا وہاں ہم سے ملنے آئے تو وہ آدمیوں کی بھیڑ ، ڈبل ڈیکر بسیں اور بلند و بالا عمارتیں دکھ کر گھبرا گئے اور میرے والد سے کہنے لگے کہ بیٹا تو نے بڑی سخت غلطی کی کہ ان معصوم بچوں کو اس شہر جنجال میں لے آیا۔ ان کا دل یہاں نہیں لگے گا اور بہتر یہی ہے کہ تو ان کو بھی واپس پشاور بھیج اور خود بھی آ جا۔
میری اسکول کی تعلیم بمبئی کے انجمن اسلامیہ اسکول میں مکمل ہوئی جبکہ کالج کا کچھ عرصہ ولسن کالج اور پھر خالصہ کالج میں گزارا۔ خالصہ کالج میں داخلہ لینے کی بڑی وجہ فٹ بال کا کھیل تھا۔ اس وقت خالصہ کالج کی فٹ بال ٹیم بڑی مشہور ہوا کرتی تھی۔ مجھے بھی فٹ بال کے اچھے کھلاڑیوں میں شمار کیا جانے لگا۔ میں نے کئی زونل اور بین الصوبائی میچوں میں بمبئی مسلم ینگ ٹیم کی نمائندگی بھی کی۔ کالج کے اساتذہ سے میں بڑا متاثر تھا اور میری خواہش تھی کہ میں بھی عملی زندگی میں تدریس کا پیشہ اختیار کروں گا۔ میرے اساتذہ میں سے پروفیسر سمیع الرحمان مرحوم ، ضیاء الدین صاحب ، وکیل صاحب ، نکہت صاحب ، عرفان صاحب اور مسٹر وستوی انجہانی میرے آئیڈیل تھے۔ زندگی میں آج میں جو بھی بول، پڑھ اور لکھ سکتا ہوں وہ انہی عظیم انسانوں کی تعلیم و تربیت کا ثمر ہے۔ کالج کے بے شمار دوستوں میں سے قابل سنگھ، ویت پوری، نسیم اور مقری سے ملنا آج بھی بڑا بھلا لگتا ہے۔


میں نے 1940ء میں انٹر سائنس کا امتحان خالصہ کالج سے پاس کیا۔ آگے پڑھنا چاہتا تھا مگر اس وقت والد صاحب کے کاروباری معاملات زیادہ بہتر نہیں رہے تھے۔ اتنے زیادہ بہن بھائیوں کی پرورش اور دن بدن بڑھتی ہوئی مہنگائی سے گھر کا ماحول متاثر ہونے لگا تھا۔ میرے ایک بھائی ایوب سرور بڑے پڑھے لکھے اور شاعر قسم کے آدمی تھے۔ ہمارے گھر کا سارا ماحول نہایت ادبی قسم کا تھا۔ ہم سب بہن بھائی اردو، انگریزی اور فارسی لٹریچر سے خاص نسبت رکھتے تھے۔ بھائی ایوب فالج گرنے کے بعد بستر پر محدود ہو کر رہ گئے تھے۔ ایسے میں مجھے تلاش روزگار کے سلسلوں میں بی۔اے کرنے کا خیال ذہن سے نکالنا پڑا۔
اور میں نے 36 روپے ماہوار پر پونا میں ایک کینٹین پر سٹور کیپری کی نوکری بھی کی۔ کینٹین پرکئی دفعہ وہاں آئے لوگوں کو میں چائے بھی پیش کیا کرتا تھا۔ اس کے بعد قسمت مجھے فلمی دنیا میں لے آئی۔ کس کس بات کا ذکر کروں۔ والد ین کی زندگی یعنی 1950ء تک کی بمبئی کا ذکر کرنا اچھا لگتا ہے۔ فلموں میں تو آ گیا تھا لیکن گھر کا یہ عالم تھا کہ میری ہمیشہ یہ کوشش رہتی کہ میرے نئے پیشے کی خبر والد صاحب کو نہ ہو کیونکہ انہیں فلموں سے سخت نفرت تھی اور اس زمانے کے روایتی مسلمانوں کی طرح وہ بھی کسی شریف خاندان کے لڑ کے کا فلم کے پیشے سے مسلک ہونا بڑا معیوب سمجھتے تھے، مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔


ہوا یوں کہ ایک دفعہ والد صاحب کوئٹہ اور چمن کاروبار کے سلسلے میں گئے ہوئے تھے تو ان کے بزنس کے لوگوں لالہ گو پال داس اور حاجی فقیر محمد نے مجبور کیا کہ تفریح کے طور پر سینما میں فلم "میلہ" دیکھی جائے۔ مجھے والد صاحب کے دوست مرحوم فقیر محمد نے بعد میں بتایا کہ آغا غلام سرور بڑی دلچسپی سے فلم دیکھتے رہے مگر فلم کے آخری سین پر آبدیدہ ہو گئے، جہاں میں مرتا ہوں۔ وہ بمبئی واپسی تک بڑے گم سم رہے۔ والد صاحب جب گھر آئے تو انہوں نے ماں سے خلاف توقع میری خیر خیریت پوچھی۔ اتفاق سے میں دوسرے کمرے میں تھا۔ انہوں نے مجھے بلایا اور میں سمجھ گیا کہ کوئی نہ کوئی شامت آئی ہے۔ سر جھکائے ان کے سامنے کھڑا ہوا تو کہنے لگے:
"یوسف جان میں نے تمہاری فلم 'میلہ' دیکھی ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ تجھے اس لڑکی سے بہت پیار ہے۔ وہ لڑکی کون ہے؟ اس کے ماں باپ کیسے ہیں؟ تجھے پسند ہے تو اس کو لے آ ، میں تمہاری شادی کرواتا ہوں"۔
میں ڈر کے مارے چپ کھڑا رہا۔ وہ کہنے لگے کہ : پٹھان کا بچہ ہو کر بھی تو بے غیرتوں کی طرح منہ چھپائے کیوں کھڑا ہے۔ اگر تم میں ہمت نہیں تو میں اسے اٹھا لاتا ہوں اور تمہارا نکاح اس سے کروا دیتا ہوں۔
میں نے ڈرتے ڈرتے کہا: آغاجی۔ وہ تو صرف اداکاری تھی، سچ نہیں تھا۔ کہنے لگے: تو پھر روتے کیوں تھے؟ عرض کیا کہ ڈائریکٹر کے کہنے پر۔ فرمایا کہ: اگر اتنے اچھے اداکار ہو تو اب مجھے رو کر یا ہنس کر دکھاؤ۔ میرے جواب نہ دینے پر غصے سے بولے کہ ڈائریکٹر کے کہنے پر روتے ہو اور اپنے باپ کے کہنے پر نہیں!


نصف صدی سے زیادہ کے قیام بمبئی کی ذاتی اور فلمی زندگی کی لاتعداد خوشگوار اور کچھ دھیمی یادیں ہیں جنہیں سنانے کے لیے بھی ایک عمر چاہیے۔ پل بھر میں نہیں!
میں واقعی اپنے آپ کو بڑا خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ اشوک کمار، موتی لال اور پرتھوی راج جیسے منجھے ہوئے آرٹسٹوں کا ساتھ میری کئی فلموں میں رہا اور آج کے بعض خوبصورت کام کرنے والے بھی میرے ساتھی فنکاروں میں شامل ہیں۔ ویسے تو سبھی اپنی جگہ بڑے اہم اور کچھ کر دکھانے والے اداکار ہیں لیکن مجھے ذاتی طور پر جس آرٹسٹ کے ساتھ فلم میں اداکاری کرنے کا شوق اور خواہش ہے وہ ہے "جیا بہادری"۔
اکثر لوگ مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کسی ایک اداکار کا نام بتاؤں جو ہر دور میں میرا فیورٹ رہا ہو۔ اس سوال کا جواب شاید اس وقت ممکن تھا جب میں بیس برس کا تھا۔ اس وقت شاید میری پسند کسی ایک مخصوص فرد کے بارے میں ہوتی لیکن آج عمر رواں کے پچاس برس رنگ، سائے اور آواز کی دنیا میں گزار کر یہ کہنا بڑا مشکل لگتا ہے کہ میرا صرف ایک پسندیدہ آرٹسٹ "فلاں" ہے۔ جیسے آپ غالب یا اقبال کے ہر شعر کو بوجوہ پسند نہیں کر سکتے ویسے ہی کسی بڑے آرٹسٹ کو مکمل طور اپنا فیورٹ قرار دینا میرے لیے ممکن نہیں۔ بعض اوقات نسبتاً غیر معروف اداکار بھی اپنے چھوٹے سے رول میں ہی اداکاری کی اس معراج تک پہنچتا نظر آتا ہے جہاں بڑے سے بڑا آرٹسٹ تیس چالیس برس گزارنے کے بعد بھی نہیں پہنچ پاتا۔ ویسے ذاتی طور پر مجھے ہالی ووڈ کے گیری کوپر ، پال میونی ، جیمز سٹیورٹ نے متاثر کیا ہے۔ ہندوستان میں اشوک کمار، موتی لال، نلنی حیونت ، امتیابھ ، جیہ بہادری اور انوپم کھیر اچھے لگے ہیں۔


میں نے ہر دور میں مختلف موضوعات پر بنائی گئی فلموں میں کام کیا ہے۔ ابتدائی دور میں جہاں آپ کو میری رومانی اور سوشل قسم کی فلمیں جیسے پریتما ، گھر کی عزت اور جگنو دیکھنے کو ملیں گی وہیں اس دور میں آپ کو میری ایسی فلمیں بھی مل سکتی ہیں جنہیں آج آرٹ فلمیں کہا جاتا ہے۔ میری مراد فلم جوگن ، مسافر اور شکست سے ہے۔
میرے فلم کیریئر کے درمیانی عرصے میں بھی اگر کہیں "آن" کے بعد آزاد ، کوہ نور اور مغل اعظم جیسی کاسٹیوم فلمیں بن رہی تھیں تو دوسری طرف دیوداس، گنگا جمنا اور پیغام جیسی بامقصد فلمیں بھی ریلیز ہوئیں۔
1970ء کے بعد کا دور ساری دنیا کی فیچر فلموں کے لیے ڈرگ مافیا اور مافوق الفطرت عناصر کو یکجا کر کے تفریح پیدا کرنے کی کوشش کا دور تھا۔ بعض فلمیں یعنی "آگ کا دریا" اور "کالنگا" زیادہ تو نہیں تھوڑی سی مختلف ضرور ہوں گی اور شاید آپ کو پسند بھی آئیں۔


جہاں تک آج نصیر الدین شاہ ، اوم پوری اور انوپم کھیر جیسے اداکاروں کی چند اچھی فلموں کا معاملہ ہے، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ تمام بڑے عمدہ اور نیچرل اداکار میں لیکن ان کا فلموں میں داخلہ بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں ہے جبکہ میری 'عمر گزری ہے اس دشت کی سیاحی میں'۔ لہذا میرا اسلوب اداکاری اور امیج مختلف ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میں ان لوگوں سے بڑا اداکار ہوں۔ کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ لوگ اپنے ڈھنگ کی فلموں میں کام کرتے ہیں اور خوب کرتے ہیں اور میں کوشش کرتا ہوں کہ چالیس کی دہائی سے قائم ہوئے اپنے امیج کو ساتھ لے کر مختلف قسم کے کردار ادا کروں۔ آرٹ فلمیں کم بجٹ سے بنتی ہیں جبکہ فیچر فلم کا کمرشل پہلو ہر فلم ساز کے لیے مقدم ہوتا ہے۔ وہ میرے جیسے بڑے نام کو لے کر تجرباتی فلم بنانے کا رسک نہیں لے سکتے۔
ہاں ! خدا نے مجھے موقع دیا اور کوئی ایسی کہانی میرے سامنے لائی گئی جو میرے تصور آرٹ سے مشابہ ہوئی تو میں بھی ایسا کردار ضرور کروں گا۔ اس طرح آئندہ کسی فلم میں ادھیڑ عمر سوشل آدمی کا کردار بھی کر سکتا ہوں۔


جو کچھ بھی کرنا چاہتا ہوں اس میں سے بہت کم کرنے کو ملا ہے۔ دراصل ایک اداکار کے پاس وہ سہولتیں نہیں ہوتیں جو ایک شاعر، ادیب یا مصور کے پاس ہوتی ہیں۔ ایک ادیب یا شاعر اپنے اسلوب اور اپنی تحریر کے جادو سے زندگی کے ہر پہلو کو بہت آسانی کے ساتھ اجاگر کر سکتا ہے۔ ایک مصور ایک ہی منظر کی مختلف زاویوں سے تصویر کشی کرنے پر قادر ہے۔ وہ ایک معمولی سے چہرے کے جذبات کی عکاسی برش کی ایک چھوٹی سی جنبش سے کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ ہاں یہ ضروری نہیں کہ اس کی یہ تصویر شاہکار ہو، پھر بھی وہ اپنے برش اور رنگوں کی مدد سے دیکھنے والے کے ذہن پر ایک انمٹ نقش چھوڑ دیتا ہے۔ لیکن ایک اداکار کا ہر نقش مکمل یہ بھی ضروری نہیں۔ ہاں ، اس کے کام میں سنجیدگی اور لگن کو ضرور پہچانا جا سکتا ہے۔


جہاں تک شہرت ، کامیابی اور دولت کا تعلق ہے تو ان سے ایک اور بڑی اور قیمتی چیز ہے۔ اور وہ ہے اپنے آپ کو پہچاننے کی صلاحیت ، اپی شناخت کی قوت ، دیانتداری سے اپنا تجزیہ۔ اکثر مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے میں سمندر کے کنارے بیٹھا ایک چھوٹا سا معصوم بچہ ہوں ، ایسا بھولا بھالا بچہ جو سمندر کے کنارے بکھرے موتی ،خوش رنگ پتھر اور رنگ برنگ سپیاں چن رہا ہو۔۔۔ اور کبھی شاداب وادیاں سرسبز کوہسار یا وسیع میدانوں میں آہستہ خرامی سے بہتے دریاؤں کا سکوت میرے اندر ایک ہلچل سی پیدا کر دیتا ہے۔ اتنی وسیع کائنات کے سینے پر فطرت کے یہ پیش بہا کھیل جب ان گنت سوال بن کر میرے ذہن میں ابھرتے ہیں تو اپنی کم مائیگی یا کم علمی کا احساس مجھے روندنے لگتا ہے اور تب مجھے اپنی شہرت ، دولت ، بلندی اور کامیابی کے سارے قصے، دانائی اور علم کی تمام اسناد کے سامنے حقیر سے لگتے ہیں۔


یہ مجھ پر اللہ تعالی کا خاص احسان اور اس کی کرم نوازی ہے کہ مجھے اتنے چاہئے والے ملے کہ انہوں نے ہمیشہ مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھا۔ جوانی کا دور کسے اچھانہیں لگتا، مگر جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو اس حوالے سے آج کے پرستاروں کی محبت زیادہ مفید لگتی ہے کہ یہ عقیدت اور احترام کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ جبکہ پہلے دور کی مقبولیت اس وقت تو بہت اچھی لگتی تھی لیکن آج محسوس ہوتا ہے کہ اس میں ہیرو ورشپ اور آئیڈیلزم تو شاید بہت تھا، ادب لحاظ اور احترام کا وہ جذبہ نہیں تھا جو اس عمر میں آ کر مجھے اپنے پرستاروں سے ملا ہے۔



***
ماخوذ از کتاب: دلیپ کمار - عہدنامۂ محبت (مصنف: سعید احمد۔ پبلشر: بیگم ریحانہ اندرے، ممبئی)۔

Dilip Kumar's story by himself.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں