میری فلموں سے خون نہیں ٹپکتا - گلزار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-03-13

میری فلموں سے خون نہیں ٹپکتا - گلزار

گلزار طرح طرح کی صلاحیتوں کا خزانہ ہے ، محنت میں وہ چیونٹی کو مات دے سکتا ہے، صبر میں کسی رشی منی کو۔ اپنے وقت کو اس نے کئی خانوں میں بانٹ رکھا ہے۔ وہ کمرشل چاٹ کی ڈائریکشن دیتا ہے اور اس کے ساتھ فنانس کی جستجو میں بھی رہتا ہے۔ وہ بھی اس شرط پر کہ اسے پوری آزادی حاصل رہے اور جیسی فلم وہ بنانا چاہتا ہے ویسی ہی بنائے۔ اس کی کچھ کمرشل فلموں نے دولت کے ڈھیر بھی بٹورے ہیں، لیکن اس کے ساتھ کچھ ذہنوں میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کہیں وہ کمرشل بھول بھلیاں میں کھو کر فن کی سدھ بدھ تو نہیں گنوا بیٹھا ہے؟

اس وقت (سن 1988ء) گلزار کی دو فلمیں، 'اجازت' اور 'لباس' ریلیز ہونے کے انتظار میں ہیں اور وہ لتا منگیشکر کی فلم "لیکن" اور اپنا پہلا ٹی وی سیریل "غالب" بنانے میں مصروف ہے۔

گلزار کے خاندانی پس منظر میں فن کی جھلک دور دور تک نظر نہیں آتی، اس کا گھرانا بیوپاریوں کا گھرانا تھا۔ مگر گلزار کو تجارت میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ نتیجہ وہی ہوا جو ہونا تھا۔ گھر والوں نے اسے نکما قرار دے ڈالا۔ وہ شاعری کرتا تو گھر والے کہتے کہ کیا بے کار کا روگ پالا ہے۔ انہوں نے اسے 'سدھارنے' کی بہت کوشش کی مگر وہ کس طرح سیدھے راستے پر نہ آیا۔ تھک ہار کر انہوں نے اسے بمبئی بھیج دیا، جہاں اس کے بھائی کا کچھ کاروبار تھا۔ ان کا خیال تھا کہ دہلی کی ناگوار اور ناقابل برداشت صحبت سے دور ہو جانے پر وہ ضرور 'سدھر' جائے گا۔

میرے سوالوں کے جواب میں گلزار نے ان بیتے ہوئے دنوں کی یادیں تازہ کرتے ہوئے اور بھی بہت کچھ بتایا۔ وہ تو کہئے ، اس کی مصروفیت آڑے آ گئی، نہیں تو یہ مزہ دار کہانی بہت زیادہ لمبی ہو سکتی تھی۔

سوال:
آپ کے ادبی شوق اور مشغلوں پر آپ کے گھر والوں کو اعتراض کیوں تھا؟
گلزار:
ان کی نظر میں شعر و شاعری ، لٹریچر، نظمیں، سب فضول چیزیں تھیں۔ ان سب کو وہ حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا: یہ سب بے کاروں کے مشغلے ہیں۔ ان سے حاصل کیا ہوتا ہے؟ مشاعروں میں کلام پڑھنے یا ادبی محفلوں میں نظمیں سنانے سے کنگالی کے سوا کیا ہاتھ لگے گا؟ مگر وہ جو کہتے ہیں کہ پابندیوں سے اپج کو اور بھی بڑھاوا ملتا ہے ، وہی میرا حال تھا۔ ویسے ادب کے سلسلے میں میرے پاس نہ زیادہ علم تھا ، نہ مہارت۔ لیکن خالی ٹیکنیکی مہارت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو، کسی کو بڑا ادیب نہیں بنا سکتی۔ ادیب کو تو زندگی راہ دکھاتی ہے، زندگی کے بارے میں اس کا اپنا تصور، اس کا اپنا خواب راہ دکھاتا ہے۔
خوش قسمتی سے یہ سرمایہ میرے پاس تھا ، جو کچھ میں لکھتا تھا ، لاشعور سے از خود ابھر ابھر کر آتا ہے۔ خوف اس کائنات کی بنیاد ہے۔ وجود کے بے معنی اور بے مقصد ہونے کا احساس دل میں جو سہمی سہمی سی کیفیت پیدا کرتا ہے ، وہ ساری کائنات کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ کچھ لوگ پناہ کی خاطر کسی ایسے فلسفے کے سائبان میں چھپ جاتے ہیں جو انہیں ورثے میں ملا ہو۔ وہ اس فلسفے کو ایک سچائی، ایک حقیقت مان لیتے ہیں۔ لیکن اگر جنت صرف خیالی اڑان کا نام ہے تو ہم سب ایک صحرا میں بے مقصد بھٹک رہے ہیں، چاہے ہم کتنے ہی کارنامے کر گزریں، کسی کو بھی اپنا آدرش ٹھہرا لیں، کچھ بھی اپنی منزل کے طور پر مان کر موت کی طرف بڑھتے رہیں۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ بازی کے سارے پتے ہمارے خلاف ہیں، مات ہمارا مقدر ہے۔ جیت اگر ہے تو صرف اس حد تک کہ ہم اس صورت حال کو کس انداز سے قبول کرتے ہیں؟

سوال:
تو گھر والوں نے آپ کے ادبی میلانات کو خبط قرار دے کر بمبئی بھیج دیا، پھر یہاں آنے کے بعد آپ پر کیا بیتی؟
گلزار:
پڑھائی میں لگا رہا۔ مگر انٹر پاس نہ کر سکا۔ تاہم میں نے یہ بات کسی کو بتائی نہیں۔ بلکہ گھر والوں کو یہ باور کرانے کے لئے کہ میں پاس ہو گیا ہوں، میں نے مٹھائی بھی بانٹی۔ یہ 1950ء کی دہائی کے شروع کی بات ہے، کہ میں گھر سے نکل کھڑا ہوا اور بمبئی میں ورسوا میں ایک دوست کے یہاں رہنے لگا، اس کے ساتھ ہی میری زندگی میں جدوجہد کا دور شروع ہو گیا۔ ورسوا ان دنوں ایک بیابان جنگل کا نام تھا۔

سوال:
ان دنوں آپ کو راستہ کون دکھاتا تھا؟ فیصلے کرنے میں مدد کون دیتا تھا؟
گلزار:
میرا اپنا وجود۔ میں ہمیشہ سے جیتنے کے حق میں رہا ہوں۔ جیتنے والے کا طرفدار رہا ہوں۔ لیکن اس کے ساتھ میرے دل میں ان لوگوں کے لئے ہمدردی اور محبت بھی ہے ، جو جیتنے کے لئے بنے ہی نہیں ہیں، جو کھو جاتے ہیں، ہار جاتے ہیں، جو اس جنگل کے لئے اجنبی ہیں جسے دنیا کہا جاتا ہے ، جو سب سے الگ ہیں یا کسی پہیلی کی طرح مشکل ہیں، یا بے حد حساس، بے حد نازک روحیں، یا جنہیں جنگل کے لئے درکار پنجے اور ناخن اور دانت نہیں ملے ہیں۔
میں ہمیشہ ایک ہی مشترک کیفیت سے۔۔۔ تنہائی سے بولتا رہا۔ میری ہمیشہ یہی آرزو رہی کہ اپنی تنہائی کی ماری ذات کے خول کو توڑ کر باہر نکلوں، کسی دوسرے کو چھو کر، اس کے دل میں اتر کر دیکھوں۔ بعد کے برسوں میں مینا کماری کے ساتھ میرا یہی رشتہ رہا۔ میرا خیال ہے جہنم ہر اس شخص کا مقدر ہے جو دوسروں سے مکمل بے پروائی اور بے نیازی برتے۔ میں مینا جی کا ہو کر رہ گیا۔ ان کے ساتھ بیتا ہوا وقت میرے لئے اپنی ذات کے حصار کو توڑ کر آزادانہ اڑان بھرنے کا وقت تھا۔ ایسی صورت میں آدمی اپنی ہستی کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیتا ہے اور دوسرے کے احساسات کو پوری شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہے۔

سوال:
فلم کار کے طور پر آپ کیسے آگے بڑھے؟
گلزار
میں انجمن ترقی پسند مصنفین میں شامل ہو گیا۔ وہاں مجھ پر کرشن چندر ، علی سردار جعفری اور کیفی اعظمی کا بہت گہرا اثر پڑا۔ کیفی صاحب خاص طور سے، سب ہی ابھرتے ہوئے نوجوان ادیبوں کی سرپرستی کرتے تھے۔ میرے لئے وہ دور بے پناہ اندرونی کشمکش کا دور تھا۔ میری پرورش اخلاقی جکڑ بند کی دھجیاں اڑانے پر تلا رہتا ہے۔ چونکانے میں مجھے لطف آتا تھا۔ صدمہ پہنچانے میں مجھے خوشی ملتی تھی۔ شاید یہ میلان میرے مزاج، میری سرشت میں شامل تھا ، جی یہی چاہتا تھا کہ 'ان' پر کسی بھی طرح۔۔۔ کسی بھی شے سے وار کرو۔ اور "ان" میں شامل تھا، سارا درمیانی طبقہ جو خود فریبی کی دھند میں لپٹا رہتا ہے اور اپنے بنیادی محرکات کا سامنا کرنے سے دامن بچاتا ہے۔

سوال:
آپ نے فلموں کو میڈیم کے طور پر کیوں چنا؟
گلزار:
بنیادی طور پر تو یہ صرف جینے اور باقی رہنے کا مسئلہ تھا۔ اردو ادیبوں کو عموماً برائے نام ہی معاوضہ ملتا ہے۔ پھر ان دنوں تو ایک زبان کی حیثیت سے اردو کا اور بھی برا حال ہو رہا تھا اور مجھے بہرطور بھوک اور فاقے کو اپنے در سے دور رکھنا تھا۔ خوش قسمتی سے فلم انڈسٹری میں میرے کچھ دوست موجود تھے۔ ان میں سے کچھ سے تو بہت پرانی دوستی تھی، جیسے باسو بھٹاچاریہ، رگھوناتھ جھلانی اور دیبو سین سے۔ شلیندر سے بھی دوستانہ مراسم تھے۔ ان کے علاوہ بمل رائے گروپ، سلیل چودھری اور دوسروں سے بھی خاصی جان پہچان تھی۔ اس لئے فلموں نے اپنی طرف کھینچ لیا اور میں 1961ء میں بمل دا کے ساتھ ہو لیا۔
بمل دا کے لئے میرا پہلا گیت "میرا گورا انگ لئی لے" تھا، اس سے پہلے میں وشواس موٹرز نام کے گیریج میں میکنک کا کام کیا کرتا تھا اور کاروں کی مرمت، رنگ و روغن وغیرہ میں اپنا ہنر دکھاتا تھا۔ یہ تھی اردو ادیبوں کی حالت!
خیر، بمل دا کے گروپ میں شامل ہونے کے بعد ایس ڈی برمن سے میری جان پہچان ہوئی، ان دنوں میں ایک بنگلے کے آؤٹ ہاؤس ملازموں کے رہنے کے لئے بنے ہوئے کوارٹر میں رہتا تھا۔ یہ بنگلہ کرشن چندر نے لے رکھا تھا۔ بمل دا نے اسی زمانے میں فلم "اس نے کہا تھا" مکمل کی تھی اور وہ "کابلی والا" شروع کرنے والے تھے۔ میں ان کا اسسٹنٹ بن گیا۔ تنخواہ 250 روپے ماہانہ تھی۔ بمل دا مالی دشواریوں میں پھنسے ہوئے تھے۔ عوام کا ذوق بدل جانے کے باعث ان کی فلمیں کامیاب نہیں ہو رہی تھیں۔ یہاں تک کہ "کابلی والا" بھی ناکامی سے دوچار ہوئی۔ اس کے بعد "پریم پتر" اور "بندنی" کا بھی یہی حشر ہوا۔ بمل دا کا دل بجھ کر رہ گیا اور انہوں نے یونٹ ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ہم سب کو بہت صدمہ ہوا ، ان کے بینر کو قائم رکھنے کے لئے ہم نے تہیہ کر لیا کہ ان کے لئے بلا معاوضہ کام کریں گے۔ اس طرح "سہارا" شروع ہو گئی، مگر پھر بمل کو بیماری نے آ گھیرا اور سہارا رشی کیش مکرجی نے مکمل کی۔ اب اس کا نام بدل کر "چیتالی" رکھ دیا گیا تھا۔ "چیتالی" کے بعد ہم نے "دو دونی چار" شروع کی۔ اس کے ڈائریکٹر دیبو سین تھے۔ یہ فلم اسی وقت مکمل ہو سکی جب یونائیٹیڈ پروڈیوسرس گروپ وجود میں آگیا۔ اس فلم کے لئے میں نے اسکرپٹ بھی لکھا تھا، مکالمے بھی اور گیت بھی۔ مگر فلم اطمینان بخش نہ بنی۔ ان ہی دنوں مجھ پر ڈائریکشن کی دھن سوار ہو گئی۔ میگا فون سنبھالنے کا پہلا موقع مجھے فلم "میرے اپنے" کے ذریعہ ملا۔
یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
دوسرا کوئی سخی کہاں - میگھنا گلزار

سوال:
کیا آج کل فلموں کا معیار بہت پست نہیں ہو گیا ہے؟
گلزار:
ہوا تو ہے ، آج کل کی فلموں میں فن کارانہ اظہار کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے ، تاثر کی بھی کمی ہوتی ہے۔ بندھے ٹکے راستے پر چلتے چلتے ہمارا سنیما پتھر کی طرح جامد اور بے اثر بننے کے خطرے سے دوچار ہے۔ آرٹ ہماری فلموں میں عموماً شامل ہی نہیں ہوتا۔ آج کی فلمیں صرف تڑک بھڑک اور بھونڈی سجاوٹ ہیں۔ کچھ احمقانہ ہنسی مذاق، کچھ جسم کی رعنائیوں میں تاک جھانک اور بس! وہ فن کارانہ توازن کہیں نہیں جو زندگی میں ہے، انسانی رشتوں میں ہے، محبت میں ہے۔

سوال:
پھر آپ کے خیال میں کس طرح کی فلمیں بننی چاہئیں؟
گلزار:
آج یہ ضروری ہے کہ کچھ اور ہی باتیں فلمائی جائیں، کسی اور ہی رنگ میں فلمائی جائیں۔ ان تمام اسٹوڈیو سے دامن بچایا جائے جو قیمتی ہیں، بے قرینہ ہیں، صحت کے لئے مضر ہیں۔ برقی روشنیوں کے مقابلے میں دھوپ کہیں زیادہ سستی ہے۔ ایک ادھار مانگا ہوا کیمرہ ہو ، ایک دوست کا فلیٹ ہو، رولز ادا کرنے کے لئے دوستوں کا جھرمٹ ہو، اور سب سے بڑھ کر سنیما کے لئے جنون ہو۔ ایسا جنون جو مستقبل کی راہ میں کھڑی ہوئی ساری رکاوٹوں کو ملیا میٹ کر دے۔
یہ محض جواب نہیں ہے ، نیت اور ارادے کا انقلاب شروع بھی ہو چکا ہے۔ آج ہم پرانے لیبلوں پر روایتی موضوعات پر بھروسا نہیں کر سکتے۔ ہمیں فلم کو اپنی ذات کے اظہار کا وسیلہ بنانا ہے۔ ایسے اظہار کے لئے ہمیں پوری طرح آزاد رہنا ہے۔۔۔ ہر میصبت ہر جھکاؤ سے آزاد، ٹیکنک کی پرانی جکڑ بند سے آزاد ، ہر شے سے آزاد، صرف ہمارے حوصلے اونچے رہیں، نیت میں فن کے لئے مکمل خلوص ہو اور جنون کی حد کو چھوتا ہوا عزم۔

سوال:
اگر واقعی ایسا انقلاب شروع ہو چکا ہے تو پھر آپ کی فلموں 'اجازت' اور 'لباس' کو خریدار کیوں نہیں ملتے؟
گلزار:
کیوں کہ کچھ گمراہ لوگ مجھے عشق کا مارا سودائی سمجھ بیٹھے ہیں۔ میری فلموں سے خون نہیں ٹپکتا ، ان میں مار دھاڑ اور تشدد کی ریل پیل نہیں ہوتی، بناوٹی جذبوں کی نمائش نہیں ہوتی۔ مجھے تو اپنی فلموں میں وہ شے رچانے کی آرزو ہوتی ہے جو ڈرامے کا دل ہے، اس کی روح ہے ، یعنی جذبوں کی طوفانی شدت۔ پھر میں خیالات اور تصورات کی تشکیل جس باریک بینی اور ہوشیاری کے ساتھ کرتا ہوں، کچھ آوازیں اس کی مخالفت میں بھی سنائی دیتی ہیں۔ میں کاروباری اعتبار سے اس لئے کم کامیاب رہتا ہوں کہ میں ڈرامے میں خیالات پیش کرتا ہوں اور ان خیالات سے جذبے کی طوفانی شدت کو نچوڑ کر ان کو بے روح نہیں بناتا۔
مجھے یقین ہے کہ میں نے ہندوستانی فلموں میں ایسے کردار سموئے ہیں جن کا زندگی کی گرمی سے بھرا ہوا وجود تماشائیوں کی یادوں کی حویلی میں مدتوں رواں دواں رہے گا۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے مکالموں میں بھی ایسا اشاراتی راگ ہو جو سمجھ میں بھی آئے اور روز مرہ کی بات چیت کے بے رس، بے ربط آہنگ سے دور بھی رہے۔ کبھی یہ مکالمے گرما گرم، بیانیہ، قیامت کو اپنے دامن میں چھپائے ہوئے ہیں، کبھی پت جھڑ کے راگ کی طرح الم ناک ہیں۔ میں ایسے کرداروں کا قائل نہیں جو ارادی طور پر خود کو تباہ کرنے پر تلے رہیں۔ میرے کردار مایویس کی دھند میں اور اس کے پار جینے کی امنگ سے سرشار رہتے ہیں۔

سوال:
لیکن کیا ناکامی سے آپ کو کبھی ڈر نہیں لگتا؟
گلزار:
کبھی کبھی یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ میں سب سے کٹ کر اکیلارہ گیا ہوں لیکن میں اپنی روش نہیں بدل سکتا۔
بچکانہ قسم کی فلمیں بنانا میرے لئے ممکن ہی نہیں ہے۔
میرے کرداروں کو ہر حال میں رویوں پر وار کرنا ہے ، جذبے کو صحیح رنگوں پر دھاوا بولنا ہے، میری علامتوں کو بہر طور پھولوں پر منڈلاتی ہوئی مکھیوں کی طرح گنتی میں بڑھتے جانا ہے اور ان ہی کی طرح اس عمل میں ہوش سے کام نہیں لینا ہے۔
میرا آرٹ اندر کی دنیا میں جھانکتا ہے ، خود آرٹسٹ کی انا کا جائزہ لیتا ہے۔ اس حد تک کہ سارا منظر فریب نظر یا خواب یا گڈمڈ تصورات کی دنیا آباد کرتا دکھائی دے۔ میری کچھ ناکامیوں نے مجھے اپنے اندر جھانکنے کی راہ پر بھی لا کھڑا کیا ہے اور اگر میں اپنے ہی اندر سمٹ کر نہیں رہ گیا ہوں تو اس کا سبب وہ امنگ ہے جو ہر آن مجھے تماشائیوں سے قریب تر ہونے اور ان کے دلوں کو چھونے کے لئے اکساتی رہتی ہے اور اس طرح میں اپنی ذات سے باہر نکلنے کے چھپے ہوئے لمحہ کو پا لیتا ہوں۔

گلزار کے تحریرکردہ چند یادگار فلمی نغمے:
چل چھیاں چھیاں (فلم: دل سے-1998)
اٹھنی سی زندگی ۔۔ (فلم: جہاں تم لے چلو-1999)
سرمئی شام اس طرح آئے (فلم: لیکن-1990)
سانس لیتی ہوئی آنکھوں کو ذرا سونے دو (فلم: ستم-1982)
آپ کی آنکھوں میں کچھ مہکے ہوئے سے راز ہیں (فلم: گھر-1978)

***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"شمع" شمارہ: فروری 1988

Gulzar and his films, an interview from Feb.-1988 issue of Shama Magazine.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں