دوسرا کوئی سخی کہاں - میگھنا گلزار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-02-25

دوسرا کوئی سخی کہاں - میگھنا گلزار

ہمارے عہد کے معروف و مقبول ادیب/شاعر گلزار لکھتے ہیں:
ایک نظم کا مصرع کستے ہوئے
الفاظ کے جنگل میں گھس کر
مخصوص کوئی معنی جب توڑ کے لاتا ہوں
ہاتھوں پہ خراشیں پڑتی ہیں
اور انگلیاں چھل جاتی ہیں مگر
وہ لفظ زباں پہ رکھتے ہی
منہ میں اک رس گھل جاتا ہے!

راولپنڈی (پاکستان) کے جریدہ "چہار سو" نے جون-2012 میں گلزار پر خصوصی نمبر شائع کیا تھا۔
گلزار کی دختر میگھنا گلزار نے اپنی یادداشتوں کے ذریعے اپنے والد کی سوانح اپنی کتاب (سن اشاعت: 2004) "چونکہ وہ ہیں ۔۔۔" [Because he is…] میں بیان کیا تھا۔ اس کے ایک حصے کا ترجمہ اور تلخیص ف۔س۔اعجاز (کولکاتا) نے کیا ہے، جو "چہار سو" کے متذکرہ بالا شمارہ میں شائع کیا گیا۔
"چہار سو" (مدیر: گلزار جاوید) کے شکریے کے ساتھ یہاں پیش خدمت ہے۔

***
میں اپنے باپ کی ابتدائی زندگی کی چشم دید گواہ نہیں ہوں۔ وہ میرے لئے محض باپ نہیں بلکہ زندگی کا مستقل تجربہ رہے ہیں، طاقت اور جذباتی مدد کا ایک ستونِ بے زبان، میرے تخلیقی سر چشموں کا منبع تحریک اور ایک وراثت جس کے ساتھ میں ہمیشہ جینے کی کوشش کرتی رہوں گی۔
میں انہیں (اپنے پاپا کو) پاپی کہتی ہوں۔ پاپی کے سمبندھ سے میری سب سے مضبوط یاد یہ ہے کہ میں ان کے ستار کی جھنکار سے جاگ اٹھتی تھی۔ سنگیت اور آرٹ کے تئیں وہ ایک خاص جذبہ رکھتے ہیں۔ جب میں تقریباً سات سال کی تھی اس وقت وہ ستار سیکھتے تھے۔ تب وہ اپنی عمر کے پانچویں دہے میں رہے ہوں گے۔ ہمیشہ صبح تڑکے اٹھ جایا کرتے (اور اب بھی اٹھ جاتے ہیں ) سورج نکلنے سے پہلے !
وہ کہتے ہیں سورج کو شکست دینا دن شروع کرنے کا عظیم الشان طریقہ ہے۔ یہ سچ ہے کہ اپنے عقیدے کی خاطر انہوں نے مجھے کبھی نیند سے جگا کر پریشان نہیں کیا، میں خود ان کی ستار کی آواز سے اٹھ جاتی تھی۔ ان کی خواب گاہ سے متصل ان کی مطالعہ گاہ تھی جہاں وہ ستار بجایا کرتے تھے۔ میرا اپنا الگ کمرہ ہونے کے باوجود جب بھی میں ان کے ساتھ ان کے کمرے میں ہوتی وہیں سو جایا کرتی۔ جب آنکھ کھلتی اٹھ کر ان کے پاس چلی جاتی اور ان کے زانو پر سر رکھ کر دوبارہ سو جاتی۔ وہ ستار بجاتے رہتے۔ پھر میں اٹھ جاتی تاکہ اسکول کے لئے تیار ہو جاؤں۔ وہ جوتوں کے فیتے باندھنے میں میری مدد کرتے۔ میرے یونیفارم کی کمر کی گرہ لگاتے۔۔ دوہری گرہ، وہ بھی اپنے فن کارانہ انداز سے۔
اور پھر میرے بالوں کی مانگ، میری چوٹیاں تھیں، دس سال کی ہونے تک میرے بال شانوں تک آتے تھے۔ ہر صبح میں اپنی آیا سے حجت کرتی کہ میری دونوں چوٹیاں ایسے بنایا کر کہ دونوں نہ صرف میرے کانوں تک آئیں بلکہ برابر بھی ہوں۔ مجھے معلوم ہے میں کوئی آسان بچی نہیں تھی۔۔ ایک صبح پاپی نے ہمیشہ کے لئے میری ٹیڑھی چوٹیوں کا مسئلہ خود حل کرنے کی ٹھان لی۔ بڑے صبر سے انہوں نے میری مانگ نکال کر بالوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ پھر میری "ہدایت" کے مطابق انہوں نے ہر حصے کو تین حصوں میں بانٹا۔ درمیانی لٹ کو اپنی جگہ رکھتے ہوئے انہوں نے دائیں لٹ کو بائیں پر، پھر بائیں کو دائیں پر بٹنا شروع کر دیا۔ ظاہر ہے کہ دونوں چٹیاں پہلی بار میں وہ بھی برابر نہ کر سکے لیکن ٹھیک ہونے تک وہ یہ عمل دہراتے رہے۔
اب میں سمجھ سکتی ہوں کہ وہ اپنے سر ایک روایتی ماں کی ذمہ داریاں لینا شروع کر رہے تھے، اپنی بیٹی کے بال گوندھنا اور اس سے زیادہ اہم یہ کہ اس کام کو اپنی ہی بیٹی سے سیکھنے میں انہیں کوئی شرم یا عار نہ تھی۔
وہ ہمیشہ ایک مساوات پسند (Egalitarian) باپ رہے ہیں۔ کبھی مجھے جھڑکتے نہ تھے بلکہ ہمیشہ مجھ سے باتیں کرتے رہتے، حکم نہ دیتے بلکہ مشورہ دیاکرتے۔ اس کے باوجود انہوں نے میری اندر ڈسپلن اور عزت کا احساس پیدا کر دیا۔ یہ پرورش کا ایک انوکھا طریقہ تھا۔ ایک حالیہ انٹر ویو ہم نے ایک ساتھ دیا۔ باپ بیٹی کے رشتے پر انہوں نے ایک بات کہی، جس سے یہ سب کتنا واضح ہو گیا۔
انہوں نے کہا کہ والدین کا یہ فرض کر لینا غلط ہے کہ وہ اپ نے بچوں سے زیادہ سمجھتے یا جانتے ہیں۔ وہ حیاتیاتی طور پر اپنے بچے سے زیادہ بڑے ہو سکتے ہیں۔ لیکن اپنے والدین ہونے کے تجربے میں وہ بچے ہی کی عمر کے ہوتے ہیں۔ لہذا( ان کے فلسفے کے مطابق) اگر میں ان کی دو سالہ بیٹی تھی تو وہ میرے دو سالہ باپ تھے۔ وہ ایک باپ کی حیثیت سے اور میں ان کی بیٹی کے طور پر۔ چنانچہ وہ میری کنگھی چوٹی کرنے میں بڑی خوش محسوس کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں اس سے انہیں یاد آ جاتا تھا کہ کس طرح ان کی ماں ان کے بال گوندھ دیاکریا کرتی تھیں جب وہ کمسن تھے۔۔ ۔
کچھ ہی لوگ جانتے ہیں کہ "گلزار" کا پیدائشی نام سمپورن سنگھ کالرا تھا۔ وہ ایک سکھ خاندان میں سردار ماکھن سنگھ کالرا اور سوجان کور کے یہاں پیدا ہوئے اور ایک لڑکے کے طور پر سکھ روایت کے مطابق ان کے بال لمبے تھے۔ ان کے پتا یعنی میرے دادا ان کے کیس بنایا کرتے تھے کیونکہ پاپی کی ماں ان کی کمسنی میں ہی فوت ہو گئی تھیں۔
پاپی کو یاد نہیں ان کی ماں کیسی دکھتی تھیں۔ اس زمانے میں تصویر کشی کا چلن نہیں تھا، اس لئے ماں کا کوئی تصویری حوالہ بھی ان کے پاس نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ ایک رشتہ دار خا تون ننھے گلزار کو اپنی بانہوں میں لئے دینہ کے ایک بازار سے گزر رہی تھی تب اس نے کہا۔۔ دیکھ ایسی لگتی تھی تیری ماں۔
انہیں یاد ہے وہ چہرہ۔ وہ عورت مسکراتی تو اس کا ایک دانت سونے کا خول چڑھا نظر آیا تھا۔ اور اس وقت سے پاپی نے ہمیشہ یہی تصور کیا کہ ان کی ماں کا ایک دانت سونے کا تھا! حالانکہ بعد میں جب انہوں نے اپنی بری سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ماں کا کوئی دانت سونے کا نہ تھا۔
ان کی تاریخ پیدائش بھی ہمارے لئے دلچسپی کا باعث ہے۔ 18اگست1996ء کو ہم نے ان کا ساٹھواں جنم دن منایا۔ لیکن بعض جگہوں پر ان کا سال پیدائش1934ء درج ہے۔ لیکن دستاویزوں کے مطابق ان کی تاریخ پیدائش5ستمبر1934ء ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ یوم پیدائش منانا مغربی روایت ہے اس لئے بہت سارے لوگ اس کا ریکارڈ محفوظ نہیں رکھتے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کرانے کے لئے ان کی عمر بڑھا کر لکھوادیا کرتے تھے تاکہ قبل از وقت پنشن ملنی بھی شروع ہو جایا کرے۔ لیکن چونکہ میں اپنے پاپی کو ہمیشہ جوان تر دیکھنا چاہوں گی اس لیے میں ان کی تاریخ پیدائش18اگست1936ء ماننا پسند کروں گی۔
دہلی میں بستی پنجابیان، سبزی منڈی کا حصہ ہے۔ روشن آرا باغ ایک قتل گاہ بن گیا تھا جہاں مردوں کو رگید کر ان کے سر قلم کر دئے جاتے تھے اور انہیں نالے میں پھینک دیا جاتا تھا۔ عام آدمی آسمانی بلائیں اور قاتل بن گئے تھے، تلواریں اور چھریاں چمکاتے پھرتے تھے۔ میرے پتا کو یاد ہے ایک شخص سمندر سنگھ ایک مسلمان لڑکے کو کھینچ رہا تھا جو انہیں اسکول میں درس دعا دیا کرتا تھا۔ جب پوچھا گیا "سمندر سنگھ تم کہاں جا رہے ہو؟" اس نے پنجابی میں جواب دیا " اس کے ٹکڑے اڑانے " تھوڑی دیر بعد پاپی نے اسے ایک خون آلود تلوار کے ساتھ واپس آتے ہوئے دیکھا۔
پاپی کا ہمیشہ یہ خیال تھا کہ ان کے باپ موجود نہیں ہوتے تو پارٹیشن کے مہلک نظارے دیکھنے کے بعد وہ اور ان کے رشتے دار جنوبی ہو گئے ہوتے۔ دادا جی کے بہت سارے دوست مسلمان تھے اور فسادات کے دوران وہ سب ایک دوسرے کو تلاش کرتے اور ہر ممکنہ بلا اور نقصان سے بچاتے۔ رواداری کے اسی جذبے نے بچوں یعنی پاپی اور ان کے ماں جایوں کو انتہا پسند بننے سے بچالیا۔ پاپی کو یاد ہے کہ دادا جی کہا کرتے تھے "پرالے ( قیامت) آ گئی ہے۔۔ نکل جائے گی۔ "
جب "گرم ہوا " اور تمس" جیسے فلمیں بنیں انہیں راحت اور اطمینان کا احساس ہوا۔ ان زخموں کے نشان اب ظاہر ہو چکے تھے اور انہوں نے پاپی کو 1996ء میں "ماچس" بنانے پر مجبور کیا جو پنجاب میں دہشت گردی کی تحریک کے بارے میں ایک یادگار دستاویزی فلم تھی۔
ادبی دنیا سے بڑھتی ہوئی وابستگی کے ساتھ پاپی پینٹنگز کی نمائشوں اور ہندوستانی کلاسیکی سنگیت کے پروگراموں میں بھی جانے لگے تھے۔ فنون لطیفہ کے لئے یہ کشش ان کے اندر سے پیدا ہوئی تھی، خاندان یا بزرگوں کی دین نہ تھی۔ وہ کہتے ہیں "میرے اندر ایک تنہائی تھی جو مجھے بے چین رکھتی تھی۔ اس سے وہ پر ہو جاتی تھی۔ اگر آرٹ نے رہنمائی نہ کی ہوتی اور میرے جذبات کو استوار کرنے میں میری مدد نہ کی ہوتی تو میں پورے طور پر گمراہ ہوتا۔
پاپی ساہتیہ سبھا کے رکن بن گئے جہاں اکی دوستی گرویل سنگھ پنو، راجندر سنگھ بیدی، سکھ بیر، اداکار بلراج ساہنی وغیرہ سے ہوئی۔ پنجابی ساہتیہ سبھا کے ارکان کے طور پر ان لوگوں نے ایک ادبی جریدہ بھی پنجابی میں نکالنے کی کوشش کی جو چند سال تک "چیتنا" کے نام سے نکلا بھی جس کی ادارات ایس سورن کرتے تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ گرویل سنگھ پنوا جو ایک سکھ اور کٹر کمیونسٹ تھے، نے ہی ان کے لمبے بال اپنے ہاتھوں سے تراش دئے تھے کیونکہ وہ خود اپنے بال پہلے کاٹ چکے تھے۔ پاپی اس وقت تک بھی پگڑی باندھتے تھے۔
تایا جی نے پاپی کو سکھ دھرم خاندان کی مریادا اور روایات پر ایک مختصر لیکچر پلایا لیکن انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ یہ تو ہوہی نہیں سکتا تھا کہ یہح ضرت پہلے ہی سے خاندان کی "کالی بھیڑ" ہیں۔
گھر کے لوگ چاہتے تھے وہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹنٹ بنیں لیکن ان کے اندر کے ادیب کو روکا اور دبایا نہ جا سکا۔
ایک ادیب یا مصنف بننے کی ان کے اندر اتنی چاہ تھی کہ انہوں نے اپنے (S.S.Gulzar) کی ایک جعلی مہر بنوائی، اور موپاساں کی مختصر کہانیوں کے مجموعے کے سرورق پر اصل مصنف کے نام کی جگہ چھاپ کر یہ دیکھنا چاہا کہ میرا نام کیسا لگے گا۔ اب اتنی ڈھیر ساری کتابوں کے مصنف ہونے کے بعد بھی پاپی کے پاس وہ کتاب اب تک محفوظ نہیں۔
پاپی اس منفرو گے کو رد کرتے ہیں کہ ان کی بیشتر فلمیں سوانحی ہیں یا ان میں ان کی زندگی کے اس دور کی عکاسی ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں "ہر تخلیق کرداروں یا موضوع کے انتخاب کی رو سےا پنے خالق کو اجاگر کرتی ہے۔ کسی پینٹنگ کو لیجئے۔ اس کے رنگ، مرکزی خیال اس کے بنت سے مصور کے مزاج کا پتہ چلتا ہے۔ فلموں میں اس کے برعکس متوازی چزیں زیادہ نمایاں ہوتی ہیں کیونکہ فلم کرداروں، فریموں، روشنی، سنگیت وغیرہ کی یکجائی میں ایک زیادہ لفظی(Verbose) میڈیم ہے۔
پاپی کی تمام فلموں میں سب سے نمایاں سر انسانی رشتوں کی پیچیدگی اور نزاخت کا نظر آتا ہے۔ یہ رجحان ان میں غالباً اپنے گرد بملدا کی میں پیدا ہو گیا تھا۔ پاپی بمدلا کو بہت اچھی طرح یاد کرتے ہیں۔ وہ اور ان ساتھی ویبو سین، آرجھا لانی اور مک لدت بملدا کو میریڈیڈپرنٹ(Married Print) کہا کرتے تھے۔ فلمی اصطلاح میں جب تصویر اور آواز کے نگیٹو ایک دوسرے میں فیوز کر دئے جاتے ہیں تو جو پوزیٹو پرنٹ تیار ہوتا ہے اسے "میریڈپرنٹ" کہتے ہیں۔ بملدا کے معاونین میں یہ لطیفہ عام تھا کہ ان (بملدا) کی شادی فلموں سے ہوئی ہے۔
بملدا کے ساتھ پاپی کا وقت بہت واقعات سے پر تھا۔ کئی لوگوں سے ان کا رابطہ ہوا جن سے بعد میں ان کی تخلیقی وابستگی ہو گئی اور چند ایک تو عمر بھر کے دوست بن گئے۔۔ ۔
مینا کماری عظیم اداکارہ " بے نظیر" فلم میں کام کر رہی تھیں جو بملدا " کابلی والا" کے بعد بنارہے تھے۔ ان میں بھی شاعری کے لئے ایک لگن تھی جو پاپی اور مینا جی کو قریب لے آئی۔ وہ اپنی شاعری اور خیالات کی ڈائریاں ساتھ رکھتی تھیں جنہیں پاپی سے شیئر کرتی تھیں۔
بقول پاپی مینا جی بہت حساس طبیعت کی مالک تھیں۔ وہ ہندوستانی اسکرین کی تاریخ اسز ٹریجیڈین تھیں۔ ان کے اظہار، ان کی آواز اور ان کی شاعری میں ایک درد تھا، مجرد لیکن روح پرور۔ شاید اسی بات نے پاپی کو ان کی طرف مائل کر دیا۔ جذبہ ہو، شاعری ہو تو رومان زیادہ پیچھے نہیں رہ جاتا۔
جب وہ مر گئیں تو معلوم ہوا اپنی بیاضیں پاپی کو وصیت کر گئی ہیں جو اب تک ان کے پاس محفوظ ہیں۔ ان کے ایک شہکار پورٹریٹ کے ساتھ جسے آیم۔ آر۔ اچریکر نے بنایا تھا۔
برسوں وہ پورٹریٹ مجھے پاپی کے دفتر میں ان کی میز کے پیچھے نظر آتا رہا۔
پاپی کی پہلی کتاب چورس کتاب افسانوں کا مجموعہ تھی، جو چیتنا پبلی کیشنز کے ایس سوؤ رن نے 1963ء میں شائع کی تھی۔ اس کا انتساب مینا جی کے نام تھا۔ ایس سوئرن نے ہی 1964 ء میں پاپی کی دوسری کتاب جانم بھی شائع کی جو پچاس نظموں کا مجموعہ تھی۔
ہیمنت کمار یعنی ہیمنت دا کے گھر پر "راہگیر" کی سٹنگ تھی جسے ترون مجمدار ڈائرکٹ کر رہے تھے۔ پاپی اس کے گانے لکھ رہے تھے "وہ" ترون مجمدار کی بیوی اور فلم کی ہیروئن سندھیا رائے کے ساتھ تشریف لائیں۔ وہ ان کی زندگی کی طویل ترین مختصر کہانی ہونے والی تھی۔۔ ۔
راکھی کے لئے۔۔ ۔ جو میری زندگی کی طویل ترین مختصر کہانی ہے۔۔ ۔
پاپی کی مختصر کہانیوں کے مجموعے "راوی پار" کا یہ انتساب غالباً اس بات کا بہترین خلاصہ ہے۔
راکھی، میری ماں پاپی کی سب سے مختصر کہانی ہے۔ جواب بھی زیر تحریر ہے۔ ہر کہانی کی طرح اس کے بھی کئی Versionsہیں۔
1968ء کے آس پاس۔۔ ۔ پاپی کو یاد ہے وہ پہلی بار ماں سے کلکتہ میں ملے، پھر ہیمنت کمار کے گھر پر راہ گیر فلم کی تیاری کے دوران ملے۔ لیکن ماں کہتی ہیں وہ پاپی سے پہلی بار "راہگیر" کی شوتنگ کے دران ملیں پنویل ممبئی کے قریب مقام تھا آپٹے گاؤں جہاں آج ماں کا ایک فارم ہے۔ وہ کہتی ہیں یہ زمین انہں نے اس لئے خریدی تھی کہ یہاں ان سے ان کی پہلی ملاقات ہوئی تھی۔
1968ء میں ماں بمبئی منتقل ہو چکی تھیں اور لیکٹو کیلا مائن اور ہا کوبا ساڑیوں جیسی مصنوعات کے لئے اشتہارات میں کام کر رہی تھیں اور ریڈیو پر بنگالی جنگلز(Jingles) بھی اگائی تھی، اجے بسواس کے ساتھ ان کی شادی ختم ہو چکی تھی اور وہ اپنی سہیلی چاند عثمانی کے ساتھ رہ رہی تھیں۔
اس وقت مکل دت اور چاند عثمانی شادی کر چکے تھے ( اس میں پاپی کے فن خطوط نویسی کا بڑ احصہ ہے ) اور پاپی ان کے گھر جایا کرتے تھے۔
ماں کی سہیلیاں گلو اور سرلا جو پنجاب نیشنل بنک میں کام کرتی تھیں، انہیں قریب سے قریب تر لے آئیں۔
ماں کہتی ہیں کہ ان کی حس مزاح نے انہیں (مان) کو کھینچ لیا۔ وہ ہمیشہ انہیں اور ان کی سہیلیوں کو ہنسایا کرتے تھے۔
پاپا کہتے ہیں کہ ماں میں انہیں سب سے زیادہ پسند آتی کہ وہ گھر اور خاندان کی جانب جھکاؤ رکھتی تھی۔ نارتھ بمبئے ہاؤزنگ سوسائٹی والے گھر کو وہ ہمیشہ سجانے سنوارنے کی کوشش میں لگی رہی تھیں۔ نئے پردے خریدنا، برھئی کو بلانا، الماریاں میزیں بنوانا وغیرہ۔
خدا جانے کب اور کیوں دو شخص متے ملتے ہیں۔ یا جداد ہو جاتے ہیں۔۔
میرے اپنے، کے دوران مشہور ادکار جتیندر جو ان دنوں پاپی کے پڑوسی تھے ایک فلم کی پیشکش لئے آئے۔ پاپی کوزم ہوم سوسائٹی، باندرہ، پالی ہل کے فلیٹ میں منتقل ہو چکے تھے۔ ماں نے یہ فلیٹ ڈھونڈا تھا۔
پاپی نے جتیندر کو کئی کہانیاں سنائی تھیں لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ ایک دن جتیندر پاپی کے پاسا آئے اور بولے ماں (یعنی میری ماں ) نے انہیں ایک کہانی سنائی تھی جو انہوں نے ہر طرح پسند کریل تھی۔ پاپی نے یا ددلایا کہ وہ کہانی تو میں آپ کو سن اچکا تھا لیکن آپ نے اسے رد کر دیا تھا۔
ایسی صورت میں آپ کو سیکھنا چاہئے کہ کہانیاں کیسے
سنائی جائیں۔ راکھی یہ کام آپ سے بہت زیادہ اچھا کر سکتی ہیں !!
ماں نے یہ کہانی رنگین اخزیو (رنگین چادر) ایک بنگالی رسالے الٹورتھ میں پڑھی تھی اور پاپی کو تجویز کی تھی۔ وہ کہانی صاف طور پر میوزیکل فلم دی ساؤنڈ آف میوزک سے انسپائرڈ تھی ہیمنت دانے اس کہانی کےح قوق خریدنے میں مدد کی اور اس طرح پریچئے پرکام شروع ہوا۔
پاپی کو ایک ہایدات کار کے طویل نیک نامی حاصل ہونے لگی تھی۔ ان کی فلمیں تقریباً تقریباً ادب سے اخذ کی ہوئی ہوتی تھیں۔ اور سادگی اور انسانی سائیکی اور تعلقات کی گہری تفہیم کی ترجمان ہوتی تھیں۔
انسانی تعلقات میں تحقیق کا ان کا جتن فلام کوشش نمایاں ہوا جو ایک جاپانی فلم The Happines of Us Aloneسے متاثر تھی جسے پاپی نے بمبئی میں منعقدہ اولین فلمی میلے میں 10952ء میںد یکھا تھا۔ لیکن پاپی اس فلم کے اس بنیادی نظریے سے متفق نہ تھے کہ معذور لوگ اپنی الگ تھلگ سوسائٹی میں زیادہ خوش رہتے ہیں۔ وہ اس خیال کو بہت انقلابی تصور کرتے تھے۔ اس کے برعکس وہ اس خیال کے حامی تھے کہ معذور لوگوں کو سماج کے عام دھارے میں مساوی طور پر اور معمولاً لایاجانا چاہئے۔ انہوں ںے یہ فلم لکھی، ایک اندھے کردار کے اضافے کے ساتھ۔ ان کا اسکرپٹ مماثل صورت حال میں بھی اس فلم کا مخالف تھا (یا اس سے بہت مختلف تھا)
این سی سپی جنہیں فلم پروڈیوس کرنا تھی اسکرپٹ مکمل ہونے کے بعد ثانوی خیالات میں مبتلا ہو گئے۔ انہوں نے رائے دی کہ یا تو پاپی اوپری آاوز کا استعمال کریں یا گونگے بہروں کے مافی الضمیر اور افعال کی ترسیل کے لئے ضمنی ٹائٹلوں (Sub-titles) کا استعمال کریں۔ پاپی نے اس خیال سے اتفاق نہ کیا۔ ان کا ادعا تھا کہ اگر اداکاری اسکرین پل، سنیما ٹو گرافی، سنگیت، ایڈٹنگ، آرٹ ڈائرکشن اور میک اپ کی سہولتیں میسر ہونے کے باوجود اپنی فکر کو ناظرین تک پہچانے میں ناکام رہتے ہیں تو انہیں فلم سازی چھوڑ دینا چاہئے۔ سپی صاحب کو پاپی کی توجیہ سے اتنی تقویت ملی کہ انہوں نے پاپی کو فوراًایک چیک دیا اور کہا اگر آپ اتنے مطمئن اور پر اعتماد ہیں تو مجھے اتنے شکوک میں کیوں پڑنا چاہئے۔
ماں اور پاپی کی شادی18اپریل1973ء کو ہوئی۔ پاپی کو یاد ہے سپی صاحب شادی میں کتنے فعال ثابت ہوئے تھے۔ پاپی کا فلیٹ بہت چھوٹا تھا اس لئے انہوں نے اپنے بنگلے سے اس کا اہتمام کیا۔ شادی کے دعوت نامے ان کے دفتر سے جاری ہوئے اور انہوں نے ہی استقبالیہ کابھی بندوبست ٹرف کلب میں کیا۔
لڑکی کی طرف سے شکن بھی سپی صاحب کے گھر ہی سے آیا۔۔ ۔ ایک بینگن تھا کدو کے سائز کا۔
ماں شرارت کے موڈ میں تھیں، وہ جانتی تھی کہ پاپی کو بینگن کتنے ناپسند ہیں۔ اس کا اظہار وہ اپنی کئی فلموں میں بھی کر چکے ہیں۔
سبزیوں سے پاپی کا گریز1960ء تک پہنچتا ہے، جب وہ چار بنگلے میں رہتے تھے (کرشن چندر اور ساحر لدھیانوی بھی وہاں رہتے تھے ) بیگن کا پکوان جو پورا پکا بھی نہ تھا، پاپی نے اٹھا کر اسے پھینک دیا۔ اس وقت سے اس کے لئے ان کی چڑ میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ میں ہر بنگالی شئے پسند کرتا ہوں ان کا ادب، ان کی شاعری، ان کا سنگیت۔۔ اپنی بیوی بھی۔۔ ہر چیز سوائے بینگن کے۔
پاپی کو ئی زیادہ دھارمک آدمی نہیں ہیں۔ وہ دھارمک رسموں میں دھارمک سے زیادہ ثقافتی تجربے میں شریک ہونے کے لئے شامل ہو جاتے ہیں۔ ان تمام برسوں میں کسی واحد رسم میں اگر وہ شریک ہوئے ہیں تو وہ ہے "ہون" جو ہر سال میرے جنم دن پر منایا جاتا ہے۔ ہمارے خاندانی پجاری انشو مان جی ہون کرواتے ہیں جو صبح سے شروع ہو کر پاپی کے مجھے آشیر واد اور اس سال گرہ کا تحفہ دینے تک جاری رہتا ہے۔ میری عمر کے ساتھ پاپی کے تحفوں کا انتخاب بالیدہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے مجھے میرا پہلا ویڈیو کیمرہ میری سترھویں سالگرہ پر دیا۔ پھر سال دو سال کے وقفے سے نئے ماڈل سے اس میں ترمیم ہوتی رہی۔ بینک اکاؤنت کے لئے میرا پہلاATMکارڈ میرے اٹھارویں جنم دن پر۔ میرا پہلا خاموش کیمرہ بائیسویں سالگرہ اور اب اس بار لیپ ٹاپ۔ لیکن سب سے قیمتی وہ کتابیں ہیں جو انہوں نے میرے لئے لکھیں۔ جب تک میں تیرہ سال کی نہ ہو گئی وہ ہر سال مجھے ہون کے بعد کتاب کی پہلی جلد پیش کرتے رہے۔
دوسرا مستقل تہوار ہولی تھا۔ اس لئے نہیں کہ وہ اس سے محظوظ ہوتے بلکہ محض اس لئے کہ وہ مجھے پسند تھا، وہ اپنے دوستوں کو ان کے خاندان سمیت مدعو کر لیتے۔ میرے دوست بھی آتے اور آنگن میں جمع ہو جاتے۔ گلال اڑایا جاتا، سموسوں، جلیبیوں سے تواضع کی جاتی۔ جب میں اس تہوار سے نکل گئی تو ان کا ہولی تہوار ختم ہو گیا۔
دیوالی البتہ آج بھی پسندیدہ تہوار ہے۔ گھر کے اطراف میں ہم سب مل کر چودہ دئیے جلواتے ہیں۔ ماں اور پاپی دونوں کے گھروں میں۔ ماں دنیا بھر کے پٹاخے اور آتش بازیاں خرید لاتیں جنہیں ہم ان کے گھر کے باہر چھوڑتے۔ رات کا کھانا کبھی ماں اور کبھی پاپی کے گھر پر ہوتا۔ اب جب کہ میری شادی ہو چکی ہے، تو وہ دونوں میرے یہاں آ جاتے ہیں اور ہم پٹاخوں کے بجائے صرف موم بتیاں جلاتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ کہ پاپی برسوں تک روزے بھی رکھتے رہے۔ مجھے یاد ہے میں افطار کے وقت ان کے ساتھ میز پر بیٹھا کرتی تھی۔ بھوشن چاچا اور دوسرے بھی ہوا کرتے تھے۔ مجھے ابھی حال میں معلوم ہوا کہ پاپی نے مینا جی سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کے روزے رکھیں گے۔ مینا جی ہر سال پابندی سے روزے رکھا کرتی تھیں۔ جب ان کی صحت گرتی چلی گئی اور پابندی سے دوائیں لینے کی وجہ سے وہ روزے رکھنے کے قابل نہ رہیں تو پاپی نے ان کے روزے رکھنے کی ٹھانی اور ہر سال وہ پورے روزے رکھنے لگے۔ جب تک ان کے بلڈ پریشر نے خود انہیں دواؤں پر رہنے کے لئے مجبور نہ کر دیا یہ سلسلہ چلتا رہا۔
1976ء کے قریب پاپی نے اپنی پروڈکشن کمپنی "میگھنا موویز" کے نام سے شروع کی تاکہ وہ دیگر پروڈیوسر وں کی مداخلت یا دباؤ کے بغیر اپنے طرز کی فلمیں بنا سکیں۔ اس وقت تک وہ کئی پروڈیوسروں کی ڈھل مل یقینی کا نظارہ کر چکے تھے۔ انہوں نے مقبول اداکاروں دھرمیندر، ہیما مالنی، اور شرمیلا ٹیگور کو لے کر "دیوداس" کا آغاز کر دیا تھا۔ مشہور فلمی ولین پریم چوپڑہ کے بھائی کیلاش چوپڑہ اسے پروڈیوس کر رہے تھے۔ پاپی کا خیال تھا کہ پچھلی دونوں دیوداس فلموں میں گرچہ کے۔ ایل۔ سہگل اور دلیپ کمار جیسے عہد ساز ہیروز نے مرکزی کردار نبھایا تھا۔ لیکن ان فلموں میں نسائی کردار وں کو دبادیا گیا تھا۔ پاپی چونکہ شرت چندر کے زبردست مداح ہیں اس لئے انہوں نے پارو اور چندر مکھی کے مرکزی کردار میں چھوٹے گئے کھانچوں اور رخنوں کو محسوس کر لیا تھا۔ پارو ایک شریف لڑکی تھی جو ایک رات میں عورت بن گئی تھی جب کہ چندر مکھی ایک درباری کوٹھے دار تھی جو دیوداس کی محبت میں پڑ گئی تھی۔ جیسا کہ ایک جوان لڑکی کے لئے ممکن ہے۔ دیوداس ہی ایک ایسا تھاجو شباب کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکا تھا۔ اس لئے اس رول کے لئے دھرمیندر کو پسند کیا گیا۔ پاپی کا خیال ہے کہ دھرمیندر ہمیشہ دل سے جوان رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔
پاپی نے چندر مکھی کے کوٹھے میں شرمیلا ٹیگور کے ساتھ اور دیو داس کے گھر میں پارو کے ساتھ ہیما مالنی اور دھرمیندر کو لے کر کچھ منظر فلمائے تھے۔ اپنے پسندیدہ آرڈی برمن کی طرزوں میں دو گیت بھی ریکارڈ کر لئے تھے۔ لیکن اس کے بعد پروڈیوسر اپنے کچھ اسباب کی بنا پر جنہیں وہ ہی سمجھتا ہو گا پیچھے ہٹ گیا۔۔ ۔
1990ء کے فلم فیئر ایوارڈ بڑے یادگار تھے۔ ماں کو بہترین معاون اداکارہ کے رول میں "رام لکھن" کے لئے ایوارڈ ملا۔ میرے لئے دل چھونے والا لمحہ تھا جب پاپی نے ایوارڈ کا اعلان کیا اور ایوارڈ یافتہ کو یہ کہہ کر پکارا
"اجی سنتی ہو!"

ماخوذ از مجلہ : چہار سو (راولپنڈی ، پاکستان) [گلزار نمبر]
جلد: 21 ، شمارہ (مئی-جون 2012)

Gulzar, a memoir by his daughter.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں