واقعۂ معراج - نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سفرِ آسمان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-03-12

واقعۂ معراج - نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سفرِ آسمان

واقعۂ معراج کے ظہور کی حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کے رونما ہونے کی تاریخ کے بارے میں کم و بیش 36 مختلف اقوال ملتے ہیں۔ بعض کے مطابق یہ واقعہ ربیع الاول میں ہوا، بعض نے رمضان، بعض نے ہجرت کے چند سال بعد اور بعض نے چند ماہ قبل کہا۔ اس کی حتمی تاریخ کسی صحیح حدیث سے یقینی طور پر ثابت نہیں ہے، تاہم یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکی زندگی کے آخری حصے میں یہ خاص مشاہدہ کرایا گیا ، جس میں ہمارے لیے سیکھنے اور عمل کرنے کے بہت سے پہلو ہیں۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
پاک ہے وہ (ذات) جو اپنے بندے کو ایک رات میں مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا، جس کے آس پاس ہم نے برکت رکھی ہے تاکہ ہم اسے اپنی بعض نشانیاں دکھائیں، یقیناً وہ (اللہ تعالیٰ) خوب سننے والا اور خوب دیکھنے والا ہے۔
(سورہ بنی اسرائیل : 1)

اس آیت میں جس واقعے کی طرف اشارہ ہے وہ "اسراء" کے نام سے مشہور ہے۔ اسراء کے لفظی معنی ہیں:
رات کو سفر کرنا، رات کو چلنا۔
یہ وہی سفر ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جسم اور روح سمیت مسجد الحرام (مکہ) سے مسجد اقصیٰ (فلسطین) تک معجزاتی طور پر لے جایا گیا ، فرشتوں کی ہم نشینی کا یہ سفر اس زمانے کے حالات، اسبابِ سفر اور فاصلے کی طوالت کی وجہ سے انسانی عقل و سمجھ سے بالاتر ہے۔ لیکن جیسا کہ آیت میں واضح کیا گیا:
"پاک ہے وہ (ذات) جو اپنے بندے کو لے گیا"
تو جس ذات میں کمالِ قدرت ہو وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ اس حیرت انگیز اور ایمان افروز سفر کی تفاصیل بخاری اور مسلم سمیت احادیث کی دیگر کتب میں موجود ہیں۔

آغاز سفر اور شقِ صدر
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ۔۔۔
معراج کی رات، جب بیت اللہ سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسم) کو لے جایا گیا، تو وحی آنے سے قبل آپؐ کے پاس تین فرشتے آئے ، اس وقت آپؐ مسجد الحرام میں سو رہے تھے، ان میں سے ایک نے پوچھا: "وہ کون ہیں"؟
دوسرے نے جواب دیا: "وہ ان میں سب سے بہتر ہیں۔"
تیسرے نے کہا: "ان میں جو سب سے بہتر ہیں انھیں لے لو"۔
اس رات اتنا ہی واقعہ پیش آیا اور نبیؐ نے اس کے بعد انھیں نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ وہ دوسری رات آئے جبکہ آپؐ کا دل دیکھ رہا تھا اور آپ کی آنکھیں سو رہی تھیں لیکن دل نہیں سو رہا تھا۔ تمام انبیاء کی نیند ایسی ہی ہوتی ہے۔ انھوں نے آپؐ سے کوئی بات نہ کی یہاں تک کہ آپ کو اٹھا کر چاہِ زم زم کے پاس لٹایا۔ یہاں جبریلؑ نے اپنا کام سنبھالا اور سینہ مبارک گردن تک خود اپنے ہاتھ سے چاک کیا اور سینے اور پیٹ کی تمام چیزیں نکال کر انہیں اپنے ہاتھ سے زم زم کے پانی سے دھویا، جب خوب دھو چکے تو آپ کے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا، اس میں سونے کا ایک بڑا پیالہ تھا جو حکمت اور ایمان سے پر تھا، اس سے آپؐ کے سینے اور گلے کی رگوں کو پر کر دیا اور سینہ مبارک پھر سے سی دیا گیا۔
(صحیح بخاری ، کتاب التوحيد)

مسجد الحرام سے مسجد اقصی تک : اسراء
حضرت جبرئیل براق کے ساتھ تشریف لائے ، یہ گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا ایک جانور تھا، جو اپنا کھر اپنی نگاہ کے آخری مقام پر رکھتا تھا۔ اس وقت نبیؐ مسجد حرام میں تھے ، آپ جبرئیل کے ساتھ بیت المقدس میں تشریف لائے اور وہاں جس حلقے میں انبیاء اپنی سواریاں باندھتے تھے، اسی میں براق کو باندھ دیا۔ پھر مسجد اقصی میں داخل ہوئے، دو رکعت نماز پڑھی اور اس میں انبیاء کی امامت فرمائی ۔ اس کے بعد آپ کے پاس شراب ، دودھ اور شہد کے برتن لائے گئے آپ نے دودھ پسند فرمایا۔ جبرئیل نے کہا :
"آپؐ نے فطرت پائی، آپ کو ہدایت نصیب ہوئی اور آپ کی امت کو بھی"۔
(بحوالہ: مسند احمد)

مسجد اقصی سے آسمانوں کی طرف: معراج
مسجد اقصی سے آپ کو عالم بالا میں لے جایا گیا۔ معراج عربی میں سیڑھی کو کہتے ہیں جو اوپر چڑھنے کے لئے استعمال ہوتی ہے، اس نسبت سے سفر کے اس حصہ کو بھی معراج کہا گیا۔
بیشتر مفسرین کے نزدیک سورة الجم کی درج ذیل آیات واقعہ معراج کی دلیل ہیں۔
(سورہ النجم: 13 تا 18)
اور ایک مرتبہ پھر اس نے سدرة المنتہی کے پاس اس کو اترتے دیکھا، جہاں پاس ہی جنت الماویٰ ہے، اس وقت سدرہ پر چھا رہا تھا، جو کچھ چھا رہا تھا ، نہ نگاہ چندھیائی نہ حد سے متجاوز ہوئی اور اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔

مندرجہ بالا آیات میں نبی کریمؐ کے آسمانوں کی طرف جانے اور سدرة المنتہی اور اس کے آس پاس کی چیزوں کو دیکھنے کا ثبوت ملتا ہے۔

سفر آسمان
مسجد اقصی میں تمام انبیاء کی امامت کے بعد سواری کے لیے براق پیش کیا گیا، آپؐ دوبارہ اس پر سوار ہو کر پہلے آسمان تک گئے، جبرئیل نے آسمان کا دروازہ کھلوایا، فرشتوں کی طرف سے پوچھا گیا:" کون ہیں ؟"
جبرئیل نے فرمایا : "میں جبرئیل ہوں"
پوچھا گیا: "ساتھ کون ہیں؟"
بتایا گیا "محمدؐ ہیں"
پوچھا گیا: "ان کو پیغام الہی دے کر بھیجا گیا ہے؟"
جبریل نے کہا: "ہاں"
تب اندر والے فرشتے نے سن کر کہا: "مرحبا! آپ بہت اچھے آئے"
آپؐ فرماتے ہیں : میں وہاں پہنچا تو آدمؑ موجود تھے، جبرئیل نے کہا کہ یہ آپ کے باپ آدمؑ ہیں، انہیں سلام کیجیے ، میں نے انہیں سلام کیا تو آپؑ نے جواب دیا:
مرحاب! فرزند صالح، نبی صالح اور آپؐ کی نبوت کا اقرار کیا۔
(بحوالہ: صحیح بخاری، کتاب التوحید)

ایک اور روایت ہے کہ آپؐ نے آسمان دنیا میں ایک بزرگ شخص کو بیٹھے دیکھا، جس کے دائیں اور بائیں طرف کچھ صورتیں نظر آئیں۔ دائیں طرف دیکھتے تو وہ بزرگ ہنستے اور بائیں طرف دیکھتے تو روتے۔ میں نے جبرئیلؑ سے پوچھا: یہ کون ہیں؟
تو جواب دیا گیا: "آدمؑ ہیں، یہ دائیں اور بائیں جانب والی صورتیں ان کی اولاد ہیں، دائیں طرف والے جنتی ہیں اور بائیں طرف والے دوزخی ہیں۔ اس لیے ایک طرف دیکھ کر ہنستے ہیں اور دوسری طرف دیکھ کر روتے ہیں"۔
(بحوالہ: صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ)

نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں: جبرئیلؑ مجھے لے کر آگے بڑھے اور دوسرے آسمان تک پہنچے، پھر اسی طرح سوال و جواب ہوئے، وہاں مجھے عیسیؑ اور یحییؑ ملے جو باہم خالہ زاد بھائی بھی ہیں۔ جبرئیلؑ نے کہا یہ یحییؑ اور عیسیؑ ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے سلام کیا تو دونوں نے جواب دیا پھر کہا: مرحبا! برادر صالح اور نبی صالح اور آپؐ کی نبوت کا اقرار کیا۔ پھر اسی طرح ان سے کچھ باتیں ہوئیں۔
(بحوالہ: صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ)

اس کے بعد مجھے لے کر تیسرے آسمان کی طرف چڑھے اور دروازہ کھلوایا، پوچھا گیا:
"کون؟" جبرئیلؑ نے کہا: "میں ہوں"۔ پوچھا گیا: "تمہارے ساتھ کون ہے؟" انہوں نے کہا: "محمد ﷺ"۔ پوچھا گیا: "ان کے پاس پیغامِ الٰہی دے کر بھیجا گیا ہے؟" جبرئیلؑ نے کہا: "ہاں"۔ فرشتوں نے یہ سن کر کہا: "مرحبا! آپ بہت اچھے آئے"۔
دروازہ کھولا گیا، وہاں پہنچے تو دیکھا کہ وہاں یوسفؑ موجود ہیں۔ جبرئیلؑ نے کہا: "یہ یوسفؑ ہیں، انہیں سلام کہیے"۔ میں نے سلام کیا انہوں نے جواب دیا اور انہوں نے کہا: "مرحبا! برادرِ صالح اور نبی صالح" اور آپؐ کی نبوت کا اقرار کیا۔
(بحوالہ: صحیح بخاری، کتاب التوحید)

ایک اور روایت میں ہے آپؐ نے فرمایا:
"میں نے یوسفؑ کو دیکھا، اللہ نے حسن کا آدھا حصہ ان کو دیا تھا"۔
(بحوالہ: صحیح مسلم، کتاب الایمان)

اس کے بعد جبرئیلؑ مجھے لے کر آگے بڑھے، چوتھے آسمان پر اسی طرح سوال و جواب ہوئے۔ ادریسؑ وہاں موجود تھے، سلام دعا ہوئی۔ انہوں نے بھی اسی طرح برادرِ صالح اور نبی صالح کہہ کر مرحبا کہا اور آپؐ کی نبوت کا اقرار کیا۔ اس کے بعد جبرئیلؑ پانچویں آسمان تک آگے بڑھے، وہاں بھی اسی طرح سلام دعا ہوئی، ہارونؑ وہاں موجود تھے۔ انہوں نے بھی برادرِ صالح اور نبی صالح کہہ کر مرحبا کہا اور آپؐ کی نبوت کا اقرار کیا۔ اس کے بعد آگے چھٹے آسمان تک چڑھے، دروازہ کھلوایا گیا اور اسی طرح سوال و جواب اور مرحبا کہا اور آپؐ کی نبوت کا اقرار کیا۔ یہاں پر موسیؑ تھے۔ آپؐ انہیں چھوڑ کر آگے بڑھے تو وہ رونے لگے، پوچھا: آپ کے رونے کی وجہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا:
"میں اس لیے روتا ہوں کہ یہ نوجوان پیغمبر (ﷺ) میرے بعد مبعوث ہوئے، ان کی امت کے لوگ میری امت کے لوگوں سے زیادہ تعداد میں جنت میں جائیں گے"۔

اس کے بعد ساتویں آسمان پر پہنچے اور دروازہ کھلوایا، پوچھا گیا: کون؟ کہا: میں جبرئیلؑ ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا: محمد (ﷺ) ہیں۔ پوچھا گیا: ان کے پاس پیغام الٰہی دے کر بھیجا گیا ہے؟ جبرئیلؑ نے کہا: ہاں۔ فرشتوں نے یہ سن کر کہا: مرحبا! آپ بہت اچھے آئے۔
جب میں وہاں پہنچا تو ابراہیمؑ کو موجود پایا۔ جبرئیلؑ نے کہا: یہ آپ کے جدامجد ابراہیمؑ ہیں، انہیں سلام کہیے۔ میں نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا اور فرمایا:
مرحبا! فرزند صالح (بیٹا کہہ کر پکارا)، نبی صالح، آپؐ کی نبوت کا اقرار کیا۔ وہاں ابراہیمؑ بیت المعمور کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔
(بحوالہ: صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق)

سیدنا ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ آپؐ ایک ایسے مقام پر پہنچے، جہاں پر جبرئیلؑ نے آپؐ کا ساتھ چھوڑ دیا، تو اس پر آپؐ نے فرمایا:
ایسے مقام پر کوئی دوست اپنے دوست کو نہیں چھوڑتا، آپ میرا ساتھ کیوں چھوڑ رہے ہیں؟
جبرئیلؑ نے فرمایا: اگر میں اس مقام سے آگے بڑھوں تو نور سے جل جاؤں گا۔
(بحوالہ: سنن بیہقی)

اس کے بعد آپؐ کو "سدرۃ المنتہیٰ" تک لے جایا گیا۔ اس کے بیر ہجر کے مٹکوں کے برابر اور اس کے پتے ہاتھی کے کان کی طرح تھے۔ پھر اس پر سونے کے پتنگے چھا گئے اور اللہ کے حکم سے جو کچھ چھانا تھا چھا گیا۔ اس سے وہ سدرہ (بیری کا درخت) تبدیل ہو کر اتنا خوبصورت ہو گیا کہ اللہ کی کوئی مخلوق اس کا حسن بیان کرنے کی تاب نہیں رکھتی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو وحی فرمائی اور آپؐ پر آپؐ کی امت پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں۔
واپس آتے ہوئے موسیؑ سے آپؐ کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے دریافت کیا کہ آپؐ کو کیا حکم ملا؟ آپؐ نے جواب دیا: ایک دن رات میں مجھ پر اور میری امت پر پچاس نمازیں فرض کی گئی ہیں۔
موسیؑ نے کہا: آپ کی امت ایک دن رات میں پچاس نمازیں نہ پڑھ سکے گی، میں بنی اسرائیل کا خوب تجربہ کر چکا ہوں۔ آپ کمی کی درخواست لے کر اپنے رب کے پاس جائیں۔
موسیؑ کے فرمانے پر آپؐ اللہ کے پاس گئے اور کمی کی درخواست کی، اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی درخواست کو قبول فرما کر دس نمازوں کی تخفیف فرمائی۔ اس کے بعد آپ موسیؑ کے پاس آئے تو انہوں نے پوچھا کیا ہوا؟ آپؐ نے کہا دس نمازوں کی کمی کر دی گئی ہے۔ یہ سن کر موسیؑ نے فرمایا: اب پھر واپس جائیے اور تخفیف کی درخواست کیجیے۔ آپؐ واپس گئے اور اللہ تعالیٰ سے تخفیف کی درخواست کی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد دس نمازوں کی کمی کر دی۔ یوں آپؐ کی موسیؑ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان آمد و رفت جاری رہی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں کر دیں۔ اس کے بعد آپؐ پھر واپس آئے تو موسیؑ نے کہا جاؤ اور کمی کراؤ۔ آپؐ نے کہا: اب مجھے شرم آتی ہے، جو اللہ تعالیٰ نے فرض کیا ہے، اس پر راضی ہوں۔
آپؐ نے فرمایا: جب میں وہاں سے واپس آیا تو ایک پکارنے والے نے پکار کر کہا۔۔۔
'میں نے اپنا فرض پورا کر دیا اور بندوں کے لیے تخفیف کر دی، یہ پانچ نمازیں اجر میں پچاس کے برابر ہوں گی'۔
(بحوالہ: صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق)

اس کے علاوہ چند اور مشاہدات دیگر کتب میں مذکور ہیں۔ سورہ البقرہ کی آخری دو آیات بھی عرش کے خزانے سے عطا کی گئیں۔

نہرِ کوثر اور جنت کا مشاہدہ
سدرۃ المنتہیٰ پر بہت سے عجائبات کا مشاہدہ کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پھر مجھے جنت میں لے جایا گیا تو میں نے وہاں دیکھا کہ موتیوں کے قبے ہیں اور اس کی مٹی کستوری ہے۔
(بحوالہ: صحیح مسلم، کتاب الایمان)
جنت میں آپؐ نے نہرِ کوثر کا مشاہدہ فرمایا۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں ایک نہر پر آیا، اس کے دونوں کنارے موتیوں اور قبوں کے تھے۔ میں نے پوچھا: جبرئیلؑ یہ کیا ہے؟ جبرئیلؑ نے کہا: یہ کوثر ہے۔
(بحوالہ: صحیح بخاری، کتاب الرقاق)

ابراہیمؑ کا امتِ محمدﷺ کے نام خصوصی پیغام
ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: "معراج کی رات میری ملاقات حضرت ابراہیمؑ سے ہوئی، انہوں نے کہا: اے محمد (ﷺ)! اپنی امت کو میری طرف سے سلام کہیے اور ان کو بتائیے کہ جنت کی مٹی بڑی عمدہ ہے، اس کا پانی میٹھا ہے، لیکن وہ چٹیل میدان ہے (اس میں کاشتکاری کی ضرورت ہے) اور اس کی کاشت کاری ہے:
سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر (اللہ پاک ہے اور تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، اس کے سوا کوئی الہ نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے)۔"
(بحوالہ: جامع ترمذی)

بیان اسرا اور معراج پہ اہل مکہ کا ردعمل
اسی رات نبی کریمﷺ واپس مکہ تشریف لائے۔ مولانا ظفر علی خاں نے کیا خوب کہا ہے:
زنجیر بھی ہلتی رہی بستر بھی رہا گرم
اک پل میں سرِ عرش گئے آئے محمدؐ
اگلی صبح آپؐ نے قوم کو گزشتہ رات کے بارے میں بتایا۔
صحیح مسلم میں ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: "معراج کا یہ واقعہ جب میں نے مشرکین مکہ کو سنایا تو انہوں نے اس کی تردید اور تکذیب کی، کسی نے تالیاں بجائیں اور کسی نے تعجب اور انکار سے اپنے ہاتھ سر پر رکھ لیا۔ کچھ لوگ ابوبکرؓ کے پاس گئے اور انہیں اس کی خبر دی۔ وہ ایک پیکر صدق و ایمان تھے، کہنے لگے:
اگر یہ بات آپؐ نے فرمائی ہے تو سچ فرمائی ہے۔
لوگوں نے کہا: آپؓ بھی ان کی تصدیق کرتے ہیں؟
آپؓ نے جواب دیا: میں تو اس سے بھی بڑی بات پر آپؐ کی تصدیق کرتا ہوں، آسمان سے صبح و شام جو خبر آتی ہے، میں اس میں بھی آپؐ کو سچا مانتا ہوں۔
اسی پر ان کا لقب "صدیق" ٹھہرا۔

ایذا رسانی اور بےیقینی کے جذبات سے مغلوب کفار نے آپؐ کا امتحان لینے کی ٹھانی۔ پوچھا کہ بیت المقدس کیسا ہے اور اس کی کیا علامتیں ہیں؟
صحیح مسلم میں آپؐ کا ارشاد یوں نقل ہے:
اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس میرے سامنے ظاہر فرمایا اور جو باتیں اور نشانیاں مشرکین دریافت کرتے میں دیکھ دیکھ کر بتاتا جاتا۔ یوں وہ آپؐ کی تردید اور تکذیب کا جو جذبہ لیے آئے اس کی یکسر نفی ہو گئی۔ یہی کہہ سکے کہ جہاں تک اوصاف کا تعلق ہے تو آپؐ نے بالکل ٹھیک ٹھیک بیان کیے ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک قافلے کے متعلق بھی سوال کیا جو ملک شام سے آ رہا تھا۔ آپؐ نے اس قافلے کے احوال، اس کے پہچنے کا وقت اور جو اونٹ آگے آگے آ رہا تھا، ان سب کی خبر دی اور جیسا آپؐ نے بتلایا تھا، عین اسی طرح ہوا۔ آپؐ نے کچھ اور باتیں بھی بتائیں اور بعد میں آنے والے قافلوں سے ان کی تصدیق ہو گئی۔ اس طرح زبانیں بند ہو گئیں مگر دل یہی سوچتے رہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اب بھی بہت سے لوگ یہی سوچتے ہیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور جب وہ کسی بات کا ارادہ کر لیتا ہے تو اسے صرف "کُن" (ہو جا) کہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

معراج کے دوران نبی کریمﷺ کو جو بھی مشاہدات کروائے گئے، ان میں ہمارے لیے بہت سے سبق ہیں جن میں سے اہم ترین یہ ہے کہ ہم اپنی نمازوں کی پابندی کریں جن کا حکم اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر نبی کریمﷺ کو دیا۔ اس جنت کے لیے کوشاں ہوں جس کا مشاہدہ آپؐ نے بنفس نفیس فرمایا۔ ابراہیمؑ کے خصوصی پیغام کے مطابق کثرت سے ذکر الٰہی کریں، دوسروں کی غیبت سے پرہیز کریں اور جو بات دوسروں کو کہیں اس پر خود بھی عمل کریں۔

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔ رجب اور شب معراج
ماخوذ از کتاب: رجب اور شب معراج۔ تالیف: الھدیٰ شعبۂ تحقیق (پاکستان)

Isr'a or Me'raj and its history.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں