دادا صاحب پھالکے - ہندوستانی سنیما کا ناقابل فراموش نام - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-02-13

دادا صاحب پھالکے - ہندوستانی سنیما کا ناقابل فراموش نام

dada-saheb-phalke
30/اپریل 1870 عیسوی کو دھنڈی راج گووند پھالکے کا جنم مہاراشٹر صوبہ کے ناسک شہر سے انتیس کلو میٹر کے فاصلے پر ایک قصبے تریمبکشور کے ایک برہمن خاندان میں ہوا تھا۔ ان کے والد کا نام داجی شاستری پھالکے تھا جو بمبئی کے ولسن کالج میں سنسکرت پڑھاتے تھے۔
1893 عیسوی میں پھالکے نے اپنی کمپنی "پھالکے فلمس" قائم کی اور مکمل طور پر ہندوستان میں پہلی فیچر فلم "راجہ ہریش چندر" بنائی، جو 3/مئی 1913ء کو ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے رائٹر، ڈائریکٹر ، کیمرہ مین، پروسیسنگ، پرنٹنگ اور ایڈیٹنگ تک کا کام خود پھالکے نے کیا تھا۔ اس فلم میں نسوانی کردار ادا کرنے کے لئے کوئی عورت تیار نہیں ہو رہی تھی ، لہذا اے۔ سالنکے نام کے ایک مرد سے تارامتی کا کردار ادا کروایا گیا۔ اس فلم میں۔ ڈی۔ ڈی۔ دابکے نے راجہ ہریش چندر اور پھالکے کے بیٹے بھال چندر نے روہتاش کے کردار ادا کئے تھے۔

آبائی وطن میں ہی پھالکے کی ابتدائی تعلیم ہوئی۔ اس کے علاوہ اپنے مخصوص خاندانی پس منظر کی وجہ سے ویدوں، پرانوں، اپنشدوں اور شاستروں کی بھی اچھی خاصی معلومات ان کو حاصل ہو گئی تھیں، جو بعد میں دیومالائی قسم کی فلم سازی میں ان کے بہت کام آئی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے والد کے پاس بمبئی کے جے۔ جے اسکول آف آرٹس میں داخلہ لے لیا۔
1887 عیسوی میں بڑودہ کے کلا بھون میں داخلہ کے ساتھ ہی انہیں بڑے بھائی کے ساتھ رہائش اختیار کرنی پڑی۔ ان دنوں کلا بھون کے کرتا دھرتا پروفیسر گجر تھے جنہیں باصلاحیت فنکاروں کو تلاش کرنے کا بڑا شوق تھا۔ انہوں نے پھالکے کی صلاحیتوں کو پہچان کر کلا بھون کے فوٹو گرافک اسٹوڈیو کی ذمہ داری ان کو سونپ دی۔ اس کا پورا فائدہ پھالکے نے اٹھایا اور وہاں کے کتب خانہ سے بھی ان کو فیض حاصل ہوا۔

دادا صاحب پھالکے کی عمر اس وقت چالیس برس کی ہوگی، جب فائن پرنٹنگ کا ان کا کاروبار بالکل ختم ہو گیا۔ بے دلی کے عالم میں وہ 1910ء میں ایک دن اپنے چند دوستوں کے ساتھ کرسمس شو دیکھنے گئے۔ وہاں اس دن خصوصی طور پر امریکہ کی ایک فلم "لائف آف کرائسٹ" دکھائی گئی۔ پھالکے کے لئے اس طرح کی فلم دیکھنے کا یہ پہلا موقع تھا۔ وہ اس کرشمے سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے اسی وقت دل میں یہ ٹھان لیا کہ وہ بھی اسی طرز پر رامائن اور مہابھارت کی کہانیوں اور کرداروں پر فلمیں بنائیں گے۔ وہ خود برہمن تھے۔ ان کے والد نے ان کو بمبئی کے جے۔ جے۔ اسکول آف آرٹس میں تخلیقی فن کی تعلیم دلوا کر ان کا حوصلہ بڑھایا تھا۔ وہاں انہوں نے مصوّری کے علاوہ اسٹیج کی سجاوٹ اور تھوڑی بہت جادوگری بھی سیکھی تھی۔ اس کے بعد بڑودہ کے کلا بھون میں انہوں نے فوٹو گرافی کی تعلیم بھی حاصل کی تھی اور فوٹو گرافی میں استعمال ہونے والے کیمیکل بنانے کے لئے بھی تجربے کئے تھے۔ یہ سب فنکاری بعد میں فلمسازی کے لئے ان کے بہت کام آئی۔

ان ہی دنوں کتابوں کی ایک دکان میں دادا صاحب پھالکے کو ایک انگریزی کتاب "دی اے بی سی آف سنیما فوٹو گرافی (The A B C of cinematography) حاصل ہو گئی، مگر وہ ان کی زیادہ مدد نہ کر سکی۔ پھر بھی انہوں نے اس کو بار بار پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کی اور اس طرح بہت سی تکنیکی باتیں ان کو سمجھ میں آ گئیں اور فلمسازی کا ان کا شوق شدت اختیار کرتا گیا۔
بڑودہ سے واپسی پر ان کی شادی ہوگئی اور آئندہ چند برسوں تک زندگی گزارنے کے لئے پھالکے کو فوٹو گرافی اور ناٹک کمپنیوں کے لئے مناظر کی تصویر کشی کرنے کا کام کرنا پڑا۔ 1900ء میں ان کی دوسری شادی سرسوتی بائی نام کی ایک خاتون سے ہوئی جن سے ان کے چھ لڑکے اور تین لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ ان کی پہلی بیوی اور بیٹا چیچک کی بیماری سے مر چکے تھے۔ 1903ء میں انہوں نے حکومت ہند کے شعبہ آثار قدیمہ میں فوٹو گرافی اور ڈرافٹ مین کی ملازمت اختیار کرلی۔اسی دوران وہ اپنے شوق کی تسکین کے لئے تصویروں کے ہاف ٹون بلاک بنانے کا کام بھی کرتے رہے۔
ایک بار مشہور مصور راجہ روی ورما کی تصویروں کے ہاف ٹون بلاک بنانے پر ان کو بمبئی کی ایک نمائش میں چاندی کا تمغہ بھی انعام میں ملا۔ اس کے بعد انہوں نے "پھالکے انگریونگ اینڈ پریٹنٹگ ورکس" کے نام سے بلاک بنانے اور پرنٹنگ کرنے کا کام شروع کر دیا۔ اس کامیابی کے بعد انہوں نے "لکشمی آرٹ پرنٹنگ ورکس" کے نام سے فائن پرنٹنگ کا کام بھی شروع کر دیا۔ ان سب کامیابیوں سے حوصلہ پاکر وہ تین کلر میں چھپائی کی غرض سے جدید مشینیں خریدنے کے لئے 1909ء میں جرمنی بھی گئے۔

اس کے بعد ایک سال تک دادا صاحب پھالکے لگاتار مختلف سنیما گھروں کے چکر لگاتے رہے ، اور اس نئی نئی ایجاد کی تکنیکی باریکیوں کا جائزہ لیتے رہے۔ انہوں نے پانچ ڈالر کی قیمت سے ایک کیمرہ بھی خریدا جس سے وہ مختلف مواقع کی تصویریں بھی اتارتے رہے۔ ان سب کاموں میں ان کی بیوی سرسوتی بائی نے ان کو پورا تعاون دیا۔
اگلے ایک برس لگاتار بیس بیس گھنٹے کام کرتے ہوئے انہوں نے ایک ڈاکیومنٹری فلم "مٹر کے بیج کا وکاس" یعنی ارتقاء کی تخلیق کی۔ اس کے لئے انہوں نے ایک گملے میں مٹر کا ایک بیج بویا اور ہر دن کے حساب سے ایک تصویر اتارتے چلے گئے۔ بعد میں سب تصویروں کو جوڑ کر انہوں نے یہ دستاویزی فلم تیار کی تھی۔ اس فلم کی بنیاد پر انہیں کچھ قرضہ مل گیا اور کچھ پیسہ انہوں نے اپنی لائف بیمہ پالیسی کو رہن رکھ کر حاصل کیا۔ اس طرح یکم فروری 1912ء میں دادا صاحب پھالکے فلمسازی سے متعلق جانکاری حاصل کرنے اور اس کے لئے ساز و سامان خریدنے انگلینڈ چلے گئے۔

اس سفر کے دو ماہ بعد جب دادا صاحب پھالکے انگلینڈ سے واپس آئے تو ان کے پاس ولیمسن کیمرہ، ایک پروجیکٹر، ایک پرنٹنگ مشین اور فلمسازی سے متعلق وہاں کی تکنیکی جانکاری اور تجربہ بھی ساتھ تھا۔ وہ ہندوستان کے پہلے Foreign Returned فلمی تکنیشن بھی بن گئے۔
ہندوستان واپس آ کر انہوں نے مزید پونجی حاصل کرنے کے لئے بیوی کے گہنے گروی رکھے۔ اور فلم "راجہ ہریش چندر" کا کام شروع کر دیا۔ اس فلم کے لئے سب کچھ ان ہی کو کرنا تھا۔ لوگوں کو اداکاری سکھانا، اسکرپٹ لکھنا، کیمرہ چلانا، اور پرڈکشن کرنا، خوبصورت ہیرو ہیروئنوں کی جگہ تیسرے درجے کے اسٹیج اداکار اور طوائفیں دستیاب تھیں۔ ہیروئن کے کردار کے لئے کوئی عورت تیار نہ تھی۔ یہاں تک کہ ایک طوائف نے بھی حقارت سے اس فلم میں کام کرنے سے انکار کر دیا۔ لہذا بعد میں ہوٹل کے ایک باورچی کا معاون اے۔ سالنکے نام کا ایک مرد یہ نسوانی کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ برسات کا موسم ختم ہوتے ہی پھالکے نے دادر کے مین روڈ پر متھرا بھون میں اپنا اسٹوڈیو بنایا اور سیٹ تیار کر کے فلمسازی کا کام شروع کر دیا۔

فلم "راجہ ہریش چندر" پہلی بار چند مخصوص لوگوں کو 21/اپریل 1913ء کو بمبئی کے اولمپیا سنیما میں دکھائی گئی اور 3/مئی 1913ء کو یہ فلم بمبئی کے کارونیشن تھیٹر میں عام لوگوں کی نمائش کے لئے پیش کی گئی تھی۔ اس فلم کی لمبائی 3700 فٹ تھی۔ جو چار ریلوں کے ذریعہ لگ بھگ سوا گھنٹے میں دکھائی گئی۔ اس فلم کو بنانے میں دادا صاحب پھالکے کو تقریباً آٹھ ماہ کا وقت لگا تھا۔ پہلی بار یہ فلم 23/ دن تک ایک ہی سنیما میں لگاتار چل کر کامیابی حاصل کر چکی تھی۔

اپنی پہلی فلم "راجہ ہریش چندر" بمبئی میں بنانے کے باوجود دادا صاحب پھالکے چند دوسری پریشانیوں کی وجہ سے بمبئی میں فلمسازی کرنے میں دقت محسوس کر رہے تھے۔ حالانکہ بمبئی میں فلمسازی سے متعلق ساز و سامان آسانی سے دستیاب ہو سکتا تھا۔ انہیں لگا کہ یہ کام ناسک میں ہی زیادہ اطمینان سے ہو سکتا ہے۔ ناسک شہر کے جنوبی حصہ میں ان کو ایک ایسی جگہ مل گئی جہاں شہروں والی بھیڑ بھاڑ نہیں تھی۔ بڑا ہی پرسکون ماحول تھا۔ وہاں شری کرشن کا ایک مندر تھا اور اس کے آس پاس کا بڑا علاقہ ایک نیک دل انسان شری بھاوے کی ملکیت تھا اور وہ اس کی اچھی طرح دیکھ بھال کرتے تھے۔ مختلف قسم کے درختوں کی وجہ سے وہ جگہ کافی پر کیف لگتی تھی۔ شری بھاوے نے مندر کے پاس ہی پھولوں کا ایک باغیچہ اور اس کے درمیان میں ایک فوارہ بھی بنوایا تھا۔
ناسک سے تریمکیشور جانے والے راستے میں ایک مقام پر اونٹ واڑی آتا تھا۔ جہاں ایک بڑا کنواں ہمیشہ پانی سے بھرا رہتا تھا۔ اسی کنویں سے ایک بڑی سی نالی کے ذریعہ پانی اس فوارے تک لایا جاتا تھا۔ کچھ وقت کے بعد شری بھاوے نے یہ تمام جگہ شری وید نامی ایک گجراتی کو بیچ دی اور مندر کی مورتی بھی وہ اپنے ساتھ لے گئے۔ بعد میں دادا صاحب پھالکے نے یہ جگہ شری وید سے کرایہ پر حاصل کر لی اور وہیں اپنا اسٹوڈیو قائم کیا۔ فوارے اور حوض کی وجہ سے یہ جگہ "حوض کا بنگلہ" کے نام سے مشہور ہوئی۔

دادا صاحب پھالکے نے فلمسازی کے لئے "حوض کا بنگلہ" والی جگہ پر بہت سی تبدیلیاں کرائیں۔ اپنی کمپنی کا صدر دفتر ، فلم پروسیسنگ کے لئے لیبارٹری اور شوٹنگ میں استعمال ہونے والے مور، طوطے، ہرن اور خرگوش اور بندر جیسے چرند پرند پالنے کے لئے الگ انتظام کیا۔ کھلی جگہ میں محل اور آشرم کے سیٹ بھی بنوائے ، کیونکہ اس زمانے میں فلموں کی شوٹنگ سورج کی روشنی میں ہی ہوا کرتی تھی۔ کل ملاکر پھالکے نے اس مقام کو کافی خوشنما بنا دیا۔
دادا صاحب نے اپنی پہلی فلم کی کامیابی سے حوصلہ پاکر اسی سال اپنی دوسری فلم "بھسما سر موہنی" بنائی اور اس فلم میں نسوانی کردار ادا کرنے کے لئے ان کو دو خاتون بھی مل گئیں۔ اس فلم میں پہلی بار پاروتی کا کردار درگا بائی گوکھلے او ر موہنی کا کردار درگابائی کی بیٹی کملا بائی گوکھلے نے ادا کیا تھا۔ یہ دونوں ماں بیٹی تھیں۔ کملا گوکھلے آج کے مشہور کریکٹر ایکٹر وکرم گوکھلے کی دادی تھیں۔ کملا گوکھلے کے شوہر رگھو ناتھ گوکھلے بھی اسٹیج پر اداکاری کرتے تھے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے کئی ناٹکوں میں نسوانی کردار ادا کئے تھے۔ جب کہ کملا بائی گوکھلے کئی ناٹکوں میں مردانہ کردار ادا کرچکی تھیں۔ یہ لوگ مہاراشٹر کے کونکن علاقے کے رہنے والے تھے۔ کملا بائی گوکھلے کے بیٹے اور وکرم گوکھلے کے والد چندر کانت گوکھلے اپنی وفات تک بھی شوقیہ طور پر اداکاری کرتے رہے (وفات: 20/جون/2008)۔
دادا صاحب پھالکے کی بنائی دوسری فلم "بھسما سر موہنی" 1916ء میں ریلیز ہوئی تھی اور اس کے بعد 1917ء میں انکی بنائی دو فلمیں "ستیہ وان ساوتری" اور "لنکا دہن" ریلیز ہوئیں۔ فلم "لنکا دہن" میں اے۔ سالنکے سے رام اور سیتا دونوں کے کردار کروا کے پھالکے نے ایک طرح سے ڈبل رول کی روایت بھی قائم کی۔ بمبئی کے "ویسٹ اینڈ سنیما" میں دس دن چل کر 32/ ہزار روپے کی آمدنی سے اس فلم نے باکس آفس پر کامیابی کا پہلا ریکارڈ بھی قائم کیا۔ ان دونوں فلموں نے ہی ہندوستانی عوام کا دل جیت لیا اور پھالکے صاحب نے اپنی کامیابی سے حوصلہ پاکر 1918ء میں فلم "دی برتھ آف شری کرشن" بنائی۔
اس کے ایک برس بعد ہی انہوں نے اپنی بیٹی منداکنی کو ہیروئن لے کر فلم "کالیا مردن" 1919ء میں پیش کی۔ اس سال انہوں نے کل ملا کر تین فلمیں بنائیں۔ اسی درمیان انہوں نے ایک دستاویزی فلم "ہاؤ فلمز آر میڈ" بنائی۔ جس میں پہلی بار فلمسازی کی تکنیک پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی تھی۔

دادا صاحب پھالکے کی بنائی زیادہ تر دھارمک فلموں کی کامیابی اور ان کی طرف فلم بینوں خی توجہ کی خاص وجہ ان فلموں میں جادو، چمتکار اور کرشموں کے ایسے مناظر کی بھرمار ہوتی تھی جو ٹرک فوٹو گرافی (Trick Photo graphy) سے تیار کئے جاتے تھے۔ فلم بین ایسے مناظر کو دیکھ کر حیران رہ جاتے اور بار بار ایسے ہی مناظر دیکھنا چاہتے تھے۔ اس ٹرک فوٹو گرافی کے تجربے کے لئے انہوں نے نے "دی میجک آف پروفیسر کیلفا" نام کی فلم بھی بنائی۔ جس طرح 1917ء میں ریلیز ان کی فلم "لنکا دہن "کو بڑی کامیابی ملی تھی ، اس سے متاثر ہو کر اگلے برس 1918ء میں چند دوسرے ساجھی داروں کو شامل کر کے دادا صاحب نے "پھالکے فلمس" کی جگہ ایک نئی "ہندوستانی فلم کمپنی" قائم کی اور اس بینر سے بنی فلم "شری کرشن جنم" بھی کافی کامیاب ہوئی۔ 1917ء میں جنم اشٹمی کے دن یہ فلم میجسٹک تھیٹر میں ریلیز ہوئی اس فلم نے زبردست کامیابی حاصل کی۔ ایک اندازے کے مطابق 1931ء تک اس ایک ہی فلم نے کل تین لاکھ روپے کمائے جو ان دنوں کے حساب سے بہت زیادہ آمدنی تھی۔ ان کی اگلی فلم "کالیا مردن" 1919ء میں آئی۔ اس فلم میں پھالکے کی ٹرک فوٹو گرافی کے مناظر نے دھوم مچا دی تھی۔

ان کی فلموں میں کرشن کا کالا ناگ سے لڑنا، ہنومان کا آسمان میں اڑنا اور ان کی پونچھ کے ذریعے لنکا میں آگ لگانا جیسے مناظر نے پھالکے کو ٹِرک فوٹو گرافی کے لئے الگ سے ایک نئی پہچان دلائی تھی۔ لیکن چند برسوں میں ہی ساجھی داروں سے تال میل ٹھیک نہ بیٹھنے کی وجہ سے دادا صاحب پھالکے 1921ء میں اس کمپنی سے الگ ہو کر بنارس چلے گئے اور وہاں رہ کر ہی انہوں نے ناٹک لکھنے کا کام شروع کر دیا۔ پانچ برس بنارس میں رہ کر جب وہ واپس بمبئی آئے تو فلمی دنیا کا طرز زندگی ہی بدل چکا تھا۔ اس درمیان کلکتہ میں "کوہ نور" اور بمبئی میں "مہاراشٹر کمپنی" تیزی سے امریکی فلموں کی نقل میں فلمیں بنا رہی تھیں۔ لہذا دادا صاحب پھالکے اس نئے ماحول میں خود کو زیادہ بہتر محسوس نہ کر سکے۔
1924ء سے 1930ء تک پھالکے اپنے کام میں پوری محنت اور لگن سے لگے رہے۔ اپنی دیو مالائی فلموں کے ذریعہ انہوں نے ذات، برادری، چھوا چھوت ، توہم پرستی اور فرقہ پرستی کے خلاف انتہائی ترقی پسند طرز پر کام کیا۔ ان کی اس روایت کو بعد میں بھال جی پنڈھاکر اور وی۔ شانتا رام جیسے باصلاحیت فلمسازوں نے بھی قائم رکھا۔ خاموش فلموں کا یہ سنہرا دور تھا۔
اس کے بعد 14/ مارچ 1932ء کو ہندوستان کی پہلی متکلم فلم "عالم آرا" آردیشر ایرانی [Ardeshir Irani] نے پیش کی۔ دادا صاحب نے 1932ء میں اپنی آخری خاموش فلم "سیتو بندھن" بناکر اپنے آپ کو اس کاروبار سے الگ کر لیا۔ کافی عرصہ تک دادا پھالکے فلمی دنیا سے الگ تھلگ رہے اور اس طرح ان کی مالی اور گھریلو حالات خراب ہوتے چلے گئے۔
1937ء میں کولہا پور سنے ٹون نے اپنی مراٹھی اور ہندی میں ایک ساتھ بننے والی فلم "گنگا وترن" کی ہدایت کی ذمہ داری کے ساتھ مکالمے اور موسیقی کا کام بھی ان کو سونپ دیا۔ اس فلم میں دادا صاحب نے ایک بار پھر اپنی ٹِرک فوٹو گرافی کے جلوے دکھائے، یہ فلم ان کی پہلی متکلم اور اکلوتی فلم ثابت ہوئی۔

ہندوستانی سنیما کے اس باوا آدم نے اپنی زندگی کے آخری چند برس بڑی کسمپرسی کے عالم میں گزارے۔ ان کے آخری دنوں کا ایک واقعہ جو فلمساز و ہدایت کار پنڈت کیدار شرما نے ایک بار سنایا، وہ یہ تھا کہ ایک دن بمبئی کے رنجیت اسٹوڈیو کے باہر دادا صاحب پھالکے خاکی پینٹ اور ایک ڈھلی ڈھالی سی قمیض پہنے کھڑے تھے۔ کیدار شرما جب اسٹوڈیو سے باہر نکلے، تب پھالکے نے پہلے تو ان کے کام اور فلمسازی میں ان کے ہنر کی تعریف کی اور پھر کہا کہ کیا وہ اپنے اسٹوڈیو میں ان کو کوئی کام دلوا سکتے ہیں؟ یہاں تک کہ پھالکے صاحب اسٹوڈیو میں کیمرے صاف کرنے اور ان میں تیل ڈالنے کے لئے تیار تھے۔
کیدار شرما نے ان کو اسٹوڈیو کے مالک چندو لعل شاہ کے پاس بھیج دیا۔ بعد میں معلو م ہوا کہ سیٹھ چندو لعل شاہ نے نہ صرف انہیں کام دینے سے انکار کر دیا بلکہ چوکیدار سے کہہ کر اسٹوڈیو کے باہر نکلوا دیا۔
یہ وہی دادا صاحب پھالکے تھے جنہوں نے ہندوستان جیسے بڑے ملک میں فلم انڈسٹری کی بنیاد کی پہلی اینٹ رکھی تھی اور اس کام کے لئے اپنی بیوی کے گہنے تک بیچ ڈالے تھے۔ بعد میں اس پورے منظر کو گرودت نے اپنی بے مثال فلم "کاغذ کے پھول" میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا تھا، اور رشی کیش مکرجی نے اپنی فلم" گڈی" میں اسی سانحے کی طرف اشارہ کیا تھا۔
کچھ اسی طرح کا حال فلمی دنیا کے ایک بڑے ستون بابو راؤ پینٹر کا بھی ہوا تھا۔ بعد میں چندو لعل شاہ کے بارے میں بھی سنا گیا کہ وہ اپنے آخری دنوں میں اپنے ہی اسٹوڈیو کے باہر اپنی بنائی ہوئی فلموں کے فوٹو اور پوسٹر بیچتے ہوئے پائے گئے۔

آج دادا صاحب پھالکے کے نام پر قائم ہندوستان کا سب سے بڑا فلمی اعزاز "دادا صاحب پھالکے ایوارڈ" کو حاصل کر کے ہماری فلمی دنیا کے لوگ اپنے آپ پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ اعزاز فلمی دنیا میں اپنی زندگی کے بیش قیمت ماہ و سال گزار کر کچھ کر گزرنے والے فنکاروں کو دیا جاتا ہے۔
1970ء میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ حکومت ہند نے قائم کیا تھا اور اس برس پہلا ایوارڈ حاصل کرنے والی ایک خاتون اداکارہ دیویکا رانی تھیں۔ حکومت ہند کے محکمہ ڈاک و تار نے دادا صاحب پھالکے کے سویں جنم دن کے موقع پر 30 اپریل 1971ء کو ایک خصوصی ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔ بمبئی میں دادر علاقے کی سڑک کا نام بھی ان کے نام پر دادا صاحب پھالکے روڈ رکھا گیا ہے۔

دادا صاحب پھالکے نے اپنی زندگی کے چونسٹھویں برس میں اپنی اکلوتی متکلم اور آخری فلم "گنگا وترن" 1937ء میں بنائی تھی۔ کل ملا کر انہوں نے تقریبا بیس (20) فیچر اور ستانوے (97) دستاویزی فلمیں بنائیں، مگر ان کی مالی حالت ہمیشہ خستہ ہی رہی۔ 71 برس کی عمر میں 16/فروری 1944ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔
انہوں نے اپنی عمر کے آخری کئی برس گمنامی میں ہی گزارے ، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب جب ہندوستانی سنیما کی بات ہوگی ، دادا صاحب پھالکے کے نام کا تذکرہ ضرور ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے:
ششی کپور کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ - 2014
پران کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ - 2013
گلزار کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ - 2013
***
ماخوذ از کتاب: ہندوستانی فلم کا آغاز و ارتقا (جلد اول، سنہ اشاعت: 2012)
مولف: ڈاکٹر الف انصاری

Dada Sahib Phalke, An Unforgettable Name of Indian Cinema.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں