حدیث الغاشیہ - انشائیہ از ابوالکلام آزاد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-02-12

حدیث الغاشیہ - انشائیہ از ابوالکلام آزاد

hadees-alghashia-abulkalam-azad
ممتاز جریدہ "نقوش" کا ضخیم ترین 'طنز و مزاح نمبر' (اشاعت: جنوری/فروری-1959) اردو ادب کی تاریخ میں اپنی ایک انفرادیت و اہمیت رکھتا ہے۔ اس نمبر کے ایک باب "طنزیہ و مزاحیہ ادب کا دور" میں مدیرِ رسالہ نے کچھ ان بڑے ادیبوں کی شگفتہ، طنزیہ و مزاحیہ تخلیقات کو شامل کیا ہے جو باقاعدہ قسم کے طنز نگار یا مزاح نگار نہ تھے۔ طنزیہ و مزاحیہ دور کی انہی ارتقائی کڑیوں سے بعد کے مزاح نگاروں کو نئی راہیں ملی ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا مشہور انشائیہ "حدیث الغاشیہ" بھی اسی باب میں شامل رہا ہے، اور تعمیرنیوز کی جانب سے پہلی مرتبہ انٹرنیٹ پر تحریری شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
دو دن کی فریقانہ معرکہ آرائی کو اب اور کہاں تک طول دیا جاتا؟
اس کا فیصلہ یوں کیا گیا کہ بین بین طریقہ پسند کیجئے کہ خیر الامور اوسطھا کفر و اسلام دونوں کو اختیار کیجئے۔ اہرمن اور یزداں کو رام کیجئے۔ ایک ہی طرف کیوں جھکیے۔ جب دونوں کی خوشنودی حاصل ہو سکے؟ صرف کعبے ہی کے کیوں ہو رہئے، جب تک بت کدے سے بھی رسم و راہ ہو سکے؟ ایک ہاتھ میں زنار برہمن لیجئے اور دوسرے ہاتھ میں سبجۂ زاہد۔ یعنی ایک ہاتھ ایمان سے ملائیے اور دوسرا وقت مصافحہ نفاق۔ یعنی ایک ہاتھ میں "جام غلامی"، اور دوسرے میں "سندان حریت"۔

در کفے جام شریعت در کفے سندانِ عشق
ہر ہوسناکے نداند جام و سنداں باختن

مذبذبين بين ذٰلك لا إلىٰ هٰؤلاء ولا إلىٰ هٰؤلاء (4:143)

معشوقِ ما بشیوۂ ہرکس موافق است
باما شراب خورد و بزاہد نماز کرد

نؤمن ببعضٍ ونكفر ببعضٍ ويريدون أن يتخذوا بين ذٰلك سبيلًا (4:15)
(بعض باتوں میں راہ ایمان اختیار کریں گے اور بعض میں راہ کفر، وہ چاہتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان کوئی تیسری راہ اختیار کریں)

حقیقت یہ ہے کہ اس "جمع اضداد" کی راہ نہایت مشکل ہے۔ ایک ہاتھ میں جام باطل پرستی رکھئے اور دوسرے میں سندان حق پرستی اور دونوں کو باہم زور زور سے ٹکرائیے مگر شرط یہ ہے کہ باطل کے جام بلوریں میں بال تک نہ آئے اور سندان حق پرستی بھی ہاتھ سے الگ نہ ہو۔
ہر ہوسناکے نداند جام و سنداں باختن
اوروں کی خبر نہیں مگر اپنی کمزوری کا تو ہمیں صاف صاف اعتراف ہے۔ اس شعبدہ بازانہ چابکدستی کو مشق کے لئے بڑی بڑی قابلیتوں کی ضرورت ہے۔ یہ مقامات عالیہ ہم تہی دستان کمال کو بھی حاصل نہیں ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"ایسے میں خبر اڑی کہ (ہزآنر) کے ہاں (ڈنر) ہے۔ ہم نے کہا کہ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ قومی طاقت کے ہزاروں آہنی حربے ایک طرف اور ان نئی چھری کانٹوں کی جھنکار ایک طرف۔ حریت پسندوں سے پوچھا کہ کہئے اس ناوک کا بھی کوئی جواب آپ کے ترکش میں ہے؟ جواب ملا کہ نہیں! شکست کا اعتراف ہے۔

چشم اگر ایں است و ابرو ایں و ناز و عشوہ ایں
الفراق اے ہوش و تقوی، الوداع اے عقل و دیں

لیکن پھر ہم نے دل کو تسکین دی۔ اطبائے قدیم و جدید کا اتفاق ہے کہ چھ گھنٹے کے بعد غذا کے جرم سے معدہ خالی ہو جاتا ہے۔ جلسہ رات کو نہیں بلکہ صبح آٹھ بجے ہے، اور انگریزی کھانا بوجہ سادہ و بے آمیز ہونے کے قدرتی طور پر زود ہضم ہوتا ہے۔ اب ایسی بھی یہ غذائے نفیس کیا ثقیل ہوگی کہ صبح تک معدے میں فروکش رہے اور آوازیں نکلیں تو حلق کی جگہ معدوں سے۔

مگر افسوس کہ دوسرے روز ہماری طبی معلومات میں ایک انقلابِ عظیم واقع ہوا، (طبی کانفرنس) کے آئندہ اجلاس میں ہم اس مسئلہ کو پیش کریں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ غذا جتنی نفیس و لطیف ہوتی ہے اتنی زیادہ ثقیل بھی ہوتی ہے۔ نیز اگر بقراط بھی کہیں ملیں تو ہم ان سے اس بارے میں لڑنے کے لئے تیار ہیں کہ شام کی غذا کم از کم دوسرے دن کی دوپہر تک تو ضرور معدے میں موجود رہتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حریفانِ خلوت نے 'صحبت نیم شبی' کی مجلس خاص کے مزے لوٹے لیکن اس بادہ گسارانہ فیاضی کا اعتراف کرنا چاہئے کہ صبح کی مجلس عام کو بھی سرشادی اور بے خودی سے محروم نہ رکھا جائے۔ کیونکہ بارہ دری سے نکل کر جو کچھ گزری اس کی ذمہ داری تو کوئی نہیں لے سکتا اور کیوں لے؟ لیکن اس میں شک نہیں کہ بارہ دری کے اندر تو سبھی مست تھے۔
بے خود اس میں ہیں سب حاتم
ان دنوں کیا شراب سستی ہے

لیکن ہم کہیں کہہ چکے ہیں کہ ہمارے ساقی مآب دوست نے پلائی تو ضرور کوئی ایسی ہی شئے جس کا رنگ سرخی مائل اور نظروں کے لئے ولولہ انگیز تھا۔ لیکن اس میں شک ہے کہ کہیں پانی تو زیادہ نہیں ملا دیا تھا۔ کیونکہ ہم نے 28 ہی کو دیکھا کہ شام ہوتے ہوئے جمائیاں آنی شروع ہو گئی تھیں اور چہرے اکثر بےحال تھے۔ بارہ دری سے نکلنے کے بعد ہی چند مدعیانِ آزادی ملے جن سے ہم نے پوچھا کہ یہ کیا ہنگامہ تھا لیکن وہ رزولیوشن کا مطلب بھی نہ بتلا سکے۔ جب کہا کہ بے سمجھے بوجھے آپ نے بھی تو "رقصِ مغلوبہ" میں حصہ لیا تھا تو یکایک ان کے سر میں خارش شروع ہو گئی۔ حالانکہ اب ہاتھ کی جگہ سر نہیں بلکہ پیشانی تھی۔ ع
گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر

وہاں تو سب دم بخود ہے لیکن ڈیپوٹیشن کی شرکت کا مسئلہ ایسا نہ تھا کہ جو بعد کو یاد نہ آتا۔ ہم نے سنا ہے کہ بقیہ تمام دن اسی معرکہ آرائی میں صرف ہوا۔
یہ بعد از انفعال اب اور ہی جھگڑا نکل آیا

بزرگانِ پنجاب نے فوراً اپنا بستر لپیٹا کہ ہماری قائم مقامی کا لحاظ نہیں رکھا گیا اور صحبتِ نیم شبی کی کسی کو خبر نہیں دی۔ گویا اور تو تمام صوبوں کی قائم مقامی کا کامل لحاظ رکھا گیا تھا! سنا ہے کہ جناب (راجہ صاحب) اسٹیشن دوڑے ہوئے گئے کہ خدا کے لئے اور جو جی میں آئے کیجئے مگر روٹھ کر تو نہ جائیے۔ ع
تم ہی سچے سہی اس بات کا جھگڑا کیا ہے

خیر یہ تو اس "شب وصل" کی شام تھی۔ اس کے ذکر کو کہیں جلد نپٹائیے۔ کیونکہ اصلی پر لطف حصہ تو اس کے بعد آتا ہے جب کہ رندان بادہ گسار نے "حجلہ نیم شبی" آراستہ کیا اور موٹر کاریں بھیج بھیج کر ایک ایک شریک پیماں کی قسمتِ خفتہ کو مژدہ بادہ گساری سے بیدار کیا گیا۔ ع
وقت آن نیست کہ در حجرہ بخوابی تنہا

"ذکر عیش بہ از عیش" یعنی
ذکرِ حبیب کم نہیں وصل حبیب سے
چشم تصور سے کام لیجئے کہ دسمبر کے آخری ہفتے کی سرد راتیں ہیں۔ لیلائے شب کی زلف کمر سے گزر چکی ہے ، ایک کنج خلوت میں صحبت بادہ پرستی گرم ہے اور گرم گرم سازشوں کی ع
دھری شراب ہے بیٹھے ہیں جابجا ساقی

قبل اس کے آپ کسی مدعی زاہد کو الزام دیں، آپ ہی کو منصف بتاتے ہیں کہ بھلا ایسی توبہ شکن اور ولولہ انگیز صحبت میں اگر ہمارے کسی دوست کی توبہ نے لغزش کھائی اور اس جام عہد فراموش کو منہ سے لگاتے ہی بنی جو کسی کے "دستِ طلائی" نے پیش کیا تھا، تو انصاف کیجئے ، آخر پہلو میں دل کس کے نہیں ہے ؟ اور یہ تو وہ مقام ہے کہ ہاروت و ماروت کے قدم بھی لڑ کھڑا گئے تھے۔ ع
ساقیا مرنج از من ، عالم جوانی ہاست

خود صحبت آزمایانِ شبینہ کا بیان ہے کہ یہ بادہ گساری رات کے دو بجے تک جاری رہی تھی۔ اللہ اللہ جاڑے کی راتیں اور پچھلے پہر کی "پر اسرار صحبتیں"!! آپ الزام و اعتراض کی فکر میں ہیں اور "رات کے دو بجے" کے لفظ سے نہیں معلوم کیسے کیسے خیالات میرے دماغ میں گذر رہے ہیں؟ رات کی تاریکی، پچھلا پہر، رندان شاطر و کہنہ مشق کا ہجوم اور بعض نوجوان و نوآموز مدعیانِ حریت پھر شغل مے پرستی کا یہ عالم! اب کیا کہوں کہ کیا کہنا چاہتا ہوں؟
مست بر بستر من افتد و رندان دانند
حالت مست کہ بر بستر ہشیار افتند

اب ادھر کی سنئے۔ یہاں تو شب زندہ داران بادہ گساری "صبحِ خمار" کی اعضا شکنیوں میں کروٹیں بدل رہے تھے اور ادھر صبح آٹھ بجے ہی سے اجلال کا ہال تماشائیان بزم سے بھر گیا۔ ایک دن پہلے حصولِ مقصد کے لئے جو تدابیر گوناگوں و بوقلموں اختیار کی گئی تھیں۔ منجملہ ان کے ایک تدبیر خاص یہ تھی کہ جلسے کے لئے ٹکٹ مقرر کر دیا گیا اور یہاں تک ہمیں بھی اتفاق تھا کیونکہ آج اسٹیج پر پردے سے جو پتلیاں نکلنے والی تھیں وہ تھیٹر کے آموختہ یاد کئے ہوئے ایکٹروں کی طرح ایک تماشے زیادہ نہ تھیں۔ اس لئے ضروری تھا کہ (باصطلاح عوام) اس تماشہ گھر کے لئے ٹکٹ بھی مقرر کیاجائے لیکن اس پر طرہ یہ تھا کہ ٹکٹ کے لئے پہلے تو شرط لگا لی گئی کہ صبح آٹھ بجے سے پہلے لے لئے جائیں، حالاکہ جاڑوں میں آٹھ بجے تک رات کی کہر سے فضا بھی صاف نہیں ہوتی۔ پھر ٹکٹ کے لئے تھیٹر کے صدردروازے پر ٹکٹ گھر کی کھڑکی کا اعلان کیا گیا تھا لیکن جو لوگ وہاں پہنچتے تھے ان سے کہا جاتا تھا کہ راجہ صاحب کے یہاں جائیے، راجہ صاحب کے ہاں سے صدا اٹھتی تھی کہ جہاں سے آئے ہیں اسی طرف پھیلے پاؤں پھرئیے !!

یاں سے واں، واں سے یہاں حکم ہوا وصل کی شب
ہم اٹھاتے ہی بچھاتے رہے بستر اپنا

اس سے غالباً مقصود اصلی یہ تھا کہ ان مشکلات کی وجہ سے آزاد خیال طبقے کی مجارٹی جمع نہ ہو سکے۔ یہ بھی خبر اڑی تھی کہ ایک جماعت کل کے لئے باہر سے ٹھیکے پر بلائی گئی ہے۔ ایک جماعت راوی ہے کہ پولیس کی قوت سے بھی کام لینے کا ارادہ کیا گیا تھا لیکن صبح کو پھر ان تمام انتظامات کے عمل میں لانے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ کیونکہ رات کے قول و قرار کے بعد سب مطمئن ہوگئے تھے کہ جب خیموں میں باہم صلح کر لی ہے تو میدان جنگ میں لڑائی کا اب کیا خوف؟ (ناظم پاشا) جب ساتھ مل گیا تھا تو (کامل پاشا) بے فکر ہو گیا تھا کہ کیونکہ اس نے سمجھ لیا تھا کہ فوج کی اصلی قوت ان کے ہاتھ میں ہو یا نہ ہو لیکن اس وقت تو ضرور ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہرحال مجلس جم چکی تو پردہ اٹھا اور اس تماشے کا ایک ہی ایکٹ شروع ہو گیا۔ سب سے پہلے ہمارے عشوہ فرما دوست باہر نکلے اور رزولیوشن پیش کیا، وہ بیٹھے تو میجر سید حسین بلگرامی اٹھے اور تائید کی ع
یکے بد زدی دل رفت و پردہ دار یکے

اب نہ 26 کے محرک تھے اور نہ موید ؎
یہ لوگ بھی غضب ہیں کہ دل پر یہ اختیار
شب موم کر لیا سحر آہن بنا لیا

26 کی سہ پہر کو ہمارے دوست کا مزاج بہت گرم تھا، ان کی تقریر اتنی پرجوش تھی کہ اس کی بے اعتدالی ہم کو بھی ناگوار گزری اور ان کے کان میں کہا کہ خدارا، ذرا لب و لہجہ نرم کیجئے۔ علی الخصوص یہ بات ہمیں کچھ اچھی نظر نہیں آئی کہ سارا زور "جوش محمد" اور "متین اللہ" کے ضلع پر وہ صرف کر رہے تھے۔ اور تقریر صرف صاحبزادہ آفتاب احمد خاں صاحب پر شخصی ارادت ظاہر کرنے میں جاری تھی۔ حالانکہ بہتر تھا کہ بغیر تشخص و تعین کے وہ سب کچھ کہتے۔ ہم کو اعتراف ہے کہ صاحبزادہ آفتاب احمد خاں نے اس وقت ابل تعریف ضبط و تحمل سے کام لیا اور اپنی تقریر میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ گو جلسہ ان کا مخالف تھا مگر غصہ تو وہ شے ہے کہ موقع شناسی کی مہلت ہی کب دیتا ہے۔

لیکن آج کل کی تقریر اتنی ٹھنڈی تھی کہ پرسوں جن لوگوں نے ان کے جوش کے انگارہ سے اپنی انگیٹھیاں روشن کی تھیں آج ان کو آغاز تقریر ہی سے جمائیاں آنے لگیں۔ پرسوں ہمارے دوست کے ہاتھ میں شامپین کے جام تھے، آج انہوں نے چاہا کہ ٹھنڈے پانی ہی کو وائن گلاس میں بھر بھر کر تقسیم دیں، سوڈا بھی نہیں۔
ہم نے تقریر کا پہلا لفظ ہی چکھ کر اپنے قریب بیٹھے ہوئے احباب سے کہہ دیا تھا کہ آج یا تو صرف پانی ہے یا پانی اس قدر ملا دیا ہے کہ بو اور ذائقہ دونوں کا پتہ نہیں ؎
مرا اے می فروش آں بے خودی نیست
مگر در بادہ آب کردہ باشی

سب سے پہلے ہمارے دوست نے قسمیں کھانا شرو ع کیں کہ مجھ پر خدا کے لئے اعتماد کیجئے۔ لیکن وہ بھول گئے کہ زیادہ قسمیں کھانا کوئی اچھی علامت نہیں سمجھی جاتی، گو اچھی علامت ہو ع
قسم سچی سہی پھر بھی ضرورت کیا ہے کھانے کی

ہمارے دوست کو معلوم نہیں ہے کہ اعتماد حاصل کرنے کا ذریعہ قسموں اور عہد و پیمان میں نہیں ہے بلکہ کسی اور ہی چیز میں ہے، سچا اعتماد پیدا کرنے والوں نے کبھی خود قسمیں نہیں کھائی ہیں بلکہ اپنی استقامت اعمال کے زور سے اعتماد کی قسمیں دوسروں سے لی ہیں، اس نکتے کو خانخاناں نے سمجھا تھا۔ ؎
بہ کیش صدق و صفا حرف عہد بیکار ست
نگاہے اہل محبت تمام سوگندست

ألم تر إلى الذين يزكون أنفسهم بل الله يزكي من يشاء (4:49)
قبل اس کے کہ کوئی کچھ کہے خود ان ہی نے ڈیپوٹیشن کی تجویز کو سادی چیک بک سے تعبیر کیا، اور پھر واقسموا باللہ جہد ایمانھم کا سلسلہ شروع ہوا۔ کیا یہ اس کا ثبوت نہ تھا کہ خود ان کا ضمیر بھی اس وقت عالم اضطراب میں تھا۔ اس لئے خود ہی اپنے سے کھٹکتے ہیں اور خود ہی جواب دیتے ہیں ؟ صاف معلوم ہوتا تھا کہ آج جو کچھ زبان سے نکل رہا ہے ، اس سے ہمارے دوست کو خود بھی حیا آ رہی ہے ؎
میں اپنی چشم شوق کو الزام خاک دوں
تیری نگاہ شرم سے کیا کچھ عیاں نہیں؟

رزولیوشن کے پاس کر دینے کی خوشی کے ہیجان نے ہوش و حواس کھو دئیے تھے۔ جن نوجوانوں نے پرسوں اپنی گلا بازی سرگرم تقریروں میں دکھائی تھی۔ آج ان کی گرج اس ہنگامے کے بپا کرنے میں کام آ گئی۔ چیختے چیختے گلا بیٹھ جاتا تھا مگر سینوں کے اندر آوازوں کا ایک سمندر بہہ رہا تھا۔ آواز اگلتے اگلتے منہ دکھ جاتے تھے ، مگر برق و رعد کا سیلاب تھا کہ کسی طرح بند ہی نہیں ہوتا تھا۔ "بلغاری محاصرہ" کی پلٹنیں اس بیکاری سے کچھ اکتا سی گئی تھیں۔ اب انہوں نے ایک گھنٹے کی خاموشی کی کسر یوں نکالی کہ کچھ دیر کے لئے بارہ دری کے اسٹیج کو "ہارسٹن سرکس" کا تماشاگاہ فرض کر لیا اور لگے بے تکان قلابازیاں کھانے ؎

دل زتمکین شود بے ذوق زنہار
گہے طفلی شود مستانہ مے رقص

جن لوگوں نے ان عجیب و غریب گھڑیوں کو نہیں دیکھا ہے، محال ہے کہ اس کی کیفیت سمجھائی جا سکے۔ چہرے جوش و ہیجان سے سرخ، گردن کی رگیں ابھری ہوئی، شدت شور و ہنگامے سے پڑے ہوئے ہاتھ میں اچھلتی ہوئی ٹوپیاں اور پاؤں کو اضطراب رقص سے قرار نہیں، منہ سے کف اڑ رہی تھی اور چونکہ قریب قریب کھڑے تھے اس لیے آپس میں ایک دوسرے کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔ رومال نکال کر منہ پونچھتے اور پھر کف اڑاتے۔ منتظمین جلسہ کو کیا معلوم تھا کہ بارہ دری کے اسٹیج سے میدان رقص کا کام لیا جائے گا ورنہ اس کی روایت ملحفوظ رکھتے۔ نتیجہ یہ تھا کہ جوش تواجد میں گردش رقص کی جگہ نہیں ملتی تھی اس لئے جو رقاص جہاں کھڑا تھا وہیں اپنے پاؤں سے اسٹیج کے چوبی تختوں کو کوٹ رہا تھا۔

یہ ایک رقص مغلوبہ کا اصلی ایکٹ تھا ، اگر (سر ہنری اورنگ) زندہ ہوتا اوراس مجمع کو دیکھتا تو یقین ہے کہ ان پرجوش نوجوانوں کی ایک کھیپ تو ضرور اپنے ساتھ لے جاتا۔

نقوش کے "طنز و مزاح نمبر" سے ماخوذ یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ - سجاد حیدر یلدرم
غسلیات - انشائیہ از کرشن چندر
کوئی کہتا ہے دیوانہ - اکبر الہ آبادی
ہم لکھنؤ گئے - گوپال ویاس

ماخوذ:
مجلہ "نقوش" (طنز و مزاح نمبر)
شمارہ 71-72 (جنوری-فروری 1959)
ناشر: ادارہ فروغ اردو ، لاہور (پاکستان)

Hadees-al-Ghashia, humorous Essay by Abulkalam Azad.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں