اردو جاسوسی ادب میں سب سے پہلا طبع زاد ناول اور کردار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-01-15

اردو جاسوسی ادب میں سب سے پہلا طبع زاد ناول اور کردار

urdu-spy-literature-origin
اردو میں جاسوسی ناول ابن صفی صاحب سے پہلے بھی لکھے جاتے رہے ہیں مگر سبھی ناولوں کا زیادہ تر مواد اور کردار مغربی مصنفین کے ناولوں اور کرداروں کے تراجم اور نقل ثابت ہوتے رہے ہیں۔ یعنی ابن صفی صاحب کے پہلے طبع زاد ناول "دلیر مجرم" (اشاعت: مارچ 1952ء) اور دلیر مجرم کے طبع زاد کرداروں فریدی، حمید و ڈاکٹر شوکت وغیرہ سے پہلے اردو جاسوسی ادب میں لکھے گئے ناول اور کردار مغربی ممالک کے ناولوں/کرداروں کے تراجم/نقل کیے گئے تھے۔

دو مصنفین فیروز دین مراد اور ظفر عمر (بی۔اے) علی گڑھ میں بھی ساتھ رہے۔ فیروز الدین نے شرلاک ہومز کے تراجم کیے اور ظفر عمر نے فرانسیسی مصنف مارس لیبلانک کے ناولوں کے تراجم اپنے انداز سے پیش کیے اور فرانسیسی مصنف مارس لیبلانک ہی کے کردار 'آرسین لوپن' کو 'بہرام' کی شکل دی۔ یوں تراجم کی شکل میں دونوں مصنفین کے ناول اردو جاسوسی ادب میں پہلی بار سامنے آئے۔ مرزا ہادی رسوا نے کئی تراجم کیے۔ تیرتھ رام فیروزپوری (پیدائش 1885ء، وفات 1954ء) نے تقریباً ڈھائی سو ناولوں کے تراجم کیے۔ کئی دیگر مصنفین نے بھی متعدد تراجم کیے ہیں۔

ظفر عمر (پیدائش 1884ء، وفات 1949ء) کی بیٹی حمیدہ اختر رائے پوری (پیدائش 1918 ، وفات 2009) نے اپنی کتاب "نایاب ہیں ہم" (خاکے) میں ایک مشہور و معروف ہندو شخص اور اساطیری کردار 'سلطانہ ڈاکو' سے اپنے والد ظفر عمر کے کردار 'بہرام' کو تشبیہ
دی تھی۔
سلطانہ ڈاکو انگریزوں کے رابن ہُڈ سے بہت زیادہ مماثلت رکھتا ہے۔ رابن ہڈ جو سن 1290ء میں پیدا ہوا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ امیروں کا مال لُوٹ کر غریبوں میں تقسیم کرتا، جو بہت اچھا تیرانداز اور تلوار چلانے کا ماہر تھا، بالکل ایسا ہی ہندوستان کا ایک ہندو سلطانہ ڈاکو بھی تھا۔ جبکہ ظفر عمر کا بہرام، سلطانہ ڈاکو سے قطعاً کوئی مماثلت نہیں رکھتا ہے۔ کیونکہ سلطانہ ڈاکو کبھی پولیس یا پولیس آفیسرز کے روپ میں نہیں دیکھا گیا۔ سلطانہ ڈاکو کبھی سائنس کے تجربات کرتا نہیں دیکھا گیا، جہاز اُڑاتے یا کنٹرول کرتے نہیں دیکھا گیا وغیرہ وغیرہ۔

ظفر عمر صاحب کے پہلے ناول نیلی چھتری (اشاعت: 1916ء) کے بعد ظفر عمر کے دیگر دو چار ناولوں پر سن اشاعت بھی درج نہیں، نہ ہی یہ کوئی سلسلہ یا سیریز ہے۔ اپنے ناول 'بہرام کی گرفتاری' میں ظفر عمر نے خود اقرار کیا کہ بہرام کے ناول فرانسیسی مصنف مارس لیبلانک کے ناولوں کے تراجم ہیں اور بہرام کا کردار مارس لیبلانک ہی کے کردار 'آرسین لوپن' کی نقل ہے۔

ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ: ممکن ہے برصغیر کی تقسیم سے قبل طبع زاد جاسوسی ناول لکھنے والے دیگر مصنفین بھی ہوں گے اور امکان ہے دوسری جنگ عظیم یا تقسیم کے ہنگاموں میں اُن کا ریکارڈ کھو گیا ہوگا۔

یہ اعتراض درست نہیں، اگر درست مانا جائے تو ناول 'نیلی چھتری' 1916ء میں شائع ہونے کے دوران بھی جنگ عظیم اول (14 جولائی 1914ء تا 11 نومبر 1918ء) کا دور تھا جس میں سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ بھی ہوا تھا۔
اگر جاسوسی ناولوں نیلی چھتری، لال کھٹور، بہرام کی گرفتاری وغیرہ اور ان ناولوں کے مرکزی کردار بہرام وغیرہ طبع زاد ہوتے تو سن 1916ء سے 1951ء تک صِرف ترجمے کی روایت ہی برقرار نہ رہتی۔ سن 1900ء تا 1951ء تقریباً پچاس برسوں میں تراجم کی روایت ہی چلتی رہی۔ اِس دوران طبع زاد لکھنے والا کوئی مصنف ہوتا، کوئی ناول ہوتا تو پھر بھی کسی حد تک کہا جا سکتا تھا کہ اردو جاسوسی ادب میں پہلے طبع زاد ناول اور کردار نیلی چھتری ناول اور اس کے کردار ہو سکتے ہیں مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔

ایسا تب ہوا جب ابن صفی نے اُردو جاسوسی ادب کے پہلے طبع زاد ناول اور کردار تخلیق کیے۔ ابن صفی صاحب کی طبع زاد تخلیقات کے بعد بھی ابن صفی کے کرداروں پر لکھنے والوں کا ایک سیلاب سامنے آیا اور اُس سیلاب سے طبع زاد کردار بنانے والے چند مصنفین سامنے آئے اور ابن صفی کی پیروی میں اپنے کردار بنا کر لکھنے والے کچھ اور مصنفین بھی۔
جیسے اکرم الہ آبادی صاحب کے کردار خان اور سارجنٹ بالے وغیرہ۔ ہمایوں اقبال صاحب (ایچ اقبال) کے کردار میجر پرمود، کرنل ڈی وغیرہ۔ ایس قریشی صاحب کے کردار کیپٹن پرمود وغیرہ، مسعود جاوید صاحب کے کردار نجمی اور شہاب، اظہار اثر صاحب کے کردار طارق، بہزاد، توفیق وغیرہ، محی الدین نواب صاحب کے کردار فرہاد علی تیمور وغیرہ۔

جب سے اردو جاسوسی ادب میں اپنے تخلیق کیے ہوئے خالص طبع زاد ناول اور کردار ابن صفی صاحب نے لکھنے شروع کیے تب سے تراجم کرنے والوں کا حال بھی پوشیدہ نہیں۔ تراجم کے کاروبار اور فحاشی پر مبنی ناولوں کی فروخت ختم ہونے سے کسی کو نقصان بھی ہوا ہوگا۔ جنہیں نقصان ہوا تو ظاہر ہے اس طرح ابن صفی صاحب کے مخالفین کا بھی گروہ بنا۔ مگر ابن صفی صاحب کو ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اردو ادب کے نامور مصنفین اور محققین کی درست تحقیق اور منصفانہ نتائج کے مطابق اردو جاسوسی ادب میں پہلا طبع زاد ناول یعنی خالص اپنے کردار اور ناول تخلیق کرکے اور باقاعدہ ہر ماہ نیا ناول لکھنے کا سلسلہ/سیریز شروع کرنے والے سب سے پہلے مصنف بِلاشُبہ ابن صفی صاحب ہیں جن کا پہلا طبع زاد جاسوسی ناول دلیر مجرم ایک سلسلے/سیریز جاسوسی دنیا "فریدی حمید سیریز" کے تحت مارچ 1952ء میں منظرِ عام پر آیا۔

اسی طرح اردو ادب کی تاریخ میں جاسوسی کو ادب میں علیحدہ صنف کا درجہ دینے والے بھی کوئی اور نہیں بلکہ صِرف ابن صفی صاحب ہیں۔ ونیز سائنس کے کرشموں سے بھرپور سائنس فکشن ناول، جدید اردو جاسوسی ادب بھی ابن صفی صاحب ہی نے شروع کیا تھا۔

حوالہ جات:
ابن صفی شخصیت اور فن، مصنف: محمد فیصل (اکادمی ادبیات اسلام آباد پاکستان)۔
اردو میں جاسوسی افسانہ، پروفیسر مجنوں گورکھپوری (الف لیلیٰ ڈائجسٹ جولائی 1972ء)۔
اردو جاسوسی ادب، پروفیسر شبنم امان صاحبہ (کراچی یونیورسٹی)۔
ماہنامہ ایوان اردو دہلی (شمارہ جنوری 2018ء)۔

***
تحقیق و تحریر: سید فہد حسینی ترمذی
ایم اے۔ آئی آر۔ مانسہرہ، ہزارہ پاکستان۔

The origin of spy literature in Urdu.

1 تبصرہ: