مولانا کوثر نیازی (پ: 21/اپریل 1934 ، م:19/مارچ 1994)بھارت میں عالمی اردو کانفرنس کے بانی، اردو کمپیوٹر کے موجد اور ہندوستان میں پہلی دفعہ منعقد ہونے والی "انٹرنیشنل رحمۃ اللعالمین کانفرنس" کے آرگنائزر جناب علی صدیقی بڑی خوبیوں کے آدمی ہیں۔ بہت معمولی وسائل سے زندگی کے سفر کا آغاز کیا مگر آج اپنی شبانہ روز محنت کی وجہ سے ہندوستانی سماج میں ایک بلند مقام پر فائز ہیں۔ نہرو فیملی سے بہت قریب تھے۔ اندرا گاندھی سے تو ان کا ماں اور بیٹے کا رشتہ تھا، ایمرجنسی کے بعد فیملی پر جو دور زوال آیا، اس میں بھی علی صاحب نے وفاداری بشرط استواری کا اصول قائم رکھا، یہی وجہ ہے کہ اپنی ماں کے بعد راجیو گاندھی نے بھی انہیں ہمیشہ عزت دی اور اس عزت کو علی صدیقی نے ہمیشہ اردو زبان کے فروغ کا ذریعہ بنایا۔
اردو دنیا کے معروف شاعر، ادیب، صحافی اور دانشور ہونے کے ساتھ ساتھ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاکستان کے سیاسی و مذہبی رہنما تھے۔ 1989ء میں انہوں نے ہندوستان کا طویل دورہ کیا تھا جس کی روداد کئی قسطوں میں ان کے مخصوص کالم کے ذریعے پاکستان کے مشہور اخبار "جنگ" میں شائع ہوئی اور بعد ازاں "نقشِ راہگذر" نامی کتاب کے ذریعے منظر عام پر بھی آئی۔ اسی کتاب سے ایک اہم مضمون "جب ہم حیدرآباد دکن پہنچے" قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔
"عالمی اردو مورچہ" کے نام سے ان کی تنظیم پورے ہندوستان میں اردو زبان کو اس کا جائز مقام دلانے کے لئے سرگرم عمل ہے۔ "اردو مورچہ" کے نام سے ان کا ایک ہفت روزہ بھی دہلی سے شائع ہوتا ہے۔ جس کی ادارت مشہور صحافی اور ادیب جناب شہریار عابدی کرتے ہیں۔ اس مورچے میں بیٹھ کر وہ اردو دوست امیدواروں اور تنظیموں کے حق میں پروپیگنڈے کی گولہ باری کرتے اور اردو دشمن کمین گاہوں کو چن چن کر نشانہ بناتے ہیں۔ امیر المومنین سیدنا علی مرتضیؓ کے خاص طور پر شیدائی ہیں کہ اوائل زندگی میں جب وہ بہت سی مشکلات میں گھرے ہوئے تھے جناب امیرؓ نے خواب میں آکر ان کی رہنمائی کی ، تب سے نجف اشرف جا کر روضہ مرتضویؓ پر ہدیہ عقیدت پیش کرنا ان کی زندگی کا معمول ہے۔ اسی نسبت سے سالِ آئندہ سے وہ بھارت میں "جشنِ مولودِ کعبہ" کے زیر عنوان مولا علیؓ کے یوم ولادت پر ایک سالانہ بین الاقوامی کانفرنس کی بھی داغ بیل ڈال رہے ہیں۔
مخلص آدمی ہیں، اس لئے قدرتاً جذباتی بھی بہت ہیں، گھڑی میں ماشہ گھڑی میں تولہ ان کے مزاج کا وصف خاص ہے ، اپنے قد و قامت، رنگت اور گرمئ گفتار سے حضرت شورش کاشمیری کی یاد دلاتے ہیں۔ بھارت میں ایک تو اپنے سراپا کی مشابہت اور علمی و ادبی حیثیت کے لحاظ سے لکھنؤ کے پروفیسر ملک زادہ منظور احمد جناب شورش کا نقش ثانی ہیں اور دوسرے ہمارے علی صدیقی اپنی سیمابی طبیعت اور ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کے ساتھ ساتھ اپنی بلند و بالا شخصیت کی وجہ سے شورش مرحوم کا عکس ہیں۔ یہ دل بھی کیا چیز ہے، دوستوں کے بچھڑنے کے بعد کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی میں پھر بھی ان کی شبیہ کی جھلکیاں دیکھتا رہتا ہے۔
جناب علی صدیقی حیدرآباد دکن کے رہنے والے ہیں، ان کا ایک پاؤں دہلی میں ہوتا ہے تو ایک حیدرآباد دکن میں۔ بین الاقوامی رحمۃ اللعالمین کانفرنس دہلی میں مجھ سے وعدہ لے لیا کہ میں اپنے سفر بھارت کے دوران حیدرآباد دکن بھی ضرور آؤں گا۔ اور سچ پوچھئے تو مجھے بھی دو سرزمین دیکھنے کا بے حد اشتیاق تھا جہاں صدیوں مسلم ثقافت کا ڈنکا بجتا رہا ہے اور جس کے اجتماعی وسائل ہمیشہ برصغیر کے تمام علماء و مصنفین اور شعراء ادباء کی سر پرستی کے لئے وقف رہے ہیں۔
میں بنگلور سے حیدرآباد دکن پہنچا تو ایئرپورٹ پر جناب علی صدیقی اپنے بہت سے دوستوں کے ہمراہ میرے استقبال کو موجود تھے۔ انہوں نے مجھے پھولوں سے لاد دیا، پریس رپورٹر اور فوٹو گرافر بھی آئے ہوئے تھے کچھ دیر ان سے بات چیت رہی اور پھر ہم اپنے ہوٹل پہنچ گئے۔ جب میں حیدرآباد پہنچا تو انتخابات کا موسم عروج پر تھا، پورے شہرکو الیکشن کا بخار چڑھا ہوا تھا ، یہاں کے وزیر اعلیٰ این ٹی راما راؤ علاقے ہی کے نہیں پورے بھارت کے لیڈر سمجھے جاتے ہیں اور وہ مرکز میں راجیو گاندھی کی جگہ لینے کے عزم کا برملا اظہار کر چکے ہیں۔
بنیادی طور پر فلم ایکٹر ہیں اور سیاست اور اقتدار کی مصروفیات کے باوجود اس شعبے سے انہوں نے اپنا تعلق ختم نہیں کیا، اکثر فلموں میں دیوتا کا رول ادا کیا ہے، اس لئے یہاں کی خواتین خاص طور پر ان کی عقیدت مند ہیں ادھر وہ پردہ اسکرین پر جلوہ گر ہوتے ہیں ادھر ان پڑھ عورتیں ہاتھ جوڑ کر ان کی پوجا میں مشغول ہو جاتی ہیں۔ ان دنوں بھی وہ اپنی ایک ایسی ہی فلم بنانے میں تیزی سے مصروف ہیں ، ان کا خیال ہے اس فلم میں جب وہ حسب معمول دیوتا کے رول میں نظر آئیں گے تو ووٹروں کے مذہبی جذبات کو اپیل کرکے دوبارہ حکومت میں آ جائیں گے۔
اس مرتبہ وہ صوبائی اور مرکزی دونوں سیٹوں پر لڑ رہے تھے تاکہ حالات سازگار ہوں تو وزیر اعظم بن جائیں ورنہ وزیر اعلیٰ کا منصب تو ان کا منتظر ہے ہی۔ پچھلے الیکشن میں اندرا گاندھی کے قتل کی وجہ سے پورے بھارت میں راجیو گاندھی کے حق میں "ہمدردی کی ایک لہر" دوڑی ہوئی تھی اور انہوں نے اپنے نانا جواہر لال نہرو اور اپنی ماں اندرا گاندھی سے بھی کہیں زیادہ سیٹیں حاصل کی تھیں، مگر یہ علاقہ اس کے باوجود این ٹی راما راؤ کے سحر میں مبتلا رہا اور یہاں کانگریس کو شکست فاش ہوئی۔ مگر اب کے گڑبڑ یہ ہوئی کہ راما راؤ کی پارٹی (تیلگو دیشم) کے لیڈروں اور ان کے اعزا و اقربا (خصوصا داماد) نے دوران اقتدار رشوت اور بددیانتی کے ایسے ایسے کارنامے انجام دئیے کہ لوگ 'توبہ توبہ' کر اٹھے ہیں، اس نفرت کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب کے عوام نے اس "دیوتا" لیڈر کو بری طرح ٹھکرا دیا ہے۔ لوک سبھا (قومی اسمبلی) کی 42 نشستوں میں سے صرف دو اس کی پارٹی کے حصے میں آئی ہیں۔ 38 سیٹیں کانگریس نے جیتی ہیں اور ایک مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ سلطان صلاح الدین اویسی نے۔ ایک حلقے کا نتیجہ ابھی سامنے نہیں آیا اپنی مقبولیت کے گھمنڈ میں راما راؤ نے صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی ساتھ ہی ساتھ کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس کی 294 نشستوں میں بھی صرف 71 پر اس کے امیدوار کامیاب ہو سکے ہیں۔ بہرحال کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حیدرآباد دکن میں میرا زمانہ ورود عین انتخابات کے عروج کا زمانہ تھا اس لئے میں نے احباب سے عرض کی کہ اس موقع پر میں عام تقریبات میں حصہ نہیں لے سکوں گا۔ پریس کلب میں مجھے حضرت مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت اور فکر پر ایک لیکچر دینا تھا وہ بھی میں نے منسوخ کرا دیا کیونکہ قدرتاً اس کا فائدہ کانگریس کو پہنچتا اور میں خواہ مخواہ یہاں کی سیاست میں فریق بن جاتا، سیرت النبی کے ایک جلسہ میں شرکت سے بھی معذرت کی جس میں الیکشن لڑنے والے بعض رہنما بھی تقریر کرنے والے تھے اس طرح حیدرآباد دکن میں میرا قیام صرف بعض ملاقاتوں اور دعوتوں تک ہی محدود رہا۔
غیر منقسم ہندوستان میں حیدرآباد دکن مسلم ثقافت کا ایک اہم مرکز تھا، اردو زبان کا یہاں طوطی بولتا تھا، جامعہ عثمانیہ میں ہر مضمون اردو زبان میں پڑھایا جاتا تھا، یہاں تک کہ ایم بی بی ایس کرنے والے ڈاکٹر بھی کورس اردو ہی میں کرتے تھے۔ اردو کا ہر بڑا شاعر اور ادیب کسی نہ کسی انداز میں نظام حیدرآباد کے دربار سے وابستہ تھا۔ مولانا گرامی سے لیکر مولانا شبلی اور علامہ اقبال تک اور فانی اور جوش سے لے کر ماہر القادری تک سبھی اکابرین علم و ادب پر اس سرزمین کے احسانات ہیں۔
حضرت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور ان کے بھائی مولانا ابوالخیر مودودی بھی ریاست کے دارالترجمہ میں کام کرتے رہے ہیں۔ تقسیم کے بعد ظاہر ہے اب اردو کا وہ چلن تو نہیں رہا کہ نہ وہ پہلی سرکاری زبان ہے نہ دوسری ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی وہ ذریعہ تعلیم نہیں مگر اس کی چھاپ یہاں کے کلچر اور معاشرت پر ایسی گہری ہے کہ اسے کھرچنے کی ہزار کوششوں کے باوجود اب تک اسے کھرچا نہیں جا سکا اور اس کا واضح ثبوت یہاں کا مضبوط اردو پریس ہے جو اب تک عوام میں اپنی جڑیں رکھتا ہے۔
یہاں کا سب سے بڑا اردو اخبار "سیاست" ہے جو اس وقت بھی تقریباً پچاس ہزار اشاعت رکھتا ہے، اور روزنامہ "جنگ" کی طرح کمپیوٹر پر شائع ہوتا ہے۔ دوسرا اخبار "رہنمائے دکن" ہے اور یہ بھی اپنی اشاعت اور حلقہ اثر کے اعتبار سے خاصا ممتاز ہے۔
ہوٹل میں کچھ دیر سستانے کے بعد روزنامہ سیاست کے مدیر اعلیٰ جناب عابد علی خان سے ملنے کے لئے میں ان کے دفتر پہنچا انہیں اس کی اطلاع تھی اس لئے وہ حیدرآباد دکن کی مٹھائیاں اپنی میز پر سجائے میرے انتظار میں تھے۔ عابد صاحب کی عمر ساٹھ سال کے لگ بھگ ہوگی اقتدار کے ایوانوں میں بھی اچھا خاصا اثر و رسوخ رکھتے ہیں، اردو کے فروغ میں رات دن مصروف عمل ہیں۔ یہاں اردو کے سلسلے میں جتنی عالمی کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں ان کی سرپرستی میں دریغ نہیں کرتے۔ دو چار دن بعد یہاں اردو ادب میں طنز و مزاح کے موضوع پر ایک بہت بڑی کانفرنس منعقد ہونے والی ہے ، اس میں بھی مہمان خصوصی آپ ہیں (اس طرح کی ایک آدھ کانفرنس میں پاکستان کے مشہور مزاح گو شاعر سید ضمیر جعفری اور ممتاز فکاہیہ نگار عطاء الحق قاسمی بھی شرکت کرچکے ہیں)۔
انہی دنوں پاکستان کی متحدہ حزب اختلاف نے وزیر اعظم بے نظیر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تھی۔ عابد علی خان صاحب نے اپنے ٹیلی پرنٹر پر موصول ہونے والی تازہ ترین خبریں مجھے مطالعے کے لئے پیش کیں، وہ اپنے اخبار میں شائع ہونے والے تمام مضامین اور منظومات کا ایک جامع کیٹلاگ بنوا رہے ہیں جس سے معلوم ہو سکے گا کہ کس روز کس شاعر یا مضمون نگار کی کون سے تخلیق ان کے اخبارمیں شائع ہوئی ہے؟
"سیاست" اخبار "جنگ" اور زمیندار" کی طرح بہت پرانا اخبار ہے اس لئے تنہا یہی فہرست کئی جلدوں میں شائع ہوگی ، مجھے ان کا یہ اقدام بہت اچھا لگا، بدقسمتی سے روزناموں میں چھپنے والی اکثر و بیشتر تحریروں کی عمر بہت مختصر ہوتی ہے حالانکہ ریسرچ کا کام کرنے والوں کے لئے ان کی اہمیت محتاج بیان نہیں۔ ہمارے ہاں اگر "جنگ" اور "نوائے وقت" بھی یہ کام کر سکیں تو ادب اور صحافت کی بڑی خدمت ہوگی۔
عابد علی خان صاحب نے سیاست میں چھپنے والے بعض اہم مضامین اور نظموں کے مجموعے بھی شائع کئے ہیں ، وہ بھی انہوں نے عطا کئے۔ خان صاحب میرے اعزاز میں ایک عشائیہ بھی ترتیب دے رہے ہیں اس لئے باقی باتیں اس وقت تک کے لئے ملتوی کر کے میں نے ان سے اجازت چاہی۔
رات کو حیدرآباد دکن کے ایک مشہور مطعم "پیلس ریسٹورنٹ" میں جناب وقار الدین قادری ایڈیٹر "رہنمائے دکن" نے میرے لئے ایک ڈنر ترتیب دیا جس میں پارلیمنٹ کے بعض ممبروں کے علاوہ جناب علی صدیقی اور کئی مقامی ادیب اور شاعر بھی شریک تھے۔ قادری صاحب اقلیتوں کی صوبائی کمیشن کے چیئرمین بھی ہیں اور ان کا شمار کانگریس کے زبردست ناقدین میں ہوتا ہے۔ ابھی نوجوان ہیں اور اپنی محنت سے اس مقام تک پہنچے ہیں، خوشی ہوئی کہ دستر خوان پر تمام کھانے مخصوص حیدرآبادی ذائقہ لئے ہوئے تھے۔
یہاں کے اچار سے لے کر بینگنوں تک ہر ڈش کا اپنا ایک جداگانہ مزا اور برصغیر کے کھانوں میں اپنی ایک الگ پہچان ہے۔ "پیلس ریسٹورنٹ" کی یہ طعام گاہ بہت بلندی پر واقع ہے اس لئے یہاں سے شہر کا منظر بہت خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔ میر محفل کہنے کو تو یہاں میں تھا مگر جہاں علی صدیقی ہوں وہاں کسی اور کی دال مشکل سے گلتی ہے وہ اپنی دبنگ اور پاٹ دار آواز اور نتائج سے بے خوف و بے پروا اسٹائل میں لب کشا ہوتے ہیں تو پھر کسی اور کو بولنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور ضرورت پڑے بھی تو باری نہیں آتی۔ وہ ایک زمانے میں بمبئی کی فلمی صنعت سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں اور انہوں نے کئی فلمیں بھی بنائی ہیں۔ لگتا ہے یہ ڈائیلاگ انہوں نے اسی دور میں سیکھے ہیں۔
اگلی صبح سلطان صلاح الدین اویسی صدر مجلس اتحاد المسلمین کی طرف سے ناشتہ کی دعوت تھی، یہ وہی مجلس اتحاد المسلمین ہے جس کے بانی مشہور خطیب اور قائد اعظم کے رفیق خاص نواب بہادر یار جنگ تھے۔ بعد میں سید قاسم رضوی اس کے صدر بنے اور پھر یہ ذمہ داری سلطان صلاح الدین کے والد جناب عبدالواحد اویسی کے حصہ میں آئی۔
اب سلطان صلاح الدین اس کے صدر ہیں، پچھلے الیکشن میں یہاں سے ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے اور اب کے پھر امیدوار ہیں ( خدا کا شکر ہے کہ مجھے واپسی پر اطلاع ملی کہ اب کے بھی وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے ہیں)۔ سلطان صلاح الدین اویسی بہت سنجیدہ اور متین شخصیت کے مالک ہیں مگر اپنے سکوت میں سمندر کا تموج چھپائے رکھتے ہیں۔ لیبیا میں منعقد ہونے والی عالمی اسلامی کانفرنس میں ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے گیارہ اور بارہ ربیع الاول کی درمیانی رات میں مجلس کی طرف سے منعقد ہونے والے سالانہ جلسہ سیرت میں خطاب کرنے کی دعوت دی، میں نے وعدہ کر لیا مگر بعد میں پاکستان اور ہندوستان کی تاریخوں میں ایک دن کے فرق کی وجہ سے گڑ بڑ ہو گئی۔ میرا خیال تھا کہ دہلی کی بین الاقوامی رحمۃ اللعالمین کانفرنس کے پہلے دن کی کارروائی اٹنڈ کرکے اسی شام حیدرآباد روانہ ہو جاؤں گا مگر جب میں ایک دن پہلے دہلی پہنچا تو معلوم ہوا آج ہی رات حیدرآباد میں جلسہ ہے۔ ایک تو پہلے ہی ہمارا جہاز لیٹ تھا اور دوسرے ہوٹل تک پہنچ کر جب پروگرام کا علم ہوا تو حیدرآباد کے جہاز کی روانگی میں صرف ایک گھنٹہ باقی تھا اور اتنے وقت میں ٹکٹ حاصل کرنے اور ایئرپورٹ پہنچنے کے مراحل طے کرنا آسان نہ تھا۔
حیدرآباد سے منتظمین نے مجھے سے فون پر رابطہ کیا تو میں نے صورتحال بتائی۔ ان بےچاروں نے بےحد پبلسٹی کر رکھی تھی اور ویسے بھی یہ پہلا موقع تھا کہ مجلس اتحاد المسلمین کی اس سالانہ تقریب میں پاکستان کا کوئی مہمان شریک ہو رہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب کے حاضری ریکارڈ توڑ ہوگی (اور بعد میں صلاح الدین صاحب نے بتایا کہ دو تین لاکھ کا مجمع امڈ آیا تھا)۔ ان کا اصرار تھا کہ اگر میں آج نہیں آ سکتا تو کم سے کم کل کے نعتیہ مشاعرہ ہی میں مہمان خصوصی کے طور پر شریک ہو جاؤں۔ میں نے وعدہ کر لیا مگر مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ اس دن دہلی میں جو بین الاقوامی نعتیہ مشاعرہ ہو رہا ہے اس میں بھی مہمان خصوصی میں ہوں۔ ظاہر ہے اس صورت میں میں حیدرآباد نہیں جا سکتا تھا سو اس سے جو بدمزگی پیدا ہونی تھی، ہوئی۔ مجلس کے کار پردازوں کو غلط فہمی ہوئی کہ ہو نہ ہو علی صدیقی نے ڈنڈی ماری ہے جو کانگریس کے ہم نوا ہیں اور نہیں چاہتے کہ مجلس اتحاد المسلمین کی کسی تقریب میں شمولیت اختیار کی جائے۔
اب واقعات کے اس پس منظر میں جناب سلطان صلاح الدین اویسی کے ناشتے میں جارہا تھا مگر یہ ان کی عالی ظرفی ہے کہ وہ شکایت کا کوئی لفظ زبان پر نہیں لائے۔ میری معذرت قبول کرتے ہوئے صرف اتنا وعدہ لیا کہ سال آئندہ میں ان کے جلسہ سیرت میں ضرور شریک ہوں گا۔
مجلس اتحاد المسلمین نے آزادئ ہند اور قیام پاکستان میں بے مثال خدمات انجام دی ہیں۔ حیدرآباد دکن وہ واحد علاقہ تھا جہاں مجلس کے ہوتے قائد اعظم نے مسلم لیگ قائم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ وہ حیدرآباد دکن تشریف لائے تو مجلس ہی کے پلیٹ فارم سے انہوں نے خطاب کیا اور ناشتے کی میز پر بیٹھے ہوئے وہ میدان میری نگاہوں کے سامنے تھا جہاں قائد اعظم نے ایک عظیم الشان جلسۂ عام میں تقریر فرمائی تھی۔ (یہ وہی جگہ تھی جہاں مجلس اپنے سالانہ جلسہ ہائے سیرت منعقد کرتی ہے اور اس کے مرکزی دفاتر اور تعلیمی ادارے بھی یہیں واقع ہیں) اس وقت مجلس ایک میڈیکل کالج ، ایک انجینئرنگ کالج اور ایک گرلز کالج چلا رہی ہے ، ایک عظیم الشان رفاہی ہسپتال کا سنگ بنیاد اسی بارہ ربیع الاول کو رکھا گیا ہے، جس میں سات سو بیڈ ہوں گے۔ مجلس کی رضا کار تنظیم کی ایک زمانے میں بڑی دھوم تھی وہ اب موجود نہیں ہے مگر اس سے وابستہ پرانے لوگ اپنی عسکری تربیت کے ساتھ اب بھی مفاد ملت کی پاسبانی کے لئے سربکف ہیں۔
حیدرآباد میں ہندو مسلم فسادات بہت کم ہوتے ہیں اور اس میں ان پرانے رضا کاروں کی موجودگی کی ہیبت بھی کچھ کم اہم فیکٹر نہیں، مجلس صوبائی اور قومی الیکشنوں میں بھرپور حصہ لیتی ہے، اس مرتبہ بھی لوک سبھا کی چھ سیٹوں پر اور صوبائی اسمبلی کی پچاس سیٹوں پر اس نے اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں (مجھے اب تک معلوم نہ ہو سکا کہ صلاح الدین صاحب کے علاوہ مجلس کے اور کتنے امیدوار کامیاب ہو سکے ہیں) میں صلاح الدین صاحب کے کمرۂ خاص میں ان کے ساتھ بیٹھا تھا اور ابھی ساتھ کے کمرے میں دوسرے لوگ جمع ہو رہے تھے اور ناشتہ میز پر چنا جارہا تھا کہ راجیو گاندھی نے سلطان صلاح الدین کو فون کیا وہ ایک دو دنوں میں حیدرآباد آ رہے تھے اور صلاح الدین صاحب اور مجلس کے ساتھ انتخابی مفاہمت چاہتے تھے۔ یہ سلطان صلاح الدین کی قائدانہ بصیرت ہے کہ مشکل ترین حالات میں بھی مجلس کا آزاد کردار اب تک محفوظ ہے۔
سلطان صلاح الدین کے نام کے ساتھ "اویسی" کی نسبت صاف بتاتی ہے کہ تصوف سے متاثر ہیں، مجھے خود ہر شہر میں اللہ والوں کو ڈھوندنے اور ان سے فیض پانے کی جستجو لگی رہتی ہے۔ ناشتہ میں حیدرآباد کی نہاری اور مکے مدینے کی انواع و اقسام کی کھجوریں کھا چکا تو عرض گزار ہوا کہ یہ تو جسمانی ضیافت تھی کیا یہاں روحانی دعوت کا سامان بھی ہو سکتا ہے؟
یہ بات تخلیہ میں ہو رہی تھی، کہنے لگے: "میں اس اجتماع سے بغیر کچھ بتائے آپ کو ایک جگہ لئے چلتا ہوں، ان کو کھولنا ، آپ کا کام ہے ورنہ دنیا داری کی باتیں کر کے چلتا کر دیں گے"۔
ہم کار میں بیٹھ کر بازار سے گزرتے اور مختلف محلوں اور گلیوں سے ہوتے ہوئے ایک قدیم وضع کی حویلی کے باہر آکر رکے، یہ حضرت آغا محمد داؤد کی جائے رہائش تھی جو سلسلہ "ابوالعلائیہ" کے بزرگ ہیں، اس سلسلہ کے بانی حضرت عبدالعلا جہانگیر کے زمانے میں پنج ہزاری منصب پر فائز تھے، سرکار رسالت مآبؐ کو خواب میں دیکھا دربار چھوڑ دیا اور فنائیت اختیار کرلی۔ ان کا واقعہ مشہور ہے۔ کسی نے کہا منصور نے 'انا الحق' کہہ کر کیا جرم کیا کہ ان کو اتنی بڑی سزا ملی؟
فرمایا : "منصور نے 'انا' تو کہا تھا اس کا مطلب ہوا ابھی ان کی 'مَیں' نہ گئی تھی تو اس کے عوض انہیں سزا نہ ملتی تو اور کیا ہوتا؟
سلطان صلاح الدین مجھے گاڑی میں بٹھا کر اندر اطلاع کرنے گئے تو ان کے صاحبزادے میری پیشوائی کے لئے باہر تشریف لے آئے، میں ان سے واقف تھا ان سے بھی طرابلس کی کانفرنس میں سلطان کے ساتھ ملاقات ہو چکی تھی ان کے دھیمے پن اور پرکشش شخصیت سے متاثر تو میں اس وقت بھی بہت ہوا تھا مگر یہ معلوم نہ تھا کہ وہ ایک بڑے باپ کے بیٹے بھی ہیں۔ نشست کا کمرہ صاف ستھرا اور سادگی اور نفاست کا آئینہ دار تھا، ہم تھوڑی ہی دیر بیٹھے ہوں گے کہ حضرت بھی تشریف لے آئے۔ کرتے پاجامے اور ٹوپی میں ملبوس نہ دبلے نہ بہت موٹے، سفید کھچڑی داڑھی، ہاتھ میں عصا، پاؤں میں دیسی جوتی، چہرے پر تبسم کھیلتا ہوا، حیا آلود مست و مخمور آنکھیں، ایسا لگا جیسے نور کا ایک جھونکا آیا اور کمرے کی ایک ایک چیز روشن ہو گئی۔ عرض کی:
"سلطان صلاح الدین کے لئے دعا فرمائیے اللہ تعالیٰ انہیں کامیاب فرمائے"۔
آہستگی سے فرمایا: "ان شاء اللہ"
بعد میں سلطان نے کہا: "حضرت کا یہ ارشاد سن کر میرے دل کا بوجھ اتر گیا ، اب مجھے یقیناً کامیابی ہوگی ، پچھلے الیکشنوں میں بھی حضرت نے ایسے ہی فرمایا تھا۔"
کچھ دیر سکوت رہا پھر فرمایا: "آپ کے ہاں بھی تو اسمبلی میں کچھ ہو رہا ہے۔" حضرت کا ارشاد حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد کی طرف تھا میں نے کہا: "آپ کیا دیکھتے ہیں؟"
فرمایا" انشاء اللہ پاکستان قائم رہے گا۔"
میں نے کہا: "کیا موجودہ حکومت بھی قائم رہے گی؟"
فرمایا: "علماء تو وہاں مخالفت کر رہے ہیں"
میں نے کہا: "آپ کی رائے کیا ہے؟"
فرمایا: "کسی کی بھی حکومت ہو اللہ کرے پاکستان میں مستحکم حکومت ہو"
خدا جانے! کیوں میرے دل میں آیا جیسے تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جائے گی ، کم سے کم حضرت کے ارشادات سے میں نے یہی نتیجہ اخذ کیا۔
دل اٹھنے کو نہیں چاہتا تھا مگر ہوٹل میں کچھ اصحاب کو ملاقات کا وقت دے رکھا تھا۔ عرض کیا:
"اگر اجازت ہو تو رات کو کھانے کے بعد دوبارہ حاضری دوں۔" حضرت رضامند ہو گئے مگر افسوس کہ عابد علی خان ایڈیٹر سعادت کے عشائیہ میں مشاعرہ نے اتنا طول کھینچا کہ رات ڈھل گئی، پھر سلطان صلاح الدین کو بھی اس وقت کسی انتخابی جلسے میں شریک ہونا تھا وہ اس ڈنر میں میری خاطر سے چلے تو آئے تھے مگر اب ان کی انتخابی مہم میں رکاوٹ ڈالنا مجھے سخت نامناسب لگا، دل پر پتھر رکھ کر سلطان صلاح الدین کو حضرت سے عفو طلبی کا وسیلہ بنایا کہ دوبارہ نہ جا سکا مگر ایسا لگتا ہے جیسے دل حضرت کے آستانے پر چھوڑ آیا ہوں جب سے آیا ہوں کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب حضرت کی یاد نہ آئی ہو۔
سلطان صلاح الدین کے ناشتے پر حیدرآباد دکن کے میئر میر ذوالفقار علی بھی مدعو تھے، یہ مجلس اتحاد المسلمین سے تعلق رکھتے ہیں اور چونکہ بلدیہ کے کونسلروں میں مجلس کے اراکین کی اکثریت تھی، اس لئے اب کے مجلس ہی کا میئر چنا گیا ہے اس سے شہر میں مجلس کے اثر و رسوخ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ میر ذوالفقار ہی کے ذمے تھا کہ وہ مجھے ہوٹل سے لیں اور پھر واپس بھی چھوڑ دیں۔ ان کی عمر اس وقت 27 سال ہے، اس لحاظ سے یہ دنیا کے سب سے کم عمر میئر ٹھہرے۔ مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ پاکستان میں اس عمر کا کوئی میئر ہوگا؟ میرے علم میں کوئی اتنا کم عمر میئر نہ تھا، میں نے نفی میں جواب دیا تو خوش ہوئے۔ میں نے کہا:
"کیوں نہیں آپ 'گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ' کے مرتبین کو لکھتے کہ انہیں دنیا کے سب سے نوعمر میئر کی حیثیت میں آپ کو اپنے صفحات میں جگہ دینی چاہئے۔"
ذوالفقارصاحب کے ساتھ ہوٹل جاتے ہوئے رستے میں بڑی دلچسپ گفتگو رہی، کہنے لگے:
"آج بھارت اور پاکستان کے درمیان فیصلہ کن کرکٹ میچ ہے، پاکستان جیت گیا تو آپ شام کو حیدرآباد میں گھوم کر دیکھئے گا یہاں جشن کا سماں ہوگا، مٹھائیاں بٹیں گی اور دیگیں چڑھ جائیں گی۔ اللہ! بھارت کے مسلمان ہمیں کس نظر سے دیکھتے ہیں اور ہم اپنی کار گزاری اور کارکردگی کے لحاظ سے کہاں کھڑے ہیں؟
رات کا کھانا مدیر "سیاست" جناب عابد علی خان کے ساتھ تھا۔ انہوں نے شہر کے عمائدین، صحافیوں، ادیبوں اور شاعروں کو بھی مدعو کر رکھا تھا۔ رہنمائے دکن، اور یہاں کے مشہور انگریزی اخبار 'دکن کر اینکل' کے ایڈیٹر بھی تشریف لائے اور اپنی تمام انتخابی مصروفیتوں کے باوجود سلطان صلاح الدین اویسی نے بھی زحمت فرمائی۔ بعض اعلی حکام بھی شریکِ محفل تھے، عابد صاحب نے پہلے پرتکلف کھانا کھلایا اور بعد میں ایک شعری نشست سجائی جس میں حیدرآباد کے ممتاز شاعروں نے اپنا کلام سنایا۔
لگتا ہے طنز و مزاح سے یہاں کے لوگوں کو خصوصی دلچسپی ہے۔ طنز و مزاح کانفرنس کا ذکر پہلے ہو چکا اس محفل میں بھی طنزیہ اور مزاحیہ آئٹم پیش ہوئے، آخر میں مجھے بھی اپنے اشعار سنانے پڑے۔ بھارت کے اس دورے میں تو میں اچھا خاصا مشاعرہ باز شاعر بن گیا ہوں۔
اگلی صبح پھر ناشتے کی ایک پرہجوم تقریب تھی۔ یہ جیلانی پیراک صاحب کا مظاہرۂ خلوص تھا۔ جیلانی صاحب ایک سرگرم اور فعال سماجی اور ادبی کارکن ہیں، کسی زمانے میں تیراکی کے مقابلوں میں حصہ لیا کرتے تھے، اس لئے پیراک ان کے نام کا جزو بن گیا ہے۔ ہر سال دنیا بھر کے قاریوں کا ایک مقابلہ حسن قرات منعقد کرانا اور قرات کی ورلڈ ٹرافی کا اجراء ان کی زندگی کا مقصد بن چکا ہے۔ میں جب وزیر مذہبی امور تھا تو مجھے بھی خط لکھ کر اس جانب متوجہ کیا تھا، اب بھی اپنی حکومت کے علاوہ بہت سے مسلم سربراہان حکومت سے خط و کتابت کرتے رہتے ہیں۔ ایک لمبا چوڑا خط بہت سے اخباری تراشوں کے ساتھ صدر پاکستان غلام اسحاق خان کو بھی ارسال کیا ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ میں اس تحریک کا سرپرست بنوں اور ان کے اس دیرینہ خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں ان کی مدد کروں، اب میں انہیں کیا بتاؤں کہ اب ادھر عمر بھر کی جدو جہد کے بعد مضمحل ہو گئے قویٰ غالب۔۔ والا معاملہ ہے۔ بہرحال کچھ باہمت لوگ آگے بڑھیں اور اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں تو یہ ایک بڑا کارنامہ ہوگا۔
جیلانی صاحب کا یہ ناشتہ "ایلڈرز کلب" (مجلس بزرگان) حیدرآباد کے زیر اہتمام شہر کے سب سے قدیم کلب 'نظام کلب' میں منعقد ہوا۔ منعقد میں نے اس لئے کہا ہے کہ یہ ناشتہ بھی کسی جلسہ سے کم نہ تھا۔ ہر شعبہ زندگی کے نمائندہ اصحاب افسر، جج، ماہرین تعلیم، ادیب اور شاعر ، ڈاکٹر اور حکیم، مسلم اور غیر مسلم سبھی طبقات کی یہاں نمائندگی تھی۔ جامعہ عثمانیہ کے وائس چانسلر بھی تشریف فرما تھے اور یہاں کے شہرہ آفاق دائرۃ المعارف کے ڈائریکٹر بھی۔
حیدرآبادی ناشتہ کا اپنا ایک مینو ہے، قیمہ، کھچڑی، حیدرآبادی پراٹھے اور اچار اور بعد ازاں چائے۔ ناشتہ کیا تھا ٹھیک ٹھاک لنچ تھا اس کے بعد دوپہر کے کھانے کی ضرورت ہی کہاں پڑتی ہوگی۔ ناشتہ کے بعد جیلانی صاحب نے استقبالیہ کلمات کہے اور پھر مجھے دعوت خطاب دی۔ میں نے کوئی آدھ گھنٹہ تقریر کی ہوگی اس کا بھی خیال رہا کہ ورکنگ ڈے ہے لوگوں کو صبح صبح اپنے کام کاج پر جانا ہوگا مگر یہ ان حضرات کا کرم تھا کہ تقریر کے بعد اس کے اختصار کا شکوہ کرتے رہے۔
محفل میں "سلطان العلوم ایجوکیشنل ٹرسٹ" کے عہدیداران جناب امجد علی خان اور غلام محمد صاحب بھی آئے ہوئے تھے۔ یہ دونوں ریٹائرڈ آئی۔اے۔ایس افسر ہیں (ہمارے ہاں کے سی ایس پی افسران کے بالمقابل آئی اے ایس انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس کا مخفف ہے) غلام محمد صاحب ہمارے پرانے دوست جناب علی رؤف ( سابق ایس ایس پی لاہور) اور محمد یوسف صاحب سابق سیکریٹری وزارت مذہبی امور کے قریبی عزیز ہیں اور وہ ان حضرات سے میرے دوستانہ روابط کو جانتے تھے۔ ان حضرات کا بے حد اصرار تھا کہ میں ان کے ساتھ ان کے ٹرسٹ کے زیر اہتمام چلنے والے تعلیمی اداروں کا معائنہ کروں میں اس "بھاری بھرکم " ناشتے کے بعد کچھ دیر آرام کرنے کے موڈ میں تھا (کہ اب ایک مدت سے اس طرح کا کوئی ناشتہ کرنا میری ہمت سے باہر ہے) مگر ان حضرات کے خلوص کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے اور ہم ان اداروں کو ایک نظر دیکھنے کے لئے چل کھڑے ہوئے۔
بھارت کے مسلمان تعلیمی اور رفاہی میدانوں میں جو پیش قدمی کر رہے ہیں اس کا ذکر میرے سفر نامے کی مختلف قسطوں میں قارئین کی نظر سے گزر رہا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم پاکستانی مسلمان اس سلسلے میں ان سے کہیں پیچھے ہیں۔ ہم لے دے کر ایک انجمن حمایت اسلام لاہور کو لئے بیٹھے ہیں اور وہ بھی اب ایک منجمد تنظیم ہے ، اس میں نمو اور ترقی تو کیا ہوتی انحطاط ضرور ہوا ہے۔ ہم سے تو ٹھیک طرح اس کی مجاوری بھی نہیں ہو پا رہی۔ مگر بھارت کے مسلمان ہر علاقے میں ایسے کتنے ہی ادارے چلا رہے ہیں جن کے پائے کا پرائیویٹ تو کیا ہمارے ہاں کوئی سرکاری ادارہ بھی نہ ہوگا۔
حیدرآباد دکن کے اسی سلطان العلوم ٹرسٹ کو لیجئے یہ اس وقت ایک کالج آف ایجوکیشن، ایک انجینئرنگ کالج اور ایک لاء کالج چلا رہا ہے۔ گورنمنٹ سے ایک پیسہ کی گرانٹ لئے بغیر، بیس ایکڑ زمین پر ٹرسٹ نے خود کالجوں کی عالیشان عمارتیں تعمیر کی ہیں۔ ہوسٹل ان کے علاوہ ہیں ان کی تعمیر اور زمین کے حصول پرچار کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ 1980ء سے پہلے جب یہ کالج قائم نہ ہوئے تھے۔ ریاست کے تمام انجینئرنگ کالجوں میں صرف بیس مسلم طلبہ تھے۔ اب تنہا ٹرسٹ کے انجینئرنگ کالج میں آٹھ سو مسلم طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ ٹرسٹ کی کچھ مدد "نظام چیئر ٹیبل ٹرسٹ" نے کی ہے جو مرحوم نظام نے اپنی زندگی میں 1954ء میں دو کروڑ روپے سے قائم کیا تھا اور اس میں اس وقت گیارہ کروڑ روپے ہیں، یہ ٹرسٹ نادار طلبہ اور تعلیمی و رفاہی اداروں کی مدد کرتا ہے۔ باقی تمام عطیات حیدرآباد دکن کے مسلمانوں نے دئیے ہیں۔
پاکستان کے مسلمان اپنے دلوں کو ٹٹول کر دیکھیں ، ہے کوئی یہاں ایسی تنظیم جو چار کروڑ روپے ملت کے نو نہالوں کی تعلیم کے لئے جمع کر سکے ؟
میں نے سالار جنگ کا میوزیم بھی دیکھا مگر اس کا حال سنانے سے پہلے حیدرآباد دکن کے حکمرانوں کا کچھ تذکرہ ہو جائے کہ اس کے بغیر اس میوزیم کے قیام کی بات ادھوری رہے گی۔
حیدرآباد دکن کے حکمرانوں کو ریاست کے موسس کے نام پر "آصف جاہی نظام" کہا جاتا ہے۔ انہوں نے سات پشتوں تک یہاں دادِ حکومت دی ہے اور ان سات پشتوں کے پیچھے بھی ایک فقیر کی کرامت چھپی ہوئی ہے۔ کہتے ہیں کہ آصف جاہ اول ایک مرتبہ اپنے لشکر سے بچھڑ گیا اور اس دوران میں اسے بھوک نے بہت ستایا۔ رستے میں ایک فقیر کی کٹیا تھی وہاں پہنچا، فقیر نے اسے کلچے کے چند ٹکڑے دئیے، آصف جاہ نے تین کھا کر ہاتھ کھینچ لیا۔ فقیر نے مزید کھانے کے لئے اصرار کیا وہ جانتا تھا کہ مسافر بھوکا ہے، شرم کے مارے کھانے سے احتراز کر رہا ہے۔ آصف جاہ نے چار ٹکڑے اور کھائے اور اس پر فقیر نے اسے دعا دی:
جاؤ بیٹا! تمہاری حکومت سات پشتوں تک برقرار رہے گی"
ایک مرد خدا کی زبان سے نکلے ہوئے یہ کلمات پورے ہوئے۔ آصف جاہی خاندان سات پشتوں تک ریاست حیدرآباد دکن کا حکمراں رہا اور اس خاندان نے بھی فقیر کے ان دعائیہ کلمات کو یہ اہمیت دی کہ کلچے کے نشان کو ریاست کے جھنڈے پر ثبت کر دیا۔
حیدرآباد دکن کی ریاست میں برار کا علاقہ بھی شامل تھا اور اس طرح یہ کوئی بیاسی ہزار سات سو مربع میل علاقے پر پھیلی ہوئی تھی۔ 1947ء تک اس کی آبادی ایک کروڑ ستر لاکھ افراد پر مشتمل تھی۔آخری نظام میر عثمان علی خان تھے جو خود بھی شاعر تھے اور دوسرے علوم و فنون کے ساتھ ساتھ شعر و ادب کی بھی سرپرستی کرتے تھے۔
نظام ہفتم کے دولت جمع کرنے کے یوں تو بہت سے طریقے تھے لیکن ایک طریقہ بڑا اچھوتا تھا وہ ہر سال اپنی ریاست کے بہت سے لوگوں کو القاب و خطابات سے سرفراز فرمایا کرتے تھے۔ نواب، امیر ، خان بہادر، دولہ، جنگ، ملک، جاہ کتنے ہی ٹائٹل تھے جو نظام کی طرف سے ریاست کے خوا ص کو عطا ہوتے اور جب ان کے اعلان کے لئے تقریب کا انعقاد ہوتا تو یہ سب اس کے عوض نظام کو سونے اور چاندی کے سکوں کی صورت میں نذرانے پیش کرتے۔ ان نذرانوں کے بکسوں کے بکس نظام کے محل میں منتقل ہوتے رہتے اور ان میں برابر اضافہ ہوتا رہتا۔
نظام کو ہیرے جواہرات اور قیمتی پتھر جمع کرنے کا بھی بے حد شوق تھا۔ لندن کے زمانہ قیام میں ایک مرتبہ ایک نامور برطانوی جوہری پچیس پچیس کیرٹ کے دو یاقوت لے کر آیا وہ انہیں نظام کے ہاتھ فروخت کرنا چاہتا تھا اس کا خیال تھا نظام یہ نادر لعل دیکھ کر حیران ہو جائے گا اور اسے منہ مانگے دام مل جائیں گے۔ نظام نے یہ یاقوت دیکھے تو اپنے پیش کار کو لوہے کا ایک صندوق لانے کا حکم دیا، صندوق کھلا تو اس میں چھوٹی چھوٹی تھیلیاں رکھی ہوئی تھیں۔ نظام نے ایک تھیلی کھولی تو اس سے دو درجن یاقوت برآمد ہوئے جن کے سائز کے مقابلے میں جوہری کے یاقوت ذروں کی مانند نظر آتے تھے، نظام نے بعض دوسری تھیلیاں کھولیں تو ان سے بڑے بڑے ہیرے، زمرد اور دوسرے قیمتی پتھر نکلے۔
نظام نے مبہوت جوہری سے پوچھا:
"تمہارا کیا اندازہ ہے ، ان کی کیا قیمت ہوگی؟"
مگر وہ غریب کیا جواب دیتا، وہ اس سوال سے پہلے ہی بے ہوش ہو چکا تھا اور یہ تو ایک صندوق تھا نظام کے محلات اس طرح کے لاتعداد صندوقوں سے بھرے ہوئے تھے۔ برطانیہ کو جنگ عظیم میں نظام نے ڈھائی (5ء2) ملین پونڈ کی مالی امداد دی تھی۔ (واضح رہے کہ ایک ملین دس لاکھ کا ہوتا ہے اور آج کل ایک پونڈ کی قیمت 36 روپے ہے)۔
میں نے حیدرآباد دکن پہنچنے سے پہلے نظام کی کنجوسی اور حب مال کی لاتعداد کہانیاں پڑھ رکھی تھیں مگر جب یہاں پہنچا تو معلوم ہوا نظام غریب غرباء کی مدد پر خرچ بھی بہت کرتا تھا۔ اس کے "صرف خاص" سے چودہ ہزار "خانہ زاد" پرورش پا رہے تھے ، جن میں مسلمان بیواؤں اور یتیموں کے علاوہ بہت سے نادار و بیمار اچھوت خاندان بھی شامل تھے۔ نظام کا انتقال 24/فروری1967ء کو ہوا تو اس سے پہلے وہ اپنی دولت سے 33 ٹرسٹ بنا چکے تھے جو ان کے وارثوں کے استعمال کے لئے تھے مگر دو کروڑ روپے کے سرمائے سے ایک خراتی ٹرسٹ بھی قائم کیا جس سے غریب مگر لائق طلبہ کو وظائف دئے جاتے ہیں، مستحق افراد کا علاج ہوتا ہے اور رفاہی اداروں کی امداد کی جاتی ہے۔
یہ تو نظام کی دولت و ثروت کی ایک جھلک تھی، وہ تو پھر اپنی ریاست کے سفید و سیاہ کا مالک تھا، اس کے وزراء کے وسائل و مسائل کا اندازہ لگانا ہو تو حیدرآباد میں سالار جنگ کا میوزیم دیکھئے جو نظام کے وزیر اعظم تھے۔
یہ میوزیم 45 ہزار نادر و نایاب عجائب و غرائب پر مشتمل ہے اوراس کی مالیت کئی ارب روپے ہے۔ سالار جنگ تین پشتوں سے وزیر اعظم چلے آ رہے تھے، ان کے باپ اور دادا بھی آصف جاہی خاندان میں وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز تھے۔ مگر چونکہ یہ کنوارے فوت ہوئے اور کوئی ان کا وارث نہ تھا اس لئے ان کی تمام اشیاء پر حکومت ہند نے قبضہ کر لیا ہے اور صرف اس کے تیسرے حصہ کو "سالار جنگ میوزیم" میں عام نمائش کے لئے رکھ دیا گیا ہے۔
میوزیم کو دیکھنے کے لئے کئی گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔ قالین، برتن، فرنیچر، پینٹنگز، ہتھیاروں، لباس، کتابوں اور سکوں سے لے کر قرآنی مخطوطات تک کون سی چیز ہے جو یہاں موجود نہیں۔ میں تو خیر صرف قرآن پاک کے قلمی نسخوں میں دلچسپی رکھتا تھا، وہ شوق سے دیکھے مگر اپنے دوسرے ساتھیوں کی خاطر مجھے بعض دوسرے شعبوں میں بھی جانا پڑا۔ ایک ایک آیٹم کو دیکھ کر عقل دنگ ہوتی ہے۔
انسان بھی کیا چیز ہے کیا کچھ جمع نہیں کرتا اسے ایسا کرتے ہوئے موت بھی یاد نہیں آتی۔ سمجھتا ہے ہمیشہ یہیں رہوں گا۔
میں میوزیم سے باہر نکلا تو ہمارے گائیڈ نے بتایا:
"جب ان سڑکوں سے حضور کا گزر ہوتا تھا تو پیسوں کی بارش ہوتی جاتی تھی۔"
مگر مجھ پر کچھ اور خیالات کی بارش ہو رہی تھی، میں اندر چوکھٹوں میں لگی بے شمار تصویروں کو دیکھ کر آیا تھا اس وقت مجھے ایک اور چوکھٹے کا خیال آرہا تھا:
قبر کے چوکھٹے خالی ہیں انہیں مت بھولو
جانے ! کب کون سی تصویر سجا دی جائے
مولانا کوثر نیازی کی ایک اہم کتاب ڈاؤن لوڈ کیجیے ۔۔۔
ذکرِ حسین - از مولانا کوثر نیازی - pdf download
***
ماخوذ از کتاب: نقشِ رہگزر (اشاعت: اگست 1991)۔
تصنیف: کوثر نیازی
ماخوذ از کتاب: نقشِ رہگزر (اشاعت: اگست 1991)۔
تصنیف: کوثر نیازی
When Maulana Kausar Niazi reached Hyderabad Deccan.
بہت ہی زبردست نقشہ کشی ۔ واقعی اردو زبان أہل پاکستان کی بدولت تابندہ رہے گی ۔ سلام عقیدت پیش کرتا ہوں مضمون نگار کو شائع کرنے والوں کو ۔
جواب دیںحذف کریں