سید منیر نیازی - جن کی ہمیشہ نیازمند رہے گی اردو صحافت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-01-15

سید منیر نیازی - جن کی ہمیشہ نیازمند رہے گی اردو صحافت

Syed-Munir-Niazi-kolkata
کولکاتا کے معتبر و معروف اردو صحافی سید منیر نیازی کی زندگی کے کچھ دلسوز گوشوں کو عیاں کرتا ہوا یہ ایک فکرانگیز خاکہ ہے، جسے ان کے ایک صحافی شاگرد نے تحریر کیا ہے اور بطور خاص تعمیرنیوز میں اشاعت کے لیے ارسال کیا۔ 26/اگست 2015 کو سید منیر نیازی کا انتقال ہوا تھا جس پر ممبئی کے معروف ادیب اور صحافی ندیم صدیقی نے ایک مختصر مگر پراثر تعزیتی تحریر پیش کی تھی۔ سید منیر نیازی سے متعلق انٹرنیٹ پر موجود اسی واحد تحریر کا حوالہ زیرنظر خاکے میں بھی دیا گیا ہے۔ اردو ادب و صحافت کے میدان میں جنم لینے والے ایسے المیوں کی روک تھام کے لیے ہمارے کیا اقدامات ہیں یا ہونے چاہیے، یہ سب کے لیے سوچنے کا مقام ہے۔

سید منیر نیازی، کولکتہ کی اردو صحافت میں 'خبروں کے جوہری' تھے، خبروں کو تراشنے اور سرخیوں کو سنوارنے کا فن شاید ہی کوئی ان سے بہتر جانتا ہو۔ کسی بھی خبر میں الفاظ کے معمولی 'رد و بدل' سے روانی اور خوبصورتی پیدا کر دیتے تھے۔ ایک ایک لفظ پر پکڑ ایسی تھی کہ خدا کی پناہ۔ اخبار میں کوئی بھی ایسی خبر نہیں جاتی تھی جو نیازی صاحب کی نظروں سے نہ گزری ہو۔
صبح کو ادارتی صفحہ سے جو کام شروع ہوتا تھا وہ رات گئے 'لیڈ اسٹوری' تک جاری رہتا تھا۔ وہ 'آزاد ہند' کے 'باغبان' تھے، ہر کالم میں لگی خبر کسی پودے کی طرح ہوتی تھی۔ کاپی سیٹگ پر بھی نظر رکھتے تھے، کون سی خبر کو کس جگہ لگانا ہے اور فوٹو کہاں؟
ہم کمپیوٹر میں جو اب دیکھ رہے ہیں وہ نیازی صاحب نے کاپی سیٹنگ میں دکھا دیا تھا۔ وہ صحافت میں 'پیر' تھے، ان کے 'مرید' ان کی ڈانٹ سے ہی اپنی 'بزرگی' حاصل کر لیتے تھے۔ وہ خشک مزاج تھے، ہنسنا تو دور کی بات مسکرانا بھی مشکل ہوتا تھا، وہ کام میں اس قدر غرق رہتے تھے کہ آس پاس کی کوئی خبر ہی نہیں رہتی تھی۔ چشمے میں سے جھانک کر دیکھا کرتے تھے اور جب 'ٹیلی پرنٹر' کا رخ کرتے تھے تو کرسی کو بہت زور سے پیچھے کو دھکیلتے تھے۔
نیازی صاحب 'سو فیصد' کام کرنے اور کام کرنے والوں سے بھی 'سو فیصد' کارگزاری لینے کے قائل تھے، اس لئے اگر کبھی کسی سے کوئی ناراضگی بھی ہوتی تھی تو صرف کام پر۔ ورنہ پھر چائے کے ساتھ معاملہ تمام ہو جاتا تھا۔

دراصل ہوتا یہ ہے کہ اخبارات میں نیوز ایڈیٹر کا کردار 'پردے کے پیچھے' والا ہوتا ہے۔ قاری اخبار میں مضمون نگار اور رپورٹر کے ناموں سے واقف ہوتے ہیں لیکن اخبار کو حتمی شکل دینے والے دماغ اور چہرے سے نہیں۔ نیازی صاحب کی محنت بھی ایسی ہی تھی جس کو ہم لوگ دیکھتے اور سمجھتے تھے اور کوئی نہیں۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ اخبار میں شائع ہونے والا ایک ایک لفظ نیازی صاحب کی نظروں سے گزرا ہوا ہوتا تھا۔ ان کا خبروں کی نوک پلک درست کرنے کا فن اورسرخیوں کا توازن قابل دید ہوتا تھا۔
احمد سعید ملیح آبادی صاحب کم سے کم اس معاملہ میں خوش قسمت تھے کہ انہیں نیازی صاحب جیسا صحافی اور انسان ملا تھا، اگر وہ کئی ہفتے بھی شہر سے باہر ہیں تو انہیں ایک بھی ٹیلی فون کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، یہ الگ بات ہے کہ نیازی صاحب مرحوم کو 'اجرت' کے سوا کچھ نہیں ملا۔

ایک بات تو حیران کن تھی کہ نیازی صاحب نے جس انداز میں 'آزاد ہند' کو سنبھالا تھا اس طرح تو کسی مالک کیلیے بھی مشکل ہوتا ہے۔ سچ تو یہی ہے کہ نیازی صاحب کی بیماری کے بعد 'آزاد ہند' بھی لاغر ہو گیا تھا۔ جس طرح نیازی صاحب کی صحت گرتی گئی اسی طرح 'آزاد ہند' کی بنیادیں بھی کمزور ہوتی گئیں۔ 'آزاد ہند' میں کام کرنے والا ہر رکن جانتا تھا کہ نیازی صاحب کے کندھوں پر ہی ہے اخبار کا بوجھ۔

سید منیر نیازی 1969 میں کولکتہ آئے تھے،جب بہار کے ممتاز صحافی مرحوم غلام سرور انہیں پٹنہ سے کلکتہ لے کر آئے تھے۔ مقصد تھا 'سنگم' کی ادارت ان کو سنبھالنے کیلئے دیں، لیکن سنگم صرف دو سال بعد ہی پٹنہ منتقل ہو گیا۔ مگر منیر نیازی نے شہر کا دامن ایسا تھام لیا گویا ماں کی گود مل گئی ہو۔
جس کے بعدانہوں نے 'آزاد ہند' کا رخ کیا جو کہ اس وقت کولکتہ میں 'دیو' کی حیثیت رکھتا تھا۔ شاید انہیں بھی اس بات کا اندازہ نہیں ہوگا کہ یہ اخبار ان کی زندگی بن جائے گا۔ دراصل 1977 کے بعد جب ممتاز صحافی رضوان اللہ صاحب نے 'آزاد ہند' کو خیر باد کہا تو مینر نیازی نے 'نیوز ایڈیٹنگ' سنبھالی تھی۔ اس کے بعد 35 سال تک وہ اخبار سے جڑے رہے۔ نیازی صاحب نے در اصل ایک ایسا دور دیکھا جب ایک ایک لفظ درست کرکے خبر کو کاتب کو دیا جاتا تھا، ترجمہ ہو یا زبان، سب پر تھی لگام۔
مگر پھر ایک ایسا وقت آیا جب 'پیج میکنگ' شروع ہوئی۔ایک صفحہ بنانے کیلئے 'کٹ اینڈ پیسٹ' کا دور چل پڑا۔ ظاہر بات ہے کہ ایسے ماحول میں نیازی صاحب جیسے صحافی کیلئے سانس لینا بھی مشکل ہو گیا ہوگا مگر انہوں نے آخر تک خود کو اس میں کھپانے کی کوشش جاری رکھی تھی۔

غصہ ور استاد - نالائق شاگرد
میں نے جب 'آزاد ہند' کا رخ کیا تو نیازی صاحب کی 'شاگردی' ملی۔ وہ ہم سب کی 'اوبڑ کھابڑ'خبروں کی نوک پلک کچھ اس طرح درست کرتے تھے کہ دوسرے دن اخبار میں پڑھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ اپنی کارگزاری ہے۔ اس معاملہ میں ان کا ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ کئی مرتبہ اختلاف بھی ہوا اور ٹکراؤ بھی۔ مگر اپنی حیثیت تھی 'چوزے' جیسی۔ اس لئے ہر ڈانٹ پھٹکار کو استاد کا تبرک سمجھ کر نگل جاتے تھے۔ ایک ایک لفظ کی پکڑ، ایک ایک جملہ پر گرفت۔ دو چار کالم کے ترجمہ میں حالت نچوڑے ہوئے لیموں کی طرح ہو جاتی تھی۔ ہم لوگ ٹھہرے بے چین، گن گن کر خبریں کرنے کے عادی نہیں تھے، دو گھنٹے سے زیادہ ٹک کر بیٹھنے کو کبھی قبول نہیں کیا تھا۔ ہوا کے گھوڑے پر آؤ اور گدھے کے سینگ کی طرح غائب ہو جاؤ، اسی کو 'روانی اور جوانی' مانتے تھے۔
بلاشبہ نیازی صاحب بہت برداشت کرتے تھے وہ بھی میرے والد کے سبب، ورنہ ہم کس کھیت کی مولی تھے۔ نیازی صاحب تھے جوہری اس لئے ایک نظر میں پہچان گئے تھے کہ 'نالائق' ہے۔ اس لئے اچھے اور خراب موڈ میں 'نالائق' ہی کہہ کر پکارتے تھے۔ بات نیازی صاحب کی تھی اس لئے سر آنکھوں پر تھی، استاد کا دیا 'لقب' سنبھال کر رکھ لیا۔ ایک دن سعید صاحب کے سامنے ہی بولے:
"کیسے جھیلتے ہیں فریدی صاحب تم کو"
میں نے جواب دیا کہ:
"آپ کو کیا معلوم کون کس کو جھیل رہا ہے؟"
سعید صاحب خوب ہنسے۔ بولے: ارے کس سے الجھ رہے ہیں؟
ان کی ڈانٹ کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا تھا، اپنی کھال ہی اتنی موٹی ہو چکی تھی۔ مگر وہ بہت کچھ میرے والد کے سبب نظر انداز کر جاتے تھے۔ پھر ہم لوگ اتنا ہنستے بولتے تھے کہ آخر میں وہ بھی مجبور ہو کر مسکرا دیتے تھے۔

بڑی خبریں اور تنازعے
جب سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کا قتل ہوا تو میں آفس میں تھا اور نیازی صاحب کھانا کھانے گئے ہوئے تھے،رات کو 11 بجے کے بعد جب وہ لوٹے تو میں 'ٹیلی پرنٹر' کے سامنے وقت گزاری کر رہا تھا۔ میری نظر ٹیلی پرنٹر پر تھی جس پر اچانک
VIP KILLED
کا پیغام آنا شروع ہوا۔ یہی ایک سطر تقریباً 20-30 مرتبہ آگئی تو میں نے نیازی صاحب سے مذاقاً کہا کہ 'ٹیلی پرنٹر' کی سوئی اٹک گئی۔
وہ بولے کیا ہوا؟
میں نے بتایا کہ VIP KILLED لکھا ہوا آ رہا ہے۔ وہ اپنی کرسی کو بہت تیزی کے ساتھ کھسکا کر ٹیلی پرنٹر کے قریب آگئے اور کہنے لگے۔۔کون چلا گیا۔۔۔۔۔ بڑی خبر آ رہی ہے۔۔۔

میں بھی تجسس کا شکار ہو گیا۔ نظریں ٹیلی پرنٹر سے ہٹ نہیں رہی تھیں کہ اچانک ٹیلی پرنٹر پر 'Rajiv Killed' لکھا ہوا ابھرا۔ میں نے زور سے کہا۔۔
'نیازی صاحب! راجیو گاندھی مارے گئے'۔
وہ اپنی کرسی کو چھوڑ کر دوڑے۔ سب ٹیلی پرنٹر پر آگئے۔۔اس کے بعد خبروں کو روکنے اور نئی خبروں کا انتظار اور تلاش شروع ہوئی۔ بی بی سی پر کان لگا دئیے گئے۔ خبر بھی دو دو سطر کے ساتھ بڑھ رہی تھی، نیازی صاحب نے متعدد لوگوں کو ٹیلی فون کئے، جن میں بو بازار پولیس اسٹیشن کے او سی بھی شامل تھے۔ میرے صحافتی سفر میں راجیو گاندھی کا قتل پہلی بڑی خبر تھی۔ رات دو بجے تک سب کام کرتے رہے، نیازی صاحب کی بنائی ہوئی خبر ایسی لگتی تھی گویا موتی جڑے ہوئے ہوں، کسی بھی جملہ کو دہراتے نہیں تھے،کڑی در کڑی، سلسلہ وار یا پھر تسلسل۔ خبر کے توازن کو لاجواب بنا دیتا تھا۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ 6/دسمبر کو جب بابری مسجد کی شہادت کے بعد تناؤ تھا اور شہر میں سناٹا تھا تو میں 'آزاد ہند' کے آفس میں اپنا کام نمٹا کر پر تول رہا تھا۔ مگر نیازی صاحب دھاڑے۔۔
'ارے آج کہاں جاؤ گے، بابری مسجد کی شہادت ہوئی ہے، سناٹا پڑا ہے سڑکوں پر۔ رکو اب خبریں آئیں گی، بہت کام ہے۔۔'
معاملہ کی نزاکت کے سبب میں بھی رک گیا۔ وہ رات کو کہتے تھے کہ 'سیدھے گھر جانا، یہ تفریح کا وقت نہیں ہے،کہیں الو کی طرح گھومتے رہو'۔
میں بھی ہنس کر کہہ دیتا تھا کہ نیازی صاحب ایسا تو ہو نہیں سکتا،نیند ہی نہیں آئے گی جب تک گشت نہیں کریں گے۔

ایک مرتبہ میں نے 'محمڈن اسپورٹنگ' کے بحران پر ایک آرٹیکل کے ساتھ اسپورٹس صفحہ پرایک ایسا پرانا فوٹو لگا دیا جس میں محمڈن اسپورٹنگ کا ایک وفد اس وقت کے وزیر اعلی جیوتی باسو سے ملاقات کر رہا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ اس فوٹو میں سابق فٹ بال سکریٹری میر محمد عمر بھی جیوتی باسو کے ساتھ نظر آ رہے تھے، جو کہ اس وقت قتل کے مقدمہ میں سزا کاٹ کر جیل سے باہر آئے تھے۔ میں اس پر 'فائل فوٹو' لکھنا پھول گیا تھا۔ دوسرے دن نیازی صاحب بے انتہا غصہ میں نظر آئے۔ بولے:
کیا حماقت کی ہے؟ کہاں کہاں سے فون آ رہے ہیں، جانتے ہو؟
میں نے کہا: آپ کہہ دیں کہ "فائل فوٹو'' لکھا جانا رہ گیا، اس کو اتنی سنجیدگی سے کیوں لے رہے ہیں؟
وہ بولے: اب تمہارے لئے میں غیر سنجیدہ بھی ہو جاؤں؟
دراصل محمڈن اسپورٹنگ کے ساتھ سیاسی جنگ جاری تھی، اس میں بائیں محاذ کی بھی دلچسپی تھی اور کانگریس کی بھی۔ اس لئے یقیناً کسی نہ کسی نے ضرور اس معاملہ کو ہوا دی ہوگی۔ بہرحال میں انتظار کرتا رہا کہ شاید احمد سعید ملیح آبادی کچھ کہیں مگر انہوں نے کچھ ذکر نہیں کیا۔ ہو سکتا ہے نیازی صاحب نے بات کو اپنے تک محدود رکھا ہو یا پھر سعید صاحب نے مزید بات کرنا مناسب نہ سمجھا ہو۔

برے وقت کی کہانی
2007 میں وہ دور آیا جو ہر اردو صحافی کی قسمت میں ہوتا ہے، یعنی کہ 'برا وقت'۔ ایک برا وقت وہ ہوتا ہے جس میں سب ساتھ ہوتے ہیں، ایک برا وقت ایسا ہوتا ہے جب کوئی ساتھ نہیں ہوتا ہے۔
نیازی صاحب کے دماغ پر بے انتہا دباؤ رہتا تھا، وہ اسی کے سبب ہنسنا بھول گئے تھے، غصے میں بھی آجاتے تھے۔خاموش تو وہ رہتے ہی تھے۔ انہیں 'برین ہیمریج' ہوا تو انہیں آفس سے 'سڑک پار' کہیں یا پھر 'گھرکے پیچھے' ایک ایسے 'اسلامیہ اسپتال' میں داخل کر دیا گیا جسے خود ہمیشہ اپنی 'یتیمی' کا احساس مارتا رہتا تھا۔ میرے ایک دوست نے کہا تھا کہ ایک مقامی شاعر نے راہ چلتے اسے بتایا کہ :
'آزاد ہند' کی جان منیر نیازی کی اسلامیہ اسپتال میں 'جان خطرے' میں ہے۔ وہ بے یارو مدگار پڑے ہیں، علاج کیا ہو رہا ہے اور کون کیا دیکھ رہا ہے کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے۔
میرے اس دوست کا کہنا ہے کہ وہ فوراً اسلامیہ اسپتال گیا، آئی سی یو میں نیازی صاحب کو بے ہوشی میں پایا۔ ڈیوٹی پر موجود ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ دماغ کی چار نسیں پھٹ چکی ہیں، اگر یہی حال اور علاج رہا تو ایک دو دن کی زندگی بچی ہے۔ اس نے کولکتہ کے ایک سیاسی لیڈر 'وجے اپادھیائے' کو اس صورتحال سے آگاہ کیا جو اقلیتی طبقہ سے زیادہ جڑے رہتے ہیں، اگلے دن انہوں نے منیر نیازی کو اسلامیہ اسپتال سے MRI اسپتال منتقل کرایا۔ جہاں مہنگے علاج نے غریب صحافی کی زندگی بچالی۔
مجھے کسی نے یہ بھی بتایا کہ جب نیازی صاحب زندگی و موت کی جنگ لڑ رہے تھے اس وقت اسلامیہ اسپتال انتظامیہ ملازمین کے ایک نمائشی فٹ بال میچ کے اہتمام کیلئے میٹنگ کر رہا تھا۔ کولکتہ کے بیشتر صحافیوں کا یہی کہنا ہے کہ ایک نازک وقت میں اخبار نے انہیں بے یار و مدگار چھوڑ دیا تھا، اس کی شکایت اس لئے نہیں کی جاسکتی کہ ایسا ہونا 'روایت' بن چکا ہے۔

عشق تھا 'آزاد ہند' سے
'آزاد ہند' سے منیر نیازی کا کیسا لگاؤ تھا اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب وہ روبصحت ہوئے تو وہ دوبارہ 'آزادہند' پہنچ گئے۔ مگر استقبال 'صحت مندانہ' نہیں رہا۔ وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے۔ دل تو ٹوٹا ہوگا اور دماغ بھی ہل گیا ہوگا لیکن واہ رے ظرف۔۔ کسی سے کوئی شکایت نہیں کی اور سب سے بڑی بات کہ کسی اور اخبار کا رخ بھی نہیں کیا بلکہ شہر کو ہی الوداع کہہ دیا اور دہلی آ گئے۔
اس عمر میں اتنے تجربے کے ساتھ کسی نئے شہر میں نئے سرے سے کام شروع کرنا آسان نہیں ہوتا ہے، اس کے باوجود نیازی صاحب نے خود کو 'یو این آئی' سے جوڑے رکھا۔ ان لوگوں کے ساتھ کام کرتے رہے جو کبھی ان کے چیلے تھے۔ ایک مختلف کردار میں اور ایک مختلف ماحول میں۔
کولکتہ میں زندگی گزار دینے کے بعد دہلی کی آب و ہوا کس کو راس آ سکتی ہے۔ یہی نیازی صاحب کے ساتھ ہوا۔ کولکتہ میں تو سڑک پار کی تو آفس اور دوسری سڑک پار کی تو دوست و احباب۔ دہلی میں طویل فاصلوں کی مار اور نیا ماحول وہ زیادہ دنوں تک جھیل نہیں پائے، ایک بار پھر کولکتہ کا رخ کیا۔
'آزاد ہند' میں واپس آ گئے۔ 2010 اگست میں آزاد ہند کے بند ہونے تک وہ احمد سعید ملیح آبادی کے ساتھ کام کرتے رہے۔ اس کے بعد 'آزاد ہند' کی قضا آ گئی جب اخبار ہی بک گیا۔ وہ ایک بار اپنے گاؤں چلے گئے تھے،ان کیلئے کسی اور اخبار میں کام کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ بہرحال جب 2011 میں جب آزاد ہند 'شاردا گروپ' کی ملکیت میں دوبارہ شروع ہوا تو احمد سعید ملیح آبادی کی دعوت پر ایک بار پھر آزاد ہند سے وابستہ ہونے کیلئے ضلع غازی پور سے کلکتہ آ گئے۔
اسی کو تو ظرف کہتے ہیں۔
انہوں نے 'آزاد ہند' کو اتنا طویل وقت دیا تھا کہ اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں رہی تھی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس بار بھی کولکتہ واپسی چار دن کی چاندنی ہی ثابت ہوئی۔ دو سال بعد چٹ فنڈ گھوٹالہ کی ہنگامہ آرائی سے قبل 'آزاد ہند' کو الوداع کہہ کر مارچ 2013 میں اپنے آبائی گاؤں گوڑسرا (غازی پور ضلع گئے تھے بس اس کے بعد ۔۔۔
خالی ہاتھ آئے،خالی ہاتھ گئے

نیازی صاحب کے بارے میں قلم اٹھانے سے قبل میں نے 'انٹرنیٹ' پر ان سے متعلق کچھ تلاش کرنے کی کوشش کی تو ان کے انتقال پر ممبئی کے ایک سینئر صحافی ندیم صدیقی کا مضمون نظر سے گزرا، جس میں انہوں نے اردو صحافی اور صحافت کا نقشہ کچھ یوں کھینچا تھا کہ:
"۔۔۔ منیر نیازی سے پہلی بار کلکتے کے سب سے بڑے اْردو اخبار کے دفتر میں ملاقات ہوئی تھی، وہی روایتی چہرے مْہرے اور ممبئی کی زبان میں کہا جائے تو سوکھے ہوئے چہرے پر حالات کی حزنیہ کہانی لکھی ہوئی تھی۔ ان سے مل کر جب اخبار کے چیف ایڈیٹر کے کیبن پر نظر پڑی (جب کہ ہم چیف ایڈیٹر ہی سے ملنے گئے تھے۔) تو ان حضرت کی رنگین تصویر دیکھی تو کلہّ بھرا ہوا تھا اور سپید رنگ کے لحیم و شحیم شخص کا چہرہ ایسے لگ رہا تھا کہ اگر کوئی منہ نوچ لے تو خون کی دھار، ابھی بہہ نکلے۔
یہ صورت دیکھ کر ایک بار منیر نیازی کے 'چہرے' کی طرف دیکھا تو سرخ و سپید چہرے والے سے پھر ملنے کی خواہش دم توڑ گئی بلکہ قلب و ذہن میں ایک منفی لہر سی محسوس ہوئی، وہ لہر تو اب نہیں مگر اس کا تاثر اب تک ذہن پر باقی ہے۔

سید منیر نیازی، غازی پور میں اپنی صاف ستھری زندگی کے ساتھ رخصت ہو گئے یہ کم بڑی بات نہیں کہ ان کے صحافتی کردار پر ایک معمولی سا دھبہ تو دور ایک چھینٹا بھی نہیں تھا۔۔۔ یاد آتا ہے کہ جب کلکتے کی چونا گلی میں حکیم حسینی کے گھر منیر نیازی سے آخری ملاقات ہوئی تو اْن سے بہت سی باتیں ہوئی تھیں، ان کا بیان یہاں ممکن نہیں مگر ایک سینئر صحافی کی طرف سے ایک جونئیر اخبارچی کو بڑی بلیغ نصیحت کی تھی انہوں نے۔۔۔۔
"ندیم میاں! قلم ہمارے آپ کے پاس ایک امانت ہے۔ یہ اپنی ذات کا اشتہار لکھنے کیلئے نہیں ہوتا۔۔"۔۔۔
ایسے ہی قلم کے امین تھے۔۔۔ اور منیر بھی۔۔۔ سید منیر نیازی!! ان کی 'سیدی' ان کے ساتھ کیا آج بھی روشن نہیں ہے؟!۔۔"

اس سے اردو صحافت کی کچھ اور باریکیوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے،جس پر آگے بات ہو سکتی ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ نیازی صاحب نے جس ایمانداری اور محنت سے کام کیا اس کا موزوں و مناسب صلہ انہیں نہیں ملا۔ انہوں نے اخبار کو وقت نہیں بلکہ زندگی دے دی لیکن ہاتھ کیا آیا؟

***
تحریر: منصور الدین فریدی
Email: faridiindia[@]gmail.com

Syed Munir Niazi, Urdu journalism never forgets him.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں