ادبی تحقیق کیا ہے - از پروفیسر اسلم پرویز - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-08-20

ادبی تحقیق کیا ہے - از پروفیسر اسلم پرویز


پروفیسر اسلم پرویز (پ: 5/اکتوبر 1932 ، م: 6/ستمبر 2017)
جے۔این۔یو میں شعبۂ اردو کے استاذ تھے اور سبکدوشی کے بعد انہوں نے انجمن ترقی اردو ہند کے سہ ماہی رسالے "اردو ادب" کی ادارت سنبھالی۔ اردو کی ادبی صحافت میں اس رسالے کو جو وزن و وقار حاصل رہا ہے اس سے ایک دنیا واقف ہے۔ 1998 سے 2010 تک "پہلا ورق" کے عنوان سے لکھے گئے پروفیسر اسلم پرویز کے اداریے ان کے قلمی کارناموں میں نمایاں حیثیت سے حامل ہیں۔ تقریباً 100 منتخب اداریے کتابی شکل میں "پہلا ورق" کے زیرعنوان سن 2012 میں انجمن ترقی اردو ہند کی جانب سے شائع ہو چکے ہیں۔ شمارہ اپریل-جون-2000 سے ماخوذ ان کا ایک اہم اداریہ پیش ہے۔

یوں تو ادب اور تحقیق کا چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن ادب کا درجہ ہر زبان میں اور ہر دور میں تحقیق سے بڑا رہا ہے اور رہے گا۔ تحقیق تو دراصل ادب کی پیروکار ہے۔
کسی بھی زبان کے ادب کا ابتدا میں کوئی ماضی نہیں ہوتا وہ تاریخ کے کسی لمحے میں 'فیـــکــون' کی صورت وجود میں آ جاتا ہے۔ اس کے برعکس تحقیق ادب کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ تحقیق گویا ادب اور اس کے قاری کے درمیان اس کھائی کو پاٹنے کی کوشش کرتی ہے جو زمانی فصل کی بنا پر اکثر پیدا ہو جایا کرتی ہے۔
ادب کی بہت سی اصناف ہوتی ہیں۔ اس طرح تحقیق کی بھی مختلف جہات ہیں۔ تحقیق کا بنیادی کام ادبی حقائق کی دریافت ہے ، صحت اور سند کے ساتھ۔ تحقیق یہ کام خارجی ماخذوں کی مدد سے انجام دیتی ہے۔ مآخذ دو طرح کے ہوتے ہیں : بنیادی اور ثانوی۔ تحقیق کا انحصار دونوں طرح کے مآخذوں پر ہوتا ہے تاہم بنیادی ماخذوں کو ثانوی پر ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ تحقیق کی دوسری جہت معانی اور مفاہیم کی سطح پر ادبی متن کی تعبیر و تفسیر ہے۔
یہ شعبہ جامعاتی تحقیقی پروگراموں کے تحت تو تحقیق ہی کے زمرے میں آتا ہے لیکن یوں یہ تنقید کے نام سے اپنی ایک علاحدہ شناخت قائم کر چکا ہے۔
تحقیق اور تنقید کے فرق کو بالترتیب تلاش اور تعبیر کے الفاظ سے واضح کیا جا سکتا ہے۔ یوں تو تنقید نے ایک باقاعدہ ڈسپلن کی حیثیت سے تحقیق سے علاحدہ اپنی ایک پہچان بنا لی ہے لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ادبی متن یا text سے تحقیق اور تنقید دونوں کا سروکار ہے۔ اس اعتبار سے صحت مند اور سائنٹفک تنقیدی رویہ یہی ہوگا کہ کسی بھی متن اور بالخصوص کلاسیکی متن تک تحقیق ہی کے وسیلے سے پہنچا جائے۔ جس متن کے پاس تحقیق کی سند نہیں اس کی تنقیدی تعبیرات بھی غیر معتبر اور ناقابل رد و قبول ہوں گی۔ جب کہ مستند متن کی تعبیرات انتہائی اختلافی ہونے کے باوجود معتبر مانی جائیں گی اور قابل رد و قبول ہوں گی۔
ادبی تحقیق ادب اور ادیب دونوں ہی کو اپنا موضوع بناتی ہے اور ان سے متعلق صحت اور سند کے ساتھ حقائق کی دریافت تحقیق کا سروکار ہے۔ تحقیق کے وہ معاملات جو صحتِ متن سے تعلق رکھتے ہیں متنی تنقید کے دائرے میں آتے ہیں۔ گویا متنی تنقید تحقیق کا وہ خصوصی شعبہ ہے جو تدوین متن سے تعلق رکھتا ہے۔ اس اعتبار سے ماضی کے ادب سے متعلق کسی بھی متن پر متنی تنقید کی مہرِ توثیق ثبت ہونی ضروری ہے۔

ادب ایک طرح کی آشفتہ سری (madness) ہے اور تحقیق ایک طریقۂ کار (method)۔ ادب میں آشفتہ سری کا کاروبار فن کاری کے ساتھ ہوتا ہے۔ دوسری طرف تحقیق بھی جب کیوں اور کیا کے سوال سے آگے نکل کر اپنے آپ کو اس درد سر میں مبتلا کرنا شروع کر دیتی ہے کہ تحقیق کیسے کی جائے تو وہ method کی حد سے گزر کر تکنیک بن جاتی ہے۔
اس طرح ادب کرافٹ ہے اور تحقیق ٹیکنالوجی اور دونوں کا درجہ مسلم لیکن ادب کا مقدم۔ کرافٹ داخل سے خارج کی طرف اور ٹکنالوجی خارج سے داخل کی طرف رجوع کرتی ہے۔ کمہار کے گھومتے ہوئے چاک پر گندھی ہوئی مٹی کے لوندے سے جو چیز اتر کر آتی ہے اس میں کمہار کے فینسی فل امیجینیشن (fanciful imagination ) اور اس کی سیدھی سادی انگلیوں کی پر کاری کسی خوب صورت مرتبان کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ گرافٹ ہے۔ اس کے مقابلے ٹکنالوجی اس خوب صورت مرتبان کو واپس کمہار کے چاک پر رکھتی ہے اور مرتبان کی تشکیل کے سارے عمل کو ری-وائنڈ Rewind کرتی ہوئی زمین کے اس ٹکڑے تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے جہاں سے مرتبان بنانے کے لئے مٹی کھود کر نکالی گئی تھی۔

تحقیق، مطلق واضح اور دوٹوک بات کرنے کا نام ہے۔ اس لحاظ سے تحقیق بھی ایک طرح کی سائنس ہے۔ تحقیق میں ذاتی تعصبات، پسند اور ناپسند یا انشا پردازانہ طرز بیان کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ تحقیق کی زبان اگر شگفتہ ہو تو وہ اسے بوجھل ہونے سے بچاتی ہے لیکن شگفتگیِ بیان کے معنی مبہم یا تجریدی اندازِ بیان ہرگز نہیں۔
تحقیق ایک واضح طریقہ کار( methodology) کی پابند ہوتی ہے۔ یہاں سب سے پہلی ضرورت مسئلے کی شناخت اور اس کی واضح تعریف کی ہے۔ تحقیق کبھی بھی کسی ایسے معاملے یا موضوع پر نہیں ہو سکتی جس کے بارے میں ہم قطعی کچھ نہیں جانتے (اور یہاں قطعی کچھ نہ جاننے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ قطعی کچھ نہ جاننے کو کچھ جاننے میں نہیں بدلا جا سکتا۔)
ایسا موضوع جس کے بارے میں ہم کچھ جانتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی جانتے ہیں کہ ہم کتنا کچھ اس کے بارے میں نہیں جانتے تحقیق کے لیے آئیڈیل (ideal) ہوتا ہے۔
ایسی صورت میں ہمیں اپنے موضوع سے متعلق کوئی مفروضہ (hypothesis) قائم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ تحقیقی کام میں Hypothesis کا درجہ الجبرا کے ایکس (X) کے مفروضے سے کہیں بلند ہوتا ہے۔ اس لیے کہ الجبرا کا ایکس تو مسئلے کے حل کی جانب بس ہماری رہنمائی کرتا ہے اور ایکس کی حیثیت اس وقت تک غیرمتعین رہتی ہے جب تک کہ ہم
Therefore X is equal to
کی منزل تک نہ پہنچ جائیں۔
جبکہ hypothesis میں تو خود اکثر حالتوں میں مسئلے کے حل کا وژن اور اس کی بشارت موجود ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے کسی hypothesis کے جاندار ہونے کا دارومدار تحقیقی کام کرنے والے کے اس ذہانت آمیز قیاس پر ہوتا ہے جو مسئلے کے امکانی حل کی جانب کسی نہ کسی نوع کا اشارہ کرتا ہو۔ hypothesis کی تشکیل گویا کسی موضوع پر تحقیقی کام کرنے کے ارادے اور نیت کو مستحکم کرنے کی منزل ہے۔ اس سے اگلا قدم مواد کی فراہمی اور اس کی تنظیم اور تجزیے کا ہے۔ مواد کی تنظیم اور تجزیہ نتائج کی جانب ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ یہ نتائج ضروری نہیں کہ ہمارے اس مفروضے (hypothesis) کے عین مطابق ہوں جو ہم نے کام کے آغاز میں قائم کیا تھا۔ یہ نتائج ہمارے hypothesis کی توثیق بھی کر سکتے ہیں اور اسے سرے سے رد بھی کر سکتے ہیں۔
تیسری صورت hypothesis میں تھوڑی بہت ترمیم، تنسیخ یا اضافے کی بھی ہو سکتی ہے۔ تجربہ کار اور وسیع المطالعہ محقق کا مفروضہ (hypothesis) اکثر حالتوں میں ایک الہام (intuition) کا درجہ رکھتا ہے جہاں اس کے رد ہونے کا امکان کم ہی ہوتا ہے۔
گویا تحقیق ایک گونہ جاسوسی کا عمل بھی ہے۔ جہاں ایک ماہر جاسوس واردات کے سیاق و سباق کی مدد سے ایک عارضی نتیجے پر تو پہلے ہی پہنچ جاتا ہے اور پھر اسی عارضی نتیجے کی ڈور پکڑ کر وہ واردات کی تہ میں اترتا چلا جاتا ہے۔
تحقیق کا کام چونکہ مسائل کا حل تلاش کرنا ہے اس لیے تحقیق مہارت چاہتی ہے۔ تحقیق میں مایوسیوں کا کبھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ کبھی کبھی حوصلہ شکن بھی ثابت ہوتی ہے۔ بہرحال یہ ایک صبر آزما کام ہے جو جلدبازی کا متحمل بالکل بھی نہیں۔ اسی کے ساتھ تحقیق جرات مندی کی بھی متقاضی ہے۔ تحقیق کی شریعت میں مروت اور رواداری نام کی کوئی چیز نہیں۔ تحقیق کی عمارت استدلال کی مستحکم بنیادوں پر کھڑی کی جاتی ہے۔

تحقیق ایک طرح کی تحریر شدہ ترسیل (Written Communication) ہے۔ دوسری غیر فکشن تحریروں مثلاً مکتوبات، مضامین، رپورٹوں اور مقالات کی طرح تحقیق کا مقصد معلومات اور خیالات کو واضح اور موثر انداز میں پیش کرنا ہے۔ یونیورسٹیوں میں پی۔ایچ۔ڈی کے تحت کام کرنے والے ریسرچ اسکالروں کا معاملہ ان کہنہ مشق اور تجربہ کار محققین سے بالکل مختلف ہے جنہوں نے برسوں ایک ڈسپلن (Discipline) میں سر کھپایا ہے۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ کون سے موضوعات پر تحقیق کی جا سکتی ہے۔ ان پر اپنی تحقیق کا مقصد بھی بخوبی واضح ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں اپنے تحقیقی نتائج کو موثر اور واضح انداز میں پیش کرنے کا ڈھنگ بھی آتا ہے۔ تحقیقی طریقۂ کار کی واقفیت اور پابندی ان کے لیے ذریعہ ہے بجائے خود منزل نہیں۔ اس کے برعکس یونیورسٹیوں میں پی۔ایچ۔ڈی پروگرام کے تحت کام کرنے والے ریسرچ اسکالروں کا معاملہ یہ ہے کہ اول تو وہ قطعی ناتجربے کار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں براہ راست اپنے موضوع پر کام کرنے سے پہلے ریسرچ کرنے کے طریقۂ کار کی واقفیت اور تربیت حاصل کرنی ہوتی ہے۔ ناتجربے کاری کی بنا پر چونکہ ان کی اپنے مضمون پر گہری نظر نہیں ہوتی اور نہ انہیں اپنے مافی الضمیر کے ا
ظہار پر قدرت حاصل ہوتی ہے اس لیے اکثر حالتوں میں وہ صرف تحقیقی طریقۂ کار (Research Methodology) کی لکیر کے فقیر ہی ہو کر رہ جاتے ہیں اور اس طریقۂ کار کی پٹری پر سیدھے سیدھے چلتے رہنا ہی بجائے خود ان کی منزل ہو جاتا ہے۔
وہ نوٹس لیتے ہیں، مواد اکٹھا کرتے ہیں، ببلیوگرافی تیار کرتے ہیں اور مآخذ کے documentation میں اس قدر مستغرق ہو جاتے ہیں کہ اس لیاقت اور مہارت کے استعمال کی اہمیت کو سرے سے نظرانداز ہی کر بیٹھتے ہیں جو ان کے پیش رو محققین کے سالہا سال کے تجربات کا حاصل ہوتی ہے۔
تحقیق کا اصل رول یہ ہے کہ وہ ہماری معلومات اور فہم میں اضافہ کرے۔ پہلے سے موجود تحریروں یا خیالات کو ترتیب دے کر پیش کر دینے کا نام تحقیق نہیں۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ ادبی تحقیق کے میدان میں تحقیق کے وجود کا دارومدار چوں کہ ادب پر ہے اس لیے اعلا سے اعلا پائے کی تحقیق بھی کسی سدابہار، حکیمانہ اور دانشورانہ ادبی کارنامے کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی سچ ہے کہ محض دستاویزات اور مآخذ کی بھرمار، حواشی اور تعلیقات کی زیبائش اور تحقیق طریقۂ کار کی مہارت کا مظاہرہ، یہ تمام چیزیں مل کر بھی سطحی قسم کی تحقیق کو اعتبار کا درجہ نہیں دلا سکتیں۔

ماخوذ:
سہ ماہی "اردو ادب" نئی دہلی۔ شمارہ: اپریل/جون-2000

Tehqeeq kya hai? Article by: Prof. Aslam Pervez

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں