عینی آپا - چند ذاتی تاثرات از نند کشور وکرم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-01-20

عینی آپا - چند ذاتی تاثرات از نند کشور وکرم

فراق گورکھپوری نے اپنے بارے میں کہا تھا:

آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ہمعصرو!
ان کو جب معلوم یہ ہوگا کہ تم نے فراق کو دیکھا تھا

اور بلا شبہ یہ بات ان لوگوں کے لئے باعث فخر ہے جنہوں نے فراق جیسے عظیم المرتبت شاعر کو دیکھا تھا۔ مگر یہی بات شہرہ آفاق اردو فکشن نگار قرۃ العین حیدر پر بھی صادق آتی ہے۔ ان کے پرستار اور معتقد صرف بر صغیر ہند و پاک میں ہی نہیں ساری اردو دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کے انتقال پر ہر ادیب اور شاعر ان سے اپنی سر سری ملاقات یا گفتگو کو باعث افتخار سمجھتے ہوئے بڑی تفصیل سے بیان کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا اور ساتھ ہی بیان کرتے ہوئے فخر سے اس کا سینہ تن جاتا ہے جیسے وہی واحد شخص ہے جس نے انہیں دیکھا یا ان سے ملنے کا شرف حاصل کیا تھا۔
اور یہ بات ہے بھی فطری کہ جب کوئی آدمی شہرت کے بام عروج پر پہنچ جاتا ہے تو ہر کوئی اس سے اپنے معمولی سے رشتے یا واقفیت کو بڑھاچڑھا کر بیان کرتا ہے۔

مشہور ہے کہ علامہ اقبال کی وفات کے بعد پنجاب خصوصاً لاہور کے اکثر باشندے ان سے اپنی دیرینہ ملاقات اور رشتے کا تذکرہ بڑی تفصیل سے کرتے تھے چاہے ان کے ساتھ ان کی کوئی قربت رہی بھی نہ ہو۔ اس سلسلے میں معروف مزاح نگار ابراہیم جلیس نے برسوں پہلے ایک مزاحیہ مضمون یا انشائیہ لکھا تھا کہ لاہور میں جس سے ملئے وہ باتوں ہی باتوں میں یہ تذکرہ ضرور کرے گا کہ وہ علامہ اقبال کو بہت قریب سے جانتا ہے۔ یہاں تک کہ حجام اور تانگے والے بھی بڑے فخر سے علامہ اقبال سے اپنی برسوں کی واقفیت کا ذکر کرنا نہیں بھولتے۔ جیسے کہ اگر آپ لاہور کے کسی تانگے میں سوار ہوں اور آپ گھوڑے کی تعریف کردیں بس پھر کیا ہے؟ کوچوان بڑے فخر سے کہے گا۔ ارے صاحب! یہ گھوڑا تو ڈاکٹر اقبال مرحوم کو بھی بہت پسند تھا اور وہ میرے ہی تانگے پر کچہری جایا کرتے تھے۔ چاہے وہ ایک بار ہی اس تانگے پر سوار ہوئے ہوں۔

اسی طرح عینی آپا سے بھی آج ہر فرد اپنی قربت اور نزدیکی کے قصے بیان کرتا پھرتا ہے۔ لیکن کیوں نہ ہو؟ وہ ہمارے دور کی ایک لیجنڈ (Legend) تھیں۔ وہ اردو کی عظیم فکشن نگار تھیں اور انہوں نے"آگ کا دریا" ایسا لازوال اور معرکۃ الآراء ناول لکھ کر اردو دنیا میں ابدی شہرت حاصل کر لی تھی جو بہت کم ادیبوں کے حصے میں آئی ہے۔ اس لئے ان سے بھی اپ نے رشتوں اور ملاقاتوں کا تذکرہ کرنا قدرتی امر ہے اور بلا شبہ یہ بات ان افراد کے لئے باعث افتخار بھی ہے جنہوں نے اردو کی اس لیجنڈ کو دیکھا ہے۔ اور جہاں تک میرا معاملہ ہے، مَیں اپنے آپ کو بڑا خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے عینی آپا سے کئی بار ملنے کا اتفاق ہوا۔

میں نے 1964ء میں ماہنامہ "آج کل" کو بحیثیت سب ایڈیٹر جوائن کیا تھا جب کہ اس کے ایڈیٹر عرش ملسیانی صاحب تھے اور اسسٹنٹ ایڈیٹر شہباز حسین صاحب۔ میں اس رسالے سے کوئی پندرہ سال تک وابستہ رہا اور اس طویل المدتی وابستگی کے دوران مجھے بہت سے مشہور و معروف ادباء، شعرا کو دیکھنے ، سننے اور ملاقات کرنے کا موقع ملا جن میں جوش ملیح آبادی ، فیض احمد فیض، حفیظ جالندھری، جوش ملسیانی، ساغر نظامی، پروفیسر کلیم الدین احمد، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، بسمل سعیدی، جمیل مظہری، سردار جعفری، ساحر لدھیانوی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

عینی آپا کو پہلی بار مجھے 1972ء میں دیکھنے کا شرف حاصل ہوا جب وہ مہدی عباس حسینی، ایڈیٹر آج کل کے زمانے میں پٹیالہ ہاؤس تشریف لائی تھیں جہاں ان دنوں مذکورہ رسالے کا دفتر واقع تھا۔ ان دنوں 'آگ کا دریا' کی وجہ سے ان کو غیر معمولی شہرت حاصل ہو چکی تھی اور ہر ادبی محفل میں ان کا ذکرِ خیر ہوتا تھا۔ اور میں تو ان کا مذکورہ ناول پڑھ کر معتقد و پرستار بن چکا تھا۔ حالانکہ جب شروع شروع میں 1946-47 میں میں نے ان کا نام سنا تھا تو ان کی شہرت سجاد حیدر یلدرم کی بیٹی کی حیثیت سے زیادہ تھی۔ ابتدا میں ان کی تحریروں سے قاری زیادہ متاثر نہیں ہوئے اور اس دور میں ان کے انگریزی الفاظ کے کثرت سے استعمال کے کارن ان کی تحریر کا مذاق بھی اڑایا گیا تھا۔ ان کی ابتدائی کہانیوں میں مشنری کا نونٹ اسکول کا ماحول۔۔ بائبل کی دعائیں۔۔ انگریزی گیتوں اور نظموں کے پیرے کے پیرے پائے جاتے تھے۔ خود انہوں نے اس ضمن میں تحریر کیا تھا کہ ان کی ایک کہانی کا سرسری مطالعہ کرنے کے بعد ایک خاتون نے انہیں کہا تھا کہ آپ انگریزی بہت اچھی لکھتی ہیں۔

پھر جب ان کا ناول "میرے بھی صنم خانے" منظر عام پر آیا تو اس نے ادبی دنیا میں ان کی شناخت بدل دی۔ اور اس ناول کی تعریف بھی ہوئی اور بڑے بڑے ادیبوں اور نقادوں حتی کہ احمد ندیم قاسمی صاحب نے بھی اس پر ایک طویل مضمون لکھا۔ مگر ان دنوں بھی انہیں کرشن چندر کا مذکورہ ناول پر تبصرہ پڑھ کر بےحد کوفت ہوئی کیونکہ بقول ان کے:
"ہم نے تو اپنی طرف سے ایک عظیم انسانی ٹریجڈی کی داستان قلمبند کی تھی اور کرشن چندر صاحب نے لے دے کر ایک جملے میں نہایت خوش اسلوبی سے قصہ مختصر کر دیا کہ اس ناول میں سوائے پارٹیوں کے تذکرے کے اور کچھ نہیں"۔
اس کے بعد جب ان کا تاریخ ساز ناول "آگ کا دریا" شائع ہوا تو پورے بر صغیر میں اس کی دھوم مچ گئی۔ تاہم کچھ ادبی حلقوں نے اس کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی اور اسے اتنا متنازعہ بنادیا کہ انہیں پاکستان میں رہنا دشوار ہو گیا۔ اسی دوران پاکستان میں جنرل ایوب خان نے مارشل لا ، لگاکر پاکستان میں ایسا ماحول بنادیا کہ عام آدمی کا جینا دوبھر ہو گیا۔ ایسے میں قرۃ العین حیدر کا پاکستان کی اس فضا میں دم گھٹنے لگا اور وہ 1961ء میں پاکستان کو الوداع کہہ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہندوستان آ گئیں۔

اگرچہ "آگ کا دریا" کی اشاعت سے پہلے ان کے ناول "میرے بھی صنم خانے میں" سے ان کی ایک بحیثیت ناول نگار کچھ شناخت بن چکی تھی مگر"آگ کا دریا" کے منظر عام پر آنے سے چاروں طرف اس ناول کا تذکرہ بڑے زورشور سے ہونے لگا اور ہر طرف بحیثیت ناول نگار ان کی تعریف و توصیف ہونے لگی، ان کے ناول پر بے شمار مضامین لکھے گئے اور ایک عظیم فکشن نگار کے طور پر وہ ابی دنیا کی فضا پر چھا گئیں۔

عینی آپ کا ماہنامہ " آج کل" سے پرانا تعلق رہا تھا۔ ان کا ایک افسانہ 'دوسرا کنارہ' یکم جون 1947ء میں شائع ہوا تھا جب کہ یہ رسالہ پندرہ روزہ تھا اور اس کے مدیر تھے مشہور محقق اور نقاد سید وقار عظیم۔ اور اب پچیس سال بعد وہ کار جہاں دراز ہے۔ کی اشاعت کے سلسلے میں مہدی عباس حسینی صاحب سے بات چیت کرنے کی غرض سے آئی تھیں جس کی پہلی قسط ستمبر1972ء میں شائع ہوئی تھی اور آخری قسفط مارچ 1976ء میں۔ اس دوران وہ کئی بار دفتر آئیں اور کئی کئی گھنٹے بیٹھی رہیں۔ ان دنوں ساغر نظامی صاحب بھی پبلی کیشنز ڈویژن میں جنگ آزادی کی منظوم داستان لکھنے کی غرض سے مامور تھے۔ اور ان کا کمرہ بھی ہمارے کمرے کے پاس تھا۔ لہٰذا وہ بھی لنچ ہمارے ساتھ ہی کرتے تھے، کئی بار عینی آپا بھی اس میں شریک ہوئیں اور موسم سرما کے دنوں میں چند بار ان کے ساتھ پٹیالہ ہاؤس کے سامنے واقع لان میں بیٹھ کر مونگ پھلی اور چنے کھانے کے ساتھ ساتھ دھوپ سینکنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔

پہلی بار وہ جب آئیں تو آفسیٹ پر شائع ہونے کی وجہ سے آج کل میں ادبا و شعرا کی تصاویر بھی چھاپی جاتی تھیں۔ لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ "کار جہاں دراز ہے" کی پہلی قسط کے ساتھ ان کی وہی تصویر چسپاں کر دی گئی ہے جو کئی برس پہلے نقوش لاہور میں شائع ہوئی تھی اور جو اکثر اخبارات و رسائل میں چھپتی رہتی تھی تو وہ کچھ برہم سی ہو گئیں اور سخت لہجے میں بولیں کہ:
" یہ مینا کماری ٹائپ کی تصویر اس کے ساتھ مت چھاپئے"
لہٰذا مضمون کے پہلے صفحے پر چسپاں کی گئی مذکورہ تصویر ہٹالی گئی حالانکہ تصویر ہٹانے کے کارن پہلے صفحے کا Balance کچھ بگڑ بھی گیا۔ بہرحال اس کے بعد وہ تصویر کبھی آج کل میں شائع نہیں کی گئی۔

ایک بار انڈیا گیٹ کے لان میں بیٹھے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے ناول "آگ کا دریا" کا کسی سلامت علی مہدی نامی شخص نے جعلی ایڈیشن چھاپا تھا۔ اور کچھ دن پہلے وہ شمع کے دفتر میں گئیں تو انہیں معلوم ہوا کہ وہ صاحب اسی دفتر میں کام کرتے ہیں۔ اس پر انہوں نے ان سے اس کی شکایت کرنے کے لئے انہیں کمرے میں بلوایا۔ سلامت علی مہدی کے کمرے میں آنے پر جب انہوں نے ان سے شکایت کی کہ انہوں نے بغیر اجازت ان کا ناول کیوں شائع کیا ہے تو وہ صاحب معذرت کرنے کے بجائے بڑی ڈھٹائی سے بولے:
جی ہاں میں نے اسے چھاپا ہے ، آپ جو چاہیں کرلیں۔
اس پر انہیں غصہ تو بہت آیا مگر وہ کچھ کہہ نہ سکیں۔ تاہم وہ ان کی بدتمیری کو کبھی فراموش نہ کر پائیں، اس کے بعد انہوں نے سرکاری طور پر ہندوستان میں جعلی کتابوں کے مسئلے کو اٹھایا اور کچھ اعلی افسران کو اس سلسلے میں خطوط بھی لکھے جس کے نتیجے میں دہلی کے کئی ناشروں کے ہاں چھاپے بھی پڑے۔ اور کچھ حد تک پاکستانی کتابوں کے جعلی ایڈیشنوں کا سلسلہ بند سا ہو گیا۔

ان ہی دنوں ایک بار وہ دفتر آئیں تو لنچ کے دوران جب ہم لوگ پٹیالہ ہاؤس کے سامنے انڈیا گیٹ کے لان میں بیٹھے ہوئے تھے تو انہوں نے بڑے مزے لے کر ہمیں ایک واقعہ بتایا کہ گزشتہ دنوں وہ سرکاری دعوت پر اتر پردیش کی قدیم اور تاریخی عمارتوں کو دیکھنے گئی تھیں اور ایک دن انہیں ایک بہت ہی قدیم تاریخی مندر بھی دکھایا گیا۔ اس کے انچارج پنڈت جی کو ان کے لباس اور وضع قطع سے اندازہ نہ ہوا کہ وہ مسلمان ہیں لہٰذا وہ انہیں ہندو خاتون سمجھ کر بار بار مندر کی تاریخ بیان کرتے ہوئے کہتے کہ اس مندر کو ملیچھوں نے لوٹ کر برباد کردیا تھا۔ بعد ازاں جب ان کے ساتھیوں میں سے کسی کے انہیں"مس حیدر" کہہ کر پکارنے پر معلوم وہا کہ وہ مسلمان ہیں تو پنڈت جی بہت شرمندہ ہوئے اور اس کے بعد انہوں نے ملیچھ لفظ کا استعمال نہیں کیا اور بہت ہی محتاط انداز میں بات چیت کرتے رہے۔

اس کے بعد میں "آج کل" سے ٹرانسفر ہو کر پریس انفارمیشن بیورو چلا گیا، اور ان سے ایک دوبار کسی ادبی جلسے میں بس آداب و سلام تک ہی سلسلہ رہا۔ بعد ازاں جب وہ جامعہ ملیہ سے نقل مکانی کر کے نوئیڈا کے جلد وایو وہار میں منتقل ہوگئیں تو پھر میرا ان کے ہاں آنا جانا کافی ہوگیا کیونکہ میرا قیام بھی جمنا پار کرشن نگر میں تھا اور میں اپنے کچھ رشتہ داروں سے ملنے اکثر نوئیڈا آتا جاتا رہتا تھا۔ دو چار بار عید کے موقع پر بھی گیا اور انہوں نے خوب خاطر مدارات کی۔ ایک بار میں نے ان کے ناول "آگ کا دریا" کا ہندی میں ترجمہ کرنے کی اجازت مانگی تو وہ کہنے لگیں کہ ترجمہ تو پہلے ہی ہو چکا ہے ، دوبارہ کس لئے؟ جب میں نے انہیں بتایا کہ پہلے ترجمے میں حذف و اضافہ کیا گیا ہے ، اور اس میں پانچ باب ہی غائب کر دئے گئے ہیں نیز اس میں کچھ نئے واقعات بھی جوڑ دئے گئے جو کہ اوریجنل ناول میں ہیں ہی نہیں۔
تب انہوں نے مجھے ترجمہ کرنے کی اجازت دے دی اور یہ ترجمہ 2000ء میں چھپ کر منظر عام پر آیا جو کہ اندر پرستھ پرکاشن نے شائع کیا تھا۔ بعد ازاں میری گزارش پر ہی اس ادارے کے مالک اشوک شرما کو انہوں نے اپنی کئی کتابیں شائع کرنے کی اجازت دے دی جن میں سے 'گردش رنگ چمن' چائے کے باغ اور 'ہاؤسنگ سوسائٹی' اشاعت پذیر ہو چکی ہیں۔

گزشتہ چند برسوں سے ان کی یادداشت کچھ کمزور سی ہو گئی تھی اور وہ کئی باتیں بھول جاتی تھیں۔ ایک دفعہ میں ان کے گھر نوئیڈا میں بیٹھا ہوا تھا کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ دروازہ کھولا تو ایک صاحب ایک تھیلا سا لٹکائے کمرے میں داخل ہوئے۔ عینی آپا نے پوچھا ہاں بھئی کیا بات ہے۔
اس نے بتایا کہ وہ بی بی سی کا رپورٹر ہے اور ان سے انٹرویو لینے کی غرض سے آیا ہے۔ اس پر وہ جھلا اٹھیں:
ارے بھئی! تم لوگ تو بغیر بتائے ہی آ جاتے ہو۔ میں اس وقت کوئی انٹرویو نہیں دے سکتی۔ پھر کبھی آنا۔ اس پر اس نوجوان نے کہا کہ میڈیم! میں ٹیلی فون پر آپ سے وقت لے کر آیا ہوں۔ اس پر وہ کچھ خاموش سی ہو گئیں ، تب میں نے جھجکتے ہوئے ان سے کہا:
عینی آپا! جب آپ نے اسے ٹائم دیا ہے تو انٹرویو دے دیجئے نا۔ اچھا نہیں لگتا۔
اس پر انہوں نے بہت روکھے پن سے اس نوجوان کو صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اچھا چھا بیٹھئے۔ اس کے چند منٹ بعد وہ اٹھ کر اس رپورٹر کے پاس صوفے پر جابیٹھیں اور اس کے سوالات کا جواب دینے لگیں۔ انہی سوالات کے دوران اس نے عینی آپا سے تقسیم ہند اور ان کے پاکستان سے ہندوستان آجانے سے متعلق کوئی سوال پوچھ لیا۔
اس پر وہ کچھ جھنجھلا سی اٹھیں اور سخت لہجے میں بولیں، ارے بھئی تمہارے پاس اور کوئی سوال نہیں پوچھنے کے لئے۔ میں اس سوال کا کتنی بار جواب دے چکی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئیں اور میری طرف اشارہ کرتے ہوئے بولیں۔ آپ ان سے انٹرویو لیجئے۔ یہ اردو کے جانے مانے رائٹر ہیں اور پاکستان سے آئے ہیں۔ یہ تقسیم کے بارے میں آپ کو اچھی جانکاری دیں گے۔
وہ رپورٹر ان کا منہ دیکھنے لگا۔ میں بھی embarrassment محسوس کر رہا تھا لیکن وہ اپنا انٹرویو دینے کے بجائے بار بار میرا انٹرویو لینے پر زور دیتی رہیں۔ آخر مجبور ہوکر اس نے مجھے اپنے پاس بٹھایا اور کوئی پندرہ بیس منٹ بٹوارے سے متعلق سوالات کرتا رہا۔ مجھے معلوم نہیں وہ انٹرویو نشر ہوا یا نہیں۔

وہ بہت ہی ملنسار اور خوش گفتار خاتون تھیں اور گھنٹوں دلچسپ باتیں کرتی رہتی تھیں مگر کبھی کبھار کسی بات پر ان کا موڈ خراب ہوجاتا تھا تو خفگی کا اظہار بھی کرتی تھیں اور ڈانٹر ڈپٹ بھی دیتی تھیں۔ ایک بار موڈ میں بیٹھی تھیں کہ عصمت چغتائی صاحبہ کا ذکر چھڑ گیا تو انہوں نے بتایا (اور شاید انہوں نے اپنے کسی مضمون میں لکھا بھی ہے) کہ عصمت کا کہنا تھا کہ انہیں قبر کی تنہائی سے بہت خوف لگتا ہے ، مٹی میں توپ دیتے ہیں اور اس سے تو ان کا قبر میں دم گھٹ کررہ جائے گا۔ اس طرح ایک بار میری کسی تحریر پر انہوں نے ایک خط میں اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ اب مجھے یاد نہیں کہ میں نے کیا لکھا تھا۔ کبھی خطوط کے ڈھیر میں ان کے دو تین محفوظ خط نکال کر دیکھوں گا کہ انہوں نے کیا لکھا تھا۔
اس خط کے جواب میں مجھے معذرت کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اور ایک آدھ سال تک میں نے خاموشی اختیار کر رکھی۔ پھر ایک دن انہیں ٹیلی فون کیا کہ آپ سے ملنا چاہتتا ہوں۔ اس سے ایک دن پہلے عید تھی۔ وہ سمجھیں کہ عید کی مبارک کے سلسلے میں ملنا چاہتا ہوں۔ بولیں: کیا عید کی مبارک کہنے آ رہے ہو۔ میں نے بھی فورا کہا: جی ہاں، بولیں: تو آ جائیے۔ اس کے بعد میں ان کے ہاں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے میری خوب خاطر تواضع کی۔

ان سے آخری ملاقات کوئی دوسال قبل ہوئی تھی، جب ماہنامہ "چہار سو" کے مدیر گلزار جاوید صاحب راولپنڈی سے تشریف لائے تھے۔ ایک تو انہیں عینی آپا سے ملنے کی بے حد خواہش تھی۔ دوسرے وہ ان پر خصوصی گوشہ چھاپنے کے لئے ان کا انٹرویو بھی لینا چاہتے تھے۔ ان سے ملنے سے پہلے ہی میں نے انہیں آگاہ کردیا تھاکہ عینی آپا انٹر ویو دینے کے لئے مشکل سے ہی تیار ہوں گی۔ اس لئے اس پر اصرار نہ کرنا ورنہ معاملہ بگڑ جائے گا۔ نوئیڈا میں عینی آپا سے ملاقات سے پہلے ہم دونوں ملک زادہ جاوید صاحب کے گھر گئے جنہوں نے انہیں لنچ پر مدعو کر رکھا تھا اور پھر وہاں گلزار زتشی صاحب بھی تشریف لے آئے لہٰذا لنچ کے بعد ہم چاروں عینی آپا کے گھر گئے جہاں گلزار جاوید صاحب کا ان سے تعارف کرایا گیا۔ اور پھر ادھر اُدھر کی باتیں ہونے لگیں۔ وہاں جو بھی بات ہوئی وہ سب گلزار جاوید صاحب نے عینی آپا کی نظر بچا کر نوٹ کرلی اور پھر انہوں نے بھی کئی سوال جو وہ سوچ کر آئے تھے باتوں باتوں میں پوچھ لئے اور ایک دوبار تو انہیں نوٹس لیتے دیکھ کر انہوں نے سوال بھی کیا کہ بھئی میرا انٹرویو تو نہیں لے رہے؟ اس پر جب انہوں نے نفی میں سر ہلادیا تو وہ پھر ہر پوچھے گئے سوال کا جواب دیتی رہیں۔
بعد ازاں گلزار جاوید نے چہار سو جولائی/اگست میں ان پر خصوصی نمبر شائع کیا جس میں ان کا انٹرویو بھی شامل کیا گیا تھا۔ اس میں جاوید صاحب نے بھی ان سے پوچھا تھا کہ انسان ایک وقت میں ایک سمت میں مختلف عمل کا مرتکب ہو تو یقیناً ایک درست اور ایک غلط متصور ہوگا۔ آپ کا پاکستان جانا یا جاکر لوٹ آنا کس امر کا غماز ہے؟
اس کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ:
"یہ میرا خالص ذاتی معاملہ ہے۔ میں آپ سے دریافت نہیں کرتی کہ آپ کہاں رہتے ہیں اور کیوں رہتے ہیں؟"
اس پر گلزار نے کہا کہ فنکار پبلک پراپرٹی ٹھہرتا ہے تو اس کا کوئی عمل کیونکر ذاتی ہو سکتا ہے ؟
جواب میں عینی آپا نے بہت اچھا جواب دیا تھا کہ:
"بھئی جب میں پاکستان گئی ہوں، اس وقت ہم سب لوگ ہنگاموں میں پھنسے ہوئے تھے ، اس لئے پاکستان جانا پڑا۔ لیکن میں پاکستان سے پہلے انگلینڈ گئی، بعد میں انڈیا آ گئی۔ معاملہ سارا یہ ہے کہ میں ایک خاتون ہوں۔ ہمارے معاشرے میں کوئی خاتون اپنی مرضی سے کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی۔ میں نے اٹھا لیا تو قیامت برپا ہو گئی۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ لوگ اس حوالے سے میرے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں تو دونوں ملکوں میں کوئی فرق نہیں ہے، سوائے ہندوستان میں آزادئ اظہار کے۔"

اور اس میں شک نہیں کہ عینی آپا کے نزدیک ہندوستان اور پاکستان میں کوئی فرق نہیں تھا۔ وہ پاکستان سے بھی اتنا ہی پیار کرتی تھیں جتنا ہندوستان سے۔ وہ کسی مخصوص ملک و قوم ، فرقے یا علاقے کی پراپرٹی نہیں تھیں بلکہ ادبی لحاظ سے وہ ایک عالمی شخصیت تھیں۔ ان کے پرستار اور معتقد ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور اپنی تحریروں اور ادبی خدمات کی بدولت وہ ہمیشہ عالمی اردو دنیا پر راج کرتی رہیں گی۔

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
ماہنامہ آج کل - قرۃ العین حیدر نمبر - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
قرۃ العین حیدر سے ایک مکالمہ از گلزار جاوید
کچھ دیکھے کچھ سنے - شخصی خاکے از نند کشور وکرم - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

***
ماخوذ: ماہنامہ "آجکل"۔ شمارہ: نومبر 2007 (قرۃ العین حیدر نمبر)

Memoirs of Qurratul Ain Haider by Nand Kishore Vikram

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں