نوشاد کے چاہنے والے - نوشاد کی زبانی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-01-09

نوشاد کے چاہنے والے - نوشاد کی زبانی

naushad-ali
ہندوستانی فلمی موسیقی کے شہنشاہ نوشاد نے اپنی خودنوشت "نوشاد کی کہانی نوشاد کی زبانی" کے ایک باب میں اپنے چاہنے والوں کے جن چند قصوں سے قارئین کو واقف کروایا ہے، وہ یہاں پیش خدمت ہیں۔ بشکریہ: رسالہ "شمع" نئی دہلی، شمارہ: مارچ 1990ء۔
(1)
میری فلم "دیدار" (ریلیز: مارچ 1951) کی نمائش بمبئی کے منروا سینما میں ہو رہی تھی۔ کسی کام سے میں سینما کے منیجر سے ملنے منروا گیا۔ شو چل رہا تھا، منیجر نے مجھ سے کہا:
نوشاد صاحب، شو ختم ہونے کے بعد میں آپ کی ملاقات ایک صاحب سے کرواؤں گا۔
میں اور منیجر شو ختم ہونے سے دو منٹ پہلے دفتر کے باہر آ کر کھڑے ہو گئے۔ میں نے دیکھا کہ ایک ادھیڑ عمر کے نابینا شخص اپنے بچے کا ہاتھ تھامے ہال سے باہر آ رہے ہیں۔ منیجر نے ان کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا:
آپ نے یہ فلم کتنی بار دیکھی ہے؟
نابینا شخص نے جواب دیا: 36 بار دیکھ چکا ہوں۔
منیجر نے ان سے پوچھا: آپ تو دیکھ ہی نہیں سکتے، پھر فلم کیسے دیکھ لیتے ہیں؟
وہ بولے: میں دیکھ نہیں سکتا، مگر سن تو سکتا ہوں۔ میں یہ فلم دیکھنے نہیں، صرف سننے آتا ہوں اور پوری فلم مجھے یاد ہو گئی ہے۔
ہم باتیں کرتے کرتے منیجر کے دفتر میں آ کر بیٹھ گئے۔ منیجر کے کہنے پر نابینا شخص نے فلم کا ایک گیت:
بچپن کے دن بھلا نہ دینا
سنایا۔ انہوں نے اچھے سروں میں گیت گایا تھا۔ میں نے گیت ختم ہونے کے بعد تالی بجائی تو منیجر نے کہا:
"بابا، آپ کو معلوم ہے کہ تالی کس نے بجائی؟"
اور پھر انہوں نے میرا نام لیا۔ نابینا شخص نے میرا نام سنا تو سینے سے لپٹ گئے، بعد میں یہ صاحب میرے گھر پر بھی آتے رہے۔ جب بھی آتے تو کہتے:
نوشاد صاحب، آپ کے درشن تو نہیں کر سکتا، مگر آپ کی آواز سے مجھے محسوس ہو جاتا ہے کہ آپ کیسے ہیں؟ وہ ہندو دھرم کے ماننے والے تھے۔ ہمیشہ اپنے بچے کے سہارے چلتے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ چونکہ فلم کا ہیرو دلیپ کمار بھی فلم میں نابینا ہے لہذا انہیں اس فلم میں اپنی ہی کہانی نظر آتی ہے۔ فلم کی سلور جوبلی تک یہ صاحب باقاعدگی سے روزانہ فلم 'دیدار' دیکھنے آتے رہے۔

(2)
احمد بھائی کھتری بمبئی میں رہتے ہیں۔ بڑے بزنس مین ہیں۔ ان کا چھوٹا بیٹا پیدائشی طور پر گونگا بہرا تھا۔ عمر مشکل سے چار پانچ سال ہوگی۔ احمد بھائی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ایک عجیب و غریب بات بتائی۔ انہوں نے کہا:
"نوشاد صاحب، آپ کی فلم 'ساتھی' کے ای۔پی ریکارڈ میں ایک گیت ہے جس کے بول ہیں:
آنکھیں کھلی تھیں آئے تھے وہ بھی نظر مجھے
پھر کیا ہوا نہیں ہے کچھ اس کی خبر مجھے
میرا بچہ ہمیشہ بالکل خاموش اور گم صم رہتا ہے۔ ایک دن گھر پر ایل۔پی بج رہا تھا، جب یہ گیت شروع ہوا تو بچے نے خوشی کا اظہار کیا۔ یہ گیت ختم ہوا دوسرا گیت شروع ہوا تو بچہ رونے لگا۔ میں نے دوبارہ یہی گیت لگا دیا، جب جب یہ گیت بجتا ہے، بچہ بہت خوش نظر آتا ہے، جب گیت ختم ہوتا ہے تو بچہ رونے لگتا ہے۔ میں درجنوں کے حساب سے فلم 'ساتھی' کے ایل۔پی ریکارڈ لا چکا ہوں اور ہر ریکارڈ کا وہ حصہ گھس گھس کا ختم ہو چکا ہے جہاں یہ گیت ہے"۔
بعد میں یہ بچہ سخت بیمار ہو کر ہسپتال گیا اور وہاں جا کر بےہوش ہو گیا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ بچہ کوما میں چلا گیا ہے اور اب دوبارہ ہوش میں کبھی نہیں آئے گا، چند گھڑیوں کا مہمان ہے۔ ڈاکٹروں کے منہ سے اپنے بچے کے بارے میں ایسی خبر سن کر احمد بھائی بچے کو گھر لے آئے۔ تین چار روز سے مستقل بےہوش بچے کو انہوں نے ریڈیوگرام کے سامنے لٹایا اور وہی گیت لگا دیا۔ بچے نے آنکھیں کھولیں، ماں باپ کو مسکراتے ہوئے دیکھا اور گیت ختم ہوا تو بچے نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔ احمد بھائی نے اپنے بچے کی قبر پر جو کتبہ لگوایا اس پر اس گیت کا مکھڑا کندہ کرایا۔ بچے کی قبر بمبئی کے سوناپور قبرستان میں ہے۔

(3)
پاکستان کے ایک مشہور موسیقار سہیل رانا ہیں۔ ان کے خط اکثر مجھے ملتے۔ ہر خط میں یہی لکھتے کہ میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش آپ سے ملاقات کرنا ہے۔ مگر اللہ یہ تمنا پوری نہیں کرتا۔ پھر ایک خط آیا کہ میں زیارت پر جا رہا ہوں۔ اس کے بعد سہیل رانا بمبئی آئے، مجھ سے ملے اور کہنے لگے: "میری زیارت ہو گئی"۔
سہیل رانا چاہتے تھے کہ پاکستان گلوکار، گلوکاراؤں اور سازندوں پر مشتمل ایک ٹروپ بنایا جائے اور یہ ٹروپ یورپ اور امریکہ کے مختلف شہروں میں میرے بنائے ہوئے گیتوں کو پیش کرے۔ اسٹیج پر ہندوستان اور پاکستان کے جھنڈے لہرائے جائیں اور دونوں ملکوں کے سفیروں کو ان اسٹیج شوز میں مدعو کیا جائے۔ ان پروگراموں کے ویڈیو کیسٹ بھی بنائے جائیں تاکہ ساری دنیا میں ہماری موسیقی کی خوشبو پھیلے۔ کئی یورپین اور امریکن کمپنیوں نے ایسے کیسٹ خریدنے میں دلچسپی بھی دکھائی ہے۔ شکاگو میں سہیل رانا کے ایک دوست ڈاکٹر نسیم سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ان پروگراموں کے انعقاد میں وہ بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ سہیل رانا صاحب، ایک بار بمبئی آ جائیں تاکہ تفصیل کے ساتھ بات چیت ہو جائے کہ ان پروگراموں کے لیے کون سے گیت رکھے جائیں؟ آرکسٹرا کس طرح ترتیب دیا جائے وغیرہ۔

(4)
ماسٹر وینو تمل اور تلگو فلموں کے مشہور موسیقار تھے۔ میں فلم 'رام اور شیام' کے سلسلے میں مدراس گیا۔ ان کو میری آمد کی خبر ہوئی تو مجھ سے ملنے آئے۔ چرن چھوئے اور کہا:
نوشاد صاحب، میں آپ کا شاگرد ہوں۔
میں نے کہا: "بھائی، آپ مجھ سے زندگی میں پہلی بار مل رہے ہیں، میں نے آپ کو کچھ سکھایا نہیں، پھر آپ میرے شاگرد کیسے ہوئے؟"
کہنے لگے: "میں تصور اور خوابوں میں آپ سے سبق لیتا رہا ہوں اور آپ کو اپنا گرو مانتا ہوں"۔
پھر انہوں نے ضد کی کہ وہ عوامی طور پر اس بات کا اعلان کریں گے کہ وہ میرے شاگرد ہیں۔ اس رسم کو 'گرو پوجا' کہتے ہیں، جس میں گرو کو پالکی میں بٹھا کر شہر میں جلوس کی صورت میں نکالا جاتا ہے، بینڈ باجے بجائے جاتے ہیں اور پھر کسی بڑے میدان میں شامیانے لگا کر پنڈتوں وغیرہ کو کھانے پر بلایا جاتا ہے اور پوجا ہوتی ہے۔
میں نے ماسٹر وینو سے کہا: "میں تسلیم کرتا ہوں کہ آپ میرے شاگرد ہیں، مگر یہ تقریب نہ کیجیے"۔
میرے بہت اصرار پر وہ اپنے فیصلے سے ہٹے، مگر مجھے اپنے گھر پر مدعو کیا۔ دروازے پر ان کی بیوی کھڑی تھیں۔ میری آرتی اتاری گئی، ناریل توڑا گیا۔ سونے کی انگوٹھی اور گلے میں سونے کی زنجیر پہنائی گئی۔ پھر مجھے اپنی عبادت کے اس کمرے میں لے گئے جہاں بہت سے دیوی دیوتاؤں کی تصویروں کے ساتھ میری تصویر بھی لگی ہوئی تھی۔ ماسٹر وینو نے مجھے بتایا کہ میں ہر صبح یہاں پوجا کرتا ہوں۔
میں نے کہا: "آپ نے دیوی دیوتاؤں کے ساتھ میری تصویر لگا کر جو عقیدت کا مظاہرہ کیا ہے وہ آپ کی نظر میں تو مناسب ہوگا، یقیناً آپ کو اس سے روحانی تقویت بھی ملتی ہوگی لیکن میرے مذہب کی رو سے یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔ میں ایک معمولی انسان ہوں اور انسان کبھی خدا کا درجہ نہیں لے سکتا۔ یہ سب کچھ کر کے آپ مجھے گناہ گار بنا رہے ہیں۔ خدا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں"۔
میری یہ بات سننے کے بعد ماسٹر وینو نے کہا:
"یہ آپ کا عقیدہ ہے اور جو میں کرتا ہوں وہ میرا"۔
میں نے ان کی یہ بات سنی تو خاموش ہو گیا۔
ماسٹر وینو جب بھی بمبئی آتے تھے تو میرے گھر پر قیام کرتے تھے، 1981 میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کا بیٹا بھانوچندر تمل فلموں کا ہیرو اور موسیقار ہے۔

(5)
جن دنوں میں فلم 'پالکی' (ریلیز:1967) کر رہا تھا، ایک روز گھر کے دروازے کی گھنٹی بجی۔ دروازہ کھولا تو دیکھا کہ چرچ کے کوئی فادر کھڑے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں فلم 'مدر انڈیا' (ریلیز: 1957) کا ایل۔پی ریکارڈ تھا۔ ان کو ڈرائینگ روم میں بٹھایا۔ انہوں نے ایل۔پی ریکارڈ پر میرے آٹوگراف لیے اور کہنے لگے:
"میں چاہتا ہوں کہ آپ سے قربت حاصل ہو۔ میرا نام علم دیو جیری [Jerry Amaldev] ہے۔ ہندوستانی موسیقی سے مجھے بہت لگاؤ ہے۔ ترویندرم (کیرالہ) کا رہنے والا ہوں اور پونے کے ایک چرچ میں فادر ہوں"۔
بہت دیر تک وہ موسیقی پر بات چیت کرتے رہے۔ بعد میں اجازت لی اور رخصت ہوئے۔
تین چار دن بعد پھر گھر کی گھنٹی بجی، دروازہ کھولا تو یہی صاحب دوبارہ کھڑے تھے، مگر اب ان کا لباس تبدیل ہو چکا تھا۔ انہوں نے بتایا:
"میں چرچ چھوڑ کر آ گیا ہوں اور اب آپ کی خدمت کروں گا۔ آپ کی شاگردی بھی کروں گا۔ آپ کے بچوں کو بھی پڑھاؤں گا اور آپ کی خط و کتابت کروں گا۔ میں ٹائپسٹ بھی ہوں، لہذا خط بھی ٹائپ کر سکتا ہوں"۔
میں نے انہیں لاکھ سمجھایا کہ میں آپ کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا مگر وہ اس حد تک بضد ہوئے کہ میری ایک نہ چلی۔ پھر وہ میرے گھر پر رہنے لگے۔ کئی سال تک رہے، پھر امریکہ چلے گئے۔ وہاں بھی میوزک سیکھتے رہے۔ بعد میں ان کے بارے میں کچھ پتا نہیں چلا کہ کہاں ہیں؟
اس واقعہ کے کئی سال بعد میں ترویندرم گیا۔ سوریہ سوسائٹی نے مجھے اعزاز دیا تھا۔ جلسہ گاہ میں ایک شخص داخل ہوا جس کے چہرے پر ڈاڑھی تھی۔ یہ صاحب اسٹیج پر آئے، گلے ملے اور مجھ سے کہا:
"آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔ میں عمل دیو جیری ہوں، آپ کا شاگرد جو آپ سے موسیقی سیکھنے کے بعد امریکہ چلا گیا تھا۔ آج میں ملیالم فلموں میں موسیقی دیتا ہوں"۔
میں نے جیری کو بغور دیکھا تو فوراً پہچان گیا۔

نوشاد کی زبانی یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
فلم سنگھرش اور پلے بیک سنگر راجکماری
جےدیو - بالی ووڈ فلم نگری کا ایک درویش صفت موسیقار

***
ماخوذ از رسالہ: (تحریر: ظہیر ناصر)
ماہنامہ"شمع" شمارہ: مارچ 1990

The admirers and devotees of Naushad.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں