فلم "سنگھرش" کی میکنگ قابل تعریف تھی۔ رویل صاحب نے فلم میں وہی ماحول پیش کر دیا تھا جس کی ضرورت تھی۔ اس فلم کے لیے رویل صاحب نے بڑے قیمتی سیٹ لگائے تھے۔
مگر سنگھرش کی موسیقی ترتیب دیتے وقت مجھے سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اب مجھے ایک دوسرے رویل صاحب سے واسطہ پڑا تھا۔ یہ "میرے محبوب" کے زمانے کے رویل صاحب نہ تھے، بلکہ "میرے محبوب" جیسی کامیاب فلم کے میکر تھے اور اس فلم نے جو دولت دی تھی اس کے سرمایہ دار تھے۔ فلم 'سنگھرش' کے زمانے میں رویل صاحب کو شاعری اور موسیقی سے بہت زیادہ واقفیت ہو چکی تھی۔ وہی رویل صاحب جو 'میرے محبوب' کے زمانے میں میرے کام میں مداخلت نہیں کرتے تھے ، اب میرے کام میں آڑے آ رہے تھے۔ میری خواہش تھی کہ فلم جس زمانے کی عکاسی کر رہی ہے، اس کی موسیقی بھی اسی رنگ کی ہو اور اس میں بنارسی رنگ کی جھلک آئے۔ میں اس فلم کی موسیقی میں کجری، چوتی، ٹھمری، دادرا، برہا اور بارہ ماسی وغیرہ کو پیش کرنا چاہتا تھا۔ مگر رویل صاحب یہ نہیں چاہتے تھے۔ انہیں موسیقی کی ان باریکیوں کا علم ہی نہیں تھا ، مگر میں پھر بھی فلم میں یہ گیت:
میرے پیروں میں گھنگھرو بندھا دے ، تو پھر میری چال دیکھ لے
شامل کرانے میں کامیاب ہو گیا۔
رویل صاحب نے ایک سچویشن ایسی بنائی تھی کہ گاؤں کے لوگ خوشی منا رہے ہیں۔ ان میں ہیرو بھی شامل ہے۔ سب لوگ گا رہے ہیں، ناچ رہے ہیں۔ میں نے یہ سچویشن سنی تو رویل صاحب سے کہا:
"آپ اس گیت میں ہیرو کو شامل کر کے انہیں ضائع کریں گے۔ آپ اس قسم کی سچویشن رکھئے کہ بنارس کے محلے میں لوگ بھنگ وغیرہ پی رہے ہیں لوگ ہیرو کو بھی بھنگ پلا دیتے ہیں اور اس کو گھنگھرو پہنا کر ناچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس طرح آپ کا سین جان دار ہو جائے گا"۔
رویل صاحب نے میرے مشورے کو قبول کیا، مگر پھر کچھ سوچ کر کہا:
"ہیرو صاحب ناچنے پر کیسے راضی ہوں گے؟"
میں نے کہا: پہلے مجھے گیت ریکارڈ کرنے دیجئے۔ گیت تیار کر کے ان کو سنائیں گے اور مجھے امید ہے کہ گیت خود ان کو ناچنے پر مجبور کردے گا۔
جس روز میں اس گیت کی ریکارڈنگ کے لیے ریکارڈنگ تھیٹر میں پہنچا، مجھے کورس گانے والی چار لڑکیوں کے درمیان ایک بوڑھی خاتون نظر آئیں۔ میں نے اپنے اسسٹنٹ شفیع سے کہا:
"میں نے پانچ لڑکیاں بلائی تھیں یہ بوڑھی خاتون کون ہیں؟ جاکر معلوم کرو۔"
شفیع نے مجھے جواب دیا: "نوشاد صاحب، آپ نے پہچانا نہیں؟ یہ راج کماری ہیں۔ اپنے وقت کی مایہ ناز پلے بیک سنگر۔ آج کل بہت پریشان ہیں۔ لہٰذا کورس گانے کے لیے آ گئی ہیں"۔
میں نے یہ سنا تو مجھے چکر سا آ گیا۔ میں ریکارڈنگ روم سے میوزک ہال میں گیا اور راج کماری کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہا:
"یہ آپ کیا کر رہی ہیں؟ کورس گانے کے لیے آپ آئی ہیں؟ یہ تو ہمارے لیے بڑی شرم کی بات ہے"۔
راجکماری بولیں:
"نوشاد صاحب اس میں شرم کی کوئی بات نہیں ، کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں اس سے بھی محروم رہوں؟ خدا کے واسطے آپ مجھے کورس میں گانے سے نہ روکئے، یہ تو وقت کی بات ہے کہ کبھی ہیروئن کے لیے گاتی تھی اور آج کورس میں گا رہی ہوں۔ میری بھی ضرورتیں ہیں، میں تو آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ جب بھی کورس گانے کی ضرورت ہو تو آپ مجھے ضرور بلایا کریں۔"
راج کماری کی یہ بات سنی تو ان کا ماضی میرے سامنے آ گیا۔
میں پرکاش پکچرز کی فلم "اسٹیشن ماسٹر" کی موسیقی دے رہا تھا۔ یہ میری چوتھی فلم تھی۔ اس فلم کی ہیروئن کے پلے بیک سنگر کی حییت سے راج کماری آئی تھیں۔ میں نیا موسیقار تھا اور راج کماری اس زمانے کی سب سے مقبول گلوکارہ۔ ہم سب ان کی آمد کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔ جب راج کماری کی لمبی چوڑی بیوک کار اسٹوڈیو میں داخل ہوئی تو پروڈیوسر نے آگے بڑھ کر خود کار کا دروازہ کھولا تھا، جب کہ ان کا شوفر شان کے ساتھ اسٹیئرنگ پر بیٹھا رہا تھا۔ ان کے ساتھ ان کا ایک ملازم پاندان اور دوسرا سامان لے کر گاڑی سے اترا تھا۔ گیت کی ریکارڈنگ ختم ہوئی تو راجکماری کی کار کا دروازہ پھر پروڈیوسر نے بند کیا تھا۔
میں ان ہی راجکماری کو آج کورس سنگر کی حیثیت سے دیکھ رہا تھا۔ دوسری کورس گانے والی لڑکیاں اور سازندے حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ یہ کون بوڑھی خاتون ہے جس سے نوشاد صاحب باتیں کر رہے ہیں اور ریکارڈنگ شروع نہیں کر رہے ہیں۔ میں نے سب کے چہروں کی حیرت پڑھی تو اعلان کیا:
"یہ راج کماری ہیں،جنہوں نے سیکڑوں فلموں میں اپنے اپنے وقت کی مشہور ہیروئنوں کے لیے پلے بیک دیا ہے۔ آج یہ ہمارے درمیان ہیں۔ آپ سب ان کا استقبال کیجئے۔"
سب لوگ اپنی اپنی جگہ سے اٹھے اور انہوں نے راجکماری کے پاؤں چھوئے، پھر راج کماری نے مجھ سے کہا:
"نوشاد صاحب! کورس گانا کوئی بری بات نہیں ہے۔ آپ دیکھئے، اپنے وقت کا مشہور موسیقار اور گلوکار خان مستانہ آج کل ماہم شریف کی درگاہ کے سامنے صدا لگاتا ہے: 'اللہ کے نام پر دیتے جاؤ'، تو کیا بھیک مانگنے سے بھی کورس گانا بری بات ہے؟"
راج کماری کی بات سن کر مجھے وہ واقعہ یاد آ گیا جب ایک دن ماہم شریف کی درگاہ پر خود مجھے دیکھ کر خان مستانہ نے آواز لگائی تھی:
"نوشاد صاحب ، کچھ دیتے جاؤ!"
میں نے اپنے آدمی سے خان مستانہ کو اپنے پاس بلوایا تھا، جو کچھ مدد کر سکتا تھا، کی تھی اور ان سے درخواست کی تھی ، خدا کے واسطے یہ نہ کیجئے۔ اس میں ہم سب کی بے عزتی ہے۔
پھر میں نے میوزک ڈائریکٹرز ایسوسی ایشن سے خان مستانہ کے لیے اس شرط پر کہ وہ بھیک نہیں مانگیں گے، 300 روپے ماہانہ پنشن مقرر کرائی تھی۔ لیکن خان مستانہ آخری عمر میں چرس، بھنگ اور دوسرے نشوں کی علت کا شکار ہو کر اللہ کو پیارے ہو گئے۔
بہر کیف، سنگھرش کا یہ گیت (میرے پیروں میں) ریکارڈ ہوا، محمد رفیع مرحوم اور تمام سازندوں نے اسے پسند کیا۔ فلم کے ہیرو کو سنوایا گیا تو انہوں نے بھی اسے بہت پسند کیا اور پوچھا:
"یہ گیت کس آرٹسٹ پر پکچرائز ہوگا؟"
میں نے اور رویل صاحب نے ایک ساتھ جواب دیا:
"آپ پر۔ اور آپ کو اس کے لیے پیروں میں گھنگھرو بھی باندھنے پڑیں گے۔"
پہلے تو وہ سوچتے رہے، پھر راضی ہو گئے۔ یہ گانا زبردست ہٹ ہوا۔ یہاں تک کہ جب یہ گیت فلم میں آتا تھا، لوگ سنیما ہالوں میں سکّے اچھالتے تھے۔
اس کے علاوہ فلم "سنگھرش" کے یہ گیت:
- چھیڑو نہ دل کی بات ابھی تم نشے میں ہو
- تصویر محبت تھی جس میں، میں نے وہ شیشہ توڑ دیا
- میرے پاس آؤ نظر تو ملاؤ
- اگر یہ حسن میرے عشق کے سانچے میں ڈھل جائے
- عشق دیوانہ ، حسن بھی گھائل
- جب دل سے دل ٹکراتا ہے
"عشق دیوانہ حسن بھی گھائل" فلم میں کمزور سچویشن پر رکھا گیا، لہٰذا فلم میں اچھا نہیں لگا، مگر موسیقی کے چاہنے والوں نے اسے بہت پسند کیا۔
"جب دل سے دل ٹکراتا ہے" محمد رفیع مرحوم کو اتنا پسند آیا تھا کہ اپنی مرضی سے چار بار ڈب کرایا، تاکہ آواز میں وہی جذبات آ جائیں جو غزل کا تقاضا تھے۔
"میرے محبوب" کی طرح شکیل صاحب نے اس فلم کے لیے بھی بہت محنت سے گیت لکھے تھے لیکن رویل صاحب کی بے جا مداخلت کی وجہ سے وہ بھی میری طرح بددل ہو گئے تھے۔ اگر ہم دونوں کو اس فلم میں کھل کر اپ نے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملتا تو نتیجہ اس سے بھی عمدہ نکلتا۔ مگر ہماری قسمت کہ ایسا نہ ہو سکا۔
***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"شمع" شمارہ: اپریل 1985
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"شمع" شمارہ: اپریل 1985
Playback singer Rajkumari and the film Sunghursh
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں