جےدیو - بالی ووڈ فلم نگری کا ایک درویش صفت موسیقار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-01-05

جےدیو - بالی ووڈ فلم نگری کا ایک درویش صفت موسیقار

jaidev-bollywood-music-industry-saint

ہندوستانی فلمی موسیقی کے شہنشاہ نوشاد نے اپنی خودنوشت کے ایک باب میں اپنے ہم عصر فنکار "جےدیو" (پیدائش: 3/اگست 1918 ، وفات: 6/جنوری 1987) کے فن اور شخصیت سے جس طرح واقف کروایا ہے، وہ یہاں پیش خدمت ہے۔
نوشاد لکھتے ہیں ۔۔۔
جےدیو کو میں مدن موہن کی صف کا فنکار تسلیم کرتا ہوں۔ جےدیو نے علم موسیقی کب، کہاں اور کس سے حاصل کیا، اس کا علم تو مجھے نہیں۔ مگر ان کے جو بھی استاد رہے ہوں گے یقیناً باکمال فنکار ہوں گے، جنہوں نے اپنے شاگرد کو وہ سب کچھ سکھا دیا جس کی موسیقی میں ضرورت ہوتی ہے۔
جےدیو عمر بھر کنوارے رہے۔ بڑی درویشانہ طبیعت پائی تھی۔ پیسے کو کبھی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ پیسہ مل گیا تو ٹھیک، نہ ملا تو بھی ٹھیک۔ ان کی زندگی صرف موسیقی تھی۔ ہندوستان کے ہر صوبے کی فوک موسیقی پر گہری نظر رکھتے تھے۔ اکثر اس غرض سے مختلف صوبوں کے دورے کرتے رہتے تھے۔ کسی بھی صوبے کا ذکر کیجیے، جےدیو فوراً وہاں کے فوک میوزک پر سیرحاصل تبصرہ کرتے تھے۔
بمبئی کے چرچ گیٹ کے سامنے ایک عمارت کے ایک کمرے میں جےدیو رہتے تھے۔ مجھے ایک بار وہاں جانے کا موقع ملا۔ بڑا سادہ کمرہ تھا۔ سامان تھا ایک بستر، ایک کرسی، ایک ہارمونیم اور بس۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی۔ میں نے مشورہ دیا:
"جےدیو جی، بڑا فلیٹ لیجیے۔ یہ کس طرح زندگی بسر کر رہے ہیں؟"
میری بات سن کر جواب دیا:
"نوشاد صاحب، فلم انڈسٹری سے جی اکتا گیا ہے۔ اب تو یہ خواہش ہے کہ ہمالیہ کی گود میں جا کر کوئی کٹیا آباد کروں اور وہاں بیٹھ کر بھجن بناؤں۔"

جےدیو جیسا سچا فنکار فلم انڈسٹری کے ماحول سے کیوں اوب گیا تھا؟ اس کی بہت سی وجوہات ہوں گی، مگر ایک دل خراش واقعہ مجھے آج بھی جےدیو کی معصومیت اور اس انڈسٹری کے ناروا رویے کی یاد دلاتا ہے۔
ساحر لدھیانوی مرحوم جےدیو کی بےحد عزت کرتے تھے۔ ان کی خواہش ہوتی تھی کہ جےدیو جیسے فنکار کو کام ملے اور اچھے بینرز میں کام ملے۔ ساحر صاحب نے بی۔آر فلمز میں جےدیو کا نام تجویز کیا۔ معاملات طے ہو گئے۔ جےدیو کو ایک سچویشن دی گئی، جس پر جےدیو نے گیت کمپوز کیا۔ ساحر صاحب نے جےدیو کو ہارمونیم اور طبلے سمیت اپنی کار میں بٹھایا اور کمپوز کیا ہوا گیت چوپڑہ صاحب کو سنوانے کے لیے ان کے دفتر میں گئے۔ جانے سے پہلے جےدیو نے ساحر صاحب سے پوچھا:
"آپ مجھے اس طرح چوپڑہ صاحب کے پاس کیوں لے جا رہے ہیں؟"
ساحر صاحب نے جواب دیا:
"آپ نے جو گیت بنایا ہے وہ چوپڑہ صاحب کو سنانا ہے"۔
بھولے بھالے جےدیو نے پوچھا:
"کیا چوپڑہ صاحب میوزک جانتے ہیں ۔۔۔؟"
ساحر صاحب نے کہا:
"آپ چلیے۔ اس کو فلم کی زبان میں 'میوزک پر سیٹنگ' کہتے ہیں۔"
بہرکیف جےدیو چوپڑہ صاحب کے دفتر میں پہنچے۔ گیت سنانے سے پہلے چوپڑہ صاحب کے سارے ملازم، جن میں کار ڈرائیور اور آفس بوائے جیسے لوگ بھی شامل تھے، چاروں طرف کھڑے ہو گئے۔
جےدیو نے گیت سنایا۔ چوپڑہ صاحب نے اپنے تمام آدمیوں کا ردعمل معلوم کیا۔ سب نے ایک ساتھ نفی میں گردنیں ہلا دیں۔ چوپڑہ صاحب نے فیصلہ سنایا:
"مزا نہیں آیا۔ کچھ اور بنائیے۔"
جےدیو نے اسی گیت کی کئی طرزیں بنائیں۔ روزانہ چوپڑہ صاحب کے دفتر میں آ کر گیت سناتے اور روزانہ یہ سننے کو ملتا کہ:
"مزا نہیں آیا۔ کچھ اور بنائیے"۔
جےدیو کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا تھا۔ انہوں نے ہارمونیم کو پٹکا اور چوپڑہ صاحب کے کمرے سے باہر نکل گئے۔ ساحر صاحب پکارتے ہوئے ان کے پیچھے لپکے تو جےدیو نے کہا:
"ارے بھائی، مجھے آپ نے کہاں پھنسا دیا؟ اگر 'میوزک سیٹنگ' اسی کو کہتے ہیں تو معاف فرمائیے، لعنت ایسی سیٹنگ پر۔ اور موسیقی کا مستقبل تو مجھے تاریک نظر آتا ہے۔"

جےدیو برسوں ایس۔ڈی۔برمن کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتے رہے۔ ان کی صلاحیتوں کو دیوآنند نے پہچانا اور فلم "ہم دونوں" میں ان کو پہلا چانس ملا۔ اپنی پہلی فلم سے ہی جےدیو نے تسلیم کرا لیا کہ وہ کس پائے کے فنکار تھے۔ اسی فلم کا یہ بھجن:
ایشور اللہ تیرو نام
ایک لازوال بھجن ہے۔

جےدیو ہمیشہ چائنا سلک کا کالر والا کرتا اور علی گڑھ کٹ پاجامہ پہنتے تھے۔ چاہے گرمی ہو یا سردی، کسی نے جےدیو کو اس لباس کے سوا کسی اور لباس میں نہیں دیکھا۔ جےدیو اب ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر ان کا فن ان کے نام کو تاقیامت زندہ رکھے گا۔

***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"شمع" شمارہ: جنوری 1990

Jaidev, an unwordly Saint of Bollywood Music industry.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں