رام مندر کی بنیادیں کیوں لرز رہی ہیں؟ - تجزیہ از معصوم مرادآبادی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-01-10

رام مندر کی بنیادیں کیوں لرز رہی ہیں؟ - تجزیہ از معصوم مرادآبادی

یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اجودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر جس "عظیم الشان" رام مندر کی تعمیر ہورہی ہے ، اس کا خمیر ظلم اور ناانصافی سے تیار ہوا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس کی تعمیر میں ایسی دشواریاں حائل ہو رہی ہیں ، جن کا تصور بھی مندر تعمیر کرنے والوں نے نہیں کیا تھا۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس مندر کی بنیادوں میں ایسی ریت اور پانی دریافت ہوا ہے جس پر فی الحال کسی عمارت کی تعمیر ممکن نہیں ہے۔ اس قدرتی رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے ملک کے بڑے بڑے تعمیراتی انجینئروں کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں۔ یہ رکاوٹ ان تمام قانونی دشواریوں کو عبور کرنے کے بعد پیدا ہوئی ہے جو وشو ہندو پریشد نے سیاسی طاقت کے حصول کے بعد کی تھیں۔
وشوہندو پریشد کا کہنا تھا کہ کوئی طاقت رام مندر کی تعمیر کو نہیں روک سکتی مگر فی الحال مندر کی تعمیر کا کام رک گیا ہے، کیونکہ اس کی بنیادوں میں ریت اور پانی نکل آیا ہے۔ معماروں کا کہنا ہے کہ اس صورت میں وہاں کوئی مضبوط عمارت تعمیر کرنا ممکن نہیں ہے اور اگر ایسا کیا گیا تو مندر کی عمارت زمیں بوس ہو سکتی ہے۔ اس تکنیکی دشواری کو دور کرنے کے لیے ملک کے تمام آئی آئی ٹی ماہرین سے رابطہ قائم کیا گیا ہے۔ رام مندر درحقیقت سنگھ پریوار کا ایک دیرینہ خواب ہے اور وہ اس کے ذریعہ اپنی عددی برتری ثابت کرنے کے ساتھ مسلمانوں کو یہ احساس دلانا چاہتے ہیں کہ وہ اس ملک میں دوم درجے کے شہری ہیں۔

اطلاعات کے مطابق بابری مسجد کا منبر جسے وشو ہندو پریشد "گربھ گرہ" کہہ کر پکارتا ہے اور جو رام مندر کا مرکزی مقام قرار پایا ہے ، وہاں 200 فٹ نیچے ریت اور پانی نکل آیا ہے۔ ظاہر ہے کسی بھی عمارت کی بنیادیں ریت اور پانی میں استوار نہیں کی جا سکتیں ، اس لئے رام مندر کے معماروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر کے لیے جب لوڈ ٹیسٹنگ کی گئی تو مندر کے ستون زمین کے اندر دھنسنے لگے، جس کی وجہ سے طے شدہ ڈیزائن کے مطابق مندر کی تعمیر کا کام آگے بڑھانے میں دقت پیش آ رہی ہے اور اس کی وجہ سے مندر کی تعمیر سے وابستہ لوگ سخت تشویش اور پریشانی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔

ان خبروں کو پڑھ کر مجھے 9/نومبر 1989 کا وہ دن یاد آیا جب بابری مسجد کے روبرو رام مندر کا شیلانیاس کیا گیا تھا۔ میں اس کی رپورٹنگ کے لئے اجودھیا میں موجود تھا اور یہ سب کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ جب شیلانیاس کے لیے زمین کھودی گئی تو وہاں سے انسانی ہڈیاں برآمد ہوئیں ، جنھیں دیکھ کر وشوہندو پریشد کے لوگ حیرت زدہ رہ گئے ، لیکن کسی بھی قسم کی خجالت سے بچنے کے لیے ان ہڈیوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔
دراصل شلانیاس وقف کی زمین پر کیا گیا تھا اور یہاں کسی زمانے میں 'قبرستان گنج شہیداں' واقع تھا۔ شلانیاس کی رات تک طے شدہ جگہ کے متنازعہ ہونے کی بحث چلتی رہی ، لیکن اچانک اس وقت کے وزیر اعلیٰ نارائن دت تیواری نے اس جگہ کے غیر متنازعہ ہونے کا اعلان کرکے شلانیاس کی راہ ہموار کر دی۔
لیکن بعد کو وشو ہندو پریشد نے اس جگہ کوئی تعمیری کام نہیں کیا اور جب 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد شہید کی گئی تو شیلانیاس کی جگہ بھی برابر کر دی گئی اور آج کسی کو یہ معلوم نہیں ہے کہ رام مندر کا پہلا شیلانیاس کہاں ہوا تھا؟

وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ سال پانچ اگست کو بڑے تام جھام کے ساتھ رام مندر کا دوسرا شلانیاس کیا اور جنگی پیمانے پر مندر کی تعمیر کا کام شروع کر دیا گیا۔ اس سلسلے کی بنیادی کارروائیاں انجام دینے کے بعد جب ایک ہزار سال تک قائم کیے جانے والے مندر کی بنیادیں کھودنے کا کام شروع ہوا تو یہ انکشاف ہوا کہ بنیاد کی زمین نیچے کی طرف دھنس رہی ہے کیونکہ اس میں ریت اور پانی نکل آیا ہے۔
یہ وہی زمین ہے جس پر پانچ سو سال تک بابری مسجد پورے وقار کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی۔ عمارت کے خستہ ہونے کے باوجود اس کا کوئی حصہ منہدم نہیں ہوا تھا، تاوقتیکہ 6/دسمبر 1992 کو ڈائنامائٹ کی مدد سے مسجد کے گنبد زمیں بوس نہیں کر دئیے گئے۔

رام مندر کی بنیادوں میں ریت اور پانی برآمد ہونے کی خبریں ایک ایسے مرحلہ میں آئی ہیں جب اس کی عالیشان تعمیر کے لیے ساٹھ کروڑ لوگوں سے چندہ جمع کرنے کا نشانہ مقرر کیا گیا ہے اور اس کام کے لیے انتہا پسند ہندو تنظیموں نے اپنی جارحانہ مہم شروع کر دی ہے۔ رام مندر کے لیے چندہ جمع کرنے کی اشتعال انگیز یاتراؤں کو مسلم علاقوں سے گزارا جا رہا ہے اور تشدد پھیلایا جا رہا ہے۔ یعنی رام مندر کی تعمیر کے لیے چندہ جمع کرنے کی مہم بھی اتنی ہی اشتعال انگیز اور مسلم مخالف ہے جتنی کہ بابری مسجد کو رام مندر میں بدلنے کی مہم تھی۔

اس سلسلے کی ایک انتہائی تکلیف دہ خبر مدھیہ پردیش کے مندسور ضلع سے موصول ہوئی ہے جہاں وشوہندو پریشد کی چندہ ریلی نے وہ تباہی مچائی ہے کہ مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے دورانہ گاؤں سے "انڈین ایکسپریس" کے نامہ نگارنے جو اطلاعات فراہم کی ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ بابری مسجد سے محروم ہونے کے بعد بھی مسلمانوں کی آزمائشوں کا دور ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔
مندسور ضلع میں گزشتہ منگل کو وشوہندو پریشد کے پانچ ہزار کارکنوں نے خوب اشتعال انگیزی کی اور پولیس نے ان حرکتوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ حالانکہ اس مارچ سے ایک روزپہلے گاؤں والوں نے ایس ایس پی کو عرضداشت دے کر تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا، کیونکہ سوشل میڈیا پر ہندوؤں سے بھگوا جھنڈوں کے ساتھ مسلم علاقوں سے مارچ نکالنے کی اپیل بھی کی گئی تھی۔ ایک اور پیغام میں اورنگزیب کی اولادوں کو سبق سکھانے کی اپیل کی گئی تھی۔ اس سے علاقے کے مسلمانوں میں دہشت پھیلی ہوئی تھی۔
اس مارچ کے دوران شرپسند ایک مقامی مسجد کے مینار پر چڑھ گئے اور وہاں بھگوا پرچم لہرا دیا۔ جب اس اشتعال انگیز کارروائی کے خلاف مقامی مسلمانوں نے احتجاج کیا تو پولیس نے ان پر پتھراؤ کرنے کا الزام لگایا اور درجنوں لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس دوران کئی مسلمانوں کے گھر بار تباہ و برباد کردئیے گئے۔ وہ اتنے خوفزدہ ہیں کہ نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ مدھیہ پردیش کی شوراج سنگھ چوہان سرکار شرپسندوں کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے پتھراؤ کرنے والوں کے خلاف نیا قانون بنا رہی ہے۔

سبھی کو معلوم ہے کہ رام مندر کی تعمیر میں مسلمان نہ تو کوئی رکاوٹ کھڑی کر رہے ہیں اور نہ ہی انھوں نے کوئی تحریک چھیڑی ہے۔ انھوں نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر بھی پورے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے ، لیکن اس کے باوجود ان کے صبر و ضبط کا امتحان لینے کی کوشش کی جا رہی ہے اور انھیں ناکردہ گناہوں کی سزا دی جا رہی ہے۔
اگر آپ غور سے دیکھیں تو رام مندر کی پوری تحریک ظلم و ناانصافی اور جبر و استبداد کی تحریک ہے۔ کسی تاریخی شہادت اور ثبوت کے بغیر بابری مسجد کو رام مندر میں بدلنے کا آندولن شروع کیا گیا۔
اس دوران اتنا اشتعال پھیلایا گیا کہ ہزاروں بے گناہوں کو اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اربوں روپوں کی املاک تباہ و برباد ہوئیں اور نہ جانے کتنے لوگوں کی زندگیاں تاراج کر دی گئیں۔ آج اگر "عالیشان رام مندر" کی بنیادیں لرز رہی ہیں اور ان میں ریت اور پانی نکل رہا ہے تو یہ خواہ مخواہ نہیں ہے۔

فی الحال اجودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر ایک عارضی مندر کا ڈھانچہ کھڑا ہوا ہے۔ گربھ گرہ سے مورتی کو ہٹا دیا گیا ہے، کیونکہ اسی جگہ سے مندر کی تعمیر کا کام شروع ہونا ہے۔ یہاں مندر کی بنیاد گزاری کے لیے دوسو فٹ نیچے تک زمین کی جانچ کی گئی تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ زیر زمین بھربھری ریت اور گربھ گرہ کے کچھ فاصلے پر مغرب کی سمت زمین کے نیچے سرجو ندی کا بہاؤ ہے۔
رام جنم بھومی ٹرسٹ کے جنرل سیکریٹری چمپت رائے کا کہنا ہے کہ:
"کسی نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھاکہ جہاں 'گربھ گرہ' بنایا گیا تھا ، وہاں کی زمین کھوکھلی ہے۔ دریائے سرجو زمین پر نہیں بلکہ زمین کے نیچے بہہ رہا ہے اور اس کے قریب ہی 'گربھ گرہ' بنایا گیا ہے"۔
رام جنم بھومی مندر کے چیف پجاری ستیندر داس کا کہنا ہے کہ:
"انجینئرس چاہتے تھے کہ بنیاد سو فٹ نیچے سے اٹھائی جائے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قدیم سرجو ندی کی دھارا تھی۔ اس لیے اگر اس پر بنیاد اٹھائی گئی تو مندر کے گرنے کا امکان ہے"۔

ہو سکتا ہے کہ ماہرین رام مندر کے نیچے بہنے والی سرجو ندی اور ریت کا کوئی حل نکالنے میں کامیاب ہو جائیں ، لیکن دنیا اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کر سکے گی کہ یہ مندر ایک پانچ سو سالہ قدیم مسجد کے ملبے پر تعمیر کیا جا رہا ہے۔
جس مقام پر پانچ صدیوں تک بابری مسجد پورے وقار کے ساتھ کھڑی رہی وہاں ناجائز رام مندر کی بنیادیں لرز رہی ہیں!!

***
بشکریہ: معصوم مرادآبادی فیس بک ٹائم لائن
masoom.moradabadi[@]gmail.com
موبائل : 09810780563
معصوم مرادآبادی

Ram Temple Work Faces Snag as Foundation Pillars Fail To Pass Tests. - Column: Masoom moradabadi
Technical glitches halt Ayodhya Ram temple foundation work, experts found loose sand at the construction site.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں