غیر ممالک میں نوکری - بیوی اور اہل خانہ سے دوری کے مسائل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-01-08

غیر ممالک میں نوکری - بیوی اور اہل خانہ سے دوری کے مسائل

abroad-jobs-problems-family-issues
سعودی عرب کے مقتدر روزنامہ "عرب نیوز" کے ایڈیٹر اسلامیات 'عادل صلاحی' اپنے پڑھنے والوں کے ان سوالات کا جواب دیتے ہیں جن کا تعلق اسلام سے اور مسلمانوں کو آج کی دنیا میں پیش آنے والے مسائل سے ہے۔ بہت سے مذہبی مسائل میں الگ الگ مکاتیب خیال سے تعلق رکھنے والے افراد میں اختلافِ رائے کی گنجائش ہوتی ہے۔ پھر بھی، ہر مسلک کے ماننے والے مسلمان عادل صلاحی کی رائے کا احترام کرتے ہیں اور ان کے دئے ہوئے جوابات ہر مسلمان کے لیے مشعلِ راہ بن سکتے ہیں۔ اس لیے ماہنامہ شمع میں ہر ماہ ان کے کچھ جوابات ترجمہ کر کے پیش کیے جاتے ہیں۔
نوٹ: مندرجہ ذیل سوال/جواب، ماہ نومبر 1999ء کے "شمع" سے اخذ کیا گیا ہے۔
سوال:
میں پچھلے آٹھ دس سال سے یہاں پردیس میں نوکری کی وجہ سے مقیم ہوں۔ میرا خاندان اور خصوصاً میری بیوی میرے وطن میں ہیں۔ میں اپنے خاندان کے ساتھ رہنے یا مالی مفاد کی خاطر یہاں رکنے کے بارے میں سخت کشمکش میں ہوں۔ براہ کرم میری مدد میں کچھ مفید مشورہ دیجیے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟

جواب:
اس سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ قاری کو اپنی ملازمت برقرار رکھنا عزیز ہے، کیونکہ اپنے کمائے ہوئے پیسے سے ہی وہ اپنے خاندان کے افراد کی کفالت کر سکتا ہے، اپنے بیٹوں کے لیے بہتر تعلیم فراہم کر سکا ہے اور اپنی بیٹی کی شادی کے اخراجات کا بار اٹھا سکا ہے۔
پچھلے آٹھ سال کی ملازمت کے دوران وہ ان سارے مسائل کو نپٹا سکا ہے جو پہلے اس پر بوجھ بنے ہوئے تھے۔ پھر بھی اس قاری کا کہنا ہے کہ کچھ مسائل ابھی باقی رہ گئے ہیں، لیکن ان کا حل بھی دور نہیں۔ اس کی بیوی بھی اس صورتحال سے ناخوش ہے اور چاہتی ہے کہ وہ وطن لوٹ آئے، لیکن اس کے بچے اور دوست اس کو الگ ہی مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنی نوکری پر جما رہے کیونکہ اس طرح وہ اپنے خاندان کی خاطر خواہ دیکھ بھال کر سکے گا اور اگر وہ وطن واپس چلا گیا تو اسے ایسی اچھی نوکری نہیں ملے گی۔

اس مسئلہ کا سامنا ایسے بہت سے لوگوں کو کرنا پڑتا ہے جو اپنی بیوی، بچوں، گھروں اور خاندانوں کو چھوڑ کر خلیج کے ممالک یا اور دوسری جگہوں پر روپیہ کمانے کے لیے جاتے ہیں۔ ان کی خاندانی زندگی تتر بتر ہو جاتی ہے۔ نئے مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، خصوصاً میاں بیوی کے درمیان۔ کیونکہ گھر پر بیوی کو باپ اور شوہر کے روزمرہ کے مسائل کو بھی خود اکیلا نبٹنا پڑتا ہے۔ اور شوہر کے فرائض محض ایک لگی بندھی رقم کسی مخصوص وقفہ کے بعد گھر بھجوانے اور سال میں دو ایک دفعہ سب سے جا کر مل آنے تک محدود ہو کر رہ جاتے ہیں۔
ویسے تو ہر خاندان کے اپنے اپنے حالات ہوتے ہیں اور کچھ گھر والوں کو دور بیٹھ کر خاندانی معاملات چلانے میں دوسروں سے زیادہ دخل دینا پڑتا ہے۔ لیکن اس مسئلہ کا ہر ایک کو مطمئن کر دینے والا کوئی واحد حل واقعی نہیں ہے۔
بظاہر اس مسئلے کا حل سوائے اس کے کچھ نہیں کہ یا تو خاندان یکجا ہو جائے یا شوہر اپنی ملازمت کی قربانی دے۔ یعنی ملازمت والے ملک کا قانون اگر اجازت دیتا ہے تو بیوی بچے شوہر کے پاس آ جائیں ورنہ باپ اپنے رہائشی ملک چلا جائے۔

اس سوال کا قاری اپنے مسئلہ سے بےحد مضطرب ہے کیونکہ یہ قاری اپنے خاندان اور خصوصاً اپنی بیوی کی جانب اپنے فرائض سے غفلت برتنا نہیں چاہتا۔ لہذا یہ قاری صاحب اپنی ملازمت ختم کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
میں ان سے کہوں گا کہ واقعی بیوی کے معاملے میں ان پر بڑی ذمہ داریاں ہیں جن کو اسی وقت پورا کیا جا سکتا ہے جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ زندگی گزاریں۔ شادی کا مطلب یہ ہے کہ میاں بیوی ساتھ رہیں۔ جو کہ ایک دوسرے کو گناہ کی ترغیب اور اس میں پڑ جانے کی آفت سے بچا کر شادی کے ایک مقصد کو پورا کرتا ہے۔ شوہر کے لیے یہ کافی نہیں کہ بیوی کو ایک اچھا معیار زندگی بہم پہنچائے یا بیوی محض اس کو کام سے واپس آنے کے بعد ایک اچھے ماحول کا گھر پیش کرے۔
میاں بیوی کے آپس کے تعلقات کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے صحابی اور اسلامی علما نے اسلامی تاریخ کے ہر دور میں یہ فیصلہ برقرار رکھا ہے کہ جس شادی میں بیوی کی خواہشات کی تسکین نہ ہو وہ شادی منسوخ کر دی جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر اس سوال کے قاری کی بیوی کی طرح کوئی عورت قاضی کے سامنے اپنی طلاق کے لیے مقدمہ پیش کرے کہ شوہر بیوی کے ساتھ نہیں رہتا تو وہ عورت مقدمہ جیت جائے گی۔

یہاں میں اس عورت کا واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں جس کو حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے اپنے دور خلافت میں شوہر کے ہجر میں دکھ بھرے اشعار پڑھتے سنا جس میں وہ اظہار کر رہی تھی کہ کس طرح وہ اپنے شوہر کے اپنے پاس ہونے کی آرزو میں تڑپ رہی تھی اور فقط اللہ کی ناراضگی کا خوف اسے گناہ سے محفوظ رکھ رہا تھا۔ حضرت عمرؓ یہ سن کر بڑے پریشان ہوئے کیونکہ اس عورت کا شوہر اس اسلامی فوج کا سپاہی تھا جو ملک سے باہر اسلام کے دشمنوں سے نبرد آزما تھی۔ حضرت عمرؓ اپنی بیٹی حضرت حفصہؓ (رسول اکرمؐ کی بیوی) کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ کوئی عورت اپنے شوہر سے کتنے عرصہ تک بلا اضطراب علیحدہ رہ سکتی ہے؟
حضرت حفصہؓ نے جواب دیا کہ جدائی کا طویل وقفہ چار مہینے ہوگا۔
حضرت عمرؓ نے فوراً ہی اسلامی سپہ سالاروں کو حکم دیا کہ کسی شادی شدہ سپاہی کو ایک وقت میں چار مہینے سے زیادہ محاذ پر نہ رکھا جائے۔ اور اس عرصے بعد اسے اپنے گھر جانے کی اجازت دی جائے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس سوال کے قاری کے احباب کی رائے بھی معقول ہے۔ وہ مالی طور پر اپنے گھر بار کی کفالت کا ذمہ دار ہے۔ اور اگر وہ اپنی نوکری جاری نہیں رکھتا تو اپنے خاندان کا موجودہ معیارِ زندگی برقرار نہیں رکھ سکتا۔
تو پھر اس مخمصہ کا عملی حل کیا ہے؟

اس سوال کے قاری کو ایک نئے نقطۂ نظر سے اپنے حالات پر نظر ڈالنی چاہیے۔ اگر اپنی بیوی کو اپنے ساتھ رکھ سکتا ہے تو اسے ضرور ایسا کرنا چاہیے۔ اگر اس سے اس کے اخراجات بڑھ بھی جاتے ہیں اور بچت کم یا غائب ہو جاتی ہے تب بھی کم از کم وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ زندگی بسر کرے گا۔
اگر یہ ممکن نہیں تو اسے اپنی بیوی کو ہر سال اپنے پاس بلا کر کم از کم مہینہ دو مہینے کے لیے تو ساتھ رکھنا چاہیے۔ اور اگر ہر سال چھٹیوں میں اپنے گھر جانے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ بھی جاری رکھا جاتا ہے تو بیوی کی شکایت دور کرنے میں یہ ایک مثبت اقدام ہوگا۔
اگر ان دونوں ترکیبوں پر عمل کرنا ممکن نہیں تو پھر اسے سنجیدگی کے ساتھ واپس گھر جا کر رہنے کے متعلق سوچنا چاہیے۔ لیکن پہلے اسے اپنے لیے کوئی کام ڈھونڈ لینا چاہیے تاکہ وہ اپنے وقت کا صحیح استعمال کر کے اپنے خاندان کے لیے روزی روٹی کا انتظام کر سکے۔
دعا ہے کہ اللہ وہی کرے جو اس سوال کے قاری کے حق میں بہتر ہو۔

***
بشکریہ: کالم "آج کے مسائل (دین کی روشنی میں)"
از: عادل صلاحی (مدیر شعبہ اسلامیات، روزنامہ عرب نیوز، جدہ، سعودی عرب)۔
شائع شدہ: ماہنامہ "شمع" دہلی، شمارہ: نومبر-1999

Jobs Abroad - Problems with Distance from Wife and Family.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں