واجدہ تبسم - برہنہ اسلوب کی فکشن نگار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-12-15

واجدہ تبسم - برہنہ اسلوب کی فکشن نگار

wajida-tabassum
برہنگی کا تصور عام سماجی زندگی میں بھلے ہی معیوب ہو یا منفی مفہوم رکھتا ہو لیکن ادب میں اسلوب اور اظہار خیال کی برہنگی ادیب یا مصنف کی تخلیقی دیانتداری اور اظہار کی جرأت مندی کی دلیل ہے۔
آپ آئینے سے اگر یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ صرف آپ کے حسن کا عکس پیش کرے اور بدصورتی کو سامنے نہ آنے دے تو اس میں قصور آئینے کا نہیں بلکہ آپ کے اخلاقی حوصلے کی کمی کا ہے۔ تہذیبی حدبندیوں کی نقاب اوڑھ کر حقائق سے چشم پوشی سے نہ تو سچ کو بدلا جا سکتا ہے اور نہ اس کے لیے سچ کا آئینہ دکھانے والے کو تنقید کا نشانہ بنانا جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔

ادب سماج کادر بن اسی لیے ہے کہ وہ ہمیں ایسے بہت سے حقائق سے روبرو کرانے کا اہم اور گراں قدر فریضہ انجام دیتا ہے کہ جن پر سماجی قدروں، اخلاقی اصولوں اور قانونی مجبوریوں کا غلاف چڑھا کر انھیں چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
سماج، سیاست اور مذہب کی اونچی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے کچھ لوگ اپنی حیوانیت اور درندگی کو چھپانے کے لیے اپنے گرد عظمت و تقدس کا جو حصار کھڑا کر لیتے ہیں انہیں توڑنے کا حوصلہ دکھانا ادب اور ادیب کی ذمہ داری ہے۔ اس کا فرض ہے کہ اپنے تخلیقی کیمرے کو سماج کے صرف روشن پہلوؤں پر ہی نہیں بلکہ ان تاریک گوشوں پر بھی فوکس کرے کہ جس میں ظل الہی،عالم پناه، حضور نواب یا قبلہ و کعبہ کہے جانے والے کچھ لوگ عظمت و تقدس کا نقاب اتارے صرف اور صرف حیوان ناطق نظر آتے ہیں۔

واجدہ تبسم اردو فکشن کا ایک ایسا ہی نام ہے کہ جنہوں نے اپنے تخلیقی کیمرے کو سماج کے مذکورہ بالا تاریک گوشوں پر فوکس کرنے کا حوصلہ دکھایا ہے خود واجدہ تبسم کا اپنے بارے میں کہنا تھا کہ:
"میں خود کو کیمرہ سمجھتی ہوں جو ہر قسم کی تصویر کھینچ لیتا ہے"۔
لیکن واجده تبسم سے بہت سے قارئین اور اس سے بھی زیادہ ادب کی صالح قدروں کے محافظ ہونے کی غلط فہمی پالے ہوئے ہمارے ناقدین اس لیے بیزار نظر آتے ہیں کہ واجدہ نے ہر قسم کی تصویر کھینچنے کے بہانے سماج کے چھپے ہوئے کوڑھ کی تصویریں اپنے قاری کے سامنے پیش کرنے کا حوصلہ دکھایا اور اس عمل کے دوران وہ بے شمار سفید پوش خاندانوں کے لباس عظمت کو تار تار کرنے کے 'گناہ عظیم' کی مرتکب ہو گئیں ۔

واجدہ کو اس لیے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ مردوں کے غلبہ والے ہمارے سماج میں وہ عام عورت نہیں بلک طوائف کے عظمت کردار اور روحانی تقدس کی علمبردار اور طرفدار نظر آتی ہیں۔ ظاہر ہے رات کی تاریکیوں میں اس طوائف یا لونڈی و باندی جیسے القاب سے پکاری جانے والی عورت کو اپنی ہوس پرستی کا نشانہ بنائے جانے کے باوجود دن کے اجالوں میں اسے حقارت بھری نگاہ سے دیکھنے والے 'باوقار اور عزت دار' گھرانوں کے لوگوں کے لیے یہ ایک کھلا چیلنج تھا۔ واجدہ تبسم نے اپنے افسانوں کے ذریعہ ایسے عظمت پوش معاشرے کو برہنہ کرنے کا حوصلہ دکھایا تو انھیں تنقید کا نشانہ تو بننا ہی تھا، سو ایسا ہی ہوا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ واجدہ تبسم کو ان گناہوں سے بچنے کی نصیحت کرنے والوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں کہ جنہوں نے ان کی کہانیاں بیچ کر خوب دولت کمائی۔ اپنے وقت میں برصغیر کی سب سے کثیر الاشاعت میگزین ماہنامہ "شمع" کے ایڈیٹر یونس دہلوی مرحوم نے ایک مرتبہ واجدہ تبسم کو کہانی بھیجنے کی گزارش کرتے وقت ایک عجیب بات لکھی۔ یونس دہلوی نے اپنے خط میں لکھا کہ:
"آج کل رمضان ہیں، ایسی ویسی کہانی لکھ کر اپنا روز مکروہ نہ کیجیے گا۔"
یونس دہلوی نے مذکورہ بات ازراه مذاق لکھی یا پھر اس بہانے وہ بھی واجدہ تبسم کے طرز تحریر اور برہنہ اسلوب کو اپنی تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے، یہ تو خود وہی بہتر بتا سکتے تھے، لیکن سچ یہ ہے کہ روزہ جھوٹی، منافقانہ اور مصلحت پسندانہ باتوں سے مکروہ ہو سکتا ہے، حقیقت بیانی سے نہیں، بلکہ رمضان میں تو کسی بھی سچے مسلمان تخلیق کار کا فرض ہے کہ وہ اپنے تخلیقی اظہار کے لیے جھوٹ کا بالکل سہارا نہ لے۔ کیا ایسے لوگوں کی بداعمالیوں پر پردہ ڈالنا کسی بھی اعتبار سے نیک یا صالح عمل قرار دیا جا سکتا ہے جو شرافت کی نقاب لگا کر ہمارے سماج میں اخلاقی آلودگی اور تعفن پھیلا رہے ہیں؟

اخلاقی قدروں کی اہمیت و ضرورت اپنی جگہ لیکن یہ قدریں اگر سماج کے لیے گھن اور عورت کے استحصال اور اس کے تقدس کی پامالی کا سبب بن جائیں تو پھر انہیں توڑنا انسانیت اور سماج کے حق میں بہتر ہے۔ واجدہ تبسم نے بھی دراصل یہی کیا۔
ان کی حساس طبیعت نے عزت دار گھرانوں کے باوقار مردوں کی جن پریم لیلاؤں کو بے نقاب کیا، ان کے سبب انہیں سخت چیلنجوں سے نبرد آزما ہونا پڑا۔ مرد کی بداعمالیوں کے نتیجہ میں وجود میں آنے والے، بالا خانوں میں بیٹھی ہوئی سماج کی پست ترین سمجھی جانے والی مخلوق یعنی طوائف کو واجدہ نے ایک عورت کی نظر سے دیکھا، اس کے دکھ درد کو سمجھا اور اس کی پستی کے پس پردہ اسباب کو محسوس بھی کیا۔ واجدہ کا خیال تھا کہ "ایک عورت کے دکھ عورت ہی سمجھ سکتی ہے"

عورت کی زخمی مسکراہٹوں کا سچ بیان کرنے والی واجدہ کی کہانیاں درحقیقت اسی لیے کچھ لوگوں کو بےچین کرتی ہیں کہ ان کہانیوں میں ان 'شریف اور عزت دار' لوگوں کو اپنا مکروہ چہرہ نظر آ جاتا ہے اور ہمارے حسن پرست سماج میں بدصورتی کو برداشت کرنے کا حوصلہ کم از کم ان شریف اور عزت دار لوگوں میں تو کم ہی ہوتا ہے۔ لیکن اس عام رجحان کے باوجود حقیقت تو نہیں بدل جاتی، واجدہ تبسم کے بقول: 'اگر مرغ اذان نہ د ے تو کیا سحر نہ ہوگی؟'
واجدہ کے افسانے اور کہانیاں دراصل سماج میں پھیلی ہوئی جنسی آلودگی اور غلاظت کو سامنے لانے اور اس کے لیے ذمہ دار سفید پوش مجرموں کو بے نقاب کرنے کی ایک کوشش ہیں۔ وہ عورت کو اس کا کھویا ہوا تقدس واپس دلانا چاہتی ہیں اور ایسا کرنے کے لیے وہ اس برہنہ اسلوب کو اپنانے سے بھی گریز نہیں کرتیں کہ جس کے لیے انھیں کئی ناقدین کی تنقید کا نشانہ بننا پڑا اور سماج کے خود ساختہ شرفاء کے عتاب کا شکار بھی ہونا پڑا۔

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
واجدہ کا افسانوی سچ - زبیر رضوی
واجدہ تبسم کے شاہکار افسانے - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
مجھ سے نہ پوچھو - بارے کرشن چندر - از واجدہ تبسم
بند دروازے - بچوں کی کہانیاں از واجدہ تبسم - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

ماخوذ از کتاب: واجدہ تبسم : اذکار و افکار
مرتب: مسرور صغریٰ (اشاعت: 2014)

Wajida Tabassum, a fiction writer of nude style. - Article: Siraj Naqvi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں