مجھ سے نہ پوچھو - بارے کرشن چندر - از واجدہ تبسم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-02-25

مجھ سے نہ پوچھو - بارے کرشن چندر - از واجدہ تبسم

krishan-chander-wajida-tabassum

"کرشن چند آپ کے کو ن تھے۔۔۔۔؟؟"
سوال کرنے والے کا چہرہ مجھے یاد نہیں۔ میری آنکھوں میں اتنے آنسو بھرے ہوئے تھے کہ چہروں کی پہچان مجھے یاد نہیں رہی۔۔۔ صرف کانوں میں ایک سوال کی گونج تھی۔۔۔
"کرشن چند آپ کے کون تھے۔۔۔۔۔۔؟"

میں نے سوا تین ماہ ہاسپٹل میں یوں گزارے کہ ڈاکٹروں نے میرے بچے کو جواب دے دیا تھا۔ ہنستے سسکتے بچے کو موت کے منہ میں لمحہ لمحہ جاتے دیکھنے کا کرب۔ یہ کوئی اس ماں کے دل سے پوچھے، جس نے دن رات صرف آنسوؤں سے ناطہ جوڑ رکھا ہو۔۔۔ پھر اسی کمرے میں دوسرے بستر پر درد سے بے چین شوہر، جس ک اپاؤں ٹرک نے کچل دیا ہو اور دل جوان بھائی کی موت کے صدمے سے چور چور ہو۔۔۔ ! اپنے گنہ گار دل کو سدا یہی سوچ کر تسلیاں دی ہیں کہ خد ا ہمیشہ اپنے نیکبندوں کی ہی آزمائش کرتا ہے۔۔۔ بچے کو خدا نے میرے آنسوؤں کے صلے میں بخش دیا اور ایک خطرناک آپریشن سے شوہر کو بھی میری دن رات کی دعاؤں اور تڑپ سے اچھا کردیا۔ سوا تین مہینے بعد 7/مارچ 1977ء کو ہاسپٹل سے چھٹکارا ملا۔۔۔ ہاسپٹل سے گھر آنے کی کیسی خوشی ہوتی ہے ! لیکن اب کی بار یہ کیسی خوشی تھی جو مجھے ہنسنے سے روکتی تھی۔۔۔ دل پر ایسا بوجھ اور غم تھا کہ آنکھیں بھری چلی آتی تھیں۔ میں نے آنسوؤں کے آگے خود کو اتنا لاچار کربھی نہیں پایا تھا۔۔۔ آخر ہاسپٹل والے کیا سوچیں گے ؟ خدا نے میاں کو صحت دے دی ، بچے کو اچھا کردیا۔ پھر یہ اس قدر رو کیوں رہی ہے۔۔۔؟ ہاسپٹل سے نکلتے نکلتے میری ہچکیاں بندھ گئیں۔۔ منہ سرخ ہوگیا۔ کتنی بار منہ دھویا، لیکن آنسوؤں سے منہ باربار دھل رہا ہو تو پانی بے اثر ہوجاتا ہے۔ کتنے لوگوں نے مجھ سے پوچھا۔۔۔
"آپ تو گھر جارہی ہیں نا۔۔۔۔ صاحب اور بچہ دونوں ہی اچھے ہوگئے۔۔۔ پھر بھی آپ رورہی ہیں۔۔۔۔؟"
خود بچوں نے مجھ سے پوچھا۔۔۔"ممی آپ تو گھر میں اس قدر خوش رہتی ہیں۔ اب گھر چلتے آپ کو خوشی نہیں ہورہی۔۔۔۔؟"
انہوں نے بھی پریشان ہوکر یہی سوال کیا۔۔۔ "وجو! بات کیا ہے۔۔۔؟"
میں نے اپنے دل کو سنبھال کر بڑی مشکل سے جواب دیا۔
"پتہ نہیں۔ بس ایسا لگ رہا ہے گھر جاکر بہت بڑے صدمے سے دوچار ہونے والی ہوں بڑی گھبراہٹ ہو رہی ہے۔۔۔"

صبح ہی صبح مجروح بھائی کا کرشن بھیا کے گھر سے فون آگیا۔۔۔ شید میرا دل تباہ اسی خبر کا منتظر تھا۔ آنکھوں سے جھڑی لگ گئی۔ اشفاق بھی مجھے دیکھ کر رونے لگے۔۔۔ ایک ایک یادبرچھی بن کر سینے میں اترنے لگی۔۔۔۔
کرشن بھیا سے تو میں اتنی بارملی بھی نہیں کہ ان کے بے حد قریبی عزیزوں میں خود کو شمار کرسکوں ، لیکن جتنی بھی بار ملی انہوں نے اتنا پیار دیا کہ میں خود کو ان کے کسی عزیز سے کم سمجھتی بھی نہیں ہوں۔
جموں (کشمیر) میں 72ء یا 73ء، میں بمبئی کے سارے ادیب شاعر گئے ہوئے تھے۔ میں بھی گئی تھی۔ 4 ، 5 دن ہم سب ساتھ ہی رہے۔ وہاں ہم سب ادیبوں کو ایک ایک افسانہ پڑھنا تھا۔ تین چار کہانیوں میں سے کرشن بھیا نے ہی 'اترن' کہانی کا انتخاب کیا اور کہا"بس واجدہ یہی کہانی پڑھ دو۔"میں نے وہی کہانی پڑھی۔ لوگوں نے بے حدپسند کی۔ سننے والوں نے توجی کھول کر داد دی ہی، سب ادیبوں شاعروں نے بھی مجھے بے حد سراہا۔ خود کرشن بھیا نے ڈائس پر ہی میری پیٹھ بہت تھتھپاکر بے حد داد دی ، باربار کہتے تھے کمال کردیا واجدہ۔۔ کمال کردیا۔۔۔!ایک تو کہانی۔۔ اس پر پڑھنے کا انداز۔ کمال کردیا۔"
دعوتوں ، پارٹیوں اور بے پناہ مصروفیتوں نے کرشن بھیا کو بیمار کردیا۔ ڈاکٹرز دیکھنے کو آتے جاتے رہتے، میرا کمرہ ان کے کمرے سے قریب تھا۔ لیکن میں پھر بھی ان کے پاس نہ جاتی، ایک آدھ بار ڈرتے سہمتے دیکھ آتی۔ دل میں ایک ہی دعا پلتی رہتی۔۔۔"' اللہ وہ اچھے ہوجائیں۔"
سب لوگ واپس ہونے لگے، کرشن بھیا کی طبیعت خراب تھی، انہیں ڈاکٹروں نے ایک دو دن آرام کرنے کو کہا۔۔۔ میں ایئر پورٹ جانے سے پہلے ان سے ملنے کے لئے گئی تو یہ حال تھا کہ ایک ایک آنکھ سے کئی کئی آنسو گررہے تھے۔۔۔ ان کے پاس سلمیٰ آپا بھی تھیں۔۔ وہ پتہ نہیں کیا سمجھیں ، مسکراکربولیں۔
"واجدہ پاگل ہوگئی ہو۔ ارے بھئی اپنے گھر جارہی ہو رو کیوں رہی ہو۔۔ میری زبان سے ایک لفظ بھی نہ نکل سکا۔ کرشن بھیا کی پیشانی پر پیار کرتے ہوئے میری سسکیاں نکل گئیں۔ پھر آپا سمجھ گئیں۔
"فکر نہ کرو واجدہ۔ اچھے ہوجائیں گے۔ ڈاکٹروں نے ذرا آرام کرنے کو کہا ہے۔ تھک بھی تو بہت گئے ہیں نا۔۔۔۔!"
میں کشمیر سے آتو گئی لیکن خدا گواہ ہے ایسا لگتا تھا دل وہیں بھیا میں اٹکا رہ گیا ہے۔

مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ نئے افسانہ نگاروں میں کرشن چندر جیسا عظیم افسانہ نگار مجھے بے حد پسند کرتاتھا۔ ان کے ہر انٹرویو میں ان کے پسندیدہ افسانہ نگاروں کی لسٹ میں میرا نام موجود ہوتا تھا۔ ویسے جب بھی ملتے اور میری کوئی تازہ کہانی پڑھی ہوتی تو تعریف کرنا نہ بھولتے۔۔۔ ایک بار ان کی طبیعت بے حد خراب تھی کہ بات کرنا بھی دوبھر تھا۔۔۔ میں انہیں دیکھنے گئی، حسب عادت انہیں دیکھتے ہی رونے لگی۔ اشارے سے مجھے قریب بلایا اور کہا۔"واجدہ۔۔۔ تم نے مجھ پربڑا خوبصورت مضمون لکھا ہے۔""شاعر" نے ان کا نمبر نکالا تھا جس میں میں نے بھی ان پر مضمون لکھا تھا۔۔۔مجھے پتہ تھا کہ وہ میری تحریر یں بے حد شوق سے پڑھتے ہیں ، اسی لئے جب میری حیدرآباد ماحول والی کتاب "اترن" چھپی تو میں نے ہاسپٹل سے اشفاق کو فون کیا کہ کرشن بھیا کو میری کتاب ضرور بھجوانا۔ بعد میں ایک صاحب سرور حسین ، جو کرشن بھیا کے بھی فین ہیں اور میرے بھی، مجھ سے ملنے ہاسپٹل آئے تو بتا رہے تھے کہ کرشن چند صاحب آپ کی کتاب"اترن" کی بے حد تعریف کررہے تھے۔ میں چاہتی تو خود ہاسپٹل کے فون سے کرشن بھیا سے بات کرسکتی تھی لیکن مجھے پتہ تھا کہ ان کے پیس میکر فٹ کیا ہوا ہے اور آرام کی تاکید ہے ، ایسے میں انہیں فون تک بلانا اور تکلیف دینا میرے جی کو گوارا نہ کیا۔۔۔ کرشن بھیا کے پائینتی بیٹھے بیٹھے سلمی آپا نے مجھے روتے ہوئے بتایا۔۔۔"تمہاری کتاب "اترن" آئی تو میں علی گڑھ تھی۔و ہاں سے آئی تو کرشن جی کہنے لگے۔ بھئی واجدہ کی کتاب اترن پڑھی۔۔۔ سلمی آپا کی آواز، ہچکیوں اور آنسوؤں میں ڈوب گئی۔ وہ کرشن بھیا کی ایک ایک بات یاد کر کے خود سے سنارہی تھیں اور روئے جارہی تھیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد ہر انسان کی ہی تعریف کی جاتی ہے ، میرے خیال سے تعریف اس انسان کی جاتی ہوگی جو زندگی میں قابل تعریف نہ ہوتا ہوگا اورجو زندگی ہی میں اتنا پیارا ہوکر کہ لوگ تعریف کرتے نہ تھکتے ہوں تو اس کے گئے بعد اس کا اندازہ لگانا محال ہے۔کرشن بھیا ایسی دلنواز شخصیت کے مالک تھے کہ جس بھی محفل میں بیٹھ جاتے وہ محفل جگمگا اٹھتی، لوگ ان کی تحریروں کے حوالے دیتے ہیں ، ان کی باتوں میں اس غضب کی شگفتگی ہوتی تھی کہ طبیعت کھل اٹھتی تھی۔

ساحر صاحب کے ہاں ایک بار ہم سبھی مدعو تھے۔ نئے سال کے استقبال کے لئے سب ساحر صاحب کی ٹیریس پر نکل آئے تھے۔ خوبصورت جگمگاتی ہوٹلوں اور عمارتوں سے آتشبازیاں چھوٹنے لگیں۔ سارے میں چراغاں سا ہوگیا۔ میں بڑی محویت سے ایک منڈیر سے لگی، روشنیوں کو جلتے بجھتے دیکھ رہی تھی کہ کرشن بھیا پاس آئے اور کان کے قریب منہ لاکر بڑی سنجیدگی اور رازداری سے بولے۔
"یہاں کھڑی کھڑی کیا کررہی ہو۔۔۔ جاؤ اشفاق کے گلے لگ جاؤ۔۔ ارے بھئی سال میں ایک بار ہی تو یہ موقعہ ہاتھ آتا ہے۔۔۔"
میںنے بے حد جھینپ کر ادھر اُدھر دیکھا تووہ بڑی گرم جوشی سے سلمی کو پکار رہے تھے۔
"ارے سلمی بھئی کہاں ہو۔۔ واجدہ کہہ رہی ہے کہ سال میں ایک بار ہی تو یہ موقع ہاتھ آتا ہے۔"
میں ان کے اس رنگین جھوٹ پر انہیں دیکھتی رہ گئی اور وہ مزے سے قہقہے لگاتے رہے۔۔۔۔۔جہاں بھی ملتے ضرور کہتے۔۔"کبھی گھر پر آؤ بھئی۔۔۔" میں کہتی۔۔۔"بھیا آنے میں تو کوئی رکاوٹ نہیں ہے لیکن آ پ سے بار بار ملنے کی عادت پڑ گئی تو سخت مصیبت میں پڑ جاؤں گی۔۔ اور واقعہ بھی یہی تھا کہ ان سے کہیں بھی ملاقات ہوجاتی تھی تو پھر یہی جی چاہتا رہتا کہ دیکھیے اب کب ملتے ہیں۔

زندگی سے بھرپور۔۔۔ ہنسنے ہنسانے والا ، کھانے پینے کا شوقین ، دوستوں کا بھی دوست اور دشمنوں کا بھی دوست۔ ایسا انسان اب کہاں ملے گا۔ عینی آپا(قرۃ العین) ہاسپٹل میں میرے بچے اور میاں کو دیکھنے آئیں تو کرشن بھیا کا ذکر آگیا۔ بے حد دکھے دل سے کہنے لگیں۔
"واجدہ تم تو ہا سپٹل میں ہو، پتہ ہے کہ کرشن چندر جی کو پھر ہارٹ اٹیک ہوگیا ہے۔ میں ان سے ملی تو دل دکھ کر رہ گیا۔۔۔ ایسی یا سیت اور نا امیدی کی باتیں کررہے تھے کہ پوچھو نہیں۔۔۔ کیا پتہ میں چھ مہینے زندہ رہوں۔ یا سال بھر یا دو سال۔۔۔ یا۔۔۔"عینی آپا اچانک خاموش ہوگئیں۔۔۔ پھر کہنے لگیں۔"واجدہ مرنا تو ایک دن سب کو ہے ، لیکن کوئی اس کرب کا اندازہ نہیں لگا سکتا جب کسی کو یہ احساس ہوجائے کہ وہ ختم ہونے والا ہے۔"
واقعی ہم صرف دعائیں کرسکتے ہیں ، لیکن اس گھڑی کو نہیں ٹال سکتے۔ آنچل اور دامن پھیلا پھیلا کر مانگی گئی دعائیں اسی وقت تک قبول ہوتی ہیں جب تک کہ وہ گھڑی ، وہ لمحہ نامزد نہیں کردیاجاتا۔۔ اور جب وہ گھڑی ، وہ جان لیوا لمحہ آہی پہنچتا ہے تو ہر پکار بے اثر ثابت ہوجاتی ہے۔

جموں کشمیر سے جب میں روتی دھوتی کرشن بھیا کی بیماری سے دل کو بوجھل لے کر بمبئی لوٹی تو کسی نے مجھ سے کہا تھا کہ کشمیر کے قیام پر اور وہاں جو گزری اسے قلم بند کرکے دوتاکہ ایک رسالے کا کچھ حصہ، اس کے لیے وقف کیاجاسکے۔ میں نے وہاں کے بارے میں تو کچھ نہیں لکھا ، البتہ ادیبوں شاعروں کے بارے میں لکھا تھا۔ کہ یہ آبدار نسل ان پیارے پیارے لوگوں کی جو باقی رہ گئی ہے یہ اتنی قیمتی ہے کہ جی چاہتا ہے ہر قیمت پر اسے محفوظ کرلوں۔ مجھے یاد ہے ، بچپن میں ہمارے گھر میں بجلی نہیں تھی۔ ہمارے پکے گھر کے بڑے بڑے دالان تھے آنگن تھے ،کچے آنگنوں میں بیری اور املی کے چھتنار درخت تھے۔۔۔ مغرب کے سمے جب چراغ جلائے جاتے تو ایک آنگن سے دوسرے آنگن تک لے جاتے ہوئے بجھ بجھ جاتے۔۔۔ ہماری انا بی نے ہمیں سکھایا تھا کہ"بی بی جب جلتے چراغ کو تیز ہوا سے بچاناہو تواسے اپنے آنچل کی اوٹ میں لے کر دل ہی دل میں کہا کرو۔۔ اللہ کا چراغ۔۔۔ اللہ کا چراغ۔۔۔ تو چراغ بجھتا نہیں ،ہم تیز ہواؤں میں بھی چراغ کو آنچل میں چھپا کر اللہ کا چراغ، اللہ کا چراغ کہتے ہوئے، آنگن پار کرجاتے اور واقعی چراغ جلتے رہتے۔۔۔ روشن ہی رہتے۔۔۔ آج میرا جی چاہتا ہے ان سارے پیارے پیارے روشن چراغوں کو اپنے آنچل کی، اپنی مامتا کی اوٹ میں لے لوں اور میرا ہر ہر نف س پکار اٹھے۔۔۔ اللہ کا چراغ۔۔ اللہ کا چراغ۔۔۔
چار سال پہلے میں نے اپنے نادار آنچل میں جن چراغوں کو چھپانے کا تہیہ کیا تھا ان میں سے جاں نثار اختر۔۔۔ اور اب کرشن چندر بجھ چکے ہیں اور مین تڑپتے دل اور بہتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اس پیارے انسان اور محبت بھری ہستی کے سرہانے بیٹھی سوچ رہی ہوں کہ بس اب چند ہی لمحوں میں اس عظیم الشان دماغ کو جلاکر خاک کردیاجائے گا جو ابھی زندہ رہتا تو جانے کتنی بیش بہا کہانیوں کو جنم دیا۔۔۔ فنا بہر حال انسان کا مقدر ہے ، بھلے تم اسے جلاکر راکھ کردو یا مٹی میں ملا کر خاک کردو۔۔۔۔

آج میں رو رو کر اپنے نین بھی گنوا دوں تو وہ دلآویز مسکراہٹ اس معصوم چہرے پر واپس نہیں لاسکوں گی جو مسلسل بیماریوں کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے اب تھک کر سو چکا ہے۔۔۔ کیسے دکھ کی بات ہے خدایا کہ مشینوں پر آڑھی ٹیڑھی لکیروں کا جال دیکھ کر جو ڈاکٹر فتویٰ دے دیتے ہیں کہ ہارٹ اٹیک ہوگیا ہے وہ اس کرچی کرچی دل کے بارے میں کچھ بھی نہیں سوچ سکتے جو اپنے ایک پیارے کو اس طرح سویا دیکھ کر آنکھوں کے راستے نکلنے کو بے قرار ہورہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:
ماہنامہ شاعر 1967 - کرشن چندر نمبر - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
پودے : کرشن چندر کا رپورتاژ (11 اقساط)
کرشن چندر کے ناولوں اور افسانوں کی مکمل فہرست

ماخوذ:
ماہنامہ "بیسویں صدی" (نئی دہلی)۔ شمارہ: مئی 1977۔

Krishan Chander, Essay by: Wajida Tabassum

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں