"اردو تھیٹر" کی جلد دوم(صفحہ 159،160) میں نامی صاحب نے مراد کے متعلق جو چند سطری معلومات فراہم کی ہیں، وہ یہ ہیں:
کریم الدین نام، مراد تخلص، 1842ء میں بریلی میں پیدا ہوئے۔ عربی و فارسی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور مدرسۃ العلوم بریلی سے فاضل درس ہوئے۔ بعدہ ایک مقامی مدرسے میں مدرسی کے فرائض انجام دینے لگے۔ غالباً اسی زمانے میں مختلف سازوں اور موسیقی میں کافی مہارت حاصل کی۔
1882ء میں جب دادا بھائی رتن جی ٹھونٹھی نے وکٹوریہ ناٹک منڈلی سے علیحدہ ہوکر بمبئی ناٹک منڈلی قائم کی اور اندرسبھا پیش کرنے کا ارادہ کیا تو ان کو یہ خیال گزرا کہ اگر اردو ڈرامے اصل اور صحیح اصول پر پیش کئے جائیں تو کافی فائدہ ہوسکتا ہے۔ چنانچہ ٹھونٹھی نے پستن جی کو یو۔ پی اور دہلی کے دروازے پر روانہ کیا۔ بریلی میں ان کی ملاقات مولوی کریم الدین سے ہوئی، جو ہر فن میں طاق تھے۔ بستن جی نے "ٹوپی والے ساؤریا" کی طرز پر ایک گانا بنوایا جسے دادا بھائی نے بے حد پسند کیا اور پستن جی کو لکھا کہ وہ معاملات طے کرکے کریم الدین صاحب کو اپنے ہمراہ لے آئیں۔ چنانچہ تنخواہ وغیرہ کے معاملات طے ہوئے اور وہ مولوی صاحب کو لے کر بمبئی روانہ ہوگئے۔
اس وقت مولوی صاحب کی عمر 41 سال کی تھی۔ بھاری بھرکم جسم، درمیانی قد، گھنی ڈاڑھی، کرتہ پاجامہ چوغا اورپگڑی۔ کبھی کبھی چوگوشیہ ٹوپی بھی پہنتے تھے۔ ان کا پہلا ڈراما ایک سال تک، دوسرا دو سال تک اور تیسرا آٹھ ماہ تک مسلسل چلتا رہا۔ چوتھا ختم کرچکے تھے کہ باہمی خانہ جنگی کے باعث کمپنی ٹوٹ گئی۔
1۔گل بکاؤلی 1883ء
2۔ گلستاں خاندان بامان 1885ء
3۔ چترا بکاؤلی 1887ء
4۔خداداد 1890ء
1۔ احسن لکھنوی کی ایک تحریر کے حوالے سے یہ کہا گیا ہے کہ جب 1893ء میں احسن بمبئی میں پہنچے تو منشی کریم الدین کا انتقال ہوچکا تھا۔ نامی صاحب کی لکھی ہوئی تاریخ پیدائش کو صحیح مان کر حساب لگایا جائے تو انتقال کے وقت منشی کریم الدین کی عمر اکیاون سال سے کم ہونی چاہئے۔(1893ء۔1842=51)
2۔ احسن لکھنوی ہی کے حوالے سے منشی کریم الدین کا حلیہ بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ساٹھ سال کی عمر میں ان کا حلیہ یہ تھا:
"سانولا رنگ، میانہ قد،لاغر اندام، ڈھیلے بر کا پائجامہ، دو دامن گوٹ کا انگر کھا، دلی کا سادے سے چمڑے کا جوتا، ایک رومال گز بھر لانبا کاندھے پر پڑا رہتا تھا۔ چہرے پر پوری ڈاڑھی تھی اور نہایت زندہ دل ، شریف، شوخ مزاج تھے۔"
3۔ نائب حسین نقوی صاحب نے تاج صاحب مرحوم کی خواہش پر جو حالات لکھ کر بھیجے ان میں، چترابکاؤلی، کے ایک ایڈیشن کا ذکر کیا ہے جو 1872ء میں سکندر آباد میں چھپا۔ اس سے انہوں نے یہ قیاس کیا ہے کہ 1872ء کے لگ بھگ منشی کریم الدین تھیٹر کی دنیا میں داخل ہوچکے تھے۔ اسی شہادت کی بنا پر نتیجہ نکالا گیا ہے کہ منشی صاحب 1872ء میں بمبئی میں موجود تھے اور پستن جی انہیں 1882ء میں نہیں( جیسا کہ نامی صاحب نے کہا ہے) بلکہ 1871ء میں بمبئی لے گئے۔
احسن لکھنوی کے حوالے سے جو دو باتیں کہی گئی ہیں ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ مراد کا انتقال 1893ء سے پہلے ہوچکا تھا اور دوسری یہ کہ انتقال سے پہلے ان کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ تھی۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو نامی صاحب کا بتایا ہوا سنہ ولادت درست نہیں رہتا، اس لئے کہ اس سنہ ولادت کو صحیح تسلیم کرلیاجائے تو وفات کے وقت مراد کی عمر 50 یا 51 سال قرار پاتی ہے۔
نائب حسین نقوی صاحب کے بیان کے مطابق اگر 1872ء میں چھپے ہوئے 'چترا بکاؤلی' کے ایڈیشن کو مراد کی تصنیف سمجھ لیاجائے تو یہ بات ماننی پڑے گی کہ پستن جی 1871ء میں مراد کو بریلی سے بمبئی لے گئے۔
پہلے نقوی صاحب والی بات کو لے کر اس کا تجزیہ کیجئے:
1۔ نقوی صاحب کے قول کے مطابق مراد کا ڈراما 'چترا بکاؤلی' 1872ء میں چھپا۔ نامی صاحب کے بیان کی رو سے اس کا سنہ طباعت و اشاعت 1887ء ہے۔
میرے نزدیک 1887ء صحیح ہے اس لئے کہ اس کے حق میں کئی شہادتیں موجود ہیں:
(الف) دادا بھائی رتن جی ٹھونٹھی کے متعلق کئی حوالوں سے یہ بات ظاہر ہے کہ وہ وکٹوریا ناٹک منڈلی کے ڈائرکٹر تھے۔(عشرت رحمانی: اردو ڈراما۔ تاریخ و تنقید، صفحہ 205۔ اردو تھیٹر، جلد دوم ، مختلف صفحات)
(ب) رونق بنارسی کے ڈراموں کی طباعت کا سلسلہ 1879ء سے 1883ء تک جاری رہا۔ رونق، وکٹوریہ ناٹک منڈلی میں ملازم تھے اور کمپنی کے ڈائرکٹر دادا بھائی رتن جی ٹھونٹھی کی ایما پر ڈراموں میں رد وبدل کرتے تھے(اردو تھیٹر، جلد دوم، صفحہ 83) اس کے معنی یہ ہیں کہ کم از کم 1879ء میں(1871ء سے آٹھ سال بعد) وہ وکٹوریہ ناٹک منڈلی سے وابستہ تھے۔
(ج) مراد کے ڈراموں کی جو فہرست مختلف مقامات پر ملتی ہے اس میں ا ن کے صرف چار ڈراموں کا ذکر آتا ہے۔ ان چاروں میں سے پہلا'گل بکاؤلی' ہے، جس کا سنہ طباعت 1883ء ہے۔
ان باتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مراد کا عہد تصنیف 1883ء میں شروع ہوتا ہے اور وہ 1872ء میں نہیں، بلکہ 1882ء میں بمبئی گئے تھے۔
سال وفات کے متعلق احسن لکھنوی کی بات درست معلوم ہوتی یہ، اس لئے کہ مراد نے اپنا آخری ڈرامہ'خدا داد' 1890ء میں مکمل کیا۔ ان کے جو ڈرامے چھپے ہیں ان سب کی تصنیف کے درمیان کم از کم دو دو سال کا وقفہ ضرور ہے، بلکہ ایک جگہ یہ وقفہ تین سال کا ہے۔ اس سے قیاس کیاجاسکتا ہے کہ مراد کا انتقال 1893ء سے پہلے ہوچکا تھا۔ چونکہ مراد کے لکھے ہوئے ڈرامے اسٹیج پر بہت مقبول ہوئے تھے اس لئے اگر انہوں نے زیادہ عمر پائی ہوتی تو ناممکن ہے کہ وہ کسی نہ کسی تھیٹر کمپنی کے لئے کوئی اور ڈراما نہ لکھتے۔
کریم الدین مراد کی مقبولیت کا اندازہ ایک تو اس بات سے ہوتا ہے کہ ان کا ہر ڈراما خاصی طویل مدت تک مسلسل اسٹیج ہوتا رہتا تھا، دوسرے اس بات سے کہ ان کے معاصر ڈراما نگاروں نے ان کا ذکر بڑے اچھے الفاظ میں کیا ہے اور ان کی ڈراما نگاری کے علاوہ ان کی زبان اور ان کے گانوں کے متعلق تحسین و توصیف کے کلمات استعمال کئے ہیں۔
1۔ احسن لکھنوی کے ذکر میں ڈاکٹر نامی نے 'چندراولی' کی تصنیف کا حال ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "زہر عشق لکھنو میں چل رہا تھا کہ آردیشر دادا بھائی ٹھونٹھی کی بمبئی ناٹک منڈلی واردشہر ہوئی اور احسن لکھنوی کی شہرت سن کر ، ان سے چترا بکاؤلی(مصنفہ مراد بریلوی) کے طرز پر چنداولی لکھنے کی فرمائش کی۔ احسن نے'چندراولی' لکھا جو لکھنو میں پہلی بار اسٹیج ہوا اور بہت کامیاب رہا۔ "اردو ڈراما نویسوں میں سوائے عبدالکریم مراد بریلوی کے اور کسی ڈراما نویس کو اس قدر جلد شہرت حاصل نہیں ہوئی۔"
2۔ مرزا نظیر بیگ نے اپنا ڈرامہ 'چترا بکاؤلی' 1894ء میں مرتب کیا۔ اس کے دیباچے میں انہوں نے گانوں کی طرزوں کے سلسلے میں یہ اعتراف کیا ہے کہ"میں نے اس ناٹک میں وہ طرزیں، جونئی الفریڈ کے ناٹک میں گائی جاتی ہیں، مثلاً ناٹخ الہ دین علی بابا، چترا بکاؤلی، آب ابلیس و خاندان ہامان تالیف جناب منشی محمد مراد وسیٹھ دادی کربش جی بمبئی کے ناٹکوں میں چوطرزیں ہیں، ان طرزوں کے وزنوں پر یہ چیزیں بنائی ہیں۔"
اس بیان میں مراد کے دو ڈراموں ، 'چترابکاؤلی' اور خاندان ہامان کی طرزوں کی مقبولیت کا واضح اعتراف موجود ہے۔
ڈرامائی دنیا میں"مراد" تخلص کی وجہ سے بعض التباس پیدا ہوئے ہیں۔ جس طرح کریم الدین کا تخلص مراد تھا ،اس طرح لکھنو کے رہنے والے ایک معروف ڈرامہ نگار مراد علی کا تخلص بھی مراد تھا، تخلص کے اس اشتراک نے ایک خرابی تو یہ پیدا کی کہ مراد علی کے لکھے ہوئے بعض ڈراموں کو مراد بریولی کی تصنیف سمجھ لیا گیا اور دوسری خرابی یہ کہ مراد بریلوی کے لکھے ہوئے ڈراموں کو مراد علی مراد سے منسوب کردیا گیا اور مختلف چھاپہ خانوں نے ایک کا ڈراما دوسرے کے نام سے چھاپ کر خاصا انتشار پیدا کیا۔
اس خلط ملط کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ 'چترا بکاؤلی' کا ایک ہی متن (جو اصلیت میں مراد بریلوی کا ہے) دونوں کے نام سے چھپا ہے۔ متن میں سرمو فرق نہیں، لیکن ایک مطبع اسے مراد بریلوی کی تصنیف قرار دیتا ہے اور دوسرا مراد لکھنوی کی۔ ڈاکٹر نامی نے اپنی تحقیق سے ان دونوں ڈراما نگاروں کی تصانیف کی جو فہرست مرتب کی ہے اس کی موجودگی میں کسی الجھن یا غلط فہمی کی گنجائش نہیں رہتی۔
مراد کے جن چار ڈراموں کی نشان دہی نامی صاحب نے کی ہے ان میں سے تین اس مجموعے میں شامل ہیں۔ ان کے فن اور اسلوب کا جائزہ ان تبصروں سے لیا گیا ہے جو ہر ڈرامے سے پہلے شامل اشاعت ہیں۔
یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
اردو ڈرامہ کی توسیع و اشاعت میں انگریزوں کا حصہ
اردو ڈراما اور ہمارا سماج - از سید حامد
ماخوذ از کتاب:
کریم الدین مراد کے ڈرامے (اشاعت: جولائی 1972)
مرتبہ: سید امتیاز علی تاج
کریم الدین مراد کے ڈرامے (اشاعت: جولائی 1972)
مرتبہ: سید امتیاز علی تاج
Kareemuddin Murad, A drama writer of Urdu classics. - Article: Imtiyaz Ali Taj
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں