اردو ڈرامہ کی توسیع و اشاعت میں انگریزوں کا حصہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-11-18

اردو ڈرامہ کی توسیع و اشاعت میں انگریزوں کا حصہ

urdu-drama
فورٹ سینٹ جارج کالج مدراس
ہندوستان کی بساط سیاست پر جب انگریزوں نے اپنے قدم مضبوطی سے جما لئے تو انگلستان سے آنے والے جونیر انگریز سیول اور فوجی ملازمین کے لئے جنہیں منشی (WRITER) کہا جاتا تھا مقامی زبانوں اور ہندوستانی تہذیب و تمدن سے آشنا کرنے کے لئے جوزف کلکٹ (JOSEPH COLLECT) گورنر مدراس نے 1717ء میں مدراس میں فورٹ سینٹ جارج اسکول کی بنیاد ڈالی جو رائٹرس کالج (WRITERS COLLEGE) بھی کہلاتا تھا اور آگے چل کر یہ فورٹ سینٹ جارج کالج کے نام سے مشہور ہوا۔
یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا پہلا تعلیمی ادارہ تھا جہاں جونیئر انگریز ملازمین رائٹرس (WRITERS) کی تعلیم و تربیت کا باقاعدہ انتظام کیا گیا تھا۔ کیونکہ انگلستان یا بنگال اور خود کلکتہ میں بھی ان جونئیر ملازمین کی تعلیم کا کوئی انتظام نہ تھا۔ 1756ء کے قانون کے ذریعہ جونئیر ملازمین کا باقاعدہ تقرر ہونے لگا۔ ان کی بھرتی انگلستان میں ہوتی اور اس عہدہ کے لئے عموماً ایسے نوجوانوں کو منتخب کیا جاتا جو ہندوستان میں ملازمت کے خواہش مند ہوتے اور جن کی عمریں پندرہ سے اٹھارہ سال کے درمیان ہوتیں ان سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ سیول (کشوری) اور ملٹری (فوجی) دونوں ذمہ داریاں پوری کریں گے۔
مدراس کے "اعظم الاخبار" نے اپنے ایک اداریے میں مسلمانوں کو انگریزوں سے سبق حاصل کرنے کا مشورہ دیا تھا اور بتایا تھا کہ انگریز اپنے بچوں کی تربیت کی طرف بطور خاص توجہ کرتے ہیں اور کم عمری ہی میں وہ تربیت سے فارغ ہو کر ملازمت کے لئے دوسرے ممالک کو چلے جاتے ہیں۔
چنانچہ اخبار لکھتا ہے :
"انگریزوں کی تربیت دیکھو کہ بارہ سال کی عمر والے، پندرہ سال کی عمر والے تربیت سے فارغ ہو کر اپنا شہر چھوڑ کر پرملک (دوسرے ملک یعنی ہندوستان) کو پیدائش (ملازمت) کے لئے آتے ہیں۔ افسوس ہے کہ ہم لوگ دیکھے دیکھاتے ان کی تربیت کا ڈھب نہیں سیکھتے۔ بیس سال تیس سال کے بعد تربیت پانے کا خیال کرتے ہیں۔ خاک پڑو ایسے خام خیال پر کیا یہی وقت تربیت پانے کا ہے؟"
"اعظم الاخبار نمبر6، جلد5 ، مورخہ4/ڈسمبر 1851ء)

فورٹ ولیم کالج کلکتہ
فورٹ سینٹ جارج اسکول کے قیام کے تراسی سال بعد گورنر جنرل کارڈ ویلزلی نے 1800ء میں کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کی داغ بیل ڈالی۔ اس کالج کے قیام کا مقصد بھی ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی ک کے ولایت سے نووارد انگریز سیول اور فوجی ملازمین کو ہندوستانی زبانوں بالخصوص اردو کی تعلیم دینا تھا۔ تاکہ جہاں بھی وہ تعینات کئے جائیں وہاں کے باشندوں سے گفت و شنید کے ذریعہ نہ صرف کمپنی کی تجارت کو فروغ دے سکیں بلکہ اس کی حکومت کو مستحکم اور پائیدار بھی بنا سکیں۔

اردو نثر اور ڈرامہ کے ارتقاء میں فورٹ ولیم کالج اور فورٹ سینٹ جارج کالج کا حصہ
اردو زبان و ادب خاص طور پر اردو نثر کی ترویج و ترقی کی تاریخ میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ اور فورٹ سینٹ جارج کالک مدراس کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ان اداروں میں نہ صرف بڑی مماثلت اور مشابہت تھی بلکہ دونوں اداروں کے مقاصد بھی یکساں تھے۔ اور انہوں نے ایک جیسے کارنامے انجام دئے ہیں۔ فورٹ ولیم کالج کلکتہ کی وجہ سے اردو نثر کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا۔ اس کالج کے مصنفوں نے اردو نثر کا ایک ایسا اسلوب اختیار کیا جو بعد کے مصنفوں کے لئے چراغ راہ ثابت ہوا۔
یہ تحریک ہندوستان کی سب سے پہلی شعوری و اجتماعی ادبی و لسانی تحریک تھی جس نے اردو نثر کی رفتار ترقی کے لئے مہمیز کا کام کیا اوراسے وہ قوت و توانائی عطا کی کہ نصف صدی کی مختصر مدت میں اردو زبان کے اندر مختلف مضامین و مباحث کا میابی کے ساتھ ادا کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی۔ اسی طرح اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جنوبی ہند میں اردو کی ترویج و ترقی اور اشاعت میں فورٹ سینٹ جارج کالج مدراس نے وہی کردار ادا کیا جو شمال مشرقی ہند میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ نے ادا کیا۔ اگر ان میں تفریق و تمیز کی کوشش کی جائے تو محض اس قدر کہا جا سکتا ہے کہ جس زمانے میں فورٹ ولیم کالج شمال مشرقی ہندوستان میں اردو کی تہذیب و ترقی اور ترویج و اشاعت کی خدمات انجام دے رہا تھا فورٹ سینٹ جارج کالج مدراس جنوبی ہند میں اس کی قدیم شکل یعنی "دکنی" کے فروغ کی خاطر سرگرم عمل تھا۔ مجموعی طور پر ان دونوں اداروں نے اردو زبان و ادب کی ترقی و اشاعت میں عہد ساز کارنامے انجام دئے ہیں۔ نہ تو ان کی خدمات سے چشم پوشی کی جا سکتی ہے اور نہ اردو زبان و ادب کا کوئی مورخ ان کے تذکرہ سے دامن کشاں گزر سکتا ہے۔

فورٹ ولیم کالج کلکتہ اور فورٹ سینٹ جارج کالج مدراس کے ارباب اقتدار بہترین تصانیف پر انعام و اکرام کا اعلان کرکے کالج سے متعلق اور غیر متعلق مصنفین کو تصنیف و تالیف کے کام میں عملی شرکت کی طرف راغب کرتے تھے ، جس کے نتیجے میں متعدد مفید کارآمد اور غیر فانی شاہ کار وجود میں آئے۔ ان کالجوں کے علاوہ خود ایسٹ انڈیا کمپنی نے مدراس گورنمنٹ کے ایسے ملازم طلبہ کو جو سات مقامی زبانوں میں سے کم از کم دو زبانوں میں مہارت حاصل کر لیتے تھے، انعامات سے نوازا کرتی تھی۔
مدراس کے گورنر سر ہنری پاٹنجر (SIR HENRY POTTINGER) نے سپریم گورنمنٹ کے حکم پر ایک اعلان "یونائٹیڈ سروس گزٹ" میں شائع کروایا تھا۔ اس اعلان کو مدراس کے مشہور اردو اخبار "اعظم الاخبار" نے بھی شائع کیا تھا۔ جو حسب ذیل ہے :
"مدراس کے گورنر سر ہنری پاٹنجر صاحب بہادر سپریم گورنمنٹ کے حکم (کے) موافق اس ملک کے تمام شمشیر بند سرداروں (فوجی ملازمین) کو اطلاع دیتے ہیں کہ اگر کوئی سردار ان سات زبانوں میں سے دو زبان یا زیادہ سیکھ کے امتحان دیوے تو اس کو سرکار کی طرف سے ایک مشت (ایک) ہزار روپے انعام ملیں گے۔ سوائے اس کے وے(وہ) لوگ معقول خدمتوں پر مامور ہونگے۔"
(اعظم الاخبار نمبر 26 جلد5 مورخہ22 اپریل 1852ء)

مقامی زبانیں سیکھنے والے عہدیداروں کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ فورٹ سینٹ جارج کالج کے اکثر "سولجر" (سپاہی)، اردو (ہندی) اور فارسی وغیرہ مختلف السنہ سے اچھی طرح واقف ہوگئے تھے اور ان زبانوں میں وہ اس طرح گفتگو کرتے تھے گویا یہ ان کی مادری زبانیں ہوں۔ چنانچہ "اعظم الاخبار" کے ایڈیٹر اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"قلعہ (فورٹ سینٹ جارج) میں اکثر سولجر(سپاہی) ہندی(اردو) اور فارسی زبان خوب جانتے تھے اور لکھنے پڑھنے کا بھی اچھا سلیقہ رکھتے تھے چنانچہ کئی سولجروں کو ہم دیکھے کہ وے( وہ) فارسی گفتگو اس طور پر کرتے تھے کہ قابلوں کے سوائے دوسروں کو ان کی تقریرسمجھنا دشوار ہوتا تھا۔"
(اعظم الاخبار نمبر26 جلد5، مورخہ22/اپریل 1852ء)

"اعظم الاخبار" مدراس کے ایڈیٹر مولوی سید محمد نے اپنے ایک اور اداریے میں انگریزوں کی سیاسی پالیسی کی کامیابی کا ایک راز یہ بتاتے ہیں کہ پہلے انہوں نے اپنے مفتوحین کی زبان سیکھی اور اس کے ذریعہ سے ان کی معاشرت اور ان کے تصورات زندگی کو سمجھنے کی کوشش کی۔ وہ لکھتے ہیں:
"ان کی دانائی اور فراست کا خیال کیجئے کہ یہ لوگ جس ملک میں گئے پہلے تو ان کی زبان سیکھ لئے پھر اس ذریعے سے وہاں کے تمامی آئین پرخوب واقف ہو گئے۔ ہند میں آئے تو ہندی (اردو) اور جتنے زبان کے یہاں مروج ہیں سب سیکھے۔ پھر عجم کو گئے تو فارسی سیکھ لیے اور ترکستان آئے تو ترکی وغیرہ زبانیں حاصل کر چکے جب عربستان میں آئے تو عربی تحصیل کئے۔"
(اعظم الاخبار نمبر32 جلد5 مورخہ3/جون 1852ء)

مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد برطانوی سامراج نے دو سو سال کی طویل مدت تک برصغیر ہند و پاک کے وسیع و عریض علاقوں پر حکمرانی کی۔ ایک طرف تو انہوں نے ہندوستان جنت نشاں کی بہت ساری دولت لوٹی اور معاشی حیثیت سے ہندوستان کو پست ماندہ بناکر چھوڑا۔ لیکن ساتھ ساتھ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے اس سر زمین کی زبانوں، ثقافت اور تاریخ اور زندگی کے دیگر شعبوں کے مطالعہ میں گہری دلچسپی لی۔ عوامی رابطے کی حیثیت سے انہوں نے اردو زبان کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے مدراس میں فورٹ سینٹ جارج کالج، کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج اور انگلستان میں 'ہیلی بری کالج' کی بنیاد ڈالی۔ انہوں نے جہاں حکمران جماعت کے افراد کو برصغیر کی مقبول عام زبان میں شد بد پیدا کر کے ملکی معاملات انجام دینے کے قابل بنایا وہیں ان تعلیمی اداروں نے اردو زبان و ادب کی ترقی میں جو گراں قدر حصہ لیا ہے اس کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہندوستان میں طباعت اور صحافت کی ابتدا بھی انگریزوں ہی کی دین ہے۔

اردو میں ڈرامہ کی ابتداء
اردو لٹریچر ، ڈرامہ کے عنصر سے بالکل خالی تھا۔ اردو میں ڈرامہ کا لفظ انگریزی زبان کے اثرات اور انگریزوں کی وجہ سے مستعمل ہوتی ہے۔ انگریزوں ہی کی کوششوں سے چند عمدہ ڈرامے تصنیف اور ترجمہ ہوئے۔ پہلی بار فورٹ ولیم کالج کے منتظم اعلی ڈاکٹر جان گلکرٹ کی فرمائش پر 1801ء میں کاظم علی جواں نے للو لال جی کی مدد سے سنسکرت کے مشہور ناٹک "شکنتلا" کو آسان اردو نثر میں منتقل کیا۔ یہ کتاب 1802ء میں فورٹ ولیم کالج کی جانب سے شائع ہوئی اور مقبول ہوئی۔ اس طرح اس ناٹک کی بدولت اردو میں نوٹنکی، سوانگ، رام لیلا، راس لیلا، اور رہس کی ابتدا ہوئی۔ نواب واجد علی شاہ کے رہس، امانت کی اندر سبھا اور دیگر سبھائیں اسی کا نتیجہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیے
اردو ڈراما اور ہمارا سماج - از سید حامد

ماخوذ از کتاب: اردو کا پہلا نثری ڈرامہ اور کیپٹن گرین آوے
مصنف: ڈاکٹر محمد افضل الدین اقبال (اشاعت: جنوری 1984)

The role of the British in the promotion and publication of Urdu drama, Article by: Dr. Afzaluddin Iqbal.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں