اردو ڈراما اور ہمارا سماج - از سید حامد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-02-20

اردو ڈراما اور ہمارا سماج - از سید حامد

urdu-drama-and-our-society

آج کثرت میں وحدت والا ہمارا ملک ہندوستان اپنی ہزاروں سال کی شاندار تاریخ کے انتہائی تاریک دور سے گذر رہاہے۔ اسے مختلف میدانوں میں کئی ایک چیلنجز کا سامنا ہے۔ سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی، اقتصادی، سائینسی، ادبی و ثقافتی مسائل و کشاکش سے ملک دوچار ہے۔ سماج میں پیدا شدہ مسائل کا گہرائی و گیرائی اور شعور کی پختگی سے جائزہ لیتے ہوئے موجودہ ڈراما نگاروں کو چاہئے کہ وہ انہیں اپنے ڈراموں میں اس طرح پیش کریں کہ لوگ ان مسائل کے بارے میں نہ صرف غور کریں بلکہ ان کا حل ڈھونڈ نکالنے پر مجبور ہوجائیں تاکہ معاشرے کی اخلاق گراوٹ سے حفا ظت ممکن ہو سکے۔ جہاں تکاردو ڈرامے کی بات ہے تو اس کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ اس میں اسٹیج کی روایت پوری طرح پنپ نہیں سکی۔گو اردو میں ڈرامے کی ابتداء معدودے چند زبانوں کو چھوڑ کر باقی تمام ہندوستانی زبانوں میں سب سے پہلے ہوئی۔ اور اسے ہندوستان بھر میں مقبولیت کا شرف ایک مدت تک حاصل رہا۔ مگر اس کا انحطاط بھی مکمل ہوا۔ جس وقت اردو ڈرامے اسٹیج پر تہلکہ مچار ہے تھے اس وقت ہمارے ادیب اور نقاد ڈرامے کو ادبی صنف تو کیا فن شریف تک قرار دیتے ہوئے ہچکچاتے تھے۔ لیکن جب اردو اسٹیج کا زوال مکمل ہوگیا اور ڈرامے کا رشتہ عوامی زندگی سے بہت کچھ ٹوٹ گیا تب سنجیدہ ادبی حلقوں میں ڈرامے کی اہمیت کا تھوڑا بہت اعتراف کیا جانے لگا۔ یوں تو اردو ڈراما ابتدا ہی سے تعصبیت کا شکار رہا۔ اس کے بارے میں تو یہاں تک کہہ دیاگیا کہ ؎
نہ تو یہ شرفا کا فن ہے اور نہ اس کی کوئی ادبی اور فنی حیثیت ہے۔" 1؎

ان تمام تنقیدوں کے باجود اردو ڈرامے کی حیثیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ روز اول سے آج تک اس نے کئی نشیب و فراز کا سامنا کیا ہے۔ آج کے اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں سینما، ریڈیواور ٹیلی ویژن کے علاوہ سماج کی اصلاح کا بہترین ذریعہ اردو ڈراما ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ جس سے ابھی بہت کچھ کام لیا جانا باقی ہے۔ماقبل آزادی اور مابعد آزادی ڈرامے نے اپنا کام بخوبی نبھایا ہے۔ جب کہ دور حاضر میں بھی اس کی اہمیت وافادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں خلل انداز ہونے والی رکاوٹوں کو ڈرامے کے ذریعے پیش کرتے ہوئے تعلیم کی اہمیت و افادیت پر مفصل انداز میں روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔ اور لوگوں کو تعلیم کی جانب راغب کیا جاسکتا ہے۔ تاکہ ہمارا معاشرہ خواندہ ہو۔ اور ترقی کی سمت تیزی سے پیشرفت ہو۔ اتنا ہی نہیں بلکہ تعلیمی نظام کو درپیش مسائل اور مغربی تہذیب کے فوائد و نقصانات، مخلوط تعلیمی نظام کی خوبیوں اور خامیوں کی جانب عوام کے ہمراہ دانشوروں اور ماہرین تعلیم کی توجہ مرکوز کروائی جا سکتی ہے۔ڈراما کے وجود اور اس کی گوناگوں خوبیوں کے بارے میں محمد اسلم قریشی کے اس بیان سے روشنی پڑتی ہے کہ
"عمیق غور وفکر کے بعد ایسے واقعات و حالات پیدا کرنا ڈرامے کا لازمہ ہے جو اپنے عجیب وغیر متوقع ہونے کی بنا پر متحیر و متعجب کرسکیں۔اسے کے بغیر ڈرامے کا وجود قرار نہیں دیا جاسکتا۔2؎

مشرقی ممالک خصوصاً ہندوستانی معاشرے کو درپیش مسائل میں سب سے اہم آزادی نسواں اور خواتین کی مساوات کا ہے۔ دور جدید میں عورتوں پر ہونے والے مظالم کو منظر عام پر لانے کے لئے ڈرامے سے بہتر شائد ہی کوئی صنف ہو۔ آبادی میں بے تحاشہ اضافہ اور بے روزگاری کے مسائل، بڑھتی ہوئی مہنگائی، رشوت کے بجائے انہیں منظر عام پر لانے اور خاطیوں کو کیفر کردار تک پہونچانے، سماج میں احتیاطی تدابیر اور شعور بیداری پیدا کرنے کے لئے اردو ڈرامے کا سہارالیا جا سکتاہے۔اس خصوص میں نکڑ ناٹک کا کامیابی سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ڈراما پیش کرنے والا ایک گلی، نکڑ یا کسی چوراہے پر کثیر تعداد میں جمع ہونے والے افراد کے سامنے ایام گذشتہ کے حالات، حادثات، سانحات اور واقعات کو پیش کرتے ہوئے ان مسائل کا حل طلب کر سکتا ہے۔ عالمی حدت اور آفات سماوی جیسے مسائل کو بھی جدید ٹیکنالوجی کی مدد کے ذریعے اسٹیج پر پیش کیا جا سکتا ہے۔دور جدید کی سائینسی ایجادات اور ٹیکنالوجی کے مثبت استعمال کی جانب توجہ مبذول کروانے میں بھی ڈرامے سے تعمیری کام لیا جا سکتا ہے۔ گو کہ زندگی کے ہر شعبہ کی کار کردگی کو پیش کرنے کے لئے اردو ڈراما ایک بہترین ذریعہ ہے۔ ساتھ ہی غلط عادتوں اور بے راہ روی کے شکار نوجوانوں اور سماج کی فلاح و بہبود کے ضمن میں اس سے کام لیا جا سکتا ہے۔جذبہ حب الوطنی، آزادی کی اہمیت اور اشتراکیت کو موضوع بناکر ڈرامے لکھے گئے۔ اور لکھتے جاتے رہے اور رہیں گے۔ اس کے علاوہ کاروبار کرنے والوں کو بھی ڈراموں میں ہدف تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ارو کے ڈراما نگار ہمیشہ اصلاحی کاموں میں پیش پیش رہے۔ ساتھ ہی نت نئے مکتب فکر کو اپنے ڈراموں میں جگہ دی۔
"ابراہیم یوسف نے اردو ڈرامے میں عوامی عناصر کے ایک اور پہلو یعنی عوامی دلچشپیوں عوامی مشاغل عوامی عقائد اور اوہام پرستی کے اثرات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔" 3؎

اردو ڈرامے کو صرف پڑھنے تک محدود نہ رکھتے ہوئے اسے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے علاوہ علاقائی سطح پر ڈراما سوسائٹی قائم کرتے ہوئے اردو کے طویل اور مختصر ڈراموں کو سلسلہ وار پابندی کے ساتھ اسٹیج کرنا چاہئے۔ اور ڈرامے کے ذریعے جہاں تک ہو سکے سماج کی حالت بہتر بنانے کی سعی و جدوجہد کرنی چاہئے۔ کیونکہ اسی میں بنی نوع انسان کی کامیابی مضمر ہے۔
عرصہ دراز سے معاشرتی و سماجی موضوعات کو محور بنا کر ڈرامے لکھے جاتے رہے ہیں۔ جن میں اصلاحی پہلو کو بہ طور ہتھیار استعمال کیا گیا ہے۔ان بزرگ ڈراما نگاروں میں سے ایک پروفیسر محمد مجیب بھی گذرے ہیں۔جنہوں نے کئی کامیاب ڈرامے لکھے۔ ان کے ڈرامے اردو ادب میں گوہر آبدار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ "آزمائیش" اور "حبہ خاتون" جیسے مشہور ڈراموں کا تذکرہ اس ضمن میں کیا جا سکتا ہے۔ پروفیسر محمد مجیب سماجی طور پر اہم مسائل پر قلم اٹھاتے ہیں۔ ان کے ڈراموں میں ہر قسم کے مو ضوعات ملتے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد اردو میں بہت کم ڈرامے لکھنے کا رواج رہا۔ اپندر ناتھ اشک نے اپنے ڈراموں میں انسانی نفسیات کے نازک اور لطیف ترین نکات کو پیش کیا۔اس کے علاوہ جدیدا یجادات کو بھی انہو ں نے اپنے ڈراموں میں پیش کیا۔ جس کی مثال ان کا شاندار ڈراما "ٹرنک کال" ہے۔ ان کے علاوہ کرشن چندر اور عصمت چغتائی نے بھی کامیاب معاشرتی ڈرامے لکھے۔ جس میں سماج کے متوسط طبقے کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ فنی پختگی اور فکری معنویں ہو دونوں اعتبار سے کامیاب سماجی ڈراما نگاروں میں بیدیؔ کا بھی شمار کیا جا سکتاہے۔ کرتار سنگھ دگل کے ڈراموں میں "شور اور سنگیت" کے علاوہ ڈراما "میٹھا پانی" کو سماجی ڈراموں کی فہرست میں شامل کیا جاسکتاہے۔ جن میں مختلف سماجی اور نفسیاتی مسائل کو فنکارانہ سلیقے سے پیش کیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنے ڈراموں میں چھوٹے چھوٹے مکالموں سے بہت بڑا کام لیا ہے۔ محمد حسن کے ذکر کے بغیر میری بات ادھوری رہ جائے گی۔ کیونکہ انہوں نے بھی کئی سماجی ڈرامے لکھے۔جن میں "موم کے بت، محل سرا، اور ضحاک قابل ذکر ہیں۔مذکورہ ڈراموں میں مختلف سماجی مسائل کی طرف اشارے کئے گئے ہیں۔ ڈراما نگار محمد حسن نے ہمیشہ یہی کوشش کی ہے کہ ڈرامے میں ان تمام باتوں کو بیان کیا جائے جو جدید ذہن کو متاثر کر رہی ہیں۔ ڈراما نگار ابراہیم یوسف نے بھی کئی ایسے ڈرامے لکھے جو کافی اہمیت کے حامل ہیں۔اور جن سے سماجی اصلاح کا کام لیا جا سکتا ہے۔ ان میں "کا غذ کی دھجی، وقت کے کراہتے رنگ، آخری فیصلہ اور "کراس کا تحفہ" نمایاں ہیں۔ اردو ڈراما کی تاریخ میں انل ٹھکر کا نام بھی کافی اہمیت کا حامل ہے۔ یوں تو ان کا ہر ڈرامہ ایک درس دیتا ہے۔ لیکن کے ڈرامے اکھڑے لوگ اور خالی خانے موجودہ سماج کے لئے مشعل راہ تصور کئے جا سکتے ہیں۔آج ہمارے ڈرامے اور ڈرامہ نگار اردو بولنے والوں کی خاطر خواہ رہنمائی کرنے سے قاصر ہیں۔ اور اردو داں طبقہ کے مسائل جوں کہ توں ہیں۔ اس لئے ڈراما نگاروں کو چاہئے کہ وہ اپنے ڈراموں کے ذریعے مثبت تبدیلی لاتے ہوئے اردو داں طبقہ کے سماجی مسائل کو پیش کریں۔ اس سلسلے میں اردو ڈراما اور تھیٹر کی کارکردگی کے بارے میں عزیز قریشی کا خیال ہے کہ
"اردو تھیٹر کے تعلق سے جو بات توجہ طلب ہے وہ ہے مسائل کی پیشکشی سے غفلت اور کرداروں کے ڈیولپمنٹ کی کمی۔ اصل میں اردو تھیٹر وہی ہوگا جو اردو بولنے والوں کے مسائل کو پیش کرے گا۔" 4؎

عام طور پر سماج میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ریڈیو سینما اور ٹیلی ویژن نے اردو ڈراما کا وقار کم کردیا ہے جس کی وجہہ سے آج ڈراما معدودیت کا شکار ہوگیا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے جدیدی ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے اردو ڈراما کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ اور سماج کی اصلاح کا بھی کام لیا جا سکتاہے۔ ڈراما اور ٹیلی ویژن پر پیش کردہ سیریلوں میں زندگی سے جڑی عام باتیں اور مسائل کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ اور ان سیریلوں کے مشہور کرداروں میں عام انسان خود کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔جو زندگی سے قریب ترین ہوں۔ اکثر دیکھنے والے کردار کے تاثر کو نہ صرف قبول کرتے ہیں بلکہ یہی کردار ان پر غالب آجاتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ فحاشی اور عریانی کے بجائے ادب اور اخلاق اور معیار کی طرف ذیادہ توجہ دی جائے۔ جیسا کہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ جدیدذرائع ابلاغ میں ٹیلی ویژن کی اہمیت مستند ہے۔ اور اس کے پیش کردہ سیریلس و پروگراموں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اور اب صرف شہروں اور دیہاتوں میں ہی نہیں بلکہ دور دراز کے دیہی علاقوں میں بھی ٹی وی چیانلس سے استفادہ کا رویہ عام ہوچکا ہے۔ اور یہ گھروں کے ایک حصہ بن چکے ہیں۔ اردو ڈراما بھی اس میڈیم کے سہارے عام لوگوں تک باآسانی رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ اور اپنی اہمیت منوا سکتا ہے۔

موجودہ دور میں اردو اسٹیج کی تشکیل ممکن ہے۔ اور اس کے لئے بہت سے معاون عناصر اس وقت موجود ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد سارے ہندوستان میں بکھری ہوئی ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ اردو میں ڈرامے کی روایت سو سال سے بھی ذیادہ پرانی ہے اور اردو ڈراما داد و تحسین کافی عرصہ تک وصول کرتا رہا۔ اس کے علاوہ اردو روز مرہ کی زبان سے بہت قریب ہے۔ اس لئے اردو ڈرامے کی کامیابی کے امکانات ذیادہ نظر آتے ہیں۔ فلم اور ڈرامے کی نوعیت اور غزلوں کی مقبولیت بھی اس کا ایک ثبوت ہے۔ ان تمام باتوں کے پیش نظر ارد اسٹیج کی ترقی کے لئے اس سے مناسب وقت شائد ہی کوئی اور ہو۔ ڈرامے کو صرف مشغلہ تفریح کے بجائے سنجیدہ ذریعہ اظہار بنانا چاہئے۔ جو مزاج کی چاشنی سے لبریز ہو ساتھ ہی ڈراما فکر کی گہرائی سے بھی پر ہونا چاہئے۔ اور اس میں حقیقی تجربات اور جذبات کا عکس موجود ہونا چاہئے۔ ڈرامے میں کردار نگاری کی اعلیٰ مثالیں اور سماجی زندگی کے نمائیندہ پہلوؤں کی ترجمانی ہونی چاہئے۔ تاکہ اردو ڈرامے کو زندہ صنف ادب بنایا جا سکے۔

حواشی
1؎ اردو ڈرامے کا تنقیدی جائزہڈاکٹر محمد تاتار خان۔حیدرآباد۔ ڈسمبر 6002؁ء۔ص۔6
2؎ ڈرامے کا تاریخی و تنقیدی پس منظرمحمد اسلم قریشیلاہور۔۔1791 ؁ء۔ص۔41
3؎ عوامی روایات اور اردو ڈرامہڈاکٹر محمد شاہد حسیندہلی۔ 2991 ؁ء۔ص۔502۔602
4؎ اردو تھیٹر کل اور آجمرتبین مخمور سعیدی اور انیس اعظمی۔ دہلی5991 ؁ء۔ ص۔ 94

(20/ستمبر 2014 کو شعبہ اردو گری راج گورنمنٹ کالج نظام آباد [تلنگانہ] کے ایک روزہ قومی سمینار بعنوان "اردو ادب تہذیبی قدریں، ماضی حال اور مستقبل" میں یہ مقالہ پیش کیا گیا۔)

Urdu Drama and our society. Essay: Syed Hamid.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں