کاغذی ہے پیرہن
عصمت چغتائی (پیدائش: 21/اگست 1915ء - وفات: 24/اکتوبر 1991ء)
کی نامکمل سوانح حیات ہے جو رسالہ "آج کل" میں مارچ-1979 سے مئی-1980 تک 14 قسطوں میں شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب میں ان کی ایک خودنوشت (بعنوان: غبارِ کارواں") بھی شامل ہے جو رسالہ 'آجکل' کے نومبر-1970 کے شمارہ میں شائع ہوئی تھی۔ مشہور نقاد وارث علوی کے ایک اہم دیباچہ کے ساتھ یہ نامکمل سوانح وزارت اطلاعات و نشریات حکومت ہند کے پبلیکیشنز ڈویژن کی جانب سے 1994 میں پہلی بار اشاعت پذیر ہوئی۔
اردو ادب کے طلبا و محققین کے لیے تعمیرنیوز کی جانب سے یہ کتاب پی۔ڈی۔ایف فائل شکل میں پیش خدمت ہے۔ تقریباً تین سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 12 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
وارث علوی نے کتاب کے دیباچہ میں لکھا ہے ۔۔۔ادب کا تنقیدی مطالعہ فنکار کی شخصیت، زندگی، خاندان اور معاشرے کے علم سے بےبہرہ نہیں رہ سکتا۔ اس نظر سے دیکھیں تو عصمت چغتائی کی خودنوشت سوانح عمری "کاغذی ہے پیرہن" عصمت کی زندگی اور شخصیت کے مطالعہ میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے کل 14 ابواب رسالہ "آج کل" میں مارچ 1979 سے مئی 1980 تک چھپتے رہے۔
مگر ان قسطوں میں تسلسل قائم نہیں رہ سکا کیونکہ عصمت کو اپنی زندگی میں کتاب کو ایڈٹ کرنے کا موقع نہیں ملا۔ میرا خیال ہے اگر وہ ایڈٹ کرتیں بھی تو تسلسل محض واہمہ ہی رہتا۔ بہرحال جس ترتیب سے ابواب شائع ہوئے ہیں ان میں جو بھی تسلسل مل جائے اسے غنیمت سمجھنا چاہیے۔ جیسا کہ ذکر ہوا ہے اسے مسلسل ناول بھی کہا گیا ہے لیکن اسے بطور ناول یا خودنوشت سوانحی ناول پڑھنا بھی مشکل ہے کیونکہ اس کے تمام کرداروں کے نام اور انہیں پیش آنے والے واقعات حقیقی ہیں۔ یہ صریحاً خودنوشت ہے گو اس کی واقعہ نگاری اور کردار نگاری میں ناول نگاری کی تکنکوں اور اسالیب کا استعمال ہوا ہے جو بالکل فطری ہے کیونکہ سوانح کو ناول کے ڈھنگ سے لکھا جا سکتا ہے۔ ایک مکمل آپ بیتی میں عموماً پیدائش سے لے کر دم تحریر تک کے واقعات کا احاطہ کیا جاتا ہے، زیرنظر کتاب میں یہ دونوں باتیں نہیں ہیں۔
نومبر 1946ء میں افسانہ "لحاف" پر لاہور ہائیکورٹ میں مقدمہ ہوا اور عصمت چغتائی کو پیشی پر بلایا گیا۔ وہ اپنے شوہر شاہد لطیف کے ساتھ لاہور پہنچیں اور مشہور ناول نگار ایم۔اسلم کے گھر ٹھہریں۔ اس کتاب کے باب "اَن بیاہتاؤں کے نام" کے ص:44 پر عصمت چغتائی لکھتی ہیں ۔۔۔
شاہد صاحب کے ساتھ میں بھی ایم اسلم صاحب کے یہاں ٹھہر گئی۔ سلام و دعا بھی ٹھیک سے نہیں ہوئی تھی کہ انہوں نے مجھے جھاڑنا شروع کیا۔ میری عریاں نگاری پر برسنے لگے۔ مجھ پر بھی بھوت سوار ہو گیا۔ شاہد صاحب نے بہت روکا مگر میں الجھ پڑی۔
"اور آپ نے جو 'گناہ کی راتیں' میں اتنے گندے گندے جملے لکھے ہیں۔ باقاعدہ سیکس ایکٹ کی تفصیل بتائی ہے، صرف چٹخارے کے لیے؟"
"میری اور بات ہے۔ میں مرد ہوں۔"
"تو اس میں میرا کیا قصور!"
"کیا مطلب؟" وہ غصہ سے سرخ ہو گئے۔
"مطلب یہ کہ آپ کو خدا نے مرد بنایا اس میں میرا کوئی دخل نہیں اور مجھے عورت بنایا اس میں آپ کا کوئی دخل نہیں۔ مجھ سے آپ جو چاہتے ہیں وہ سب لکھنے کا حق آپ نے نہیں مانگا نہ میں آزادی سے لکھنے کا حق آپ سے مانگنے کی ضرورت سمجھتی ہوں۔"
"آپ ایک شریف مسلمان خاندان کی تعلیم یافتہ لڑکی ہیں"۔
"اور آپ بھی تعلیم یافتہ ہیں اور شریف مسلمان خاندان سے ہیں"۔
"آپ مردوں کی برابری کرنا چاہتی ہیں؟"
"ہرگز نہیں، کلاس میں زیادہ سے زیادہ نمبر پانے کی کوشش کرتی تھی اور اکثر لڑکوں سے زیادہ نمبر لے جاتی تھی"۔
میں جانتی تھی کہ میں اپنی خاندانی کج بحثی پر اتر آئی ہوں۔ مگر اسلم صاحب کا چہرہ تمتما اٹھا اور مجھے ڈر ہوا کہ یا تو وہ میرے تھپڑ مار دیں گے یا ان کے دماغ کی شہ رگ پھٹ جائے گی۔ شاہد صاحب کی روح فنا ہو رہی تھی وہ بس رونے ہی والے تھے۔ میں نے بڑی نرم آواز میں انکساری سے کہا:
"اصل میں اسلم صاحب مجھے کبھی کسی نے نہیں بتایا کہ 'لحاف' والے موضوع پر لکھنا گناہ ہے۔ نہ میں نے کسی کتاب میں پڑھا کہ اس ۔۔۔ مرض ۔۔۔ یا لت کے بارے میں نہیں لکھنا چاہیے۔ شاید میرا دماغ عبدالرحمن چغتائی کا برش نہیں ایک سستا سا کیمرہ ہے جو کچھ دیکھتا ہے کھٹ سے بٹن دب جاتا ہے اور میرا قلم میرے ہاتھ میں بےبس ہوتا ہے۔ میرا دماغ اسے ورغلا دیتا ہے۔ دماغ اور قلم کے قصہ میں دخل انداز نہیں ہو پاتی۔"
"آپ کو مذہبی تعلیم نہیں ملی؟"
"ارے اسلم صاحب، میں نے بہشتی زیور پڑھا اس میں ایسی کھلی کھلی باتیں لکھی ہیں"۔ میں نے بڑی معصوم صورت بنا کر کہا۔ اسلم صاحب کچھ پریشان سے ہو گئے۔ میں نے کہا:
"جب بچپن میں میں نے وہ باتیں پڑھیں تو میرے دل کو دھکا سا لگا۔ وہ باتیں گندی لگیں۔ پھر میں نے بی۔اے کے بعد پڑھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ باتیں گندی نہیں، بڑی سمجھ بوجھ کی باتیں ہیں جو ہر ذی ہوش انسان کو معلوم ہونی چاہئیں۔ ویسے لوگ چاہیں تو نفسیات اور ڈاکٹروں کے کورس میں جو کتابیں ہیں انہیں بھی گندہ کہہ دیں۔"
دنادن ختم ہو کر باتیں نرم لہجہ میں ہونے لگیں۔ اسلم صاحب کافی ٹھنڈے ہو گئے۔ اتنے میں ناشتہ آ گیا اور ہم چار انسانوں کے لیے اتنا لمبا چوڑا دسترخوان سجا کہ بآسانی پندرہ آدمی ناشتہ کر سکتے تھے۔ تین چار قسم کے انڈے، سادہ تلے ہوئے، خاگینہ، ابلے ہوئے، شامی کباب اور قیمہ، پراٹھے بھی اور پوریاں بھی اور توس بھی، سفید اور پیلا مکھن، دہی اور دودھ، شہد اور خشک تر میوے۔ انڈے کا حلوہ، گاجر کا حلوا اور حلوا سوہن۔
یہ بھی ڈاؤن لوڈ کیجیے:
ٹیڑھی لکیر - ناول از عصمت چغتائی - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
کتاب - عصمت چغتائی کے بہترین افسانے
چھوئی موئی اور دیگر افسانے از عصمت چغتائی - pdf download
لحاف اور دیگر افسانے از عصمت چغتائی - pdf download
***
نام کتاب: کاغذی ہے پیرہن (خودنوشت سوانح)
مصنف: عصمت چغتائی
تعداد صفحات: 290
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 12 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
Kaghazi hai Pairahan.pdf
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں