ہندی سینما کا ارتقا - ایک تجزیاتی مطالعہ - از: ذوالفقار علی زلفی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-09-20

ہندی سینما کا ارتقا - ایک تجزیاتی مطالعہ - از: ذوالفقار علی زلفی

Evolution of Hindi Cinema

 -1- برصغیر میں سینما کی شروعات

سینما دیگر فنون کے مقابلے میں نسبتاً جدید اور موثر ترین فن ہے۔ سینما کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ مختلف فنون جیسے ادب، شاعری، موسیقی ، مصوری، مجسمہ سازی اور فوٹو گرافی کا مرکب ہے۔ اس خصوصیت کی وجہ سے اسے انسان کی اہم ترین تخلیقات میں شمار کیا جاتا ہے۔


برصغیر میں سینما کی شروعات 1896 کو ہوئی۔ فرانس کے لومیئر برادرز نے انگریز حکومت کی اجازت سے ممبئی کے ایک ہوٹل میں مختصر فلموں کی نمائش کی۔ کہا جاتا ہے اس محیرالعقول نمائش کو دیکھنے کے لیے ایک جمِّ غفیر امنڈ آیا تھا۔ نمائش گاہ میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ فرانسیسی فلم سازوں کی کامیابی نے یورپ کے دیگر فلم سازوں کو بھی اکسایا۔ اطالوی فلم ساز بھی اپنی خاموش فلموں کے ساتھ پہنچے۔ ممبئی، کلکتہ اور مدراس میں فلموں کی نمائش شروع ہوگئی۔


ممبئی کے فوٹوگرافر ہریش چندر سکھارام بھٹواڈیکر وہ پہلے ہندوستانی تھے جنہوں نے فلمی دنیا میں قدم رکھا۔ انہوں نے لندن سے موشن کیمرہ منگوا کر 1899 کو ہندوستانی پہلوانوں کی کشتی کے مقابلے کو فلما کر دکھایا۔ ہریش چندر نے اس کے بعد بھی طویل مدت تک مختصر دورانیے کی فلمیں بنائیں۔ ان کے بعد دوسرا نام بنگال کے ہیرا لال سین کا آتا ہے جنہوں نے کلکتہ کے تھیٹروں کو اپنا مرکز بنایا۔ ہندوستان میں لیکن باقاعدہ فلم سازی کا سہرا دادا صاحب پھالکے کے سر بندھتا ہے۔ دادا صاحب ایک جنونی شخصیت تھے۔ انہوں نے اپنی اہلیہ کے زیور گروی رکھ کر لندن کا دورہ کیا، موشن کیمرہ خریدا اور 1913 کو ہندوستان کی پہلی طویل دورانیے کی فیچر فلم "راجہ ہریش چندر" بنا کر پیش کی۔ یہاں سے فیچر فلموں کا وہ دور شروع ہوا جو آج تک مختلف ارتقائی ادوار سے گزرتا ہوا جاری ہے۔


نوآبادیاتی عہد


ہندوستان اور بالخصوص بمبئی کی ہندی سینما جسے آج کل بالی ووڈ کہاجاتا ہے کے فلمی ارتقا کو سمجھنے کے لیے اسے مختلف ادوار میں تقسیم کیا جارہا ہے۔ اس میں پہلا دور نگریزوں کا نوآبادیاتی عہد ہے جسے فلموں کی نوعیت کے لحاظ سے مزید دو زیلی ادوار میں تقسیم کیا جارہا ہے۔


1 - دھارمک دور


ہندوستانی فلموں کے باوا دادا صاحب پھالکے بنیادی طور پر ایک ہندو قوم پرست تھے۔ انہوں نے قوم پرستانہ جذبے کے تحت انگریزی ثقافت کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے انہوں نے ہندو مائتھالوجی کو اپنا ہتھیار بنایا۔ انہوں نے ہندو دیوی دیوتاؤں کے قصوں کو فلمی روپ دینا شروع کردیا۔ غلام اقوام عموماً اپنی بازیافت کے لیے تاریخ اور بالخصوص اپنی مائتھالوجی کی طرف دیکھتے ہیں۔ مائتھالوجی سے سماج کو سمجھنے اور درپیش چیلنجز سے نمٹنے کی راہیں تلاش کی جاتی ہیں۔ متھ عوامی ہوتی ہے، اس میں عموماً نیکی اور بدی کے درمیان جنگ میں نیکی کو فاتح دکھانے کی شعوری کوشش کی جاتی ہے۔


ہندوستان کے متوسط طبقے نے کتابی داستانوں کو چلتی پھرتی تصویروں میں منقلب دیکھ کر انہیں زبردست حمایت بخشی۔ یہ گویا متوسط طبقے کے دل کی آواز تھی جو طویل نوآبادیاتی حاکمیت کے باعث شناخت کے بحران میں مبتلا تھی۔ دادا صاحب نے اس بحرانی کیفیت کی خاموش جھیل میں دیومالا کا پتھر پھینک کر ہلچل پیدا کردی۔ دادا صاحب کی دیکھا دیکھی دیگر فلم ساز بھی میدان میں اترے۔ مقامی تاجروں کو اس کاروبار میں نفع نظر آیا ، انہوں نے بھی اس میں سرمایہ لگانا شروع کردیا۔ یہ بظاہر عام مذہبی فلمیں تھیں لیکن درحقیقت سینما کے ہتھیار سے انگریز کی نوآبادیاتی حاکمیت کے خلاف فلموں کے ذریعے احتجاج کیا جارہا تھا۔ اس احتجاج کی قیادت متوسط طبقہ کررہا تھا لیکن اس کے پیچھے مقامی سرمایہ دار تھے۔


انگریز حکومت کو جلد ہی اس نئی فلمی تحریک کے اثرات کا اندازہ ہوگیا۔ 1918 کو سینما ٹو گرافی ایکٹ نافذ کیا گیا۔ اس ایکٹ کے بعد فلم سازوں کو فلم کی نمائش سے قبل انگریزوں سے اجازت لینی لازمی ہوگئی۔ ایکٹ میں فلم بنانے کے کچھ قائدے اور حدود بھی وضع کیے گئے۔ اس ایکٹ نے کسی حد تک نوآبادیاتی حاکموں کو مطمئن کردیا لیکن 1920 کو جب فلموں کی نوعیت بدلی تو انگریز کے کان ایک دفعہ پھر کھڑے ہوگئے۔


2 - سماجی دور


نوآبادیاتی عہد میں شری ناتھ پٹنکر ایک بڑے نام سمجھے جاتے تھے۔ وہ بیک وقت اسکرین رائٹر، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر تھے۔ دادا صاحب پھالکے کی مانند وہ بھی قوم پرستانہ نظریات کے حامل تھے۔ اوائل میں انہوں نے بھی زمانے کی چلن کے مطابق ہندو دیومالائی داستانوں پر مبنی فلمیں بنائیں لیکن چونکہ وہ سیاسی ذہن رکھتے تھے اور سیاسی جدوجہد میں بھی کردار ادا کرتے تھے اس لیے انہوں نے 1920 کو ایک نئے انداز کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے 1920 کو ہندوستان کی پہلی سماجی فلم "کٹورا بھرا خون" پیش کی۔ اس فلم نے ہندوستانی فلموں کی سمت بدلنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ فلم میں ہندوستانیت کو متاثر کن انداز میں دکھایا گیا۔ جدید قوم پرستانہ نظریات سے متاثر متوسط طبقے نے اسے دل کھول کر سراہا۔


انگریز بھی زمانے کی ہوا بھانپ گئے۔ نوآبادیاتی حاکموں نے فوراً اسی سال سینسر بورڈ قائم کردیا۔ بورڈ کے دفاتر ممبئی، کلکتہ اور مدراس میں قائم کیے گئے۔ 1928 کو جب لاہور کی فلم انڈسٹری نے پر پُرزے پھیلانے شروع کیے تو وہاں بھی بورڈ کا ایک دفتر کھول دیا گیا۔ سینسر بورڈ کسی سین، مکالمے یا گانے کو حذف کرنے کا لامحدود اختیار رکھتا تھا، اگر کسی فلم سے حکومت کو خطرہ درپیش ہو تو اس پر پابندی بھی لگا سکتا تھا۔


سینسر بورڈ کی تلوار لٹک جانے کے باوجود فلم سازوں نے شری ناتھ پٹنکر کے راستے کو ہی درست سمجھنا شروع کردیا۔ 1921 کو کلکتہ سے ہندوستان کی پہلی مزاحیہ سماجی فلم "ولایت پلٹ" سامنے آئی۔ اس فلم میں مزاحیہ انداز میں ان ہندوستانیوں کا مذاق اڑایا گیا جو انگریز کی تہذیبی برتری کے قائل تھے اور ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو کمتر تصور کرتے تھے۔ یہ فلم وسیع سطح پر دیکھی اور سراہی گئی۔ اب مذہبی فلمیں اپنا اثر کھونے لگیں اور ان کی جگہ سماج اور اس کے مسائل سینما کا موضوع بن گئے۔ انگریزی تلوار بھی مزید تیز ہوگئی۔


1921 کی فلم "بھکت ودھر" وہ پہلی فلم بنی جس کی نمائش پر کراچی اور مدراس میں پابندی لگائی گئی۔ اگلے سال فلم "پتی بھکتی" کے ایک گانے کو سینسر کیا گیا۔


سینسر بورڈ کی تلوار کے باوجود سماجی فلمیں بنتی گئیں۔ ان فلموں میں البتہ اس کا مکمل خیال رکھا گیا کہ ایسی کوئی چیز نہ بنائی جائے جو حاکموں کی پیشانی پر بل ڈالنے کا سبب بنے۔ زیادہ تر فلمیں ہندوستان کی متوسط طبقے کو درپیش مسائل کے گرد بنائی گئیں۔ کچھ فلموں میں مغلیہ تہذیب کو بھی دکھایا گیا۔ مغلیہ تہذیب کو ہندوستانیت اور مزاحمت کے استعارے کے طور پر پیش کیا گیا۔ 1931 کو ہندوستانی فلموں نے ایک لمبی چھلانگ لگائی۔ خاموش فلمیں بولنے لگیں۔


-2- خاموش فلمیں بول پڑیں

مغربی ممالک میں سینما کے آغاز سے ہی اسے آواز دینے کی کوششیں شروع ہوگئیں۔ اس حوالے سے امریکی سائنسدان ایڈیسن کی کوششیں قابلِ ذکر ہیں تاہم یہ تمام کوششیں ناکام رہیں۔ مسلسل کوششوں کے بعد 1927 کو فلموں میں کسی حد تک آواز شامل کرلی گئی۔ 1929 کو برطانوی ہدایت کار الفرڈ ہچکاک نے بولتی فلم "بلیک میل" بنا کر ایک اہم سنگِ میل عبور کرلیا۔ فرانس اور جرمنی نے بھی فلموں کو گویائی دے دی۔


ہندوستانی فلم ساز بھی گویائی کے لیے بے چین تھے۔ ہندوستان کے ذہین فن کار پارسی نژاد اردشیر ایرانی یورپ کی کامیابی کی خبر سن کر لندن چلے گئے۔ ضروری تربیت لے کر وہ واپس آئے اور انہوں نے اپنی فلم کمپنی "ایمپیریل فلمز" کے بینر تلے 1931 کو پہلی بولتی فلم "عالم آرا" پیش کی۔


"عالم آرا" مسلم سماج کے پسِ منظر میں بنائی گئی ایک رومانٹک فلم ہے۔ فلم شاہی خاندان کے لڑکے اور خانہ بدوش لڑکی کے درمیان محبت کی کہانی ہے۔ یہ فلم اس دور کی بلاک بسٹر ثابت ہوئی۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ فلم اچھی ہے بلکہ کامیابی کی وجہ اس کا بولنا تھا۔ اس دور میں چلتی پھرتی تصویروں کا بولنا کسی عجوبے سے کم نہ تھا۔


"عالم آرا" نے ہندی سینما پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ فلم کی کہانی ایک پارسی تھیٹر سے لی گئی تھی جسے مزید تراش خراش کے عمل سے گزار کر فلم کے قالب میں ڈھالا گیا۔ اس نے دیگر فلم سازوں کو بھی اس جانب توجہ دینے پر اکسایا۔ اس کے بعد "لیلی مجنوں" ، "شیریں فرھاد" ، "انارکلی" ، "ہیر رانجھا" سمیت متعدد کلاسیک رومانی داستانوں کو فلم کے قالب میں ڈھالنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ "عالم آرا" میں گانے کا بھی تجربہ کیا گیا جو اس حد تک کامیاب رہا کہ آج تک برصغیر کی فلمیں گانوں کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی ہیں۔


30 کی دہائی میں ہندی سینما کا رویہ ملا جلا سا رہا۔ اس دور میں معروف تصوراتی داستانوں جیسے "الہ دین" ، "علی بابا چالیس چور" ، "گُل بکاؤلی" ، "الف لیلہ" وغیرہ جیسی فلمیں بھی بنائی گئیں اور ہندو مائتھالوجی کا دامن بھی نہ چھوڑا گیا اور ساتھ ساتھ سماجی مسائل کو بھی فلمایا گیا۔


تیس کی دہائی ہندی سینما کے سیاسی و سماجی شعور کا نکتہِ آغاز ہے۔ اس شعور کے پسِ منظر میں گاندھی کی سیاسی فعالیت تھی۔ 1920 کو گاندھی نے کانگریس کی سربراہی سنبھال کر سماجی تحریک شروع کردی جس کا عروج 1930 کی سول نافرمانی ثابت ہوئی۔ گاندھی کے اثرات سینما انڈسٹری پر بھی مرتب ہوئے۔ ہندی سینما نے شعوری یا لاشعوری طور پر خود کو اس تحریک کے ساتھ جوڑ دیا۔ ہدایت کار وی شانتا رام کی "پربھات فلمز" اور خاتونِ اول دیویکا رانی کی "بمبئے ٹاکیز" اس دور کے اہم واقعات ہیں۔


وی شانتا رام نے گاندھی کی تعلیمات کو سینما کے ذریعے عوام تک پہنچانے کے لیے 1935 کو "مہاتما" بنائی۔ اس فلم میں انگریزوں کو کھلم کھلا چیلنج کیا گیا تھا ، سینسر بورڈ نے نمائش کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ وی شانتا رام نے بعض "قابلِ اعتراض" سینز کٹ کرکے فلم کا نام "دھرماتما" رکھ دیا۔ 1935 کو ہی "امر جیوتی" میں ہندوستانی سماج میں خواتین کی معاشی و سماجی آزادی کا معاملہ اٹھایا۔ وومن امپاورمنٹ کے لحاظ سے یہ ایک شاندار تخلیق ہے۔ 1937 کی فلم "دنیا نہ مانے" میں وہ کم عمری کی شادی کے خلاف آواز بلند کرتے نظر آئے۔ انہوں نے اس فلم میں کمسن ہندو لڑکیوں کی بڑی عمر کی مردوں سے شادی، عورتوں کے ساتھ سماجی ناانصافی کو نہایت ہی پر اثر انداز میں فلمایا۔ ایک قدم آگے بڑھ کر 1939 کی فلم "آدمی" میں طوائف کی زہر ناک زندگی کا خاکہ کھینچا۔ "آدمی" وہ پہلی فلم ہے جس میں طوائف کا ایک عورت کی حیثیت سے تجزیہ کیا گیا اور اسے سماج میں باعزت مقام دینے کی وکالت کی گئی۔


"بمبئے ٹاکیز" دانش ور طبقے کا ادارہ تھا۔ بنیادی طور پر سروجنی نائیڈو کے نظریات سے متاثر۔ اس ادارے نے سماجی معاملات کا بھی دانشورانہ انداز میں تجزیہ کیا۔ بمبے ٹاکیز کی فلموں پر مغربی تصورات کے اثرات کا مشاہدہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ 1935 کی فلم "کرما" میں طویل کسنگ سین شامل کرکے انہوں نے بوسہ بازی کو ہندی سینما کا حصہ بنانے کی کوشش کی وہاں 1936 کی فلم "اچھوت کنیا" میں انہوں نے ذات پات کی سماجی و مذہبی تقسیم پر سوال کھڑے کیے۔ مغربی تعلیم و تمدن کی وجہ سے بمبے ٹاکیز کا تجزیہ البتہ اورینٹلزم کا شکار رہا۔ اورینٹلسٹ اپروچ سے قطعِ نظر اس میں کوئی شک نہیں دیویکا رانی نے ہندی سینما کو اعلی اذہان سے نوازا جنہوں نے بعد میں سینما کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ بمبے ٹاکیز کے برعکس "پربھات فلمز" کا رویہ ہندوستانیت میں گندھا ہوا تھا۔


بولتی فلموں کے آغاز کے ساتھ تھیٹر کے فن کار سھراب مودی نے بھی فلموں کا رخ کیا۔ انہوں نے بھی سماج کو ہی اپنا موضوع بنایا۔ سھراب مودی کا مزاج تجزیاتی کی بجائے اصلاحی تھا جس کا مشاہدہ ان کی فلموں "میٹھا زہر" اور "پکار" میں کیا جاسکتا ہے۔ سھراب مودی نے "پکار" کے کامیاب تجربے کے بعد تاریخی فکشن کے ژنر کو آگے بڑھایا۔


تیس کی دہائی میں ہی ایک اور نظریے نے بھی ہندوستانی سینما کے دروازے پر دستک دی۔ یہ ضیا سرحدی تھے۔ ضیا سرحدی نے مارکسی نظریات متعارف کرائے۔ ضیا سرحدی بیک وقت ہدایت کار، اسکرین رائٹر اور نغمہ نگار تھے تینوں شعبوں میں انہوں نے جدلیاتی مادیت کے اصولوں کو سینما میں استعمال کیا۔ انہوں نے معروف بنگالی ناول "دیوداس" کا اسکرپٹ لکھا جسے محبوب خان نے 1936 کو "منموہن" کے نام سے ہدایات دیں لیکن انہوں نے دیوداس کے کردار کو جاگیردار خاندان کے انا پرست بیٹے کی بجائے ایک محنت کش کی صورت دکھایا۔ یہ ایک نیا تجربہ تھا۔ انہوں نے فلم "جاگیردار" کے لیے جو گیت لکھے انہیں بعد ازاں مجروح سلطانپوری اور ساحر لدھیانوی نے اوج پر پہنچایا۔ ان کا ایک گیت تو محنت کش طبقے کا ترانہ بن گیا "دینی تھی اگر ہمیں حور و جنت تو یہاں دیتے"۔


تیس کی دہائی کے سماجی شعور کو مضبوط قرار دینا مشکل ہے لیکن مشاہدہ بتاتا ہے اس دہائی میں سینما اور سماج کے درمیان تعلق کی ابتدا ہوگئی تھی۔ فلم کو اب محض تفریح کا ذریعہ نہیں سمجھا جارہا تھا بلکہ اسے سماج کے آئینے کے طور پر برتا جارہا تھا۔ فیمینزم، سوشلزم، لبرل ازم حتی کہ فرائیڈین نظریات بھی سینما کا حصہ بن رہے تھے۔


یہ وہ دور تھا جب ہندوستان میں انگریز کی سازشوں کے باعث اردو - ہندی جھگڑے کی شروعات بھی ہوچکی تھی۔ ایسے میں بعض فلم سازوں نے فارسی، عربی اور قدیم سنسکرت کے الفاظ پر مشتمل زبان کو ہندوستان کی یکجہتی کے طور پر برتنا شروع کردیا۔ جیسے "عالم آرا" کی نمائش سے قبل ہدایت کار اردشیر ایرانی نے سینما میں تقریر کرتے کہا یہ فلم نہ اردو زبان میں ہے اور نہ ہی ہندی میں بلکہ یہ ہندوستانی زبان پر مبنی ہے۔ وی شانتا رام نے بھی فلموں میں یکجہتی دکھانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ جہاں فلم ساز یکجہتی کی کوششیں کررہے تھے وہاں سیاست تقسیم کو بڑھاوا دے رہی تھی۔ بیشتر فلم سازوں کے اس رویے کے پسِ پشت معاشی مفادات بھی کارفرما تھے۔ فلم بینوں کی ایک بڑی تعداد مسلم مڈل کلاس طبقے پر مشتمل تھی۔ فریق بننے کی صورت میں مسلم طبقے کی ناراضی کا خدشہ تھا جو سراسر گھاٹے کا سودا تھا۔


چالیس کی دہائی شروع ہوتے ہی ہندوستان کے سیاسی حالات نے بھی کروٹ لینی شروع کردی۔ 1942 کو گاندھی نے بھارت چھوڑ دو تحریک کا آغاز کیا۔ اس صورتحال نے فلم انڈسٹری پر بھی اثرات مرتب کیے۔ فلم سازوں کا رجحان بتدریج سیاسی ہوتا گیا۔


-3- جہدِ آزادی

چالیس کی دہائی ایک ہنگامہ خیز دور ہے۔ 1942 کو گاندھی نے ہندوستان چھوڑ دو تحریک شروع کی۔ 1943 میں انگریزی استحصال کے باعث بنگال کو بدترین قحط کا سامنا کرنا پڑا جس نے لاکھوں افراد کی جان لے لی۔ دوسری جنگِ عظیم انسانی جانوں کا خراج لے کر اختتام پزیر ہوئی۔ ان تمام حالات و واقعات نے ہندوستان کی معیشت پر زبردست اثرات مرتب کیے۔ برصغیر کی سیاسی و سماجی زندگی میں جوہری تبدیلیاں آئیں۔


ان تمام عوامل نے ہندی سینما کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہندی سینما میں اس دور کا اہم واقعہ 1943 کو "انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن" کا قیام تھا۔ یہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی شاخ تھی۔ ایسوسی ایشن کے نمایاں ممبران میں پرتھوی راج کپور، سلیل چوھدری، خواجہ احمد عباس، اتپل دت، بلراج ساہنی جیسے نامور نام شامل تھے۔


ایسوسی ایشن کے اہم ترین ممبر معروف کمیونسٹ دانش ور اور ادیب خواجہ احمد عباس تھے۔ خواجہ احمد عباس نے ہندی سینما کو ایک نئی اور انقلابی سمت دی جس نے آگے چل کر ایک منفرد اسکول کی شکل اختیار کرلی۔ اس کا آغاز انہوں نے 1941 کو "نیا سنسار" فلم کا اسکرین پلے لکھ کر کیا۔ "نیا سنسار" ہندوستانی سماج اور صحافت میں انقلابی تبدیلیوں کا مارکسی تجزیہ ہے۔ اس فلم کو متوازی سینما (آرٹ فلمز) کی پہلی اینٹ قرار دیا جاسکتا ہے۔


"نیا سنسار" کے بعد انہوں نے 1946 کو ایسوسی ایشن کے بینر تلے بلراج ساہنی کو لے کر "دھرتی کے لال" کو ہدایت دی۔ اس فلم کے اسکرین رائٹر بھی وہ خود تھے۔ یہ فلم بنگال کے خون آشام قحط کے پسِ منظر میں بنائی گئی ایک زبردست کاوش رہی۔ اسی سال انہوں نے "نیچا نگر" کا اسکرپٹ لکھا جسے مارکسی دانشور چیتن آنند نے ہدایت دی۔ "نیچا نگر" نہ صرف طبقاتی کشمکش پر مبنی پہلی ہندی فلم ہے بلکہ اگر اسے پہلی آرٹ فلم قرار دیا جائے تو شاید ہی غلط ہو۔ "نیچا نگر" کو مصالحہ فلمیں پسند کرنے والے فلم بینوں کی اکثریت نے مسترد کردیا تاہم بین الاقوامی سطح پر اس فلم کو بے حد سراہا گیا۔ آج یہ فلم ہندی سینما کی بہترین کلاسیک فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔


خواجہ احمد عباس، ضیا سرحدی اور دیگر مارکسی فلم ساز و اسکرین رائٹر البتہ محتاط رہے کیونکہ سرکار 1934 کو منشی پریم چند کی لکھی فلم "مزدور" پر پابندی لگا کر واضح کرچکی تھی مارکسزم کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ 1942 کو ہدایت کار محبوب خان کی فلم "روٹی" کو بھی پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ "روٹی" میں محبوب خان نے سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید کرکے محنت کشوں کو ان سے روٹی چھیننے کا درس دیا۔ یہ فلم سرمایہ داریت کے ساتھ ساتھ نوآبادیاتی نظام پر بھی تنقید کرتی ہے۔


مارکسی فلم سازوں کی احتیاط پسندی کے باعث گاندھی ازم ہندی سینما کی نظریاتی اساس بنی۔ گاندھی ہندو علامتوں کو برت کر فیوڈل ازم اور بورژوا قوم پرستی کو بڑھاوا دے رہے تھے۔ ہندی سینما کے بیشتر فلم سازوں نے گاندھی کے فلسفے کو ہی اپنایا۔ اس فلسفے کے تحت حب الوطنی، ہندو مسلم بھائی چارہ اور چھوت چھات کی مذہبی تقسیم کے حوالے سے فلمیں بنائی گئیں۔


بمبئے ٹاکیز کی "اچھوت کنیا" ہو یا چندو لال کی "اچھوت" دونوں میں چھوت چھات کی سماجی تقسیم کی بورژوا مخالفت کے دوران اس امر کا ہر ممکن خیال رکھا گیا کہ اعلی ذات کے ہندوؤں کے احساسات مجروح نہ ہوں۔ ان فلموں میں فیوڈل دائروں میں رہنے کی بھی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ فیوڈل دائرے نے آزادی کے بعد بھی ہندی سینما کے گرد اپنا حصار برقرار رکھا۔ پدرشاہی نفسیات کے تحت اچھوت طبقے کو "لڑکی" کا کردار دیا گیا جو سماجی سطح پر گھٹیا اور کمتر مخلوق تصور کی جاتی تھی۔


سخت سینسر کے باعث گاندھی آئیڈیالوجی سے متاثر فلم سازوں کا آزادی کی تحریک کی کھلم کھلا حمایت کرنا ممکن نہ تھا۔ انہوں نے علامتوں اور استعاروں کے ذریعے بات پہنچانے کی کوشش شروع کردی۔ جیسے 1941 کو ہدایت کار وی شانتا رام کی "پڑوسی" جس میں دو ہندو مسلم پڑوسیوں کو باہر سے آنے والا لڑانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس میں باہر والے سے مراد انگریز تھے۔ محبوب خان کی "عورت" اور "روٹی" کو بھی اسی زُمرے میں رکھا جاسکتا ہے لیکن محبوب خان کی فلموں کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو وہ گاندھی ازم سے زیادہ پنڈٹ نہرو کے نظریات سے قریب تر نظر آتے ہیں پھر ان پر مارکسسٹ فن کار ضیا سرحدی کے بھی اثرات تھے۔ نہرو کا سیاسی فلسفہ بھی بہرکیف آخری تجزیے میں فیوڈل ازم ہی ہے۔ نہرو کی پالیسیوں کے اثرات پر آگے چل کر بحث کریں گے تاہم یہاں محبوب خان کی نہروین تصورات پر مبنی چند ایک فلموں کا تزکرہ مناسب رہے گا۔


محبوب خان کی 1943 کی "نجمہ" اور 1947 کے "اعلان" کو مسلم سماجی زندگی پر بنائی گئی فلموں میں امام کا درجہ حاصل ہے۔ ان فلموں میں عورتوں کی تعلیم اور ان کو سماج میں باعزت زندگی دینے کی وکالت کی گئی ہے۔ ان فلموں کے ناقدانہ جائزے سے اندازہ ہوتا ہے کہ محبوب خان عورت کی آزادی کو معاشی نظام کے تناظر میں سمجھنے میں ناکام رہے۔ وہ ایک جانب دم توڑتے جاگیردارانہ روایات اور گم گشتہ نوابی عہد کی توصیف کرتے ہیں اور دوسری جانب اسی نظام کے تحت عورت کی آزادی کا فلسفہ پیش کرتے ہیں۔ محبوب خان کی اس پر تضاد پیشکش نے آگے چل کر فیشن کا روپ اختیار کرلیا۔ نہروین عہد میں مسلم سماجی فلموں میں لکھنو کی جاگیردارانہ تہذیب اہم حیثیت اختیار کر گئی۔ نواب، گاؤ تکیہ، چوڑی دار پاجامہ، شیروانی، پان، شاعری اور جاگیردارانہ تسلیمات و آداب مسلمانوں کی فلمی زندگی کا حصہ بن گئے حالانکہ یہ نوابی شان و شوکت عرصہ زوال پزیر تھی اور مسلمانوں کی زندگی ان کے ہندو پڑوسیوں سے چنداں مختلف نہیں تھی۔


مسلم سماج سے تعلق اور مارکسی فلسفے سے آگاہی رکھنے کے باعث محبوب خان سے اس قسم کی نظریاتی غلطی کی امید نہیں تھی۔ ہوسکتا ہے اس دوران وہ نہرو فلاسفی کو مکمل طور پر اپنا چکے تھے یا یہ بھی ہوسکتا ہے ہندوستان کی تقسیم کے شدت پسند نعروں کو مدِ نظر رکھ کر انہوں نے مسلم سماج میں کسی انقلابی تصور کا پروپیگنڈہ کرنا مناسب نہ سمجھا۔ وجہ کچھ بھی ہو محبوب خان جیسے بڑے ہدایت کار کی اس غلط اینٹ پر بعد میں پوری عمارت کھڑی ہوگئی جس نے مسلم سماج کی فلمی پیشکش کو سخت نقصان پہنچایا۔


-4- نوآبادیاتی عہد کا کُلی جائزہ

ہندی سینما نے اوئل میں ہندو مائتھالوجی کو اپنا نظریاتی ہتھیار بنایا۔ مائتھالوجی کا مقصد مغربی ثقافتی یلغار کا مقابلہ کرنا تھا۔ گوکہ اس میں ہندوستانی نیشنلزم کی آمیزش بھی تھی لیکن ہندو مسلم مناقشہ یا مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا شائبہ نہیں ملتا اس کے برخلاف جب مغلیہ تہذیب کے ژانر کی ابتدا ہوئی تو وہاں بھی مغلیہ تہذیب کو ہندوستانیت اور عدل و انصاف کا نمائندہ بنا کر پیش کیا گیا۔ جیسے اردشیر ایرانی کی "انارکلی" ، سھراب مودی کی "پکار" یا محبوب خان کی "ہمایوں"۔ اسی طرح سماجی فلموں میں بھی ہندو مسلم اتحاد کی تبلیغ اور نچلی ذات کے ہندوؤں کے خلاف سماجی تعصب پر تنقید کی گئی۔ نظریاتی لحاظ سے نوآبادیاتی عہد کا ہندی سینما نوآبادیاتی جاگیرداریت کے دائرے میں مقید ہے۔ فلم سازوں کی اکثریت ہندوستانی جاگیرداریت کو سرمایہ دارانہ نوآبادیاتی نظام کے مقابلے میں اپنا مورچہ گردانتے تھے اس لیے مارکسسٹ فلم سازوں نے بھی سرمایہ داریت پر مارکسی تنقید کے دوران ہندوستانی سماج کی بنیادی اساس کو نظر انداز کیے رکھا۔ جیسے "نیچا نگر" ، "نیا سنسار" ، "روٹی" اور "دھرتی کے لعل" وغیرہ میں سرمایہ دارانہ نوآبادیاتی نظام کے مختلف پہلوؤں کا ناقدانہ جائزہ لیا گیا لیکن ہندوستانی فیوڈل ازم اور ہندوستان پر شمالی حملہ آوروں کے حملوں و سماج پر ان کے نتائج کا تاریخی مادیت کے اصولوں کے تحت تجزیہ کرنے سے گریز کا رویہ اپنایا گیا۔ گریز کی ایک اہم وجہ ہندو مسلم تقسیم میں فریق بننے سے بچنا بھی ہوسکتا ہے جو سماج میں بڑی شدت کے ساتھ سر ابھار رہی تھی۔


فیمنزم

سماج کا تانیثی زاویہ نگاہ اس عہد کے ہندی سینما میں مضبوط صورت میں نظر نہیں آتا بلکہ اس کے برخلاف عورت کو ایک کمزور فریق کی صورت پیش کرکے یہ سوال اٹھایا گیا کہ مرد اس کے لیے کیا کرسکتا ہے۔ ہندوستان کی پہلی خاتون ہدایت کارہ بیگم فاطمہ سلطانہ جنہوں نے 1926 کو "بلبلِ پرستان" بنائی کے فلمیں آج دستیاب نہیں ہیں اس لیے ان کی نظریاتی پیشکش کا احوال نہیں ملتا۔ اگر ان کی فلمیں مل جائیں تو شاید صورتحال زیادہ واضح ہو۔ جو تصویر فی الوقت سامنے ہے اس کے مطابق نوآبادیاتی عہد کا فیمینزم فیوڈل سماج کے سامنے ایک حد سے آگے بڑھ کر بغاوت نہیں کرتا۔ فیوڈل ازم قوم پرستی کی بنیادوں میں شامل تھی۔ اس حوالے سے ایک مثال عذرا میر کی دی جاسکتی ہے جنہوں نے عریانیت کو مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے تحت دکھایا اور ان پر اس قدر نکتہ چینی کی گئی کہ انہوں نے دلبرداشتہ ہوکر سینما سے ہی علیحدگی اختیار کرلی۔ اس کی اہم ترین وجہ ہندو مائتھالوجی کے سینما پر بڑھتے ہوئے اثرات تھے اس کے باوجود بعض فلم سازوں نے عورت کو "دوسرا" سمجھنے کے سماجی عقیدے کو چیلنج کرنے کی جرات مند کوششیں کیں۔ اس حوالے سے اہم ترین نام تو وی شانتا رام کی "امر جیوتی" ہے جس میں تانیثیت کی بھرپور نمائندگی کی گئی لیکن میرے نزدیک اس عہد میں عورت کی زبردست اور پراثر نمائندگی کا شرف اداکارہ نادیہ کو حاصل ہے۔ نادیہ نے ہر وہ کام کیا جس پر صرف مردوں کا اجارہ سمجھا جاتا ہے۔


"ہنٹر والی" کے نام سے معروف نادیہ اپنی فلموں "ڈائمنڈ کوئن" ، "مس فرنٹیئر میل" ، "ہنٹر والی" ، "ہنٹر والی کی بیٹی" اور "جنگل پرنسس" وغیرہ میں مردوں کی پٹائی کرتی ہے ، ریل سے چھلانگ لگاتی ہے، شیروں سے کھیلتی ہے اور مرد کو اٹھا کر پھینکتی ہے۔ ان کا فلمی حلیہ بھی نازک اندام ساڑھی پوش عورت کی بجائے پینٹ شرٹ میں ملبوس لانگ بوٹ پہنی لڑکی کا ہوتا تھا جو ہاتھ میں ہنٹر لیے بدی کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔ ایک ایسے دور میں جب سٹنٹ یا ویژول ایفکٹ کا کوئی تصور نہیں تھا یہ سب کام نادیہ خود کرتی تھی۔ آج خطرناک سینز فلمانے کے لیے پیشہ ور فائٹرز کی مدد لی جاتی ہے یا سبز پردے کا استعمال کیا جاتا ہے مگر نادیہ وہ خاتون تھیں جنہیں چلتی ٹرین سے چھلانگ لگانے یا کسی مرد کو اٹھا کر پھینکنے کے لیے کسی ڈبل رول یا ویژول کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ نوآبادیاتی عہد میں حقیقی تانیثیت کی نمائندہ یقینی طور پر نادیہ ہیں۔


نادیہ کی اہمیت اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے اس عہد میں نظریاتی لحاظ سے عورت کے زاویہ نگاہ کو زیادہ توجہ کے مستحق نہیں سمجھا گیا۔ بیشتر فلم سازوں نے معروض کی تشریح کے لیے مردانہ آنکھ کو ہی استعمال کیا۔ عشق و محبت کی کہانیوں میں بھی عورت کو آزادانہ فیصلے کا حق تفویض کرنے کی بجائے فیوڈل اقدار و روایات کے تحت اسے والدین کی ذاتی ملکیت کے طور پر پیش کیا گیا۔


حب الوطنی

ہندی سینما کی حب الوطنی کا آغاز گاندھی کی تحریکوں سے ہوتا ہے اس لیے تحریک آزادی اور حب الوطنی ایک دوسرے میں مدغم بھی نظر آتے ہیں اور گاندھی ازم سے متاثر بھی دکھتے ہیں۔ جیسے "اودے کال" ، "رام رحیم" ، "دی بم" وغیرہ ان میں سے خاص طور پر "اودے کال" کا ایک کردار گاندھی سے مماثلت رکھتا ہے۔ گاندھی ازم اور بورژوا قوم پرستی کے باعث طبقاتی و مذہبی تضادات کو پسِ پردہ رکھنے کی کوششیں کی گئیں۔ اس عہد کے معروضی حالات شاید اس طرزِ فکر کے موافق ہوں لیکن اس سے فلم بینوں بالخصوص شمالی ہندوستان کے متوسط طبقے کے سامنے تصویر واضح نہیں ہوپاتی اور وہ صرف نعرے بازی تک محدود رہ جاتے ہیں۔


بورژوا قوم پرستی پر نظریاتی تنقید اپنی جگہ یہ امر بہرکیف قابلِ تعریف ہے سخت سنسر کے پہرے میں فلم سازوں نے علامتوں، استعاروں اور گیتوں کی صورت تحریکِ آزادی کو کندھا فراہم کیا۔ "قسمت" فلم میں کوی پردیپ کا گیت اس کا بہترین حوالہ ہے:


آج ہمالے کی چوٹی سے پھر ہم نے للکارا ہے

دور ہٹو اے دنیا والو ہندوستان ہمارا ہے


لسانی تقسیم

نوآبادیاتی عہد میں ہندوستان کی دیگر زبانوں میں بھی سینما کا آغاز ہوا۔ اس تقسیم نے دیگر زبانوں اور ان سے منسلک معاشروں کو بھی سینمائی عہد میں داخل کردیا۔ اگر اس کا کچھ احوال بیان کردیا جائے تو بہتر ہوگا۔


تامل سینما (کولی ووڈ) کا آغاز 1918 کو ہوا۔ بنگالی سینما (ٹولی ووڈ) نے 1919 کو اپنی شروعات کی۔ ملیالم سینما (مولی ووڈ) نے 1920 کو اپنی پہلی فلم سے سینما کی دنیا میں قدم رکھا۔ تیلگو سینما (ٹالی ووڈ) نے 1921 کو یہ سنگِ میل عبور کیا۔ گجراتی سینما 1932, کنڑ سینما (صندل ووڈ) 1934 کو اور آسام 1935 کو سامنے آئے۔ 1936 کو پنجابی (پولی ووڈ) اور اڑیہ سینما (وولی ووڈ) نے پر پھیلائے۔ سندھی سینما نے 1940 کو اپنے وجود کا احساس دلایا۔


مختلف زبانوں و خطوں میں سینما کے ظہور نے ہندی سینما کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان خطوں سے ابھرنے والے موضوعات ، موسیقی اور باصلاحیت افراد نے ہندی سینما کو مزید مضبوط بنایا۔


حرفِ آخر

ہندی سینما کے نوآبادیاتی عہد کا جائزہ یہاں اختتام پزیر ہوا۔ 1947 کو انگریزوں نے ہندوستان کو اس بھونڈے طریقے سے تقسیم کیا کہ لاکھوں جانیں چلی گئیں، لاکھوں انسانوں کو ہجرت کے عذاب سے گزرنا پڑا، برصغیر نفرت کی ایک ایسی اندھی کھائی میں جاگرا جہاں سے نکلنے کا راستہ تاحال سجھائی نہیں دے رہا۔ اگلے صفحات میں دیکھیں گے تاریخ کے اس سیاہ ترین دور کو دیکھنے کے بعد ہندی سینما نے کونسی سمت اختیار کی۔ اگلے دور کو پنڈت نہرو کی سیاسی پالیسیوں کے باعث نہرو عہد کا نام دیا گیا ہے۔


-5- ما بعد آزادی

اگست 1947 میں ہندوستان کی تقسیم ہر لحاظ سے ایک ڈراؤنا واقعہ تھا۔ قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا، عصمتیں لٹیں، انسانوں کو جانوروں کے ریوڑ کی طرح ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف زبردستی دھکیلا گیا۔ مذہب خوف ناک ہتھیار بنا۔ مسلمان راتوں رات مشکوک بن گئے۔ انہیں بیرونی حملہ آوروں کی اولاد سمجھا گیا۔ ہندو ازم ہندو توا کی شکل لینے لگا۔ ہندی سینما جس کا مرکز ممبئی تھا اس سیاہ ترین دور سے محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً ڈر گیا۔ اس ڈر کو آر ایس ایس کی ہندو قوم پرستی اور سردار ولبھ بھائی پٹیل کی پالیسیوں نے مزید بڑھاوا دیا۔ رہی سہی کسر آزادی کے چند مہینوں بعد گاندھی کے الم ناک قتل نے پوری کردی۔ ایک انتہا پسند ہندو کے ہاتھوں اتنے بڑے رہنما کے قتل نے فلم سازوں کو سیلف سینسر شپ پر مجبور کردیا۔


سردار ولبھ بھائی پٹیل انتہا پسند ہندو نہ تھے لیکن ان کے قومی نظریات بے لچک اور عدم رواداری سے قریب تھے۔ وہ آزاد ہندوستان کے وزیرِ داخلہ بھی تھے اور وزارتِ اطلاعات و نشریات کے سربراہ بھی۔ گوکہ کانگریس کا رویہ سیکولر اور روادارانہ تھا لیکن پٹیل کا رعب و دبدبہ اور ان کے ہم خیال افراد بھی فیصلہ کن حیثیت رکھتے تھے۔ غیر یقینی کی فضا چہار سو طاری تھی۔ ہندی سینما نے کسی تنازع سے بچنے کے لیے درمیانی راستہ اختیار کرنے کو ہی بہتر سمجھا۔


آزادی کے بعد تحریکِ آزادی، رومانس اور ہندو فلسفے کو ہی مرکزی مقام حاصل رہا ہے۔ آر ایس ایس کے تصورِ دھرتی ماتا کو بھی سینما نے مکمل طور پر اپنا لیا۔ ہندوستان کی فیوڈل تہذیب و ثقافت جو بنیادی طور پر بالائی طبقے کی میراث تھی وہ بھی ہندی سینما کے ساتھ کسی جونک کی طرح چمٹ گئی۔


تحریکِ آزادی پر رامیش سہگل کی "شہید" ، گیان مکھرجی کی "سنگرام" اور وی شانتا رام کی "اپنا دیش" قابل ذکر ہیں جو 1948 سے 1950 کے دوران ریلیز ہوئیں۔ ان میں سے "شہید" کو زبردست پزیرائی ملی۔ وطن دوستی اور تحریکِ آزادی پر مبنی فلموں میں پٹیل کی سیاسی سوچ کے مماثل قوم پرستانہ جذبات دکھائے گئے۔ تحریکِ آزادی سے مسلم کردار کو دانستہ غائب رکھا گیا۔ ہندوستانی نیشنلزم کی ولبھ بھائی پٹیل انداز کی صورت گری کے دوران البتہ اس امر کا پورا پورا خیال رکھا گیا کہ فلم کی نظریاتی بُنت میں مسلم مخالفت یا پاکستان دشمنی کا تاثر نہ ابھرے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے مابعد آزادی کے خوف ناک دور میں بھی ہندی سینما نے اکثریتی سوچ سے دامن بچائے رکھا۔ اس احتراز کے محرکات میں بہرکیف متوسط طبقے کے مسلم فلم بینوں کا بھی کردار تھا جن کی ناراضی فلمی مارکیٹ پر منفی اثرات مرتب کرنے کی بھرپور قوت رکھتی تھی۔


بعض فلم سازوں نے سیاسی و سماجی جھمیلوں سے خود کو دور رکھنے کے لیے ہندو فلاسفی کو جمالیاتی انداز میں دکھانے پر توجہ مرکوز کردی۔ ان میں کمال امروہی کی "محل" ، کیدار ناتھ شرما کی "جوگن" اور راج کپور کی "آگ" قابلِ ذکر ہیں۔ ان فلموں میں عقیدہِ آواگون، فلسفہِ تزکیہ نفس اور فلسفہِ جمالیات پر روشنی ڈالی گئی۔ یہ فلمیں نظریاتی لحاظ سے آر ایس ایس کی مدد تو کرتی ہیں لیکن تقسیم کی وجہ سے ہندی سینما جس دباؤ کا شکار تھا وہ نسبتاً کم ہوا۔


آر ایس ایس اور سردار ولبھ بھائی پٹیل کے دباؤ کی وجہ سے 47 سے 50 تک ہندی سینما گومگو کی کیفیت میں رہی۔ سماجی تضادات، تقسیم کے اثرات اور تلنگانہ میں جاری کسان تحریک ، کشمیر پر پاکستان بھارت رسہ کشی وغیرہ کو چھیڑنے سے ہر ممکن احتراز برتا گیا۔


ان چار سالوں میں عشق و محبت کی داستانوں میں بھی سماجی تضادات سے پہلو تہی کی گئی۔ حالانکہ چالیس کی دہائی کی رومانی فلموں میں سماجی تقسیم کو ایک اہم محرک کے طور پر دکھایا گیا تھا جیسے محبوب خان کی "انمول گھڑی" ، "انوکھی ادا" یا شوکت رضوی کی "جگنو" وغیرہ مگر آزادی کے بعد کے چار سالوں میں غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے ہلکی پھلکی کہانیوں پر ہی اکتفا کیا گیا۔


آزادی کے بعد کی ہلکی پھلکی رومانی فلمیں فنی لحاظ سے اعلی ہیں جیسے راج کپور کی "برسات" ، کشور ساہو کی "ندیا کے پار" کیدار شرما کی "سہاگ رات" وغیرہ لیکن ان فلموں میں سماجی معاملات پر بحث کرنے کی شعوری کوشش نہیں کی گئی


26 جنوری 1950 کو بھارت کا نیا آئین نافذ کیا گیا۔ سیکولر جمہوریت کو ریاست کی بنیاد مان کر اقلیتوں کو آئینی تحفظ دینے کا اعلان کیا گیا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو ایک روادار قیادت کی صورت ابھرے۔ پنڈت نہرو نے ایک ایسی ریاست کا تصور پیش کیا جو کسی مخصوص رنگ، نسل، مذہب ، صنف کی حمایت نہیں کرتی بلکہ ہر شہری کے یکساں حقوق کی غیر مشروط ضمانت دیتی ہے۔


نفاذِ آئین کے بعد ہندی سینما میں ایک زبردست ابھار آیا۔ نہرو عہد کا آغاز ہوا اور ہندی سینما تبدیلی کے ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔


History and Evolution of Hindi Film Industry. Article: Zulfiqar Ali Zulfi

1 تبصرہ: