برصغیر میں سلسلہ تصوف کی خوبصورت کڑی، حضرت شیخ نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ (م۔725ھ) فرماتے ہیں:
"اگر کسی کو مرشد میسر نہ ہو تو اس کتاب (کشف المحجوب) کا مطالعہ کرے اسے مرشد کامل مل جائے گا۔"
بر صغیر میں قافلہ تصوف:
علم و حکمت اور طریقت و معرفت کے سرخیل الشیخ السید علی ابن عثمان الہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخشؒ (م 1072ء۔465ھ) لاہور میں تشریف فرما ہوئے اور ظلمت کدہ ہند میں اسلام کی شمع فروزاں کی۔ یہیں پر آپ نے اصول شریعت، معرفت حق، رموز تصوف اور علم و حکمت پر مبنی اپنی معرکۃ الآراء کتاب "کشف المحجوب" تصنیف فرمائی جو کہ ایک بیش بہا گنجینہ ہے۔
یہ معروف و معتبر تصنیف، حضرت ابو سعید ہجویری جو کہ آپ کے رفیق خاص تھے، کے تصوف اور رموز تصوف کے حوالے سے استفسارات کے ضمن میں منصہ شہود پر آئی۔ تصوف کے موضوع پر فارسی زبان میں یہ پہلی تصنیف تھی۔ صوفیاء کے درباروں اور علماء کی مجالس میں اس کتاب کو ایک خاص مقام حاصل ہوا۔ برنی کے بقول حضرت نظام الدین اولیاءؒ جن کتب کے مطالعے کے شوقین تھے ان میں کشف المحجوب سرفہرست تھی۔
"کشف المحجوب" جو آپ نے آغوش رحمت خداوندی میں بیٹھ کر لکھی ہے۔ مسائل شریعت و طریقت اور حقیقت و معرفت کا ایک بیش بہا گنجینہ ہے اور اولیائے متقدمین کے حالات بابرکات اور ان کی مقدس تعلیمات کا بہترین خزینہ ہے نیز فارسی زبان میں تصوف و احسان پر لکھی جانے والی سب سے پہلی کتاب ہے ، اور اسے اولیاء اللہ اور صوفیاء کرام نے تصوف کی بے مثل کتاب قرار دیا ہے۔
کشف المحجوب کاملین کے لئے رہنما ہے تو عوام کے لئے پیر کامل کی حیثیت رکھتی ہے ، چنانچہ عوام میں اس کا مطالعہ کرنے والوں کو دولت عرفان و ایقان حاصل ہوتی ہے اور شک و شبہات کی وادی میں بھٹکنے والے یقین کی دنیا میں آباد ہو جاتے ہیں اور اس کے باربار مطالعہ سے حجابات اٹھ کر نئے نئے انکشافات ہوتے ہیں۔
حضرت داتا گنج بخش کشف المحجوب کے آغاز میں ہی اس کتاب کی غرض و غایت اور وجہ تصنیف بیان فرماتے ہیں:
ابو الحسن علی بن عثمان بن ابی علی الجلابی ثم الہجویری عرض پرداز ہے کہ میں نے استخارہ کیا، اور دل میں پیدا ہونے والی ہر خواہش سے منہ موڑ لیا۔ اور اللہ تجھے (شیخ ابو سعید ہجویری) نیک بخت بنائے۔ تیری درخواست پر میں نے کمر ہمت باندھ کر کتاب لکھنے کا پختہ ارادہ کر لیا۔ میں نے اس کتاب کا نام 'کشف المحجوب' رکھا ہے۔ الغرض تیرا مقصد پورا ہوا کہ میں نے اس کے مطابق کتاب کے ابواب کی تقسیم کی ہے۔ میں اس کتاب کی تکمیل کے لئے اللہ کی مدد اور توفیق کا خواستگار ہوں اور اپنے اعتماد اور قوت پر بھروسہ سے برات اور بیزاری کا اظہار کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات پر میرا آسرا ہے اور وہی مددگار ہے۔
آغاز کلام پر استخارہ کا ذکر کر کے اسلاف کے اس معمول کی تبلیغ و ترویج بھی فرما دی کہ جس کے مطابق ہر اہم کام کرنے سے پہلے استخارہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ سے راہنمائی طلب کی جاتی ہے۔ تو گویا اس کتاب کو جو قبولیت حاصل ہوئی اور امت محمدیہ کے لئے جو گراں قدر خدمات اس کتاب کے سبب انجام پذیر ہوئیں وہ کسی اور کتاب کو میسر نہ آ سکیں۔ بالخصوص حقیقی تصوف کے حوالے سے یہ کتاب مقام رفیع پر فائز نظر آتی ہے۔
خانقاہوں اور آستانوں کو موجودہ صورتحال اور معاملات میں افراط و تفریط نے اس خوبصورت اور پاکیزہ دنیا کو دھندلا دیا ہے۔ وہ آستانے جو محبتوں کے امین اور الفتوں کے نقیب تھے وہاں سے نفرتیں اور جہالتیں پروان چڑھ رہی ہیں۔ جنہوں نے دوسروں کو سنبھالا دینا تھا وہ خود ہی ڈانواں ڈول ہیں۔ ان حالات میں "کشف المحجوب" پورے اسلامی نظام معاشرت اور خانقاہی تصورات کو اپنے پہلو میں لئے ہوئے دنیا کو صراط مستقیم دکھا رہی ہے اور حقیقت اور معرفت کی اس راہ کو اجاگر کر رہی ہے جس کو مختلف حوالوں سے پراگندہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اورخواجہ نظام الدین ؒ کے اس قول مبارک کی روشنی میں آج واقعتاً وہ "شیخ کامل" کی حیثیت اختیار کئے ہوئے ہے۔
انہی گوناگوں اوصاف و کمالات کے سبب عشق و محبت کی دنیا کے امام مولانا عبدالرحمن جامی نفحات الانس میں بیان کرتے ہیں:
آپ کی کنیت ابوالحسن ہے۔ عالم و عارف تھے۔ شیخ ابو الفضل بن حسن کی صحبت میں رہے ہیں۔ آپ کشف المحجوب کے مصنف ہیں۔ جو اس فن میں معتبر و مشہور کتابوں میں ہے، انہوں نے اس کتاب میں بہت سے لطائف و حقائق جمع کئے ہیں۔
کشف المحجوب کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر دنیا کی تمام زبانوں میں اس کے ترجمے ہو چکے ہیں۔ انگریزی زبان میں پروفیسر نکلسن(م: 1925ء) نے کشف المحجوب کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا جو پہلی بار 1911ء میں گپ میموریل لندن نے شائع کیا۔ 1936ء میں اس کا نظر ثانی شدہ اڈیشن شائع ہوا۔ پروفیسر نکلسن کشف المحجوب کے بارے میں لکھتا ہے:
Kashf-ul-Mahjoob - It's object is to set forth a complete system of Sufism not to put together a great number of sayings by different Shaykhs but to discuss and explained the doctrines and practices of Sufis.
ترجمہ:
اس (کشف المحجوب) کا مقصود یہ ہے کہ تصوف کو بطور ایک نظام کے مدون کر دیا جائے اور مختلف شیوخ کے اقوال جمع کرنے کے بجائے صوفیاء کی تعلیمات اور اشغال کی تشریح و توضیح کی جائے۔
پنجاب یونیورسٹی کا شائع کردہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے فاضل مقالہ نگار نے کشف المحجوب کے اوصاف و کمالات کو اس انداز میں قلمبند کیا ہے:
"کشف المحجوب میں اسلامی تصوف کا بہت بلند معیار پیش کیا گیا ہے۔ اس میں اولیاء عظام کی کرامات اور خوارق کا بھی ذکر ہے۔ نیز ان کے بیسیوں اقوال اور نصائح کے ساتھ اوصاف حسنہ ، صبر و قناعت، ایثار و سخاوت، ہمت، استغناء ، صداقت اور اخلاص کی وہ سچی تابناک مثالیں پیش کی ہیں جو ان بزرگوں کے فضل و شرف کی اصلی برہان اور اسلامی تہذیب و اخلاق کی عظمت کی دلیل ہیں۔ مزید برآں مصنف تحقیق پسند تھے اور تحقیق کا بھی بہت بلند پایہ مجتہدانہ معیار ان کے پیش نظر تھا۔ تمثیلات میں اخلاق و الٰہیات کے معارف بکھرے پڑے ہیں۔ جن کی تفصیل یہاں ممکن نہیں۔ اسی طرح جگہ جگہ نفس انسانی کی وہ کوتاہیاں بھی منظر عام پر لائے ہیں جن تک بزرگان باعمل ہی کی نگاہ پہنچ سکتی ہے۔"
کشف المحجوب اپنی مضمون آفرینی اور ندرت بیان کے اعتبار سے اتنی موثر اور واضح ہے کہ کہیں پر دینی امور اور مذہبی دستور میں ابہام یا تشکیک نہیں ہے بلکہ تصوف اور شریعت کے مابین پیدا ہونے والے غلط نظریات کا تو سرے سے ہی خاتمہ کردیا۔ آپ کشف المحجوب میں فرماتے ہیں:
شریعت کا پہلا رکن کتاب اللہ ہے جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
'اس میں آیات محکمات ہیں، جو اصل کتاب ہیں۔ دوسرا رکن سنت رسول ﷺ ہے۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے:
'جو کچھ تجھے رسول عطا فرمائیں اس کو لے لو اور جس سے منع فرمائیں اس سے رک جاؤ'
اور تیسرا رکن اجماع امت ہے۔ چنانچہ آنحضور ﷺ نے فرمایا:
'میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوتی بڑے گروہ کا ساتھ اختیار کرو۔'
مذکورہ بالا قول سے حضرت ہجویریؒ کا نقطہ تحقیق واضح ہو گیا کہ آپ کن بنیادوں پر اپنے افکار و نظریات کو متعین اور مدون فرما رہے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے، کتاب کشف المحجوب درحقیقت آپ کے ایک رفیق حضرت ابو سعید ہجویری کے چند سوالوں کے جواب میں مرتب کی گئی ہے انہوں نے حضرت شیخ سے سوالات کئے تھے کہ:
مجھ سے بیان فرمائیے:
(الف) طریق تصوف کی حقیقت۔
(ب) مقامات صوفیہ کی کیفیت۔
(ج) صوفیہ کے عقائد و مقالات کی تشریح۔
(د) ان کے رموز و اشارات۔
(ہ) اللہ تعالیٰ سے ان کی محبت کی نوعیت اور دلوں میں اس کے ظہور کی کیفیت و ماہیت۔
(و) محبت الٰہی کی ماہیت کی معرفت میں حائل ہونے والے حجابات عقل و نفس۔
(ز) پھر کشف حجابات کے طریقے۔ نفس کی حجابات سے بیزاری اور روح کی تسکین۔
یہاں پر ہم کتاب کے عنوانات اور ابواب کے ذریعہ انتہائی اختصار کے ساتھ کشف المحجوب کا تعارف پیش کرتے ہیں تاکہ کتاب کا ایک اجمالی سا خاکہ قاری کے ذہن میں اجاگر ہوسکے۔
1۔ باب اول
(i) اثبات علم
(ii) علم حقیقت، ماہیت علم، علم کی اقسام، علم شریعت، اہل تصوف کے اقوال۔
2۔ باب الفقر۔ اثبات فقر، درویش کی بزرگی، فقر و غنا سے متعلق اہل تصوف کے اقوال۔
3۔ التصوف: قرآن و حدیث کی روشنی میں ماہیت تصوف سے متعلق مباحث پیش کئے ہیں۔ لفظ صوفی، متصوف اور مستصوف پر گفتگو کی گئی ہے۔
4۔ باب مرقعہ داشتن: اس باب میں "خرقہ" اور گدڑی پہننے کے فضائل بیان ہوئے ہیں۔
5۔ باب فی ذکر اختلافھم فی الفقر والصفوۃ: اس باب میں فقر و صفوت کی بابت گفتگو کی گئی ہے۔
6۔ باب بیان الملامۃ
7۔ باب فی ذکر ائمتھم من الصحابۃ والتابعین ومتابعتھم: اس باب میں خلفائے راشدین اور صحابہ کرام ؓ کے فضائل اور ان کے متصوفانہ افکار و رجحانات پر گفتگو کی گئی ہے۔
8۔ باب فی ذکر ائمتھم من اہل البیت و اھل بیت پیغامبر۔ اس باب میں خانوادہ اہل بیت اور ائمہ اہل بیت کا تذکرہ ہے۔
9۔ باب ذکر اہل الفتنہ۔
10۔ باب فی ذکر ائمتھم من التابعین والانصار۔ ان جید ہستیوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے علوم تصوف و روحانیت کبار صحابہ کرام سے سیکھے۔
11۔ باب فی ذکر ائمتھم من اتباع التابعین الی یومنا ھذا: اس باب میں 63 کے قریب ذیلی عنوانات کے ساتھ معروف تبع تابعین بزرگوں کے احوال بیان کر کے ثابت کیا گیا ہے کہ وہ سارے اصحاب صوفیانہ مشرب کے حامل تھے۔
12۔ باب فی ذکر ائمتھم من المتاخرین۔
13۔ اب فی ذکر رجال الصوفیۃ من المتاخرین علی الاختصار۔
14۔باب فی فرق فرقھم و مذاھبھم و آیاتھم و مقاماتھم و حکایاتھم۔ اس میں مختلف سلاسل صوفیہ اور ان کے افکار و نظریات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
اس باب میں کشف المحجوب کے عنوان سے گیارہ حجابات کا ذکر کیا گیا ہے۔ جن میں اسلامی تعلیمات کا خاصہ اور نچوڑ بیان کر دیا گیا ہے۔
باب 15 سے 39 تک توبہ، محبت، جود و سخاوت، بھوک، مشاہدات، صحبت ، آداب صحبت، آداب قیام، آداب رفاقت سفر، سفر حضر، گفتگو و خاموشی، سوال اور ترک سوال، نکاح و تجرد، قرآن کی سماعت، شعر، خوش الحانی، سماع کے احکام، سماع کی بابت اختلافات، آداب سماع، حقیقت سماع، وجد، رقص وغیرہ پر مفصل گفتگو ہوئی ہے۔
بقول سید خورشید گیلانی:
"یہ کتاب تصوف کا ایک ایسا گلدستہ ہے جس میں متنوع پھول سجے ہیں۔ ہر پھول کا رنگ جدا اور خوشبو منفرد، کتاب میں مخدوم ہجویری نے ان نام نہاد صوفیاء کا تعاقب کیا ہے جو اس لبادے میں تصوف کی بدنامی اور صوفیاء کی رسوائی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ کتاب علم و عمل کا ایسا حسین مرقع ہے جس کی ہر دور میں ضرورت محسوس ہوتی ہے اور جادۂ حق پر چلنے کے لئے مشعل راہ کا کام دیتی ہے۔ اس کتاب کے بالاستیعاب مطالعہ کے بعد یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ تصوف کو سمجھنے کے لئے اسی ایک کتاب کا مطالعہ کافی ہے۔ جس سے تصوف کے تمام گوشے پوری طرح واضح ہو جاتے ہیں اور کوئی الجھن باقی نہیں رہتی۔"
***
ماخوذ از رسالہ:
ھدیٰ اسلامی ڈائجسٹ (دہلی)، شمارہ: اگست 2007
ماخوذ از رسالہ:
ھدیٰ اسلامی ڈائجسٹ (دہلی)، شمارہ: اگست 2007
Kashf-ul-Mahjoob by Ali Hujwiri. Article by: Hamid Raza Bukhari
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں