کتاب - عصمت چغتائی کے بہترین افسانے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-08-21

کتاب - عصمت چغتائی کے بہترین افسانے

Ismat-Chughtai-Google-Doodle-2018
عصمت چغتائی کی پیدائش 21/اگست 1915ء کو اترپردیش کے شہر بدایوں میں ہوئی اور بعمر 76 سال، ممبئی میں 24/اکتوبر 1991 کو انہوں نے وفات پائی۔ مشہور فلم ساز اور ہدایتکار شاہد لطیف سے 1941 میں ان کی شادی ہوئی تھی جو 1967 میں شاہد لطیف کے انتقال تک قائم رہی۔ ان کی دو دختران سیما ساہنی اور سبرینہ لطیف ہیں۔ عصمت چغتائی کو 1976 میں 'پدم شری' اور 1984 میں 'غالب ایوارڈ' (بضمن "ٹیڑھی لکیر" بہترین اردو ڈرامہ) سے نوازا گیا۔ وہ علیگڑھ یونیورسٹی کی فارغ التحصیل تھیں۔ بالی ووڈ کی فلمی دنیا سے بھی بحیثیت قلمکار، فلم ساز و ہدایتکار عصمت چغتائی وابستہ رہیں۔ تقسیم ہند کے موضوع پر بنی 1973 کی فلم "گرم ہوا" پر انہیں بہترین کہانی کا فلم فئیر ایوارڈ حاصل ہوا (کیفی اعظمی شریک کہانی کار تھے)۔ 1978 کی فلم "جنون" میں انہوں نے ایک مختصر کردار بھی ادا کیا۔

عصمت چغتائی کی 107 ویں سالگرہ پر گوگل نے اپنے منفرد ڈوڈل [Doodle] کے ذریعے اردو کی نامور ادیبہ کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔

1943 میں شائع شدہ عصمت چغتائی کے افسانوی مجموعہ "کلیاں" کے مقدمہ میں صلاح الدین احمد لکھتے ہیں:
عصمت کے فن کی غالباً سب سے نمایاں خصوصیت یہی ہے کہ وہ اپنی بصیرت کی ایک نہایت بےباک اور صداقت شعار ترجمان ہیں۔ اور اگرچہ ان کی یہ ترجمانی ان کی نگارش کی پرکاری کا نقاب اوڑھے رہتی ہے، لیکن از بسکہ وہ ایک ہندوستانی عورت ہیں، اس لیے اس نیم پخت دور میں انہیں اپنی جرات کی وہ داد نہیں مل سکتی جو ان کا حق ہے۔ داد تو ایک طرف، اگر وہ اس بیداد سے بچ جائیں جس کی ارزانی میں معترضوں کے دل ان کی زبانوں کی ساتھ نہیں دیتے، تو بسا غنیمت ہے۔
۔۔۔ عصمت وہ کچھ دیکھ لیتی ہیں، شاید اپنے عورت ہونے کے باعث، جو ایک اوسط درجے کا فنکار نہیں دیکھتا اور وہ کچھ کہہ دیتی ہیں، اور یہ اپنے عورت ہونے کے باوجود، جو ایک اعلیٰ درجے کا مرد افسانہ نگار نہیں کہتا اور شاید نہیں کہہ سکتا، غالباً اس لیے کہ اسے اپنے مشاہدے پر یقین نہیں، شاید اس لیے کہ اس نے بعض سچائیوں کو ایسے قریب سے محسوس نہیں کیا کہ ان کا اظہار اپنے خلوص کی طاقت سے پڑھنے والے کے دل و دماغ پر چھا جائے۔ عصمت کی یہ قابلیت اس کے فن کا سب سے بڑا سہارا ہے اور یہ ہمارے ادب کی خوش قسمتی ہے، کہ اسے صنف نازک میں سے ایک ایسی لکھنے والی میسر آئی جس نے نہ صرف اس روایتی بناوٹ ، تکلف اور خوف کو یکسر دور کر دیا جس نے اس طبقے کی روح کو دبا رکھا تھا۔ بلکہ اپنی ژرف نگاہی اور حق پرستی سے ہمیں انسانی فطرت کی ان نازک اور لطیف ترس کیفیتوں سے آشنا ہونے میں مدد دی جن تک کسی تیز سے تیز مرد صاحبِ قلم کی رسائی محال نظر آتی ہے۔

1979 میں شائع شدہ "عصمت چغتائی کے بہترین افسانے" کے دیباچہ میں عطش درانی یوں رقم طراز ہیں:
اردو افسانہ میں عصمت کا اپنا ایک مقام ہے، منفرد اور اچھوتا۔ بلند اور نازک۔ وہ ایسے ایسے موضوعات کا احاطہ کرتی ہے جو اگرچہ ہماری روزمرہ زندگی کے ارد گرد پھیلے ہوئے ہیں۔ لیکن بادی النظر میں محسوس نہیں ہوتے۔ عصمت انہی سے اپنا مواد حاصل کرتی ہے اور پھر دھنک کے رنگوں کی طرح قرطاس پر بکھیر دیتی ہے۔ اس کے ہر افسانے کا انجام ایک غیرمتوقع منظر پر ہوتا ہے۔ ایک ایسا جملہ ہوتا ہے، جو احساس کی گہرائیوں میں کرچیوں کی طرح چبھنے لگتا ہے۔
سعادت حسن منٹو ، کرشن چندر کو بڑا افسانہ نگار کہا جاتا ہے لیکن اگر کوئی انصاف کی رو سے دیکھے تو موضوعات کے تنوع کے لحاظ سے عصمت ان سے کہیں آگے بڑھی ہوئی نظر آتی ہے۔
ترقی پذیر ادب کے بارے میں عصمت کی رائے ہے کہ یہ ایسا ادب ہے، جو انسان کی بھلائی چاہے، انسان کی ترقی چاہیے۔ وہ ادب وہ آرٹ جو انسان کو پیچھے نہ دھکیلے، اس کی دنیا کو اچھی سمت چلائے، وہ انسان کو گندگی سے نکال کر صاف و شفاف مقام پر پہنچا دے۔ اندھیرے میں جانے کے بجائے اجالے کی طرف آئے، وہ ادب ترقی پسند ہے۔
عصمت کے نزدیک ترقی پسند ادب تو بہت پہلے سے لکھا جا رہا ہے۔ کبیر کو وہ ترقی پسند شاعر مانتی ہیں۔ اقبال کو ترقی پسند سمجھتی ہیں۔ غالب کو ترقی پسند کہتی ہیں۔
عصمت کے نزدیک ادب کا تعلق معاشرے سے ہے اور معاشرہ اس وقت ترقی نہیں کر سکتا، ادب لوگوں کو سوچنے میں صحیح طریقے سے صحیح راہ پر نہ پہنچائے۔
آج کے دور میں محسوس ہوتا ہے کہ ادب انسان سے قریب تر ہو رہا ہے مگر شاید اس کا قدرتی نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ادب فطرت اور قدرت سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ کیونکہ نئی دریافتوں اور ایجادوں، نئے نظریات و خیالات نے بتا دیا کہ انسان قدرت کا محتاج نہیں، بلکہ وہ قدرت پر قابو پا رہا ہے۔ ادیب کے لکھنے کا مقصد یہی ہے کہ اس کی تحریر عوام الناس کے قریب تر ہو جائے جس میں اصلاحی پہلو بھی شامل ہو۔

***
نام کتاب: عصمت چغتائی کے بہترین افسانے
مصنفہ: عصمت چغتائی
ناشر: محمد خالد چودھری (چوہدری اکیڈیمی، لاہور۔ پاکستان)
سن اشاعت: اپریل 1979
تعداد صفحات: 272
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 20 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)

Ismat Chughtai Kay Behterin Afsanay.pdf

عصمت چغتائی کے بہترین افسانے :: فہرست
نمبر شمارصفحہ نمبرعنوانتعداد صفحات
19تِل19
228ایک شوہر کی خاطر16
344امربیل19
463پردے کے پیچھے سے17
580کچے دھاگے14
694چٹان22
7116دو ہاتھ14
8130جڑیں17
9147پیشہ16
10163بہو بیٹیاں14
11177کافر14
12191چڑی کی دکی14
13205تاریکی10
14215میرا دوست میرا دشمن32
15247سوت کا ریشم10
16257لحاف11

مشہور و مقبول حوالہ جاتی ویب سائٹ 'ریختہ' پر عصمت چغتائی کی 25 سے زائد تصنیفات یہاں آن لائن پڑھی جا سکتی ہیں:
ریختہ کی پیش کردہ کتابیں : عصمت چغتائی

***
مکرم نیاز
16-8-544, New Malakpet, Hyderabad-500024.

syed mukarram niyaz
Syed Mukarram Niyaz
سید مکرم نیاز

Famous short stories of Ismat Chughtai.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں