اک دیس اک بدیسی - سفرنامۂ امریکہ - کلیم عاجز - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-05-24

اک دیس اک بدیسی - سفرنامۂ امریکہ - کلیم عاجز - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

ek-des-ek-badesi-kalim-aajiz

پدم شری ڈاکٹر کلیم عاجز (پ: 11/اکتوبر 1924 ، م: 14/فروری 2015) - نئے لب و لہجہ کے بلند پایہ شاعر اور بہترین نثرنگار تھے جن کی ایک درجن سے زائد شعری و نثری تصنیفات شائع ہو چکی ہیں۔ امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں انہوں نے اردو کے مشاعروں میں شرکت کی اور اپنے کلام سے مستفیض کیا۔
1981 میں شائع ہوا ان کا ایک مشہور سفرنامہ (اک دیس اک بدیسی) تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔
تقریباً دو سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 10 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

کلیم عاجز زیر نظر سفرنامہ کے دیباچہ بعنوان "کہتا ہوں سچ ۔۔۔" میں لکھتے ہیں ۔۔۔
۔۔۔ میں نے آپ بیتی کا ایک حصہ "جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی" جو لکھا ہے وہ تو یادوں کے سمندر سے نکالے ہوئے چلو ہیں۔ سمندر کو بیک وقت کہاں سمیٹا جا سکتا ہے۔ اتنی فرصت کہاں، اتنے وسائل کہاں، اتنا تعاون کہاں؟ اس طرح سفرنامے بھی یادوں کا ہلکا نچوڑ ہیں۔۔ پورا نچوڑ نہیں۔۔۔
میں نے سفرنامہ کم پڑھا ہے، بہت کم پڑھا ہے۔ بلکہ کوئی سفرنامہ مکمل نہیں پڑھ سکا ہوں۔ میں نہیں جانتا سفرنامے کی ٹکنک کیا ہے؟ اس کا ڈھانچہ کیسا ہوتا ہے، اس میں رنگ آمیزی کیا کیا ہوتی ہے اور اس کی آرستگی کیا ہے؟
اور جب بات نکل گئی تو یہ کہہ دینے میں کیا حجاب ہے اور اب حجاب کر کے کیا ہوگا، اتنی عمر بےشرمی میں گزاری کہ اب حجاب گوارہ نہیں ہوتا۔۔ تو یہ سچی بات کیوں نہ کہہ دوں کہ میں کسی چیز کی ٹکنک نہیں جانتا۔ نہ شاعری کی ٹکنک جانتا ہوں، نہ نثرنگاری کی۔۔۔ نہ غزل کی ٹکنک نہ نظم کی، نہ افسانے کی نہ ناول کہ، نہ آپ بیتی کی نہ سوانح نگاری کی نہ سفرنامے کی۔۔۔ گرچہ ضرورت آتی ہے اور وقت آتا ہے تو پڑھا سب دیتا ہوں، لیکن پڑھانے کے بعد ممکن ہے پڑھنے والا کچھ لے کر نکلتا ہو، میں تو کورا نکلتا ہوں۔۔۔ خداجانے کیا پڑھایا، خدا جانے کیا لکھایا خداجانے کیا بولا کیا کہا ۔۔۔ اور جب خود لکھنے بیٹھتا ہوں تو استغفراللہ توبہ کیجیے ۔۔۔ دماغ کے سامنے مکمل اندھیرا رہتا ہے، صرف قلم سوجھتا ہے اور کاغذ ۔۔۔ کیا لکھ رہا ہوں، یہ لکھنے کے بعد ہی نظر آتا ہے اور لکھنے کے بعد بھی۔
۔۔۔ لوگ ٹکنک کے پیچھے بہت مارے پھرتے ہیں۔ اور خالی ہاتھ نہیں پھرتے، ڈنڈا لیے پھرتے ہیں۔ جی چاہتا ہے پوچھوں کہ میاں تم خود اپنی ٹکنک جانتے ہو؟ اپنی ٹکنک کی خبر ہے؟ آپ شاعر ہیں، نقاد ہیں، محقق ہیں، افسانہ نگار ہیں، ناول نویس ہیں، فنکار ہیں۔ لیکن اس سے پہلے آپ آدمی ہیں، انسان ہیں؟ انسان ہونا بہت بڑا آرٹ ہے، بہت بڑا فن ہے۔ اس فن کی ٹکنک جانتے ہیں؟ اس کا کچھ پتا ہے؟ اس کی کچھ خبر ہے؟ اس کی ٹکنک سے کچھ واقفیت ۔۔۔؟
یہ عذرِ امتحانِ جذب دل کیسا نکل آیا
میں الزام ان کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا
پہلے لوگ کسی چیز کی ٹکنک نہیں جانتے تھے۔۔۔ گروجی، پنڈت جی، مولوی صاحب پڑھانے کی ٹکنک نہیں جانتے تھے۔ لیکن پڑھا دیتے تھے تو مٹی سونا بن کر چمکنے لگتی تھی۔۔ اور لکڑی ہوائی جہاز بن کر اڑنے لگتی تھی۔۔۔ اور اب سارے ٹکنکوں کے استاد، ماسٹر صاحب اور پروفیسر صاحب پڑھاتے ہیں تو سونا مٹی بن کر نکلتا ہے۔۔ ہوائی جہاز سوکھی لکڑی بن جاتا ہے، جلانے کے علاوہ جو کسی کام کا نہیں نکلتا۔ آتا ہے آدمی اور نکلتا ہے جانور بن کر۔
۔۔۔ لوگ بندوق بنانے کی ٹکنک جان گئے۔ راکٹ کی جان گئے۔ چاند پر جانے کی ٹکنک جان گئے۔ لیکن دیوار تا بام ثریا کج ہی جا رہی ہے چونکہ خشت اول ہی کج ہو گئی۔
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گذرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
میں سمجھتا ہوں۔ سمجھتا ہی نہیں میرا ایمان ہے کہ آدمیت سب سے بڑی ٹکنک ہے۔ اور تمام ٹکنکوں کا سرچشمہ ہے، تمام آرٹ تمام فن کی ٹکنک کے چشمے اسی سے پھوٹتے ہیں اسی سے نکلتے ہیں۔ اس ٹکنک کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔ مگر سارا حساب کتاب اس میں پوشیدہ ہے۔ اس میں سارا ناپ تول چھپا ہوا ہے۔ اس میں تمام طول اور عرض گہرائیاں اور اونچائیاں ہیں، اس میں پورا ناپ جوکھ ہے۔ لیکن یہ ناپ جوکھ طول عرض اونچائی نچائی سامنے رکھ کر اس پر گوٹی بٹھائی نہیں جاتی۔

پریم چند افسانے کی، ناول کی وہ ٹکنک نہیں جانتے تھے، جو کرشن چندر جانتے تھے۔ یا بیدی جانتے ہیں۔ اور کون کون جانتے ہیں لیکن میاں۔ پریم چند کو لوگ صدیوں تک پڑھتے رہیں گے۔ کرشن چندر وغیرہ کا ذکر کتابوں میں زیادہ رہے گا۔ پریم چند کی بات دلوں میں زندہ رہے گی۔ حالی تنقید کی ٹکنک نہیں جانتے تھے مگر شاعری کے متعلق حالی شبلی جو کہہ گئے وہ پتھر کی لکیر ہے اور اب جو لوگ کہہ رہے ہیں وہ ریت کی لکیر ہے۔ وہ صدیوں طوفانوں اور سیلابوں کا مقابلہ کرے گی؟ ان کی زندگی ہوا کے تھوڑا تیز ہونے تک ہے۔۔۔ میر نے کہا ہے:
حضرتِ زاہد فرشتہ ہوں تو ہوں
آدمی ہونا بہت مشکل ہے میاں
تو میاں آدمی کی ٹکنک بہت مشکل ہے۔ آج جو فن کی ٹکنک کتابوں میں اتنی بھرمار ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ اصل ٹکنک زندگی سے نکل گئی ہے۔

بس تو مجھے آج نہیں زمانے سے آدمی کی ٹکنک جاننے کی خواہش اور کوشش ہے اور میں کسی ٹکنک کے پیچھے نہیں چلتا۔ یہ مختصر کتاب سفرنامہ ہے یا نہیں، میں نہیں کہہ سکتا۔ مگر کچھ ہے ضرور اور جو کچھ ہے مجھے اس سے لگاؤ ہے تعلق ہے پیار ہے محبت ہے۔۔ میں نے امریکہ کتنا دیکھا خود مجھے پتا نہیں، یاد بھی نہیں، لیکن امریکہ میں کیا کیا سوچا، کیا کیا محسوس کیا، اس سوچ اور اس احساس کو مشتے از خروارے چند صفحات میں پیش کر دینے کی کوشش کی ہے۔ اگر کوشش کامیاب ہے تو آپ کو مبارک باد کہ آپ سمجھ گئے۔ ناکام ہے تو کیا کیجیے :

وہ بات ذرا سی جسے کہتے ہیں غمِ دل
سمجھانے میں اک عمر گذر جائے ہے پیارے

- کلیم احمد عاجز
6/مارچ 1981


اس سفرنامہ کے باب اول کے اولین پیراگراف بھی ذیل میں ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔
سیاحت کے دو بنیادی موضوع ہیں۔
دو اصل ہیں، ایک تو چیزوں کو دیکھنا، خواہ وہ خودساختہ ہوں یا انسان ساختہ۔ ان کے رنگ روپ، ان کے خد و خال، ان کے نقوش، ان کے وسعت و عمق سے نگاہوں کو آسودگی اور سیری بخشنا، طبیعت کو فرحت اور بشاشت فراہم کرنا، راحت اور سکون مہیا کرنا۔ یہ زندگی کا ایک اہم موضوع ہے اور بڑی حد تک ضروری، لیکن یہ ضرورت ایسی نہیں ہے جس کے پوری نہ ہونے پر زندگی کا موضوع مکمل نہ ہو۔
سیاحت کا دوسرا موضوع پہلے موضوع کے بعد شروع ہوتا ہے۔ یہ دوسری منزل ہے، کوئی ضروری نہیں ہے کہ مسافر اس منزل کی طرف بھی متوجہ ہو اور اپنا قدم روکے نہیں آگے بڑھائے، سفر ختم نہ کرے، ذرا سستا کر چل پڑے۔ لیکن اگر قدم آگے نہ بڑھا، نگاہ آگے کی طرف نہ اٹھی، آرزو اور جستجو نے پاؤں نہ پھیلائے، شوق نے پر و بال نہ نکالے، تو مقصد ادھورا رہ گیا۔ بات کھوٹی رہ گئی، نقشہ نامکمل رہ گیا، مصرع ہی رہ گیا، شعر نہ بن سکا۔ سیاحت کا یہ پیکر صورت رکھتا ہے، معنی نہیں رکھتا، جسم رکھتا ہے، جان سے محروم ہے۔ یہ کاغذی پھول ہے، رنگ ہے خوشبو نہیں، پھل ہے رس نہیں جَس نہیں ۔۔۔ ذائقہ ہے صحت نہیں، یہ وہ آواز ہے جس میں ساز ہے سوز نہیں، راحت ہے حرارت نہیں۔
سیاحت کا یہ موضوع ہے چیزوں کو صرف دیکھنا نہیں ان کی حقیقت تک پہنچنا اور ان سے نتائج اخذ کرنا۔ غالب کا یہ قطعہ اسی موضوع کی شاعرانہ نقاب کشائی کرتا ہے:
اے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل
زنہار اگر تمھیں ہوسِ نائے و نوش ہے
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہے
اس دیدۂ عبرت نگاہ کی ضرورت صرف میکدے میں نہیں، مدرسہ میں بھی ہے، ویرانے میں نہیں، بستی میں بھی ہے، کھنڈروں میں نہیں، شہروں میں بھی ہے، ٹمٹماتے ہوئے دئے میں نہیں برقی قمقمے میں بھی ہے، سنسان اندھیروں میں نہیں جگمگاتے چراغاں میں بھی ہے، چاک گریباں اور تار دامن ہی میں نہیں زریں قبا اور رنگین پیراہن میں بھی ہے، نمک اور روٹی ہی میں نہیں مرغ و ماہی میں بھی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:
ابھی سن لو مجھ سے - خود نوشت کلیم عاجز - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
زرد پتوں کی بہار - پاکستان سفرنامہ - رام لعل - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
عجائبات فرنگ - اردو کا پہلا سفرنامہ - یوسف خان کمبل پوش - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
***
نام کتاب: اک دیس اک بدیسی (سفرنامۂ امریکہ)
از: کلیم عاجز
تعداد صفحات: 207
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 10 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Aik Des Aik Badesi.pdf

Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:

Aik Des Aik Badesi, America travelogue, by Kalim Aajiz, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں