عید اب کے بھی دبے پاؤں گذر جائے گی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-05-24

عید اب کے بھی دبے پاؤں گذر جائے گی


اپنی زندگی میں نہ جانے کتنی عیدوں سے آپ کا سابقہ پڑا ہوگا۔ نہ جانے کتنی رونقوں اور خوشیوں کے ساتھ آپ نے اس خوبصورت تہوار کو منایا ہوگا۔ آپ کی زندگی کی نہ جانے کتنی حسین و جمیل یادیں ان عیدوں سے وابستہ ہوں گی۔ مگر اس بار جس عید سے آپ کا سابقہ ہے، وہ ان تمام عیدوں سے مختلف ہے ، جنہیں آپ اب تک مناتے رہے ہیں۔
کورونا وائرس کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لئے نافذ کئے گئے لاک ڈاؤن کے تحت سب کو ہی بھیڑ بھاڑ والی جگہوں پر جانے سے منع کیا گیا ہے۔ بیشتر بازار بھی بند ہیں اور جو کچھ آخری ایام میں کھلے، وہاں جانے سے بھی لوگوں نے پرہیز کیا ہے۔ نہ آپ نئے کپڑے بنا پائے اور نہ ہی نئے جوتے آپ کو میسر آئے، کیونکہ بہت سے لوگوں کی طرح آپ نے بھی یہ رقم ان غریب اور لاچار لوگوں میں تقسیم کردی ہوگی، جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھوک، بے روزگاری اور افلاس سے جوجھ رہے ہیں۔
یقیناً ایسے بے شمار لوگ ہیں جنھوں نے اپنا سب کچھ ان غریب اور لاچار لوگوں پر نچھاور کر دیا ہے ، جو حالیہ تاریخ کے سب سے بڑے معاشی بحران سے گذر رہے ہیں۔ ان کے کاروبار تباہ ہو گئے ہیں۔ یقیناً وہ لوگ بڑے دل والے ہیں، جنھوں نے اپنی عید کی خوشیوں کو غریب اور لاچار لوگوں کے آنسو پونچھنے پر قربان کردیا ہے۔

جمعۃ الوداع کی نماز اپنے گھر پر ہی پڑھ کر جب میں یہ مضمون لکھنے بیٹھا ہوں تو میری نظروں کے سامنے ایسے نہ جانے کتنے مجبور اور لاچار لوگوں کی تصویریں ہیں، جنھیں میں پچھلے دو مہینوں سے بڑی بے بسی اور مجبوری کے عالم میں دیکھ رہا ہوں۔ ان میں بوڑھے، بچے، جوان اور عورتیں سبھی ہیں۔ ان کے پاؤں میں چھالے ہیں اور ان کے ناتواں کاندھوں پر ان کی زندگی کا بوجھ ہے، جسے ڈھو کر وہ ہزار ہزار میل کا سفر طے کر رہے ہیں۔
ان میں بے شمار لوگ ایسے ہیں، جن کے پاس سواری کا کوئی انتظام نہیں ہے اور یہ اپنے پیروں پر ہی اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔ سب سے زیادہ تکلیف ان لوگوں کو دیکھ کر ہوئی ہے، جو اپنے گھروں کو پہنچنے کی عجلت میں دردناک حادثات کا شکار ہوئے ہیں۔ اس عرصے میں کم و بیش دو سو مزدور اپنے گھروں کو پہنچنے کی عجلت میں راہی عدم ہو گئے ہیں۔ ان کے المیہ کو دیکھ کر کس کا دل نہ رویا ہوگا؟
ابھی اس بات کاحساب لگنا باقی ہے کہ پچھلے دو ماہ کے دوران کورونا وائرس سے زیادہ موتیں ہوئی ہیں یا پھر لاک ڈاؤن سے؟ ملکی معیشت کو اس بے ہنگم لاک ڈاؤن نے جو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، اس کا حساب تو شاید ہی کبھی لگ پائے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ بغیر کسی تیاری کے انتہائی ہڑبڑاہٹ میں نافذ کئے گئے اس لاک ڈاؤن نے کروڑوں لوگوں کی کمر توڑ دی ہے۔ ان میں سے بیشتر لوگ ایسے ہیں جو شاید ہی کبھی اپنے پاؤں پر کھڑے ہو پائیں۔

عید، بلاشبہ خوشیوں کا تہوار اور انعام کا دن ہے۔ جن لوگوں نے رمضان کے مبارک مہینے میں اپنے قیمتی اوقات روزہ، نماز، تلاوت اور تہجد میں گذارے ہیں، انھیں یقیناً اپنے رب کی طرف سے انعام ملے گا۔ اس لئے اس بات کا کوئی قلق نہیں ہے کہ ہمیں اس بار جمعۃ الوداع اور عید الفطر کی نماز گھر پر پڑھنی پڑ رہی ہے۔ انسانوں کی زندگی میں ایسے مواقع اکثر آتے ہیں کہ انھیں نامساعد حالات سے گذرنا پڑتا ہے۔ شاید آج کے حالات ایسے ہی ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ آپ اکیلے ہی عید کی نماز دیگر نمازوں کی طرح اپنے گھر پر پڑھنے پر مجبور ہیں بلکہ اس بار پوری دنیا کے مسلمان ان ہی مراحل سے گذر رہے ہیں۔ دنیا کی تمام عبادت گاہیں مقفل ہیں۔یہاں تک کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے باشندے بھی اس مرتبہ حرم میں نماز دوگانہ پڑھنے سے محروم رہیں گے، کیونکہ وہاں کرفیو جیسی صورتحال ہے۔
متحدہ عرب امارات میں ایک دوسرے سے عید ملنے کے لئے گھروں پر جانے کی ممانعت ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں پر پانچ سے دس ہزار درہم تک جرمانہ وصول کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ لوگ اپنے ماں باپ اور بھائی بہن کے گھر جانے سے بھی محروم ہیں۔

خود ہمارے ملک ہندوستان میں اگرچہ بیشتر مقامات پر لاک ڈاؤن کی پابندیاں محدود کردی گئی ہیں اور زندگی کسی حد تک پٹری پر واپس آتی ہوئی نظر آ رہی ہے، لیکن اب بھی عوامی مقامات پر بھیڑ بھاڑ کی اجازت نہیں ہے۔ شادی بیاہ کے لئے پچاس اور آخری رسومات میں بیس لوگوں کوہی شرکت کی اجازت دی گئی ہے۔ کچھ لوگوں نے جمعۃ الوداع اور عید کی نماز کی اجازت طلب کرنے کے لئے عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا، لیکن انھیں بھی مایوسی ہاتھ لگی۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے جمعۃ الوداع اور عید الفطر کی نماز عید گاہ اور مسجد میں اجتماعی طور پر پڑھنے کی اجازت طلب کرنے کی عرضی پر سماعت سے ہی انکار کر دیا۔ اس سے قبل دارالعلوم دیوبند سمیت کئی دینی اداروں نے باقاعدہ فتویٰ جاری کرکے یہ کہا تھا کہ مسلمان دیگر نمازوں کی طرح جمۃ الوداع اور عید الفطر کی نماز اپنے اپنے گھروں پر ہی ادا کریں اور گھر پر رہ کر ہی عید کی خوشیاں منائیں۔

اس بار کی عید ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے پچھلی تمام عیدوں سے مختلف اور یکتا ہے۔ اس عید میں نہ تو عیدگاہوں اور شہر کی جامع مسجدوں میں نماز دوگانہ کی بھیڑ بھاڑ ہے اور نہ سڑکوں اور بازاروں میں وہ چہل پہل ہے، جو ہمیشہ نظر آتی ہے۔ روزے تو لوگوں نے پورے خلوص اور اہتمام سے رکھے، لیکن تراویح کی نمازیں دیگر پنج وقتہ نمازوں کی طرح گھروں پر ادا کی گئیں۔ ختم قرآن کی وہ محفلیں اور وہ اجتماعی دعاؤں کا منظر سب ہم سے روٹھا ہی رہا۔ نہ مسجدوں میں مٹھائی تقسیم ہوئی اور نہ مقتدیوں کو امام صاحب سے گرمجوشی کے ساتھ معانقہ کرکے دعاؤں کی درخواست کا موقع ملا۔
کسی نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کوئی ایسی مہلک وباء بھی دنیا میں نازل ہو سکتی ہے جو انسانوں کو ایک دوسرے سے اس قدر دور کر دے گی اور زندگی اتنی بے رونق اور پھیکی ہو جائے گی۔
لیکن اس وقت جو کچھ ہماری نظروں کے سامنے ہے وہ کوئی خواب نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے اور اب ہمیں اپنی باقی زندگی اس حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے گذارنی ہے۔ طبی ماہرین کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ کورونا کا قہر کبھی ختم نہیں ہوگا اور اب ہمیں کورونا کے ساتھ زند ہ رہنے کے طریقے ایجاد کرنے ہوں گے۔ یعنی موت کا وہ خوف اب تمام عمر ہمارا پیچھا کرتا رہے گا جس سے پیچھا چھڑانے کے لئے ہم کیا کیا جتن نہیں کرتے۔
تاوقت تحریر پوری دنیا میں کورونا سے متاثرہ مریضو ں کی تعداد پچپن لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان میں دوگنی تعداد محض ایک مہینے کے اندر ہوئی ہے۔ مرنے والوں کا آنکڑا بھی تین لاکھ کے اوپر ہے۔ اس صورت حال میں آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حالات کتنے گمبھیر ہیں اور ہمیں کتنی احتیاطوں کے ساتھ زندہ رہنا ہے۔ ہندوستان میں بھی اس وبا کا قہر پہلے سے زیادہ بڑھ رہا ہے اور نئے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ان حالات میں جب کہ ہم سب عید الفطر کا تہوار بڑی خاموشی سے منا رہے ہیں تو مشہور شاعر ظفر اقبال کا یہ شعر ذہن میں گونج رہا ہے:

تجھ کو میری، نہ مجھے تیری خبر جائے گی
عید اب کے بھی دبے پاؤں گذر جائے گی

***
بشکریہ: معصوم مرادآبادی فیس بک ٹائم لائن
masoom.moradabadi[@]gmail.com
موبائل : 09810780563
معصوم مرادآبادی

Eid ab ke bhi dabey paon guzr jaigi. - Column: Masoom moradabadi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں