اردو ترجمہ نگاری - روایت اور ادبی محاسن - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-04-17

اردو ترجمہ نگاری - روایت اور ادبی محاسن

urdu-translation-tradtion-literary-qualities

ڈاکٹر احمد امتیاز، اپنے مضمون 'اردو میں ادبی تر جمے کی روایت' میں کہتے ہیں:
" ادبیات عالم میں 'طبع زاد' اور 'ترجمہ' کی اصطلاحیں رائج ہیں۔ عام طور پر انہیں ایک دوسرے کی ضد بھی سمجھا جاتا ہے۔ ترجمہ چونکہ دوسری زبان سے ماخوذ يا مستعار ہوتا ہے اس لیے اس میں ایک حد تک غیریت کا احساس باقی رہتا ہے۔ اس غیریت کے احساس کے سبب ہی "طبع زاد" کے مقابلے ترجمہ کو ثانوی حیثیت حاصل رہی ہے۔ لیکن دوسرے فنون کی طرح ترجمہ نگاری بھی ایک فن ہے اور ادب میں اس کی حیثیت مسلم ہے۔ ترجمہ ایک ایسا فن ہے جس کے بغیر دوسری زبانوں کے علوم و فنون سے آشنائی نہیں ہو سکتی اور اس کے بغیر کوئی بھی زبان جدید اور ترقی پذیر ہونے کا دعوی بھی نہیں کر سکتی۔ ترجمہ ہی وہ فن ہے جس کے ذریعے سے ایک قوم دوسری قوم کے ذخیرۂ علم و ادب سے آشنا ہوتی رہی ہے۔"

مذکورہ بالا اقتباس سے یہ صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ ادب کسی ایک خاص قوم کی میراث نہیں ہے۔ ہر زبان میں تخلیقیت کے مظاہر سامنے آتے رہتے ہیں اور ترجمہ ہی کے ذریعہ انھیں دوسری قوموں تک پہنچایا جا سکتا ہے اور اس طرح ادب اور اس کے لوازمات پھیلتے رہتے ہیں۔ اور جب بات اردو زبان کی ہو تو چاہے کسی کلاسیکی افسانہ کا ترجمہ ہو یا جدید نظم کا ترجمہ ہو ، اردو کے مزاج کو دیکھتے ہوئے سادگی زیب نہیں دیتی، کچھ ادبی چاشنی بھی اس ترجمہ میں شامل ہونی چاہیے، جس سے اردو زبان کا قاری نہ صرف بخوبی واقف بلکہ کسی حد تک اس کا عادی بھی ہے۔ چنانچہ میں نے اپنے مقالہ کے ذریعہ اس بات کا جائزہ لینے کی کو شش کی ہے کہ آیا اردو میں کیے گئے ترجموں میں واقعی و ادبی چاشنی شامل ہے جس کے لیے اردو مشہور ہے اور دیگر زبانوں کی صنعتوں کو اردو میں منتقل کرنے کے لیے اردو صنعتوں کا سہارا لیا گیا ہے یا آیا نئی صنعتیں تخلیق کی گئی ہیں یا پھر سادگی متن کی خاطر ان تمام سے گریز کیا گیا ہے جیسا کہ تہذیبی ترجموں کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر حسن الدین احمد لکھتے ہیں:
"افسانوں اور ناولوں کے ترجمے میں مترجم کا کام ایک لفظ کی جگہ دوسرا لقظ رکھنا نہیں ہے بلکہ ایک تہذیبی معنویت کو دوسری تہذیبی معنویت میں ڈھالنا ہے۔

تراجم میں ادبی محاسن کی منتقلی کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر اشرف رفیع یوں رقمطراز ہیں:
"ایک زبان کے تخلیقی ادب کو دوسری زبان میں منتقل کرنا، بڑا دشوار اور نازک کام ہوتا ہے۔ ادب اور بالخصوص شعری ترجموں میں اگر علمی ترجموں کی سی وفاداری اور اس کے منطقی ربط کو بہت زیادہ اہمیت دی جائے تو ضروری نہیں کہ اچھے نتائج حاصل ہوں کیوں کہ ادبی الفاظ، تلمیحات ، تشبیہات، استعارے، کنائے، مثالیں، علامتیں، تراکیب اور محاورے ہر زبان میں اپنی جدا جدا شان رکھتے ہیں اور ان کے علمی اور لفظی ترجمے سے زیادہ ان کے مفہوم اور معنی کی ترجمانی اہم ہوتی ہے۔ اس لیے اکثر صورتوں میں ان کے مترادفات بلکہ مماثلات زیادہ موثر ہو سکتے ہیں کیوں کہ ادبی تراجم میں تاثیر کا ابلاغ بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔"

درج بالا اقتباسات سے ترجمہ میں صنائع اور بدائع کی منتقلی کی نہ صرف اہمیت بلکہ دشواری کا بھی پتہ چلتا ہے۔ چونکہ صنعتیں تحریر میں نگینے جڑنے کا نام ہے اور ترجمہ میں ان نگینوں کو ٹھیک ان کی جگہ پر منتقل کرنا اور بھی دشوار گذار کام ہے۔ جہاں ایک جانب مترجم کو متن سے وفاداری نبھانی ہے وہیں ساتھ میں یہ بھی مسئلہ ہے کہ یہ وفاداری ترجمہ شدہ متن کے حسن کو خاک میں ملا سکتی ہے چنانچہ یہاں مترجم کو تھوڑی بہت آزادی دینی ضروری ہے کہ چاہے وہ متن کے ساتھ تھوڑی سی بےدیانتی برتے لیکن اس بات کی کوشش کرے کہ صنعتیں اصل زبان سے ہدفی زبان میں منتقل ہو جائیں۔ گویا یہاں ترجمے کے بارے میں کہی گئی یہ بات صادق آتی ہے کہ ترجمہ ایک ایسی محبوبہ کی طرح ہوتا ہے جو وفادار ہو تو بدصورت ہوتی ہے اور خوبصورت ہو تو بےوفا ہوتی ہے۔ گویا صنعتوں کا التزام اسے حسین تو بنا رہا ہے لیکن مترجم کو اصل متن سے تھوڑی سی بے وفائی کرنی پڑ رہی ہے۔

دنیا کی بڑی زبانوں کے ذریعہ نسبتاً کم ترقی یافتہ زبانوں میں ترجمہ کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے، غلام شبیر رانا کہتے ہیں:
"ہر تخلیق کار جب اپنے تخلیقی عمل کا آغاز کرتا ہے تو وہ زبان میں ادبی شعریات کے متنوع خد و خال سامنے لانے کی مقدور بھر سعی کرتا ہے۔ زبان کو ثروت مند بنانے کے سلسلے میں اس کی تخلیقی فعالیت وقت کا اہم ترین تقاضا سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بعد مترجم اپنے ذوق سلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی زبان کو دوسری زبان کے ادب کے ان عظیم فن پاروں سے مالا مال کرنے کا آرزو مند ہوتا ہے جن کی پوری دنیا میں دھوم مچی ہوتی ہے۔ ترجمے کے ذریعے اس کی یہ خدمت اس کی اپنی زبان کو دوسری زبانوں کے ادبیات کی مسحور کن عطر بیزی سے مہکانے کی لائق تحسین کاوش سمجھی جاتی ہے۔ عالمی کلاسیک افق ادب پر مثل آفتاب ضوفشاں ہوتی ہیں، ایک حساس تخلیق کار نگاہوں کو خیرہ کر دینے والی ایسی تخلیقات کی ضیا پاشیوں سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ دنیا کی بڑی زبانوں کے نابغۂ روزگار ادیبوں نے عالمی ادبیات کا دامن اپنے متنوع تخلیقی تجربات سے مالا مال کر دیا۔ دنیا کی بڑی زبانوں کے عظیم ادب پاروں کا چھوٹی اور نسبتاً کم ترقی یافتہ زبانوں میں ترجمہ لسانی ارتقا کے لیے ناگزیر ہے۔"

مذکورہ بالا بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایک زبان کا ادب دوسری زبان کے ادب سے ترجمہ ہی کے ذریعہ مالا مال ہو سکتا ہے۔ ترجمہ میں ادب کی اصناف دراصل اصل زبان کی ثقافت کی جھلک ہوتی ہے۔ تراجم کے ذریعے ثقافتی میراث کی منتقلی کا افادیت سے لبریز عمل سدا جاری رہتا ہے۔ زبان میں مضامین، موضوعات، اور خیالات کی تونگری، تخلیقی فعالیت کی ہمہ گیری اور جذبۂ شوق کی ہے کرانی، تراجم ہی کی مرہون منت ہے۔ مترجم جب قلم تھام کر ترجمے پر مائل ہوتا ہے تو وہ ثقافتی اقدار کی ترسیل کے لیے اس بات کا التزام کرتا ہے کہ اس کے ترجمے پر قاری کو پختہ یقین ہو اور اس یقین کو بڑھانے اور قائم رکھنے کے لیے وہ زیادہ سے زیادہ ادبی محاسن کا سہارا لے کر اپنی زبان کو بھی مالامال کرتا ہے اور قاری کو دوسری ثقافت سے روشناس بھی کراتا ہے۔ چنانچہ اس کے لیے ضروری ہے کہ مترجم نہ صرف دونوں زبانوں کی قواعدی ساخت بلکہ ان کی ادبیات سے بھی واقف ہو۔ وہ اصل زبان اور ہدفی زبان کے مزاجوں اور تہذیبی فضا سے آگاہ ہو اور بالخصوص بدفی زبان میں اصطلاحات، محاوروں، ادبی محاسن اور مترادفات پر عبور رکھتا ہو۔
چنانچہ اس سلسلہ میں ڈاکٹر حسن الدین احمد یوں رقمطراز ہیں:
"ایک زبان کے ادبی شہ پاروں کو دوسری زبان کے ادیبوں اور دانشوروں تک پہنچانا بھی ضروری ہے تاکہ دوسری زبان کے ادیب نئے ادبی رجحانات کو فروغ دیں۔ "

اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ کوئی ایک قوم یا کوئی ایک زبان کے حامل لوگ کبھی علمی لحاظ سے مکمل اور خود مکتفی نہیں رہ سکتے۔ انھیں علم کے ہر میدان میں دوسری قوموں کی تحقیق و معلومات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ترجمہ، ان علوم و معلومات کے حصول کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ ایک زبان کے ماننے والوں کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ وہ دوسری زبان کی اہم تخلیقات کا اپنی زبان میں ترجمہ کریں اور اپنی نئی زبان کو نئے نئے الفاظ ، اصطلاحات، محاوروں، کہاوتوں اور دیگر ادبی محاسن سے مالامال کریں۔ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی:
"ترجمہ کی اہمیت یہی ہے کہ ایک طرف تو اس کے ذریعہ نئے خیالات زبان میں داخل ہوتے ہیں جس سے ذہنی جذب و قبول کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ دوسرے زبانوں کی قوت اظہار میں نئے امکانات پیدا ہوتے ہیں یعنی جس زبان میں ترجمے کیے جائیں اس کے ادب کو جدید خیالات کے ساتھ ساتھ نئی تشبیہات اور تازہ استعارے ملتے ہیں اور اس زبان کو نئی جہت اور وسعت حاصل ہوتی ہے۔ زبان ایک نئے مزاج سے روشناس ہوتی ہے۔ نئے لہجوں کو اپنے مزاج میں جذب کرتی ہے۔ خصوصاً منظوم ترجموں کی صورت میں زبان شاعرانہ اور نازک خیالات کے اظہار پر قدرت حاصل کر کے احساس و خیال کی نت نئی تصویریں ابھارنے کی اہل ہو جاتی ہے۔"

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر کسی زبان میں دیگر زبانوں کے الفاظ اور خیالات جذب کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ اور دیگر زبانوں سے نئے خیالات اور نئی اصناف ادب کے انجذاب کا سب سے بہترین ذریعہ بلکہ واحد ذریعہ ترجمہ ہی ہے۔ ترجمہ ہی کے ذریعہ دیگر زبانوں کے خزانوں کو اپنی زبان کے سانچے میں ڈھال لیا جاتا ہے۔ ترجمہ ہی کے ذریعہ نئے افق سامنے آتے ہیں جن سے خیالات میں وسعت پیدا ہوتی ہے ، نئے اقدار حاصل ہوتے ہیں اور مختلف ثقافتوں کے درمیان تقابل کا موقع ملتا ہے۔ خود اردو زبان کی بیشتر مثنویاں اور طویل داستانیں فارسی یا سنسکرت زبان کا ترجمہ ہیں۔ ترجمہ ہی کے ذریعہ ، علوم و فنون لسانی پیراہن بدلتے ہیں اور تمام انسانیت کی میراث بنتے ہیں، خواہ مختلف علاقوں اور خطوں کے رہنے والوں کی زبانیں ایک دوسرے سے کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہوں اور اس طرح ایک عالمی ادب تشکیل پاتا ہے۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر امتیاز احمد لکھتے ہیں:
"زبان کے پھلنے پھولنے میں بھی ترجمہ ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ نئی اصناف ادب کا ورود ہمیشہ ترجمے کے ذریعے ہی ممکن ہو سکا ہے اس لیے اس کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ترجمے کی ضرورت اس لیے بھی اہم ہے کہ اس کے ذریعے طور طریقے، مذہب ، ادب اور تہذیب کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ انسانی تہذیب کی ترقی میں ترجمہ ایک اہم رول ادا کرتا ہے۔ اس لیے قوموں اور زبانوں کے درمیان باہمی افہام و تفہیم اور ربط و ضبط کی راہیں کھولنے کے لیے ترجمہ کی ہی مدد لی جاتی ہے۔ ادبیات عالم میں تاریخی ادوار اور لسانی تمدن کی شناخت و بازیافت کا واحد ذریعہ ترجمہ رہا ہے۔ اس لیے ترجمہ کو اخذ و استفادہ کی ایک شکل بھی قرار دیا گیا ہے کیوں کہ اس کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب کسی چیز کا فقدان ہو۔ اس فقدان کی تکمیل اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس چیز کی طرف رجوع نہ کریں۔
رجوع کے ساتھ ہی ذہن ترجمے کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور اس وقت ترجمے کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے۔ ناواقفیت کی منزل سے گزرتے وقت ترجمے کی ضرورت کا احساس بار بار ہوتا ہے اور اسی کے زیر اثر ترجمے کا فن پروان چڑھتا ہے۔ ترجمے کی ضرورت کے ساتھ ساتھ ہمیں اس کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ ترجمے کے ذریعے نہ صرف الفاظ اور زبان کی نشوونما میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ علوم و فنون میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور ذہن میں کشادگی پیدا ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے سے نئے نئے اسالیب بیان ظاہر ہوتے ہیں۔ دوسری زبانوں کے ذخیرۂ ادب سے آشنائی ہوتی ہے۔ زبان کا منصب طے ہوتا ہے۔ اسلوبی خصائص اور تہذیبی بو باس کا اندازہ ہوتا ہے۔ معاشرتی اور ذہنی تحریکیں ترجمے کے ذریعے ہی وجود میں آئی ہیں اور زبانوں اور تہذیبوں کے درمیان ایک رشتہ ارتباط قائم ہوا ہے۔ ترجمے کے ذریعے ہی آج مشرق و مغرب کے درمیان کی دوری ادبی اور لسانی اعتبار سے کم ہو پائی ہے۔ ان کے افکار و خیالات سے آشنائی ہوئی ہے اور ایک دوسرے کو سمجھنے میں بہت حد تک کامیاب ہو پائے ہیں۔ دوسرے ادب کے خزانوں کا سراغ ہمیں ترجمے کے ذریعے ہی مل پایا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی دونوں اعتبار سے ہم نے جو ترقی اور تعمیر کی ہے وہ ترجمے کے ذریعے ہی ممکن ہو سکا ہے۔ بطور فن ہم بھلے ہی ترجمے کو طبع زاد کے مقابلے کمتر سمجھتے ہوں مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ترجمہ نے کچھ ایسے کام انجام دیے ہیں جو طبع زاد تصنیف بھی نہیں دے سکتی تھی۔
چند مثالیں تو ایسی بھی ہیں جنہیں ترجمے کے ذریعے ہی قبولیت حاصل ہوئی ہے اور اس طبع زاد تصنیف کو شاہکار کی حیثیت حاصل ہوئی ہے۔ اردو زبان و ادب میں ادبی تراجم کے ذریعے ہی بہت سی اصناف متعارف ہوئی ہیں۔ نثر میں ڈرامہ ، ناول ، افسانہ ،خاکہ ، انشائیہ، مکتوب ، رپورتاژ وغیرہ مغربی ادبیات سے ترجمے کے ذریعے ہی ہماری زبان میں آئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نظم میں آزاد نظم ، ترائیلے ، ہائیکو، سیڈوکا، ماہیے ، مثلث و دیگر اصناف سخن ترجمے کے ذریعے ہی اردو زبان و ادب میں آئی ہیں۔ مغربی علوم و ادبیات کے علاوہ خود مشرقی ادبیات سے بھی ہم نے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ عربی ، سنسکرت اور فارسی ادبیات کا بہت کچھ سرمایہ ہماری زبان میں منتقل ہو چکا ہے۔ مثنوی اور داستانوں میں ہم نے سب سے زیادہ ان تینوں زبانوں سے استفادہ کیا ہے۔ ہائیکو اور سیڈوکا جیسی جاپانی صنف سخن تک ہماری رسائی ترجموں کے ذریعے ہی ہو پائی ہے۔ گویا ترجمے نے ہمارے ادب کو مختلف انداز سے روشناس کرایا ہے اور اس کے دامن کو وسیع سے وسیع تر کیا ہے۔"

درج بالا بحث کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قوموں کی علمی ترقی میں ترجمے ہی نے سب سے اہم رول ادا کیا ہے۔ ذہانت و فطانت پر کسی ایک قوم کی اجارہ داری نہیں، تاہم اس ذہانت و فطانت کے ذریعہ کی گئی ایجادات کو دوسروں تک پہنچانے کا واحد ذریعہ ترجمہ ہے۔ ترجمہ صرف تہذہبی سفیر ہی نہیں لسانی سفیر بھی ہے جہاں وہ ایک ثقافت کو دوسری ثقافت سے متعارف کرواتا ہے وہیں وہ ایک زبان کی ادبی خصوصیات کو دوسری زبان میں منتقل کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

***
ماخوذ از مقالہ:
اردو ترجمہ نگاری میں صنائع و بدائع : مسائل اور حل
پی۔ایچ۔ڈی مقالہ از: محمد عبدالواسع (نگران: پروفیسر محمد ظفر الدین)
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد۔ (شعبہ ترجمہ، 2017)

Urdu translation, tradtion and literary qualities, Research article: Mohd Abdul Wasay.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں