تحقیق کے جدید رجحانات - جمیل جالبی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-12-24

تحقیق کے جدید رجحانات - جمیل جالبی

modern-research-trends
جیسے علوم سائنس میں تحقیق بنیادی اہمیت رکھتی ہے اسی طرح ادب، شاعری اور تخلیق میں جس بنیادی اہمیت رکھتی ہے اگر شاعر کو یہ معلوم ہے کہ اسے کیا کرناہے اور کس طرح کرنا ہے اور اس کے اسلاف نے یہ کام کیسے اور کیوں کرکیا تھا تو وہ نہ صرف بہتر بلکہ زندہ رہنے والی شاعری کرسکے گا۔ جیسے عمارت بنانے سے پہلے عمارت کے پورے نقشے اس کی ضرورت ، اس کے مقصد، زمین جس پر وہ عمارت بنائی جارہی ہے، آب و ہوا، ماحول اور موجود سامان عمارت وغیرہ سے پوری طرح واقف ہونا ضروریہے اسی طرح تخلیق ،تنقیداور علم و ادب کی ہر شاخ کو پورے طور پر پروان چڑھانے کے لئے تحقیق کا عمل ضروری ہے ۔ وہ ادیب، نقاد اور شاعر جو تحقیق سے دامن بچاتے ہیں اسے بے ضرورت اور غیراہم سمجھتے ہیں یا بے خبری میں اپنی تخلیق و تحریر سے سرسری طور پر گزر جانا چاہتے ہیں ، علم و ادب کی دنیا میں ہر گز وہ کام نہیں کرسکتے جس کی وہ آرزو رکھتے ہیں۔اقبال نے خوبصورت شاعری کی لیکن ان کی عظیم تخلیقی قوت نے ان کے تحقیقی مزاج کی مدد سے زندگی کے پھیلاؤ اور مسائل حیات کو اپنے دامن میں سمیٹ کر عمل ارتقا طے کیا اور وہ وہ بن گئی جو وہ ہے۔ ہر بڑا شاعر، ہر بڑا ناول نگار اور افسانہ نویس، ہر بڑا نقاد، ہر بڑا فلسفی اور ہر بڑا سائنس دان تحقیق کے بغیر کوئی بڑا کام انجام نہیں دے سکتا ۔ بڑی تخلیق کے لئے تحقیق اتنی ہی ضروری ہے جتنا پانی زندگی کے لئے ضروری ہے ۔
جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا تحقیق کی اہمیت یہ ہے کہ جب تلاش و جستجو سے آپ نے غلط کو صحیح سے الگ کرلیا اور سچائی اپنی اصلی شکل میں آپ کے سامنے آگئی تو پھر جو رائے قائم کریں گے، جس نتیجے پر آپ پہنچیں گے وہ بھی صحیح ہوگا، اس بات کو میں مثال سے واضح کرتا ہوں۔ یہ مثال میں اس لئے دے رہا ہوں تاکہ یہ واضح کرسکوں کہ ہمارے نقاد تحقیق سے دامن بچا کر کس کس قسم کی غلطیوں کے مرتکب ہورہے ہیں۔ پروفیسر احتشام حسین اردو کے اہم نقاد ہیں لیکن ان کا رشتہ چونکہ تحقیق سے قائم نہیں تھا اسی لئے ان کی تحریروں میں بہت سی بنیادی باتیں غلط اور نادرست مفروضات پر کھڑی نظر آتی ہیں۔احتشام حسین صاحب کا ایک مضمون ہے غالب کا تفکر اور اس کا پس منظر، جسمیں غالب کی وسعت مطالعہ اور تاریخ سے گہری واقفیت کو غالب کے تفکرکی بنیاد بتایا گیا ہے اور غالب کے اس فارسی ترجمے کو جو مہر نیم روز کے نام سے مشہور ہے ان کی وسعت مطالعہ اور تاریخ دانی کے ثبوت میں پیش کیا ہے۔ اگر یہ بات لکھنے سے پہلے وہ تحقیق کی کسوٹی پر اسے پرکھ لیتے تو انہیں یہ مضمون لکھنے کی ضرورت ہی باقی نہ رہتی اس لئے کہ تاریخ یا اس کے مطالعے سے غالب کو سرے سے کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی ۔ یہ بات واضح رہے کہ"مہر نیم روز"غالب کی تصنیف نہیں ہے بلکہ ترجمہ ہے جسے انہوں نے بادشاہ وقت کے اصرار پر کیاتھا۔ غالب اپنے ایک خط میں مہر نیم روز کے بارے میں خود لکھتے ہیں کہ:
مجھ سے انتخاب حالات ممکن نہیں۔ آپ مدعا کتب سیر سے نکال کر زبان اردو میں میرے پاس بھیج دیا کیجئے۔ میں اس کو فارسی میں کر کر تم کو دے دیا کروں گا۔(نادرات غالب،ص 34)
اسی سلسلے میں ایک اور جگہ لکھا کہ
کار پرداز ان دفتر شاہی خلاصہ حالات از روئے کتب اردو میں لکھ کر بھیج دیتے ہیں۔ میں اس کو فارسی کر کے حوالے کرتا ہوں۔میرے ہاں ایک کتاب بھی نہیں ہے ، میں اس فن سے اتنا بے خبر ہوں کہ یہ بھی اچھی طرح نہیں سمجھا کہ پنڈت صاحب نے کیا کچھ لیا ہے اور وہ کیا ہے ۔(نادرات غالب، ص29)

اب دیکھئے کہ غالب کے تفکر کی بنیاد غالب کی جس تاریخ دانی اور جس کتاب پر قائم کی گئی ہے وہ کتنی کمزور اور کتنی بے معنی ہے اور ظاہرہے کہ اس سے جو نتائج اخذ کئے گئے ہوں گے وہ کتنے بے بنیاد، غیر ذمے دارانہ اور بے جان ہوں گے ۔غالب کیا کہہ رہے ہیں اور ہمارے محترم پروفیسر صاحب کیا کہہ رہے یہں۔ من چہ می سرایم وطنبورہ من چہ می سراید ۔ تحقیق سے بے تعلقی و بے خبری کی وجہ ہی سے ہماری تنقید غیر وقعیع اور غیر مستند ہوکر رہ گئی ہے اور ہمارے محترم اساتذہ اور عزیز طلبہ ایسی غلط فہمیوں کا شکار ہیں جن سے نکلنے میں ایک عرصہ لگے گا۔ ایسی اور بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں لیکن یہاں صرف ایک اور مثال پیش کرکے میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم جو کچھ کریں ، خواہ وہ شعر و شاعری ہو، ڈراما یا ناول نگاری ہو ، تنقید یا تاریخ ہو ، اصل حقیقت سے پوری طرح واقف ہوکر کریں ورنہ ہم ادیب، شاعر، نقاد زندگی بھر ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے۔ ناواقفیت ایک طرف گمراہ کردیتی ہے اور دوسری طرف رسوائی کا سامان بھی مہیا کرتی ہے ۔
ایک محقق نے ایک جگہ ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے کہ ایک پرانے اہل قلم نے شعلہ جوالہ نامی مجموعہ واسوخت کا مطالعہ کیا تو واسوخت نمبر ۳۲،۳۳ کے نیچے مصنف کا نام "لا ادری" لکھا ہوا دیکھا اور قیاس کا تو تامینااڑا کرلکھا کہ ان دونوں واسوختوں کا مصنف ایک ہی شخص ہے۔ ایسامعلوم ہوتاہے کہ"لا ادری" لاہوری کی بگڑی ہوئی شکل ہے ۔ حالانکہ بات صرف اتنی تھی کہ شعلہ جوالہ کے مرتب کو یہ دونوں واسوختیں تو مل گئیں لیکن ان کے مصنفین کے نام معلوم نہ ہوسکے اس لئے اس نے ان کے نام کی جگہ لا ادری لکھ دیا جو عربی مرکب ہے اور جس کے معنی ہیں میں نہیں جانتا،یامجھے معلوم نہیں۔

بہرحال مجھے اتنا عرض کرنا ہے کہ علم و ادب کی دنیا میں ہم نے تحقیق کو چونکہ کوئی اہمیت نہیں دی ہے اس لئے ہمارے ہاں تحقیق کی حالت بھی تشفی بخش نہیں ہے ۔ تحقیق جس استقلال جس صبر، محنت اور توجہ کی طالب ہے ہم اس سے اس لئے بھاگتے ہیں کہ ہمیں تو اب روٹی بھی پکی پکائی ہی اچھی لگتی ہے ۔ تن آسانی تحقیق کی دشمن ہے ، اور بفضل تعالیٰ تن آسانی ہمارے خون میں اچھی طرح سرایت کرگئی ہے ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے بیشتر اہل تحقیق بھی داد تحقیق نہیں دیتے اور قیاسیات سے کام چلارہے ہیں۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بغیر پڑھے ایسی کتابوں کے حوالے دیتے ہیں جو ان کی نظر سے نہیں گزریں۔ فارسی کارواج کم سے کم تر ہوگیاہے اوربد قسمتی سے انیسویں صدی تک کے بیشتر والے کی کتابیں فارسی زبان ہی میں ہیں۔ ان کتابوں کے اوپر تو اردوترجمے موجود نہیں ہیں اورجو ہیں وہ عام طور پر اتنے ناقص ہیں کہ ان پر اعتماد نہیں کیاجاسکتا ، صورت یہ ہے کہ مصنف کچھ لکھ رہاہے اور مترجم صاحب کچھ اور فرمارہے ہیں۔ تحقیق کے یہ بنیادی مواد اور کتابوں کی جو سہولتیں ہونی چاہئیں وہ ہمارے ہاں موجود نہیں ہیں۔ ہماری زبان ادب، ثقافت وتاریخ کے لاتعداد مخطوطات جو بنیادی مآخد کا درجہ رکھتے ہیں، ملک سے باہر انگلستان کی انڈیا آفس لائبریری، برٹش میوزیم، آکسفورڈ اور فرانس ، جرمنی ، ایران، ہندستان وغیرہ میں پڑے ہوئے ہیں جن تک رسائی اہل علم و ادب کے محدود مالی وسائل کی وجہ سے ممکن نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ ہماری حکومت اپنے ملک کی تاریخ ، اس کی ادبیات اور تہذیب، ثقافت کے متعلق سارے مخطوطات کی مائیکرو فلم یا ان کے عکس حاصل کرکے اسلام آباد، کراچی، اور لاہور کے مرکزی کتب خانوں میں محفوظ کردیتی تاکہ ہمارے غریب و لاچار اہل علم و ادب ان سے استفادہ کرکے علم و ادب کے پھول کھلا سکتے ۔ ان مخطوطات تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے اہل علم و ادب اس معیار کی تحقیقات پیش کرنے سے قاصر ہیں جو ہمیں مغربی مصنفین کی تصانیف میں نظر آتی ہیں۔ یہ کام حکومت کو بلا کسی تاخیر کے فوراً کرنا چاہئے ۔ اسی طرح ہمارے ہاں فن تحقیق اور اصول تحقیق کے بارے میں بھی کتابیں نہیں ہیں ۔ وہ اساتذہ جو طلبہ کی رہنمائی کرتے ہیں عام طور پر خود تحقیق کے فن اور اصولوں سے ناواقف ہوتے ہیں ۔ تحقیق کی تعلیم و تربیت کا بھی ہماری یونیورسٹیوں میں کوئی انتظام نہیں ہے ۔ شاید ہی کسی یونیورسٹی میں فن اور اصول تحقیق و تدوین کا کوئی پرچہ رکھا گیا ہو۔ تحقیق کرنے والے اٹکل پچو کام شروع کردیتے ہیں۔ کام کا آغاز کرتے وقت انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ مواد کہاں سے ملے گا ۔ کون سے ماخذ معتبر ہیں اور کون سے غیر معتبر ہیں ۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ دوران تحقیق دوسرے درجے کے حوالوں سے کیوں احتراز کرنا چاہئے۔ ہمارے ہاں اکثر بڑے اور اہم کتب خانوں کی وضاحتی فہرستیں بھی موجود نہیں ہیں۔ یہ بات شاید بہت کم لوگوں کو معلومہے کہ قومی عجائب خانے کراچی میں تقریباً بارہ تیرہ ہزار مخطوطات ہیں جن کی اب تک درجہ بندی بھی نہیں ہوئی ہے اور ان مخطوطات تک رسائی ناممکن ہے۔ ہمارے ہاں ببلیو گرافی کا بھی قحط ہے۔ "آکسفورڈ کم پینین آف انگلش لٹریچر" کی طرح کی بھی کوئی کتاب ہمارے ہاں نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں تحقیق کا وہ معیار اور وہ روایت قائم نہیں ہوسکی جس سے کسی قوم کی قسمت بدل جاتی ہے ۔ بحیثیت مجموعی یہ ایسی اندوہناک صورت ہے جس میں تحقیق کا پودا سازگار حالات نہ ہونے کی وجہ سے کبھی پروان نہیں چڑھ سکتا۔

اس پس منظر میں ہمارے ہاں جو کچھ ہورہاہے اس کا عام معیار غیر تشفی بخش اورپست ہے لیکن تحقیق کا رواج چونکہ علمی و ادبی ضرورتوں اور کچھ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کی معاشی ضرورت کی وجہ سے مسلسل بڑھ رہا ہے اس لئے گزشتہ 35 برسوں میں کچھ نئے رجحانات بھی بھرے ہیں اور چند ایسے محقق (جن کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے) بھی سامنے آئے ہیں جنہوں نے احتیاط کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ رکھاہے اور حافظ محمود شیرانی، قاضی عبدالودود اور امتیاز علی عرشی کی روایت تحقیق پر گامزن ہیں۔ اب سے چالیس سال پہلے تک مختلف مخطوطات کے بارے میں تعارفی تحقیقی مقالات لکھنے کا عام رواج تھا۔ یہ تعارف عام طور پر اسی مخطوطے تک محدود ہوتا تھا لیکن اب جدید رجحان یہ ہے کہ کسی قلمی کتاب کا تعارف کرانے کے لئے ضروری ہے کہ محقق ان سارے مخطوطات کی نشان دہی کرے جو مختلف کتب خانوں میں محفوظ ہیں اور یہ بھی بتائے کہ اس مخطوطے کا ذکر کن کن کتابوں میں کہاں کہاں آیا ہے ۔ساتھ ساتھ مصنف کے بارے میں بھی معتبر ماخذ کے حوالے سے معلومات فراہم کرے اور اس تصنیف کے زمانے کا بھی تعین کرے ۔ زبان کا مطالعہ کر کے ان اثرات کوبھی واضح کرے جو اس تصنیف میں ملتے ہیں اور یہ بتائیے کہ اس زبان اورجدید زبان میںتبدیلیوں کی کیا نوعیت ہے اور یہ تبدیلیاں کیوں پیدا ہوئیں ، اس کے رجحان کے زیر اثر لسانیات و صوتیات کا علم بھی اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے ۔

ایک رجحان یہ بھی پروان چڑھ رہا ہے کہ اب مختلف موضوعات پر تحقیقی کام بھی کئے جارہے ہیں مثلاً بہت سی کتابیں ایسی سامنے آئی ہیں جن میں مختلف اصناف ، مختلف مصنفوں، شاعروں اور ادوار کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ اس طرح ادبی تحقیق کا دائرہ پہلے کے مقابلے میں وسیع تر ہوگیا ہے ۔
چالیس سال پہلے تک ترتیب و تدوین متن کو وہ اہمیت حاصل نہیں تھی جو اب حاصل ہے۔ پہلے عام طور پر کسی ایک نسخے کو لے کر متن تیار کردیاجاتا تھا۔ اگر کوئی دوسرا نسخہ آسانی سے میسر آگیا تو پہلے نسخے کے مشکل مقامات کو اس کی مدد سے حل کرلیا اور اس کا حوالہ حواشی میں دے دیا لیکن اب تدوین متن سے پہلے مرتب کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس مخطوطے کے زیادہ سے زیادہ نسخے فراہم کرے اور پھر ان سب کی مدد سے مستند متن تیار کرے اور اختلافات و تعلیقات حواشی میں درج کردے ۔ یہ بہت محنت طلب کام ہے اور اسی لئے تدوین متن کی اہمیت روز بروز بڑھتی جارہی ہے ۔ ہمارے ہاں آج بھی یہ صورت ہے کہ بہت کم شعرا کے مستند د واوین مرتب ہوئے ہیں مثلاً میر جیسے شاعر کی مستند و مکمل کلیات اب تک سامنے نہیں آئی اور آج تک کلیات میر مرتبہ عبدالباری آسی سے کام چل رہا ہے ۔ یہی صورت تذکروں کے ساتھ ہے ، بہت سے تذکرے شائع ضرور ہوئے ہیں لیکن ان کے موجودہ متن کو مستند ومعتبر نہیں کہاجاسکتا ۔ تذکروں اور اہم ماخذکی تدوین و اشاعت کا پہلا دور ختم ہوگیا۔ اب دوسرا دور شروع ہوا جس پر اہم متون کو مستند و معتبر انداز میں ازسر نو مرتب نے کا رجحان پیدا ہوا ہے ۔

اب تک تحقیق و تنقید ادب کی دو الگ الگ حیثیت رکھتی تھیں جن کا آپس میں یاتو کوئی تعلق نہیں تھا اور اگر تھا تو بہت کمزور اور سرسری تھا۔ ۔۔۔۔۔ محقق کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ایک کوڑھ مغز انسان ہے جو تخیل سے عاری ہے اور اردو شاعری سے اس کا رشتہ الفاظ شماری کا رشتہ ہے ۔ وہ اختلافنسخ کا ذخیر تو جمع کردیتاہے لیکن اس سے آگے نہ اس کا ذہن چلتا ہے اور نہ اس ذخیرے کی کوئی افادیت ہے ۔برخلاف اس کے محقق یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ہتے تھے کہ نقاد بر خود غلط ایک ایسا حیوان ناطق ہے جو بغیر علم و آگاہی کے ایسے فیصلے صادرکردیتاہے جو اس کی جہالت ، عدم معلومات اوربے خبری پر مبنی ہوتے ہیں ۔ نقاد نے قیاسات اور مفروضات سے ایسے بے سروپابے بنیاد نتائج اخذ کئے ہیں جن کی وجہ سے تاریخ ادب میں بے ۔۔ غلطیاں در آئی ہیں۔ یہ دونوں زاویہ نظر بہت سے محققوں اور نقادوں پر صادق آتے ہیں ، لیکن جدید رجحان یہ ہے کہ تنقید کی بنیاد تحقیق پر رکھی جائے تاکہ جو بات کہی جائے پہلے اس کی صحت ۔۔۔۔۔۔۔جائے۔ اس عمل سے جو نتیجہ اخذ ہوگا وہ بھی درست ہوگا ۔ اس رجحان کے زیر اثر تنقید و تحقیق ایک دوسرے سے نہ صرف قریب آرہی ہیں، بلکہ تحقیق تنقید میں جذب ہورہی ہے ، جہاں یہ صورت پیدا ہوئی ہے وہاںمعیار تنقید بلند، انداز نظر واضح اور تنقیدی رایوں میں گہرائی آگئی ہے ، تاثراتی تنقید کا طلسم بھی تحقیق و تنقید کے ربط و جذب کے زیر اثر ٹوٹ رہاہے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے اور صحت مندرجحان بھی ہے ۔

گزشتہ آٹھ دس سال سے یہ رجحان بھی تقویت پکڑ رہاہے کہ تحقیق کی حدود اور دائرہ کار کو بھی متعین کیاجائے ۔ اس سلسلے میں چن باتیں صاف ہوگئی ہیں ۔ اب یہ بات تسلیم کرلی گئی ہے کہ محقق کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ مختلف مصنفوں کی تصانیف کے ایسے مستند متن تیار کرے جو اغلاط و تحریف سے پاک ہوں۔ ساتھ ساتھ وہ اپنے ماخذ کی نشان دہی کرے اور حواشی بھی لکھے ۔ دوسرا کام یہ ہے کہ وہ مصنفوں اور ادب کے ادوار کے چھوٹے برے سب اور صحیح حالات مرتب کرے۔ تیسرا کام یہ ہے کہ وہ علم کی ان شاخوں کو اپنی صلاحیت اور علم سے سیراب کرے جنہیں جدید اصطلاحوں میں کتابیات(Bibliography) تاریخ اور سلسلہ واقعات یعنی تقویم (Chronology) ابجدی اشاریہ(Conocrdance) اور لفظ شماری کہاجاتا ہے ۔ چوتھا کام یہ ہے کہ تاریخ ادب کی ان چھوٹی بڑی سب غلطیوں کی نشان دہی کرکے ان غلط فہمیوں کو دور کرے جنہوں نے پڑھنے والوں کے ذہن میں جڑ پکڑ لی ہے ۔ پانچواں کام یہ ہے کہ دوسری زبانوں سے انی زبان میں مستند تراجم پیش کرے ، ان پر نہ صرف حواشی لکھے بلکہ پڑھنے والوں کے لئے نئے ماخذ کی نشان دہی بھی کرے ۔ ادب کے مستند و نمائندہ انتخاب بھی مرتب کرے ۔۔۔۔ تحقیق و تدوین کے اصول و فن کے بارے میں کتابیں تصنیف کرے۔ مختلف کتابوں، مصنفوں ، اور واقعات کے زمانے اور سنین کا تعین کرے ۔۔ یہ وہ کام ہوگا جس پر نقاد صحیح تنقید کی بنیاد رکھے گا۔ ادبی تاریخ لکھنے کے لئے ان دونوں کے امتزاج کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔ ادبی مورخ کے لئے ضروری ہے کہ اس میں تحقیق و تنقید کی یکساں صلاحیت ہو۔

پہلے تحقیقی مقالات میں پورے حوالوں کا رواج نہیں تھا ۔ صرف اتنا لکھ دیاجاتا تھا کہ فلاں فلاں کتاب میں یہ لکھا ہے ۔ ضروری نہیں تھا کہ سارے الفاظ بھی اسی مصنت کے ہوں جن کا حوالہ دیا گیا ہے ۔بلکہ مفہوم پر زور تھا ۔ اب حوالوں میں باقاعدگی آگئی ہے ۔ اقتباس کے الفاظ میں ذر ا سی بھی تبدیلی نہیں کی جاتی۔ کتاب، مصنف، صفحہ، سن اشاعت اور ناشر کا نام بھی دیاجاتا ہے ۔ تاکہ اس حوالہ کی آسانی سے تصدیق کی جاسکے ۔
اب تک فارسی اقتباسات فارسی زبان میں دیے جاتے تھے ۔ کتاب اردومیں ہوتی تھی اور حوالے فارسی زبان میں ہوتے تھے ۔ یہ بات اس وقت تک تو درست تھی جب فارسی کا رواج عام تھا لیکن اب جب کہ فارسی دانوں کی تعداد بہت کم ہوگئی ہے ان اقتباسات کومقالے یا کتاب کے ہر باب کے آخر میں شامل کردیاجائے تاکہ ترجمے کی سند بھی ساتھ ہی موجود رہے ۔

جدید تحقیق میں معروضی انداز نظر اور کسی بات کو قبول کرنے سے پہلے اسے پوری طرح ٹھونک بجا کر دیکھنے کا صحت مند رجحان بھی بڑھ رہاہے ۔ معتبر اور اصل ماخذ کی اہمیت بھی قائم ہورہی ہے لیکن جیسے طلوع آفتاب کے ساتھ دھوپ آہستہ آہستہ منڈیروں پر پھیلتی ہے اسی طرح یہ رجحانابھی اس طور پر نمایاں ہواہے کہ اہل تحقیق اس کی اہمیت کو تو دل سے مانتے ہیں لی کن جب خود کام کرتے ہیں تو سہل پسندی یا مزاج کی کاہلی کے باعث پوری طرح عمل نہیں کرپاتے۔ وقت کے ساتھ یہ رجحان بھی غالب آجائے گا اور وہ اس لئے کہ اصل تحقیق کا یہی صحیح اور واحد راستہ ہے۔
جدید تحقیق میں ایک اور صحت مند رجحان بھی پروان چڑھ رہا ہے ۔ آزادی سے پہلے کے مقدمات میں چند مستثنیات کو چھوڑ کر یہ بات عام طور پر نظر آتی ہے کہ متعلق وغیر متعلق مواد کا ملبہ، انتخاب اور چھان پھٹک کے بغیر ،جمع کردیاگیا ہے ۔ محقق نے نتائج اخذ کرنے کی بھی زحمت نہیں اٹھائی۔ اب نیا رجحان یہ ہے کہ محقق کے لئے نتائج اخذ کرنا بھی ضروری ہے ، اس رجحان سے تحقیق میں جہت پیدا ہوگئی ہے اور معنویت و افادیت بھی بڑھ گئی ہے ۔

آزادی سے پہلے اور اس کے بہت بعد تک تدوین متن کا معیار یہ تھا کہ جو تصانیف مختلف کتب خانوں میں دبی پڑی ہیں انہیں فوراً سامنے لایاجائے ۔ اس خواہش نے متعدد مخطوطات کی اشاعت کے لئے راستہ ہموار کیا ۔ یہ اس وقت کی ضرور تھی ، اب نیا رجحان یہ ہے کہ ان بنیادی کتابوں، تذکروں اور دواوین وغیرہ کو دوبارہ مدون و مرتب کرکے شائع کیاجائے تاکہ مستند ترین متن سامنے آجائے۔
پی۔ ایچ ۔ڈی کے مقالات کی تعداد بھی روزبروز بڑھ رہی ہے ۔ ان مقالات میں ایک خوبی عام طور پر یہ ہوتی ہے کہ وہ ضروری وغیر ضروری مواد کے ڈھیر سے لدے پھ ندے ہوتے ہیں اوراسی وجہ سے ضخیم اور فربہ ہوتے ہیں۔ تحقیق کرنے والے کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اسے کیا شامل کرنا ہے اور کیا شامل نہیں کرنا ہے ۔ تحقیق کا سارا رف ورک شامل کرنے سے مقالہ تو ضخیم ہوجاتا ہے لیکن اصل موضوع بے ضرورت مواد اور پھیلاؤ کی وجہ سے دب کر رہ جاتا ہے ۔ بعض مقالات میں صرف ضروری مواد شامل کیاجائے اور اختصار و جامعیت پر زور دیاجائے یہ رجحان وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جائے گا ، موجودہ تحقیقی مقالات کی خرابی کے ذمہ دار وہ استاد ہیں جو جامعات میں ان مقالات کے نگراں ہیں اور خود فن تحقیق و تدرین کے اصول و مسائل سے نابلد ہیں۔
گزشتہ پندرہ بیس سال سے پاکستان میں ایک اور رجحان بھی نمایاں ہورہا ہے اور وہ ہے فکر، خیال، روایت اور مابعد الطبیعیات کی تحقیق و تلاش تاکہ تہذیبی آلودگیوں کو دور کر کے اس سچائی کو اصل شکل میں دریافت کیاجاسکے جس سے اپنے معاشرے کی تشکیل نو کی جاسکے ۔ اس تحقیق کا بنیادی حوالہ بھی ادب ، تاریخ اور تہذیب و ثقافت ہے ۔ تحقیق کی یہ نوعیت پانی جگہ منفرد ہے اور اس کی روایت آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہے ۔
میںنے یہاں ادبی تحقیق کے حوالے سے چند بنیادی رجحانات آ پ کے سامنے پ یش کردئیے ہیں اور ہر رجحان کی مثالوں سے اس کے دامن بچایا ہے کہ اس صورت میں بر عظیم کے سب محققوں کے کاموں کا جائزہ بھی شامل کرنا پڑتا جس کے باعث یہ مقالہ بہت طویل ہوجاتا ۔ میں نے یہاں یہ کوشش ضرور کی ہے کہ رجحانات کے مطالعے کے ساتھ قابل ذکر محققوں کے نام اور کام آ پ کے ذہن میں از خود آتے چلے جائیں۔

مشمولہ اردو میں اصول تحقیق (جلد دوم)
مرتبہ ایم سلطان بخش، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد 1988ء


ماخوذ از کتاب:
پاکستان اور ہندوستان میں اردو تحقیق و تدوین کا تاریخی و تنقیدی جائزہ
مرتبہ: رؤف پاریکھ
ناشر: ادارۂ یادگارِ غالب و غالب لائبریری، کراچی (سن اشاعت: 2013)

Modern trends of research. Essay by: Jameel Jalibi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں