کالجوں میں اردو نصاب - مسائل اور تجاویز - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-01-07

کالجوں میں اردو نصاب - مسائل اور تجاویز

urdu-curriculum-colleges
دنیا کی تمام زبانوں میں تدریسی نصاب کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ کیوں کہ اسی کے ذریعے ملک و قوم کے نونہالوں اور نوجوانوں کی ذہنی تربیت ہوتی ہے اور ان کی زندگی کی تشکیل و تکمیل ہوتی ہے۔تدریسی نصاب کی ترتیب و تیار ی میں زبانی و متعلقہ موضوع و مضمون کے ماہرین اور تجربہ کار اساتذہ کی کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے۔ جن پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔اور ان سے عہدہ بر آ ہونا آسان نہیں ہوتا۔ اسکول،جونیر کالج ،ڈگری کالج اور یونیورسٹیوں کا تدریسی نصاب درحقیقت حکومت کی پالیسیوں اور ملک و قوم کی تعلیمی پالیسی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔
اسکول اور کالج کی سطح پر نصاب کی تیاری میں زبان اور ادب کی تدریسی کتابوں کے نصاب کی تیاری ایک اہم مسئلہ ہوتا ہے۔ اور وہ بھی مادری زبان اور خاص طور سے اردو کے نصاب کی تیاری کا۔ جسے عموماً نہایت آسان سمجھنے کی فاش غلطی کی جاتی ہے۔ والدین سرپرست اور خود طالب علم بھی مادری زبان کو یا تو اہمیت نہیں دیتے یا پھر نہایت آسان سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زبان یعنی جسم کے اہم عضو کے اعتبار سے یہ اظہار کا اہم وسیلہ ہوتی ہے۔ اور زبان بہ حیثیت Languageکی حیثیت سے بھی اپنے مافی الضمیر کے اظہار کا ذریعہ ہوتی ہے۔ یہی وجہہ ہے کہ Language اور Tongueدونوں کو ہم زبان ہی کہتے ہیں جو ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔ اور دونوں کا مقصد حق گوئی ہے۔
مادری زبان انسان کی سیرت و شخصیت کی صحیح سمت میں تشکیل کرتی ہے۔ دنیا کی تمام قوموں کا جائزہ لیں تویہ حقیقیت روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ ان کے پاس مادری زبان کی حیثیت دوسری زبانوں سے اعلیٰ اور برتر ہے۔ مسلمانوں کی ہندوستان میں عموماً مادری زبان اردو ہی ہوتی ہے۔ اگر چہ کہ عملی طور پر ضروری نہیں دکھائی دیتا کیوں کہ مسلمانوں میں بھی اکثر گھرانوں کی زبان اردو نہیں بلکہ کوئی اور زبان جیسے تلگو ،ہندی یا کوئی اور علاقائی زبان ہے۔ اسکول کی سطح پر جن طالب علموں کا ذریعہ تعلیم اردو ہوتا ہے انہیں عموماً زبان اول First Languageکے طور پر اردو پڑھانا پڑتا ہے۔ اور جب انٹرمیڈیٹ میں پڑھائی کا مرحلہ آتا ہے تو انہیں اردو زبان کو دوسری زبان Secong Language کی حیثیت سے انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ تاہم جونیر کالج کی سطح پر طالب علم کو اختیار حاصل ہوتاہے کہ وہ دوسری زبان کی حیثیت سے کوئی بھی زبان یعنی اردو ،عربی ،ہندی،تلگو اور فارسی یہاں تک کہ سنسکرت و فرنچ بھی منتخب کر سکتا ہے۔ مگر جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے اسکول کی سطح پر جو طالب علم اردو میڈیم سے آتے ہیں وہ اکثر اردو کو دوسری زبان کی حیثیت سے کالج کی سطح پراختیار کرتے ہیں۔ یہی صورتحال ڈگری سطح پر بھی ہے۔ اس لئے تدریسی نصاب تیار کرنے والے ماہرین کے سامنے یہ نکتہ ہونا چاہئے اور ہوتا بھی ہے ۔اس لئے اردو تدریسی نصاب کو آسان عام فہم اور دلچسپ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ زبان دوم کے طور پر اختیاری زبان اردو لینے والے دوسری مادری زبان کے طالب علم کو بھی دوسری زبان کی حیثیت سے اردو کا نصاب پڑھنے اورسمجھنے میں دشواری نہ ہو۔
تدریسی نصاب کی ترتیب و تیاری میں عموماً حکومت او بورڈ کی جانب سے کچھ پابندیاں بھی عائد رہتی ہیں۔ جن کی پابجائی یا عمل آوری لازمی ہوتی ہے۔ مثلاً تمام زبانوں کے نصاب کا خاکہ Pattern ایک ہی ہو۔ جس کا خاکہ Blue Print دے دیا جاتا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ زبان و ادب کے نصاب کی تیاری میں آزادی بھی ہوتی ہے کہ کمیٹی کے ممبرز اپنی پسند اور دلچسپی کے اسباق و اصناف کو شامل نصاب کرسکیں۔ مگر بہر ضرورت طالب علموں کی ذہنی استعداد اور علمی قابلیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے نثری و شعری اسباق و اصناف ،قواعد اور ترجمہ نگاری کی عبارت کا انتخاب کیا جاتا ہے ۔اور اس ضمن میں بڑی دقت اور عرق ریزی سے کام لیا جاتا ہے۔ نصاب کی تیاری میں آسان سے مشکل کی جانب والا طریقہ کار استعمال کیا جاتاہے۔
اردو تدریسی نصاب ادبی اصناف اور تحریروں کے انتخاب پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور ادب کے مختلف مخصوص مطالبے اور تقاضے ہوتے ہیں۔ اس لئے تمام ادبی اصناف کا احاطہ تدریسی نصاب میں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ادب کا قدیم اور بنیادی مقصد تفریح و تفنن بہم پہونچانا ہے۔ مگر جب تدریسی نصاب میں اس کی شمولیت ہوتی ہے تو اس امر کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے کہ ان ادبی تحریروں میں کوئی نہ کوئی اصلاحی ،اخلاقی ،تہذیبی ،معاشرے کی فلاح و بہبود اور حب الوطنی کے ساتھ ساتھ اتحاد اور قومی یکجہتی کا درس ،ترغیب اور پیغام و پہلو ضرور ہو۔ تدریسی نصاب کا کسی بھی طرح کا تعصب سے پاک ہونا لازمی ہے۔ اگر نصاب میں مذہبی،سیاسی،لسانی اور جماعتی تعصب شامل ہوجائے اور یہ تعصب ملک و قوم کے بچوں اور نوجوان طالب علموں کے ذہنوں میں نفرت و نفاق کے بیج بونے کا کام کرے گا جو صرف ملک و قوم کی تباہی و بربادی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ہندوستان میں آزادی کے بعد یہی سب کچھ ہوا۔ اور ہورہا ہے جس کا لازمی نتیجہ اتحاد و یکجہتی کے فقدان کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ راقم الحروف اسکول،جونیر کالج اور ڈگری کالج کی سطح پر تدریسی نصاب کی تیاری کمیٹی میں مختلف اعتبار سے وابستہ رہا ہے۔ اس لئے اپنے انفرادی تجربے اور مشاہدے کی بناء پر یہ کہنے کے موقف میں ہوں کہ تدریسی نصاب کو آسان بنانے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ معیار کو نظر انداز کردیا جائے۔ نصاب میں ادبی معیار کو بحر حال معیاری ہونا چاہئے۔ نصاب میں عموماً تقسیم کا طریقہ کار ہوتاہے۔ کہ نثری و شعری اصناف و اسباق کے انتخاب قدیم متوسط اور جدید نگارشات پر مبنی ہو تاکہ طالب علم بخوبی تینوں ادوار کے مزاج و معیار ،حالات و معاملات اور زبان و الفاظ کی حقیقت سے واقف ہوجائیں۔
جونیر کالج کی سطح پر تدریسی نصاب عموماً60% نثری ،شعری و سرسری مطالعے سے متعلق ہو۔اور 40% قواعد سے متعلق ہو۔ تاکہ کم ذہنی و تعلیمی استعداد و قابلیت رکھنے والے طالب علم زیادہ سے زیادہ نمبرات حاصل کرتے ہوئے تعلیمی ترقی کی منزلیں طے کرتے جائیں۔ اور ساتھ ہی جن طالب علموں کی تعلیمی و ذہنی استعداد زیادہ نہ ہو یا ناگزیر وجوہات کی بناء پر پابندی سے کلاسس میں شریک نہ ہوتے ہوں ایسے طالب علم بھی کم از کم فیل یا ناکام ہونے سے بچ جائیں۔ راقم الحروف کی تجویز یہ ہے کہ ڈگری کی سطح پر تدریسی نصاب کی تقسیم بھی اسی نہج پر ہو کیوں کہ آج کل تمام مسابقتی اور اعلیٰ تعلیم کے لئے داخلوں کے امتحانات میں معروضی objective pattern ہی ہوتا ہے۔ سائینسی ترقی اور اختراعات نے موجودہ دور میں تہلکہ مچادیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا انفارمیشن ٹیکنالوجی اور پرنٹ میڈیا نے آج کے عہد کے طالب علموں کو ایک تو کلاسس سے دور کردیا ہے تو دوسری طرف تحریری مواد کو پڑھ کر اپنی سوجھ بوجھ سے دوبارہ تحریر کرنے کی صلاحیتوں پر کاری ضرب لگائی ہے۔انٹر نیٹ اور فیس بک نے زبان وادب کو صرف پڑھنے تک محدود کردیا ہے۔اس لئے آج کے دور کے طالب علموں کو پڑھے لکھے کہنے کے بجائے صرف پڑھے ہوئے کہنا زیادہ صحیح لگتا ہے۔ تدریسی نصاب میں ادبی اور اخلاقیات پر مبنی مضامین و اسباق کی کمی نے بے حیائی کو فروغ دے کر شرافت ،ادب و احترام ،اخلاق و تہذیب جیسے اعلیٰ و ارفع جذبات انسانی سے دور کردیا ہے۔ اس کے باجود زبان و ادب کے تدریسی نصاب میں سائینسی موضوع کو شامل کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ جو کسی بھی اعتبار سے سود مند نہیں ہے۔
ڈگری کالجوں اور جونیر کالجوں میں دوسری زبان SLکے علاوہ ماڈرن لینگویج کے طور پر بھی ہوتی ہے۔ یہ خالص اردو میڈیم طالب علموں کے لئے مختص ہوتی ہے۔ اس لئے ماڈرن لینگویج کا نصاب نسبتاً مشکل اور وافر ہوتا ہے۔ مگر اس کے طالب علموں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ اور اس نصاب کو منتخب کرنے والوں میں روز افزوں انحطاط اور گراوٹ ہورہی ہے۔
ڈگری اور جونیر کالج کی سطح پر تدریسی نصاب میں اگر لازمی طور قواعد اور قواعد میں اصناف و اسباق سے متعلق ہمہ انتخابی multiple choice اور ایک حرفی one wordہو اور ساتھ ہی طویل و مختصر تحریری جوابات کی گنجائیش ہو تو دونوں سطحوں پر طالب علموں کو اپنی علمی لیاقت کو بڑھانے کا موقع ملے گا۔تدریسی نصاب کی تیاری میں عموماً8یا 6اساتذہ کا پیانل ہوتاہے۔ جونیر کالجوں کی سطح پر ڈگری کے اساتذہ بالخصوص انٹر کے اساتذہ کو شامل کیا جاتا ہے۔یونیورسٹی کے ماہرین اور پروفیسرز بھی ہوتے ہیں۔ اور اکثر انہیں تدریسی کتاب کا چیف ایڈیٹر یا چیر پرسن مقرر کیا جاتا ہے۔ اور باقی اساتذہ کوایڈیٹوریل بورڈ میں ممبران کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے باجود ہر ایک کو ذمہ داری برابر ہوتی ہے۔ ۔ آخر میں راقم الحروف ک تجویز یہ ہے کہ یونیورسٹی ،ڈگری اور جونیر کالج یہاں تک کہ اسکول کی سطح کے تدریسی نصاب کو ہر پانچ سال میں ایک مرتبہ تبدیل کرتے رہنا چاہئے۔ تاکہ زبان و ادب کے تازہ اور فرحت بخش اور خوشگوار ہوا کے جھونکے اساتذہ اور طالب علموں کے اذہان اور قلوب کو مسرت سے سرشار کرسکیں۔

ماخوذ از:
سوونیر برائے: شعبہ اردو گری راج گورنمنٹ کالج نظام آباد [تلنگانہ] کا ایک روزہ قومی سمینار بعنوان "اردو ادب تہذیبی قدریں، ماضی حال اور مستقبل"۔

Urdu Curriculum in Colleges, Issues and proposals

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں