ناول رام محمد ڈیسوزا : آخری قسط - 10 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-04-23

ناول رام محمد ڈیسوزا : آخری قسط - 10


ram-mohammad-desouza-qist10

گذشتہ قسط کا خلاصہ :
جب نندن، گلابو سے شادی رچانے کی تیاری کر رہا تھا، تب اچانک گلابو اس دھوکہ کی شادی سے نندن کو بچانے کے لیے گھر سے بھاگ گئی۔ مگر جیا نے اس کو پناہ میں لے کر یہ بات نندن رحیم اور رابرٹ کو بتا دی۔ پھر نندن کی چالاکی کا بھانڈا پھوٹا تو بچے پر ان تینوں کا حق ایک ساتھ ثابت ہو گیا۔ اور اندھیرے جنگل کی پہاڑی کی ایک غار میں انہوں نے مل کر اپنے ساتھ بچے کو بھی رکھ لیا۔ تینوں نے اپنی اپنی عبادتگاہ اس غار میں بنا لی اور بچہ ان تینوں عبادت گاہوں کے سائے میں پلنے لگا ۔۔۔۔ اب آگے پڑھیے اور اسی قسط کے ساتھ ناول کا اختتام ہو جائے گا۔

قسط : 01 --- قسط : 09

اسی طرح جب رحیم نماز کے لئے کھڑا ہوتا تھا اور بچہ کو اپنے ساتھ جاء نماز پر بٹھاتا تھا تو اس کی نماز شروع ہوتے ہی بچہ جا کر نندن کے مندر کی گھنٹیوں سے کھیل کھیل کر ان کو بجاتا تھا۔ رحیم نماز پڑھ بھی نہیں سکتا تھا اور توڑ بھی نہیں سکتا تھا۔ لیکن بعد کو پوری تحقیقات کرنے پر اس کا دل اسے یہی یقین دلاتا تھا کہ یہ نندن کی شرارت ہے جس نے بچہ کو بہلا پھسلا کر گھنٹیاں بجانے کی ترغیب دی ہوگی۔
بچہ سے رابرٹ کچھ بھی کہلوانے کی کوشش کرے لیکن بچہ اس وقت "آم ، آم" کی ہی رٹ لگاتا تھا۔

حیات انسانی کے دھارے فرسودہ، کرم خوردہ اور مصنوعی سماجی جکڑ بندیوں کو توڑ کر ایک نئی منزل کی طرف لئے جا رہے تھے۔ نندن کو گلابو سے ٹکرایا، جیا کو رحیم کے دامن میں پناہ دی ، امام صاحب سے بچہ کی سرپرستی کے لئے انکار کروایا ، جیا کے دودھ سے اس کی پرورش کی۔ بچہ میں مجسم رواں رواں ہو کر عیسیٰ کے آگے رام اور اللہ تسبیح کروائی۔ دیوی کے بانہوں مین صلیب دی، نندن سے مریم کو پرنام کروایا۔ اور یہ مسافر اس بھنور میں ڈوبتے ابھرتے ہاتھ پیر مار رہے تھے۔ ساحل ان کو نظر نہیں آ رہا تھا، مگر وہ ساحل کی طرف بڑھ رہے تھے۔
کچھ ہی دنوں میں یہ بات صاف ہونے لگی کہ زندگی اس طرح نہیں چل سکتی۔ جب ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں تو ایک جگہ تین خدا کیسے رہ سکتے تھے۔ ان لوگوں کے تفرقے بڑھتے گئے ، ہر جھگڑا بچہ کی فلاح و بہبود کے لئے ہوتا تھا تینوں کو اسی بچہ کی بقا اور فلاح مقصود تھی اور اسی جنگ میں بچہ کا حلیہ بگڑا جا رہا تھا۔
جب رابرٹ نے اس کا بیپٹزم کروایا تو بھی قیامت برپا ہوئی۔
رحیم جب عید پر اس کو اسلامی کپڑے پہنا کر اور نئی ترکی ٹوپی لگوا کر عید گاہ لے گیا تو بھی جان پر کھیل کر لے گیا۔ جب نندو نے اس کا مونڈن کروا کے اس کو ٹھنڈے پانی سے اشنان کروایا، تو بھی مہا بھارت ٹھن گئی تھی، اس پر غضب یہ ہو گیا کہ سردی سے بچہ کو بخار ہو گیا۔

تینوں کے دل تڑپ اٹھے، نندن وید کو لے آیا، رحیم حکیم کو اور رابرٹ مشن کے ڈاکٹر کو، ڈاکٹر وید اور حکیم کی دواؤں سے متفق نہیں، وید اور حکیم ڈاکٹر کے انجکشنوں کے سخت خلاف، بچہ کو کیا دوا دی جائے جس سے بچہ اچھا ہو جائے۔ بخار بڑھتا گیا۔ رحیم موقع ملتے ہی اس کو حکیم کا چورن چٹا دیتا اور رابرٹ ڈاکٹر کا مسکچر، بخار کی تیزی سے بچہ کا رنگ سرخ ہوگیا۔ اس نے دودھ پینا بھی بند کردیا، جب ذرا ہوش سے افاقہ ہوتا تھا، آ آ کی رٹ لگاتا تھا، نندن اسے طرح طرح سے بہلاتا تھا کہ کہ جیا اس کے پاس نہ آنے پائے۔ گلابو رات دن جاگ جاگ کر بچہ کے پاس بیٹھی رہتی تھی۔ نہ اس کو کھانے کا ہوش تھا نہ پینے کا۔

جیا پر ایک بپتا جو چار پانچ بار ٹوٹ چکی تھی آخری بار بھی ٹوٹی۔ پتہ نہیں اس کو اس کے کس پاپ کی سزا مل رہی تھی کہ اس کا کوئی بچہ جیتا ہی نہیں تھا۔ کئی ہوئے اور سب مر گئے ، اسی لئے اس نے اپنے اس بچہ کی ناک کان چھید کر اس کا نام منتھنی رکھا تھا۔ شہری اسپتال کے ڈاکٹر کہتے تھے کہ اس کے مرد میں کچھ پیدائشی خرابی تھی جس کی وجہ سے اس کے بچوں کو ایک خاص عمر میں ایک خاص مرض ہو جاتا تھا اور وہ مر جاتے تھے۔ منتھنی کو بھی کئی روز سے اسی مرض نے پکڑا تھا، جیا کا دل سہم اٹھا کہ اس کی بھی رخصتی کا وقت ہے، اور وہی ہوا۔ بہت جھاڑ پھونک کروائی ، مشن کے ڈاکٹر کی پڑیاں بھی کھلائیں لیکن منتھنی نہ بچا۔

اب جیا اس دنیا میں تنہا رہ گئی اس کا جذبہ مادری اس بچہ پر پھٹ پڑا، وہ بچہ جو اس کی کوکھ کا نہیں تھا، شاید نہیں مرے گا، جیا گلابو سے اس بچہ کی بیماری کی خبر سن کر تڑپ اٹھی۔
بچہ نے دودھ نہیں پیا تھا، وہ کئی دن کا بھوکا تھا، اس کو ہوش بھی نہیں تھا، جیا آئی تو جیسے اس کی مہک سے وہ کلبلا اٹھا اور "آ، آ" کرنے لگا، جیا دیوانہ وار اس کی طرف دوڑ پڑی، لیکن نندن بیچ میں آ گیا، اور اس نے جیا کو گالی دے کر روک دیا۔
گلابو اور رابرٹ کی خوشامد کرنے پر بھی جب نندن کا دل نہ پسیجا تو رحیم نے نندن سے کہہ دیا کہ بچہ نے جیا کا دودھ بہت بار پیا ہے، اور وہ شاید وہی دودھ مانگ رہاہے، لیکن نندن اڑا رہا۔ اس پر رحیم اور رابرٹ دونوں بپھر گئے ان دونوں کا دل کہہ رہا تھا کہ بچہ شاید جیا کا دودھ پی کر جی جائے۔ ورنہ فاقہ سے مر جائے گا۔ لیکن نندن جان کی بازی لگائے تھا، رحیم اور رابرٹ اس کو دبوچ کر جیا سے دودھ پلوانا چاہتے تھے۔ ایک طرف دو شیر تھے ایک طرف ایک، مگر نندن نے جسارت کا حق ادا کر دیا، وہ دونوں کا مقابلہ کرتا رہا، جیا کی ممتا سے صبر نہ ہو سکا۔ وہ بچہ کو دبوچ کر بھاگ نکلی۔

نندن اس کے پیچھے بھاگا، رابرٹ اور رحیم نے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر جیسے نندن میں از خود غیبی طاقت آ گئی تھی۔ اس نے چیخنا شروع کر دیا۔
"تم مجھ کو بچہ کا دشمن سمجھتے ہو، میں دشمن نہیں ہوں، میں اس کے لئے اپنی جان دے سکتا ہوں اور دیدوں گا، مگر جیا کا دودھ نہیں پینے دوں گا، اس لئے نہیں کہ وہ اچھوت ہے نیچ ہے بلکہ اس کے اس کی کوئی روگ ہے ، اس کا کوئی بچہ جی نہیں سکتا۔ یہ بھی مرجائے گا، وہ بیمار ہی اس لئے ہوا ہے کہ اس نے جیا کا دودھ پیا ہے۔"
نندن کے اس جذباتی سیلاب میں رحیم اور رابرٹ کا عزم بہہ گیا۔ جو خوف نندن کو گھیرے تھا اس نے ان دونوں کے دل میں بھی جگہ کر لی۔
نندن جیا کے پیچھے بھاگا۔

جولی یہ ہنگامہ دیکھ کر دہشت زدہ ہو گئی، اس کے دماغ میں اس کے سوا کوئی حل نہ آیا کہ پولیس میں خبر دے کر بچہ کو ان کے حوالے کر دے۔
چوکی کا انچارج سردار گربچن سنگھ موقع کی نزاکت کو سمجھ گیا اور فوراً سپاہی لے کر ان تینوں کے اڈے پر پہنچ گیا۔ وہاں کسی کا پتہ نہیں تھا، ایک ہی جگہ پر خدا، بھگوان، اور لارڈ کا سنگم دیکھ کر مسکرا دیا اور بڑے احترام سے نکل کر ان تینوں کی فکر میں چل پڑا۔
جیا بیمار بچے کو لے کر زیادہ بھاگ نہیں سکتی تھی۔ وہ وہیں جوار کے کھیتوں میں دبک کر بیٹھ گئی ، نندن وہیں اس کے پاس ہی اس کو تلاش کررہا تھا، بچہ نے رونا شروع کیا تو وہ سہم گئی کہ اس کی آواز نندن کے کان میں نہ پہنچ جائے ، اس نے بچہ کو زور سے سینے سے چمٹا لیا۔
رابرٹ، رحیم اور نندن ادھر ادھر جیا کو تلاش کر کے ذرا دور گئے تو جیا نے وہاں سے نکل کر جانا چاہا مگر بچہ کو دیکھا تو وہ گردن ایک طرف لڑھکا چکا تھا، جیا کو لگا اس کا دم گھٹ گیا ہے۔ وہ دیوانوں کی طرح چیخنے لگی، تینوں اس کی آواز سن کر اس کے پاس بھاگتے ہوئے آ گئے اور تینوں نے جیا کو مارنا شروع کیا اگر فوراً سردار گربچن سنگھ نہ آ جاتے تو جیا زندہ بچ نہیں سکتی تھی۔

سردار گربچن سنگھ نے بچہ کو مشن کے اسپتال میں پہونچا دیا ، بچہ کو خناک ہو گیا تھا جس کی وجہ سے اس کا حلق بند ہو گیا تھا ، ویسے بچنے کی امید تو اب بھی نہیں تھی لیکن اگر ایک لمحہ کی دیر بھی اور ہوجاتی تو وہ ختم ہو چکا تھا۔
اسپتال کے کھپریل کے برآمدے میں نندن، رحیم اور رابرٹ زار و قطار رو رہے تھے، اندر رام محمد ڈیسوزا کا گلا کاٹ کر اس کا آپریشن ہو رہا تھا۔

"وہی بچہ ہے، تم اس کو رام کہتے ہو ، تم محمد اور تم ڈیسوزا۔۔۔ بچہ تو ایک ہے۔"
سردار گربچن سنگھ نے تینوں کو ڈھارس دیتے ہوئے کہا۔
"تم تینوں اس کی بھلائی چاہتے ہو اور اسی کی جان لے رہے ہو، جن کے نام پر تم جھگڑ رہے ہو، وہ بھی اس بچے کی طرح ایک ہے! میرے بھائیو، جاؤ یہاں تمہارا کام نہیں ہے، داکٹر کا کام ہے۔ وہ اپنا کام کر رہا ہے تم اپنا کام کرو ، اس کے لئے دعا کرو ، تم میں سے جس کی روح اور آتما نیک ہوگی اوپر والا اس کی دعا ضرور سن لے گا۔ اور بچہ بچ جائے گا۔"
یہ کہہ کر گربچن سنگھ نے ان تینوں کو رخصت کر دیا۔

اتنے زور سے نندن نے شاید زندگی میں کسی مندر کے گھنٹے نہ بجائے ہوں گے جس والہانہ مدہوشی سے وہ آج بجا رہا تھا۔ آج کیا اس کی آواز رحیم کے کانوں میں پہنچ ہی نہیں رہی تھی؟
رحیم اپنے معبود کے آگے سجدے میں گر کر آنسوؤں کی دھاروں کے ساتھ بچہ کے لئے جو دعا کر رہا تھا، وہ گھنٹے اس میں بالکل کوئی مزاحمت نہیں کر رہے تھے، نہ ہی رابرٹ کو اس سے کوئی فرق پڑ رہا تھا۔

آج ان کی روحوں کے سُر ایک تھے، مقصد ایک تھا، منزل ایک تھی۔ جیسے وہ تینوں ہی ایک تھے۔اس مقام پر جہاں عقل و خرد پر نہیں مار سکتی، جہاں فلسفہ اور لاجک غبارہ راہ کی طرح پیچھے رہ جاتا ہے۔ ایک ایسا مقام جو روحِ انسانیت ہے۔
ان کو نہیں معلوم کہ کتنا وقت گزرا ہے، خود سردار گربچن سنگھ کو بھی نہیں معلوم کہ وہ خود کتنی دیر سے یہ روح فرسا منظر دیکھ رہے تھے، بہرحال انہوں نے چونک کر ان تینوں کو مخاطب کیا۔

"بھائیو! ڈاکٹروں کو بچے کے بچنے کی کوئی امید نہیں تھی لیکن وہ بچ گیا اور اب خطرہ سے باہر ہے۔ میرا خیال ہے وہ تم ہی میں سے کسی کی دعا سے بچا ہے۔ تم میں سے جس کی روح سب سے زیادہ پاک ہے، جس کا ایمان سب سے زیادہ سچا ہے، اسی کی دعا سے بچہ بچا ہے وہ چل کر اس کو لے لے۔ ورنہ میں اس کو یتیم خانے بھجوا دوں گا۔"

"میں تو سب سے زیادہ بے ایمان آدمی ہوں، میں نے زندگی میں بے ایمانی کے سوا کیا ہی کیا ہے، میری پراتھنا کیسے سنی ہوگی پربھو نے؟ مجھے بچہ نہیں چاہئے۔"
نندن نے روتے روتے سب سے پہلے قدم بڑھا کر کہا۔

"میں تو مسلمان ہی نہیں ہوں، مجھ کو مسلمان کہنا بھی شرم کی بات ہے، میں تو سیدھا جہنم میں جاؤں گا انسپکٹر صاحب میرے لئے تو امام صاحب نے بھی یہی کہہ دیا تھا آپ ان سے پوچھ لیجئے۔ یہ دونوں بہت اچھے ہیں ان کو بچہ دے دیجئے میں بس اس کو دیکھ لیا کروں گا۔"
رحیم نے انکار کرتے ہوئے کہا۔

"بچہ کو یتیم خانہ نہ بھجوائیے۔ سردار جی۔"
رابرٹ گڑگڑایا۔
"ان دونوں کو دے دیجئے۔ وہ ہندو ہو کر جئے یا مسلمان، بس جی جائے۔ بڑا ہو کر اچھا آدمی بنے اور بس! میں تو سِنر ہوں، گنہ گار ہوں سالا حرامی ہوں میں تو۔ مجھ سے بہت دور رکھنا چاہئے اس کو۔"

"اس کو دیکھ تو لیجئے آپ لوگ۔"
یہ کہہ کر گربچن سنگھ ان تینوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ یہ سردار جی کا فرض نہیں تھا۔ بہ حیثیت ایک انسپکٹر کے یہ ان کی ڈیوٹی نہیں تھی۔ وہ ان تینوں کو بچہ کے اغوا یا اس کی زندگی کو خطرہ میں ڈالنے کے جرم میں حوالات میں بند بھی کر سکتے تھے۔ لیکن اس وقت وہ انسپکٹر نہیں تھے۔ وہ محسوسات کی ان ہی بلند منزلوں پر سفر کر رہے تھے ، جن بلندیوں پر زندگی ان تینوں الھڑ ،اجڈ، جنگلی غنڈوں کو لے پہنچی تھی۔
جیا کے دودھ کا ٹیسٹ لے کر ہی اس کا دودھ رام محمد ڈیسوزا کو دیا جا رہا تھا۔ بچہ کی گردن پٹیوں میں لپٹی تھی لیکن اب آنکھیں کھل چکی تھیں۔ اس نے ان تینوں کو دیکھا تو اس کے چہرہ پر ایک لطیف مسکراہٹ دوڑ گئی۔
تینوں کی روحیں جاگ اٹھیں، نندن نے دونوں ہاتھوں سے جیا کا شانہ اس پیار خلوص اور ندامت سے دبایا کہ جیا نے اس کے سارے گناہ معاف کر دئیے۔

بچہ کو دیکھ کر تینوں لوٹنے لگے تو تینوں ایک دوسرے کو دیکھ کر رکنے لگے، بچہ کو لینے کے لئے کوئی بھی خود رک نہیں رہا تھا۔ ہر ایک کی نظریں دوسرے سے التجا کر رہی تھیں کہ تو رک جا، اس کش مکش کو دیکھ کر سردار جی نے ان کو آواز دی اور کہا:
"آپ لوگ ٹھہرئیے۔"
"میں بچہ کو یتیم خانہ نہیں بھیجوں گا، آپ تینوں کو ہی اس کو پالنا ہے ، انسانیت کا نیا شوالہ جو آپ لوگوں نے بنایا ہے میرے خیال میں وہی انسان کا مستقبل ہے۔ وہیں اس بچہ کی پرورش ہونی چاہئے۔"

جملہ ختم ہونے سے پہلے ہی نندن، رابرٹ اور رحیم ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔

گلابو کا ہاتھ نندن کے ہاتھ میں تھا، جیا کا ہاتھ رحیم کے ہاتھ میں، رابرٹ کے پیچھے جولی تھی، اور ان کی بانہوں میں رام محمد ڈیسوزا، جو ان سب کی مجسم روح تھی، جب یہ ناچتے گاتے اپنے نئے شوالہ کی طرف قدم اٹھا رہے تھے ، تو مستقبل کے نئے انسان اس دنیا میں آ رہے تھے۔

(ختم شد)

Novel: Ram Mohammad Desouza, Episode:10

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں