« پچھلی قسط --- تمام اقساط »
گذشتہ قسط کا خلاصہ :
ادھر رحیم نے بچے کی ختنہ کرا دی تھی۔ اس کے باوجود نندن نے بچہ کو حاصل کر لیا اور وہ گلابو سمیت درگا کے جھونپڑے میں مقیم ہو گیا۔ لیکن جب بچہ دودھ کی طلب سے بلکنے لگا تب رحیم نے اس کی اطلاع رابرٹ اور جولی کو دے ڈالی۔ جبکہ نندن دودھ کے پاؤڈر کا ڈبہ چرانے کے لیے گرجا گھر میں داخل ہوا۔ وہاں اسے لگا کہ مریم نے اسے مخاطب کیا ہو ۔۔۔۔ اب آگے پڑھیے ۔۔۔
قسط : 01 --- قسط : 08
"میرے پاس آؤ بیٹا! تجھے کیا دکھ ہے؟"
نندن سر پر پاؤں رکھ کر گرجے سے بھاگا اور دور برگد کے پاس آ کر دم لیا، وہاں سے اس نے مڑ کر گرجے کی طرف دیکھا، گرجے کی دیوار کے اوپر سے مریم کا مجسمہ نندن کو برگد کے پاس سے بھی نظر آ رہا تھا۔۔ اس کی عقل چکرا گئی۔
چمتکار صرف اس کی دیوی دیوتا ہی دکھا سکتے ہیں۔ کیوں کہ وہ سچے ہیں حقیقی ہیں، لیکن یہ بھی چمتکار تھا۔ اس کی آنکھوں دیکھا چمتکار۔ مریم نے اس سے بات کی تھی یہ اس کا پکا یقین تھا۔ اس کو یہ شک بھی نہیں ہوا کہ مریم کے مجسمہ کے پاس لگے ہوئے درخت کے سائے میں بوڑھا پادری عبادت کر رہا تھا۔ جو کوشش کے باوجود بھی نندن کو نظر نہیں آیا۔ اور جو نندن کو اس طرح گرجے میں آتے ہوئے دیکھ کر اپنے پاس بلا رہا تھا۔
نندن نے برگد کے پاس سے ایک بار پھر مریم کے مجسمہ کو پرنام کیا اور دل ہی دل میں معافی مانگی کہ وہ بچہ کے لئے دودھ لینے آیا تھا، کوئی ایسی خاص چوری کی نیت اور ارادہ نہیں تھا۔
نندن گھر پہنچا تو اس کو ایک دھچکا اور لگا۔ رابرٹ اور جولی بچے کے لئے دودھ بنا رہے تھے اور گلابو اس کو شیشی سے پلا رہی تھی، نندن کو لگا جیسے مریم نے اس کے پہنچنے سے پہلے اس کی دعا قبول کرلی اور اس بچہ کا پیٹ بھر دیا، حالانکہ رابرٹ اور جولی کو رحیم نے خبر کی تھی۔
قاعدے سے رابرٹ اور جولی کو چاہئے تھا کہ دودھ کا پورا ڈبہ جواب ان کے لئے بےکار تھا گلابو کو دے جاتے۔ مگر رابرٹ نے ایسا نہیں کیا، یہ وعدہ ضرور کیا کہ وہ دونوں وقت دودھ بنا کر بچہ کو پلانے آیا کرے گا۔ نندن رابرٹ کی اس حرمزدگی کو سمجھ گیا کہ وہ دودھ کے بہانے بچہ پر اب بھی حق لگائے رکھنا چاہتا ہے۔ جیسے رحیم مرہم اور پھائے کے بہانے رشتہ قائم رکھنا چاہتا ہے ، لیکن اس وقت اس کا جھگڑے کا خود موڈ نہیں تھا، اس کے دل و دماغ کی تہوں میں یہ مسئلہ گھوم رہا تھا کہ کیا مریم بھی کوئی سچی دیوی ہے جس کا ہندوؤں کو بھول کر اب تک پتہ نہیں چلا ہے؟
گلابو نے نندن کی شرافت، بہادری اور کردار کی بلندی کے سہارے اپنا مذہب بھلا دیا تھا اس نے ایک شرافت کی زندگی کو ہی اپنا مذہب بنا لیا تھا، لیکن اس کا وجود نندن اور درگا کے مذہبی رہن سہن اور رسم و رواج کو ہر لمحہ مجروح کر رہا تھا ، اس نے بہانہ کیا کہ اس کو کھانا پکانا نہیں آتا۔ درگا کی پھٹکاریں اور گالیاں بھی سنیں، اس کے بدلے اس نے کھیت کا کام کاج شروع کیا، گھر سنبھالتی اور رات رات بھر درگا کے پاؤں دباتی تھی ، اپنی انتھک محنت مشقت اور خدمت سے اس نے بڑھیا کو رام کر لیا تھا، پھر بھی ہر نیا لمحہ گلابو کے لئے خطرناک سے خطرناک تر ہوتا جارہا تھا۔
بڑھیا زندگی بھر کی تنہائی سے اس قدر گھبرائی ہوئی تھی کہ ان لوگوں کے آنے سے اس کو ایک کنبہ مل گیا۔ اپنے دل میں وہ گلابو کی کہانی کو جھوٹ سمجھتی تھی۔ اس کا یقین تھا کہ بچہ گلابو کا ہے اور نندن سے ہے۔ پھر بھی یہ بات زبان پر نہ لاتی تھی ، لیکن اس نے اس بات پر زور دیا کہ اس طرح گلابو کا نندن کے ساتھ رہنے اور کھیت پر کام کرنے میں دونوں کی بدنامی ہوگی اس لئے دونوں کو وواہ کر لینا چاہئے۔
نندن کو گلابو جی سے بھا گئی تھی وہ خود یہی چاہتا تھا مگر منہ سے کہہ نہیں سکتا تھا۔ گلابو کی بے پناہ خوبصورتی کی وجہ سے وہ گلابو کو اپنے سے بہت بلند اور برتر انسان سمجھتا تھا۔ درگا کے بات چھیڑتے ہی وہ راضی ہو گیا۔ گلابو منہ سے کچھ کہہ نہ سکی۔ لیکن اتنا بڑا دھوکہ اپنے محسن کو دے بھی تو کیسے؟ درگا نے بیاہ کا دن تاریخ بھی نکلوائی۔ کنڈلیاں بھی مل گئیں۔ کنڈلی ملنےپر گلابو کا خیال حیدرآباد کے دھندلکے میں بھٹکنے لگا۔ کہ ممکن ہے اس کے ماں باپ ہندو ہوں ورنہ اول تو اس کی کنڈلی نکلتی کیسے اور پھر نندن کی کنڈلی سے ملتی کس طرح؟ سب کو خبر ہو گئی ، جوں جوں دن نزدیک آتے جاتے تھے گلابو کی کشمکش بڑھتی جاتی تھی۔ وہ بالکل تنہا تھی اپنے دل کا راز کسی سے کہہ بھی نہیں سکتی تھی۔
درگا کے سینے میں جذبات بھرا دل تھا۔ دل میں پیار کا طوفان بھی اٹھا تھا جس کو پیار کرتی تھی اس کی دلہن بننے کے لئے وہ اپنا سب کچھ تج کر بھاگی تھی لیکن وہ دن اس کو نصیب نہ ہوا تھا ، وہ آج تک کنواری تھی، گلابو کے بیاہ پر اس کو ایسا لگا جیسے وہ خود دلہن بن رہی ہے، اس لئے وہ اپنے سارے ارمان ایک ایک کرکے گلابو کی معرفت پورے کر رہی تھی، یہ ارمان بھرے رسوم گلابو کی زندگی کو اور بھی جہنم بنارہے تھے۔
درگا تیل چڑھانے کی رسم کی تیاری کرنے لگی، اس نے جھونپڑے کے باہر چوک پوتا، امرود کے پتوں کا منڈوا بھی تیار کر لیا۔ جب گلابو کے کپڑے بھی ہلدی میں رنگ دئے تو گلابو کی ہمت ٹوٹ گئی، وہ گھر سے بھاگ گئی۔
گلابو کو نہیں معلوم تھا کہ وہ کہاں جا رہی ہے اور اس کا سفر کہاں ختم ہو گا؟ وہ بس بھاگے چلی جا رہی تھی۔ نندن اور درگا کو بھیانک پاپ سے بچانے کے لئے۔
جب وہ تالاب کے کنارے سے گزری تو جیا کی نظر اس پر پڑی جیا کو گلابو کے بیاہ کی خبر تھی اور یہ بھی معلوم تھا کہ درگا تیل بھی چڑھانے والی ہے۔ اس طرح گلابو کو بھاگتے دیکھ کر وہ سمجھ گئی کہ کچھ گڑبڑ ہے، اس نے دوڑ کر گلابو کو پکڑ لیا۔ گلابو اس سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ جیا اس کو اپنے گھر لے آئی۔
جیا جاہل تھی، اجڈ تھی، مگر عورت تھی۔ اس کو سب سے پہلے یہ خبر رحیم کو دینا چاہئے تھی، مگراس نے ایسا نہیں کیا۔ وہ سیدھی نندن کے پاس پہنچی نندن سے بھی اس نے کچھ اور بات نہیں کی صرف یہی کہا کہ اس کو گلابو کا پتہ معلوم ہے وہ اس کے ساتھ چلے۔
گلابو کے بھاگنے سے نندن کا کلیجہ بیٹھ گیا تھا۔ وہ گلابو کو بےپناہ پیار کرتا تھا، گلابو کی مہک اب بھی اس کے سارے وجود کو مقید کئے ہوئے تھی وہ اس کو دیوی کےسمان سمجھتا تھا۔ جب گلابو بھاگ گئی تو اس کے بھولے دل نے یہی سمجھا کہ وہ خود اجڈ ہے، گنوار ہے، موالی ہے، بدمعاش ہے ، ڈاکو ہے، گلابو اس کو پیار نہیں کرتی تھی، بس اس کے آسرے کے لئے اس کے پاس پڑی تھی۔ وہ بچہ کو گود میں اٹھا کر جیا کے ساتھ ہو لیا۔
جیا کے گھر پہونچ کر نندن کے آنسو بھر آئے، وہ جیا کے جھونپڑے کے اندر نہیں گیا۔ دروازے کے پاس بیٹھ کر اس نے گلابو سے ڈبڈبائی آواز میں کہا۔
"گلابو تو میرے لئے دیوی سمان ہے۔ میں تیری پوجا کرتا ہوں، مجھ کو معلوم ہے کہ میں تیرے لائق نہیں ہوں۔ میرا تیرا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ میں ایک غنڈہ بدمعاش ڈاکو ہوں۔ تو مجھے معاف کر دے اور گھر چل۔ میں تجھ کو ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا۔ قسم ہے اس بچہ کی، تو اسی طرح میرے ساتھ رہ، جب تجھ کو کسی اپنے جوڑ کے آدمی سے پیار ہوجائے گا تو میں تیرا بیاہ اس کے ساتھ کردوں گا۔ میں تیرے چرنوں کی سوگندھ کھاتا ہوں۔"
گلابو کے آنسو بہہ رہے تھے، اب وہ ضبط نہ کرسکی ، تڑپ کر نندن کے پیروں سے لپٹ کر رونے لگی۔
"مجھے معاف کر دے نندو میں تیرے لائق نہیں ہوں ، میں گنہ گار ہوں، میں تجھ سے پیار کرتی ہوں، میں تیرا دھرم نشٹ نہیں کر سکتی میں تجھ کو دھوکا نہیں دے سکتی۔ میں مسلمان ہوں۔"
گاؤں کے تالاب کے اتر کی طرف کچی مٹی کی ایک پہاڑی تھی۔ جس پر سینکڑوں گھنے درخت اگے ہوئے تھے اور ایک چھوٹا سا اندھیرا جنگل تھا۔ بیالیس سال سے اس جگہ کی ملکیت کا مقدمہ تین آدمیوں میں چل رہا تھا، اس وجہ سے کوئی اس کی دیکھ بھال بھی نہیں کرتا تھا۔ یہ بھی مشہور ہو گیا تھا کہ اس میں بھوت رہتے ہیں، اس وجہ سے عموماً لوگ ادھر جاتے بھی نہیں تھے۔ نندن، رحیم اور رابرٹ کا یہی مسکن تھا۔ جب بھی وہ لوٹ مار کر کے غائب ہوتے یا کسی بارات کا کھانا اڑا کر گل ہوتے تھے تو اسی جنگل میں گھس جاتے تھے۔ بارش نے جنگل کی کچی زمین میں بہت سارے بڑے بڑے غار بنا دئے تھے جو ان تینوں کے گھر کا کام دیتے تھے۔
جب نندن کا چار سو بیسی کا بھانڈا پھوٹا تو بچے پر پھر سے سب کا حق لگ گیا اور یہی طے ہوا کہ بچہ کو ایسی جگہ رکھنا چاہئے جہاں تینوں اس کی سرپرستی کر سکیں اور وہ جگہ یہی جنگل تھی۔
غار میں ایک طرف کی مٹی کو ہموار کر کے نندن نے ایک چوکی لگا دی تھی جس پر دیوی کی مورتی استھاپت کردی تھی۔ سامنے دیا تھا اور اوپر درخت کی ٹہنی سے کئی گھنٹیاں ڈوری میں باندھ کر اس طرح لٹکا دی تھیں کہ وہ مورتی کےسامنے بہت خوبصورتی سے جھولنے لگیں۔
اس کے سامنے غار کی کچی دیوار کھود کر رحیم نے ایک طاق بنایا اور دیوار کو کھرچ کھرچ کر اس طرح کاٹا تھا کہ ایک محرابی دروازہ بن گیا تھا۔جس کے آگے مٹی کے ڈھیلے جمع کر کے رحل پر ایک قرآن شریف رکھ دیا تھا۔ اس کے آگے ایک اتنی بڑی چٹائی بچھا دی تھی جس پر تین چار آدمی آرام سے سو سکتے تھے۔ طاق کے ادھر ادھر دو تین پرانے اسلامی کیلنڈر لٹک رہے تھے ، جن پر اللہ، محمد، علی موٹے موٹے حرفوں میں چھپا ہوا تھا۔ ایک پر خانہ کعبہ کی تصویر تھی لیکن نیچے دادر جوتوں کی تعریف لکھی تھی کہ وہ دنیا کے بہترین جوتے ہیں، ان کا پہننا عالم اسلام پر فرض ہے۔
غار کے تیسری طرف رابرٹ کا گرجا تھا، جو سب سے زیادہ خوبصورت تھا کیونکہ اس کو یسوع مسیح کا بت، مریم کا مجسمہ، صلیب اور انجیل سب ہی چیزیں مشن والوں نے مفت دی تھیں، جب کہ نندن اور رحیم کو اپنی جیب سے پیسے بھرنے پڑے تھے۔
گلابو سے نندن کا رشتہ ٹوٹ چکا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ گلابو اس جنگل میں رہے، بات چیت بھی بند تھی، نندن کو گلابو پر بےپناہ غصہ تھا، وہ گلابو کی صورت بھی دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ دراصل وہ اپنی کیفیات کو سمجھ نہیں رہا تھا۔ اس کا غصہ گلابو پر نہیں تھا، خود اپنے مذہب کی ان زنجیروں پر تھا، جو زنجیریں انسانی رشتوں کو جکڑ بند کر کے انسان کو علیحدہ علیحدہ کوٹھریوں میں مقید کر دیتی ہیں۔
اس غصہ کی ایک وجہ اور بھی تھی، یہ معلوم ہوتے ہی گلابو مسلمان ہے۔ رحیم کا گلابو سے ایک اللہ واسطے کا رشتہ پیدا ہو گیا تھا جیسے وہ برسہا برس سے ایک دوسرے کو جانتے پہچانتے ہوں۔ گلابو کو اس غار میں رحیم لے آیا تھا۔ اسی نے اس کو یہاں رکھا تھا، اب گلابو کی ساری ذمہ داری رحیم کی تھی جیسے وہ رحیم کی ہی ملکیت تھی۔ جو نندن کے پاس صرف امانت کے طور رکھی تھی۔ یہاں بھی نندن کی بھولی بھالی سمجھ اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی، دراصل گلابو نے یہاں رہنا رحیم کی وجہ سے منظور نہیں کیا تھا۔ وہ یہاں صرف نندن کے لئے ہی پڑی تھی۔
جیا کو بھی رحیم اور گلابو کی یہ نئی رشتہ داری ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ برسہا برس کی پیاس بجھانے کے لئے جب جیا کو ایک کلہڑ پانی نصیب ہوا تو گلابو نے اس کے مونہہ میں لگنے سے پہلے کلہڑ پھوڑ ڈالا اور وہ پیاسی کی پیاسی رہ گئی۔
وہ صفائی کرنے کے لئے اس جنگل میں آتی تھی، صفائی تو خیر بہانہ تھی وہ رحیم کو یہ احساس دلانے آتی تھی کہ کیوں راجہ میاں! اب ہم کچھ نہیں رہے تمہارے؟
اور وہ واقعی کچھ نہیں رہی تھی۔ بچہ یہاں آکر اس سے چھن گیا تھا۔ وہ اچھوت تھی، نندن کا حکم تھا کہ وہ بچہ کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتی۔ اور کیونکہ جیا کی ذات ہندوؤں کے کھاتے میں درج تھی۔ اس لئے نندن کا حکم جیا پر پوری طرح لاگو ہوتا تھا۔ جس طرح گلابو پر رحیم کا حکم چلتا تھا۔ لیکن بچہ سب سے زیادہ جیا سے ہی ہلا ہوا تھا اب وہ گھٹنیوں چلنے بھی لگا تھا۔ اور ٹوٹے پھوٹے لفظ بھی بولنے لگا تھا۔
اس کے اتنے جلدی بولنے میں نندن، رحیم اور رابرٹ کی انتھک محنت کا بڑا ہاتھ تھا۔ وہ تینوں جب بھی بچہ سے کھیلتے تھے اس کو اپنے اپنے مذاہب کے الفاظ بلوانے کی مجنونانہ کوشش میں لگے رہتے تھے۔ بچہ رام کو "آم" صاف صاف بولتا تھا۔ دوسرا لفظ ذرا بحث طلب تھا، وہ "لالا" کہتا تھا۔ رحیم کا دعویٰ تھا کہ وہ "اللہ ، اللہ" کہتا ہے، رابرٹ کہتا کہ وہ "لارڈ لارڈ" کہتا ہے۔
فیصلہ نندن پر چھوڑا گیا کہ وہ بچہ کی "لالا" غور سے سن کر اپنا بے لاگ فیصلہ دے کہ وہ "لالا"، "اللہ، اللہ " ہے یا "لارڈ لارڈ"؟
کیونکہ بچہ کے آم آم پر کوئی جھگڑا نہیں اٹھایا گیا تھا اور رابرٹ اور رحیم دونوں نے مان لیا تھا کہ وہ رام رام ہی ہے۔ اس وجہ سے دونوں کو یقین تھا رام بالکل غیر جانبدارانہ فیصلہ دے گا۔
نندن نے تین چار دن بہت غور سے بچہ کی لالا کو سن کر اپنا فیصلہ دیا کہ بچہ نہ اللہ اللہ کہتا ہے، نہ لارڈ لارڈ وہ صرف لٹو مانگتا ہے۔ نندن ان دونوں کے دل جلانے کے لئے ایک لٹو بھی لے آیا تھا، اور اس کو بچہ کے سامنے نچا نچا کر لالا کرتا رہتا تھا۔ لیکن بچہ کا سب سے چہیتا لفظ "آ" تھا جو جیا کا مخفف تھا، جیا کو دیکھتے ہی وہ کھل اٹھتا تھا اور ہمک ہمک کر اس کی طرف لپکتا تھا لیکن جیا، نندن کی موجودگی میں اس کو ہاتھ نہیں لگا سکتی تھی۔ بچہ جب اس کی طرف بھاگتا تو وہ بچہ سے بھاگتی تھی، یہ کھیل کبھی کبھی بچہ کے لئے دل شکن بھی ہو جاتا تھا جب بچہ تھک کر رونے لگتا تھا اور جیا بھاگ کر کہیں کونے میں اپنے "آنسو" پینے کے لئے چھپ جاتی تھی۔
جیا کی ذات کی بہت سی عورتیں مرد اپنا دھرم چھوڑ کر بدھ مت میں چلے گئے تھے ، جیا بھی جانے والی تھی، اس میں جانے سے اس کی نیچتا ختم ہو سکتی تھی ، چھوت چھات کے تمام بند ٹوٹ جاتے ، لیکن پتہ نہیں کیوں اس نے ساری ذلالتوں کے باوجود اپنا دھرم چھوڑا نہیں، کونے میں چھپی آنسو پیتے پیتے وہ سوچتی تھی۔
یہ نیچتا کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ یہاں تین تین بھگوان براجمان ہیں، انہوں نے کیا کر لیا؟ نندن جو اس (جیا) کو اچھوت سمجھتا ہے، رحیم اور رابرٹ کے لئے خود ایک اچھوت ہے۔ رحیم کو نندن نیچ اور اچھوت سمجھتا ہے۔ آنکھوں میں آنسو پی کر وہ تینوں خداؤں کی طرف دیکھنے لگی جو تینوں مل کر بھی اس کو ایک معصوم بچہ کو پیار کرنے کا حق نہ دے سکے تھے۔ بدھ مت کے ایک اور چوتھے کو مان کر اس کے بھاگیہ کا لکھا کیسے بدل جاتا؟
اس کو محسوس ہونے لگا جیسے یہ سب خدا گڈے گڑیاں ہیں جن سے انسان کا بچپن کھیل رہا ہے۔
رابرٹ اور جولی نے اپنے مشن کے پاؤڈر کے دودھ کا ترپ کا اکا اپنے ہاتھ میں ہی رکھا، جولی بچہ کے لئے طرح طرح کے کپڑے اور کھلونے لے کر آتی تھی اور اس کے سارے کھلونے کسی نہ کسی زاویہ سے عیسائی مذہب کی تبلیغ کرتے تھے۔
ہر کھلونے پر کراس ضرور بنا ہوتا تھا، بچہ کھلونے ادھر ادھر پھینکتا رہتا تھا۔ مثلاً ایک دن نندن کو دیوی کی مورتی کے ہاتھ میں صلیبی نشان ملا جو بچہ نے ہی کھیل کھیل میں رکھ دیا تھا۔
یہ تینوں اب دن بھر تو بچے کے پاس رہتے نہیں تھے۔ ان کے زندگی کے نقشے بدل گئے تھے ، اس ڈر سے کہیں ان کے مجرمانہ کام ان کو جیل میں پہونچا کر بچہ سے جدا نہ کر دیں، وہ اب کام کرنے لگے تھے۔ نندن نے درگا کی کھیتی لہلہا دی تھی۔ رحٰیم اب شان اسلام اللہ رکھا قوال کی باقاعدہ جگہ لے چکا تھا اور لنگر بابا کے مزار پر اس کی قوالیوں کی دھوم تھی۔ رابرٹ نے اپنے بہنوئی کا کام سنبھال لیا تھا۔ غرض تینوں باقاعدہ اتنے شریف بن چکے تھے کہ رحیم کو نماز تک یاد ہو گئی تھی۔
لیکن شرافت ایک الگ چیز ہے، مذہب الگ۔ اس لئے جب نندن نے اپنی پوتر دیوی کے ہاتھ میں صلیبی نشان دیکھا تو وہ آگ بگولا ہو گیا ، اس کو یقین تھا کہ یہ ہو نہ ہو رابرٹ کی شرارت ہے۔
(باقی اگلی اور آخری قسط میں ۔۔۔)
Novel: Ram Mohammad Desouza, Episode:09
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں