بغیر کسی منصوبے کے ملک گیر لاک ڈاؤن کی وجہ سے عام آدمی سے لے کر متوسط طبقے کے لوگ سخت پریشان ہیں۔ عوام کی اکثریت اپنی روزمرہ زندگی میں بےحال ہو چکی ہے۔ ایک ریاست سے دوسری ریاست نقل مکانی کرکے محنت مزدوری کرنے والے مزدور اپنی آبائی ریاست کو واپس جانے کے لیے بے چین ہیں۔ یومیہ مزدوری کر کے کمانے والوں کا اب کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا۔ ان سخت ترین حالات میں جو لوگ کچھ کرسکتے ہیں، وہ اپنی حیثیت کے مطابق بہت کچھ کر رہے ہے۔ اہل خیر حضرات معاشی تعاون فراہم کر رہے ہیں، تو نوجوان محنت و لگن کے ساتھ اپنا وقت دے کر متعلقہ ذمہ داریاں بخوبی نبھا رہے ہیں۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے غریبوں کی بنیادی ضروریات تک پوری نہیں ہو پا رہی ہیں۔ وہ اتنے مجبور ہیں کہ ایک وقت کے کھانے کے لیے لمبی لمبی قطاورں میں ٹھہرنا تک گوارا کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جو اپنی عزت نفس کی وجہ سے دوسروں کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے، وہ لوگ اپنی ضرورتیں دوسروں کو سہارا بنا کر پوری کر رہے ہیں۔ ایک دوست نے لاک ڈاؤن کے دوران ضروری اشیا کی مفت تقسیم کے سلسلے میں اپنا تجربہ بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ایک کم عمر لڑکا ان کے یہاں سے ایک بار آ کر کھانا لے گیا۔ وہی لڑکا دوسری بار دوسرے کپڑے زیب تن کرکے پھر سے آ کر کھانا لے گیا۔ اسی طرح وہ بار بار کپڑے بدل کر آرہا ہے اور کھانا مانگ کر لے جارہا ہے۔ لڑکے سے انھوں نے اس کی وجہ دریافت کی تو وہ روتا ہوا چلا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس لڑکے کے گھر میں صرف خواتین ہیں۔ اس لڑکے کے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے۔ اس کی پانچ بہنیں اور ماں گھر پر ہی رہتی ہے۔ لڑکے کی ماں دیگر دنوں میں دوسروں کے یہاں برتن اور کپڑے دھونے کے لیے خادمہ کے طور پر کام کرتی تھی، لیکن کورونا وائرس (کووڈ۔19) کی وبا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے انھیں کام کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔
اس طرح معاشرے میں ایسے بہت سے خاندان ہیں، جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران ان ہی امدادی کاموں سے ایسے لوگوں کی بنیادی ضرورتیں پوری ہو رہی ہے۔ ہر ِشخص جس کے اندر ذرا بھی ہمدردی اور رحم کا جذبہ ہے، وہ دوسروں کی مدد کے لیے کسی نہ کسی طرح تیار ہے۔
ہنگامی صورت حال کے موقع پر اس طرح کے کاموں کی اپنی اہمیت ہے۔ لوگوں کی وقتی ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔ لاک ڈاؤن کی اس صورت حال کا مثبت پہلو یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھ رہے ہیں۔ اپنی گاڑھی کمائی کے کچھ حصے کو اس طرح کے امدادی کاموں میں خرچ کرنے پر دلی طور سے مطمئن ہیں۔ امید ہے کہ کورونا وئرس کی یہ وبائی صورت حال بہت جلد ایک نہ ایک بدلے گی اور لوگ پھر سے چین و سکون سے زندگی بسر کریں گے۔
کورونا وائرس کے بعد کی زندگی یقیناً بڑی تبدیلیاں لائے گی، یہ الگ موضوع ہے اس پر تفصیلی گفتگو ہو سکتی ہے۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ اس طرح کی امدادی رقم کا آگے بھی منظم انداز میں اور پوری منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال ہو۔ اس سلسلے میں چند نکات پیش ہیں:
معاشی سرپرستی:
لاک ڈؤان کے اختتام کے بعد جب لوگ اپنی اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہوں گے، اس وقت بھی اسی جذبۂ خیر سگالی کو برقرار رکھنا چائیے۔ امدادی رقم اور صدقات و خیرات کا اجتماعی نظم بنایا جائے۔ جو خاندان معاشی اعتبار سے پستی کا شکار ہیں، محلے واری سطح پر ان کی شناخت کی جائے۔ خاندان کے کسی ایک فرد کو رقمی امداد یا طئے شدہ مدت کے لیے قرض دیں۔ ان ہی پیسوں کے ذریعے متعلقہ فرد چھوٹے پیمانے پر ہی سہی، اپنے کاروبار کا آغاز کر سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ کاروبار سال دو سال کے اندر ہی اچھی پوزیشن اختیار کرلے۔ ایسے میں اس ایک شخص کی بامقصد امداد سے پورا خاندان خود کفیل ہو سکتا ہے۔ بار بار بے مقصد امداد کے بجائے اس طرح منظم کام ہو تو معاشی پستی دور ہو سکتی ہے۔
تعلیمی سرگرمیاں:
ادھر کچھ برسوں سے مسلمانوں میں تعلیم کا رحجان بڑھا ہے۔ اس کے باوجود بھی بہت سے مسلم نوجوان اپنی خاندانی ذمہ داریوں کی وجہ سے یا تو تعلیم حاصل نہیں کر پاتے یا پھر تعلیم کے ابتدائی درجات میں ہی ڈراپ آوٹ ہو جاتے ہیں۔ اس کی دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ مسلم محلوں میں تعلیمی سرگرمیاں بہت ہی کم انجام دی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے لڑکے اور لڑکیاں تعلیم میں اپنی دلچسپی کو برقرار نہیں رکھ پاتے۔ ایسے میں اس امدادی رقم سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔اس کی ایک شکل یہ ہے کہ اس امداد سے تعلیم اور فنی تربیت کے لیے کچھ رقم علیحدہ مختص کر دی جائے۔ تعلیمی امداد کے نام سے اس مختص رقم کے سہارے طلبہ کو مطلوبہ مدد فراہم کی جائے، جو کہ تعلیمی قرض بھی ہو سکتا ہے۔ اس رقم کو فنی اور روزگار پر مبنی کورسیز میں بھی صرف کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے کاموں سے طلبہ میں اجتماعی ذوق پروان چڑھے گا۔ وہ جب اس رقم سے استفادہ کریں گے تو ان کو احساس ہوگا کہ یہ قوم کا پیسہ ہے۔ اس کے بدلے میں مَیں بھی اپنی قوم کے لیے کچھ کر سکتا ہوں۔
خواتین کی خود مختاری:
خواتین کے اندر کئی طرح کے نئے آئیڈیاز ہوتے ہیں۔ اگر وہ انھیں استعمال میں لائیں تو ان کے اپنے انفرادی فائدہ کے ساتھ ساتھ سماج کو بھی بڑے پیمانے پر فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ خود خواتین کے کرنے کے بھی بہت سارے ایسے کام ہیں، جن کو وہ اختیار کر کے مردوں سے بھی زیادہ دولتمند بن سکتی ہیں۔ جیسے وہ کسی بڑی فیکٹری یا ہول سیل دکان سے زنانہ ملبوسات کو خرید کر اپنے گھر ہی سے فروخت کر سکتی ہیں۔ شروع شروع میں اس طرح کا اقدام مشکل اور دقت طلب نظر آئے گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نفع کے بجائے اصل سرمایہ کی لاگت میں ہی نقصان اٹھانا پڑے، لیکن آہستہ آہستہ اس "گھریلو کاروبار" کی تشہیر مختلف ذرائع سے دوسری خواتین تک پہنچے گی۔ دوسری سے تیسری اور اسی طرح اڑوس پڑوس میں یہ بات عام ہو جائے گی کہ فلاں گھر میں اچھے معیار اور عمدہ اقسام کے کپڑے فروخت کیے جارہے ہیں۔ اس طرح ایک خاتون خانہ داری کے ساتھ ساتھ اپنے کاروبار میں بھی مصروف رہے گی۔
موجودہ دور آن لائن کاروبار کا دور ہے۔ اگر معیاری اشیاء کے ساتھ متاثر کن خدمات بھی فراہم کی جائے تو آن لائن دنیا میں اپنے نام یا اپنے ادارہ کے نام کو مقبول برانڈ کی سطح پر لایا جا سکتا ہے۔ یہ صرف بڑی کمپنیوں کی بات نہیں ہے بلکہ کئی ایسے آن لائن کاروبار ہیں، جو مخصوص مقامات کی حد بندی کے ساتھ اپنی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ اس کی ایک عمدہ مثال ریاست تلنگانہ کے ضلع کریم نگر کے نوجوان عبداللہ عاصم کی دی جاسکتی ہے۔ انھوں نے کئی برس قبل کریم نگر کے مخصوص مقامات میں اپنی آن لائن سروس شروع کی۔ جس کا نام 'مائی سٹی کارٹ' ہے۔ جو ترکاری، گوشت اور چاول جیسی ضروری اشیاء کو اپنے صارفین تک گھر بیٹھے آن لائن فراہم کر رہے ہیں۔ اسی طرح گھر کی خواتین بھی آن لائن خدمات فراہم کر سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے آسانی کے لیے اپنے علاقے کے مقامات طئے کر لیں کہ شروعاتی طور پر صرف ان ہی علاقوں میں خدمات مہیا کی جائے گی اور ڈیلیوری کے لیے چند ایک ڈیلیوری بوائے کو رکھ کر اپنی خدمات فراہم کی جا سکتی ہیں۔ خواتین مختلف انواع و اقسام کے کھانے پکانے میں مشہور اور ماہر ہوتی ہیں۔ اس ہنر کو پیشہ ورانہ سطح پر بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
بزرگوں کی خبرگیری:
معاشرہ کا ایک بڑا حصہ بزرگوں پر مبنی ہے۔ غیر مسلم معاشرہ میں بزرگوں کی زیادہ خاطر داری نہیں کی جاتی ہے۔ بزرگوں کے جسمانی عوارض کی وجہ سے گھریلو اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔ انفردی امداد کے ذریعے ایک اجتماعی کام یہ لیا جا سکتا ہے کہ ایسے بزرگوں یا بیوہ خواتین کو ماہانہ وظیفہ دیا جائے۔ تاکہ وہ در در کی ٹھوکر کھانے کے بجائے عزت نفس کو مجروح کیے بغیر اپنی ضروریات کو پوری کر سکیں۔
اکثر و بیشتر مسلمان ماہ رمضان میں خصوصی اہتمام کے ساتھ زکوٰۃ نکالتے ہیں۔ زکوٰۃ کی اس مد کو جہاں دیگر کاموں میں استعمال کیا جاتا ہے، وہیں اس طرح کے اجتماعی کام ان پیسوں کا بہترین مصرف ہیں۔ اس طرح لوگوں کی وقتی ضروریات بھی پوری ہوں گی اور مستقل خوش حالی کا بھی امکان رہے گا۔
حالات کچھ یوں ہیں کہ علامہ اقبال کا یہ معروف شعر بےساختہ یاد آ جاتا ہے:
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
***
Mohammed Rahman Pasha, Musheerabad, Hyderabad.
mrpasha1994[@]gmail.com
موبائل : 07093067074
Mohammed Rahman Pasha, Musheerabad, Hyderabad.
mrpasha1994[@]gmail.com
موبائل : 07093067074
محمد رحمٰن پاشا |
Need for collective work in lockdown period and thereafter. Article: Mohammed Rahman Pasha
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں