کافر کہتا ہے تم سب مسلمان ہو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-04-15

کافر کہتا ہے تم سب مسلمان ہو

muslims fight each other

ہم کہتے ہیں دوسرے مسلمان نہیں
کافر کہتا ہے تم سب مسلمان ہو


ہمارے ایک دوست جن کا تعلق ایک ضلع سے ہے، کسی کام سے قریب کے ایک گاؤں جا کر واپس ہو رہے تھے کہ پولیس نے روک لیا۔ ان کا تعلق ایک جماعت سے ہے لیکن تبلیغی جماعت سے نہیں۔ مگر ظاہری حلیہ پورا تبلیغی ہی ہے۔ ان پر شک کیا گیا کہ وہ دہلی سے آ رہے ہیں۔ انہوں نے پولیس والوں کو بہت سمجھایا کہ تبلیغی جماعت کیا ہے اور ان کی جماعت کیا ہے؟ لیکن پولیس والوں نے ایک نہ مانی اور ان کے ہاتھ پر 14 دن کے قرنطینہ کا اسٹامپ لگا دیا۔

ہم نے پوچھا کہ انہوں نے پولیس والوں کو کیا بتایا؟ انہوں نے جو کچھ جواب دیا اس کا حاصل یہ تھا کہ تبلیغی جماعت عقیدے اور ایجنڈے کے لحاظ سے واقعی تھی ہی ایسی جماعت کہ اس کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ صحیح ہوا، لیکن ہماری جماعت ہر اعتبار سے ارفع و اعلی ہے۔ دوسرے الفاظ میں انہوں نے وہی بتایا جو ہر فرقے اور ہر جماعت میں پہلا بنیادی سبق پڑھایا جاتا ہے کہ ان کی جماعت 73 ویں فرقے والی جماعت ہے اور باقی ساری جماعتیں 72 فرقوں سے تعلق رکھنے والی جماعتیں ہیں۔

ہمیں ایسا ہی ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے۔ ایک مسجد میں فاتحہ پر جھگڑا ہو گیا۔ ایک گروپ یہ چاہتا تھا کہ امام وہ ہو جو نماز کے بعد دعا میں "فاتحہ" بولنے والا ہو، لیکن دوسرا گروپ اسے بدعت سمجھتا تھا۔ ایک گروہ کے امام صاحب اقامت کے بعد جیسے ہی نماز پڑھانے آگے بڑھے، دوسرے گروپ کے دو لوگ آگے بڑھے اور انہوں نے امام صاحب کو بزور پیچھے کیا اور اپنے امام کو آگے کیا۔ پھر کیا تھا، دھکّہ بازی شروع ہو گئی اور بات مُکّہ بازی تک پہنچ گئی۔ ایک دو کے منہ پھوٹے اور ایک دو کے دانت ٹوٹے۔ خیر دونوں نے الگ الگ جماعتیں کیں اور اس کے بعد دونوں پولیس اسٹیشن پہنچ گئے۔
انسپکٹر کوئی ریڈّی صاحب تھے۔ دونوں گروپ FIR لکھوانے پر بضد تھے۔ دونوں گروپ ایک ساتھ بولے جا رہے تھے۔ ایک گروپ ریڈی صاحب کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ فاتحہ اسلام کا کتنا اہم رکن ہے، دوسرا گروپ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہ بدعت ہے۔
ریڈی صاحب پریشان تھے کہ یہ بدعت ہندوستانی آئین میں جُرم ہے یا نہیں، لکھیں تو کیا لکھیں؟ دونوں ہی ایک دوسرے کو سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتے تھے، دونوں کے نزدیک معاملہ کفر اور اسلام کا تھا۔ دونوں کو یہ یقین تھا کہ وہ جہاد علی الحق پر ہیں۔

ہمیں اِن لوگوں سے کوئی شکوہ نہیں۔ یہ بے چارے سیدھے سادے لوگ ہوتے ہیں۔ شفاعت اور مغفرت کا انہیں جو بھی راستہ بتا دیا جائے اسی پر چل پڑتے ہیں، اور جو کوئی اِس سے اختلاف کرے اُس سے الجھ پڑتے ہیں۔
ان کے لئے قرآن و حدیث وہی ہے جو ان کے مولوی صاحب نے یا مرشد نے یا جماعت کے امیر نے بتا دیا ہے، انہی "احبار و رھبان" کی بات بلا چوں و چرا سننا اور عقل کو دخل دیئے بغیر عمل کرنا ہی ان کے نزدیک دین ہے۔
شکوہ ان سے ہے جو ان کے مرشد و رہنما ہیں۔ کیا ان جبّہ و عمامہ پوشوں کو کسی کلمہ گو کی تکفیر یا تحقیرکرنے کی حرمت کے احکام نہیں معلوم؟ کیا یہ شیروانیوں اور ٹوپیوں میں وعظ و تقریر کرنے والےمولوی حضرات، صحابہ رضی اللہ عنھم کا کوئی ایک بھی واقعہ ایسا بتا سکتے ہیں جس میں کسی صحابی نے مذہبی اختلاف کی بنیاد پر کسی دوسرے صحابی کو منافق، مشرک، کافریا بدعتی کہا ہو یا کوئی اور مذاق اڑانے والا نام دیا ہو؟

ہمارے ہی مذہب کے چوکیداروں نے ہمیں مسلکوں اور عقیدوں میں اتنی سختی سے جکڑ رکھا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو ہی پہلے مسلمان ماننے تیار نہیں، جب کہ کافر ہم کو منوا رہا ہے کہ تم سب مسلمان ہو۔
آج ہم سب سن رہے ہیں کہ مسلمان دوکانداروں اور میوہ ترکاری فروشوں کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے، لاک ڈاون ختم ہونے کے بعد آپ دیکھیں گے کہ مسلمانوں کو نوکریوں سے نکالا جائے گا۔ کافر یہ نہیں دیکھے گا کہ آپ تبلیغی ہیں یا سلفی، دیوبندی ہیں یا بریلوی، سنّی ہیں یا شیعہ۔
آج امت پر جو ذلّت، تہمت اور غربت و افلاس کا عذاب آیا ہے یہ صرف انہی لوگوں کی وجہ سے آیا ہے جو اپنے مسلک اور عقیدے کے حق ہونے کی جنگ آپس میں ہی لڑ رہے ہیں اور معصوم مسلمانوں کو لڑوا رہے ہیں۔ ان جاہل مسلمانوں کو ۔۔۔
  • کہ جن کو نہ قرآن سمجھ میں آتا ہے نہ حدیث
  • جو مکمل اندھی عقیدت کے ساتھ ان کے پیچھے چل رہے ہیں
  • جو صبح سے شام تک پچاس چھچھورے واٹس اپ پیغامات تو دیکھ سکتے ہیں لیکن کسی سنجیدہ موضوع پر ایک ورق پڑھنا نہیں چاہتے
  • جو جمعہ کے دن اول وقت مسجد میں داخل ہو کر خطیب کو سننا نہیں چاہتے

آپ دوسرے فرقے یا دوسری جماعت کے مسلمانوں کو اپنی طرح کے مسلمان مانیں یا نہ مانیں لیکن دشمن کے ڈنڈے، تلواریں، گولیاں اور گھروں کو جلانے والی مشعلیں مانتی ہیں کہ آپ مسلمان ہیں!
آپ کو جو شودر بنانے تُلے ہیں وہ بڑے دشمن نہیں ہیں۔ آ پ کے اصل دشمن وہ ہیں جو مسلمانوں کو ہی مسلکوں اور عقیدوں کی بنیاد پر اونچ نیچ بنا رہے ہیں۔ ان کے قرآن و حدیث کی تفہیم انہی مشرکوں کو "اسلام و ایمان یعنی سلامتی اور امان" کی دعوت دینے کے کام نہیں آتی بلکہ مسلمانوں کو ہی اسلام سے خارج کرنے کے کام آتی ہے۔

آج فقہی موضوعات پر ضخیم کتابیں لکھنے والوں سے، عقیدے پر گھنٹوں گرجدار وعظ و تقریر کرنے والوں سے اور اپنے اپنے مسلک کے حق ہونے پر ضد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ اڑ جانے والوں سے یہ ایک مستند حدیث (کم سے کم ایک، ورنہ یوں تو اور بھی حدیثیں ہیں) ۔۔۔ یہ فریاد کر رہی ہے کہ اپنے مسلک اور عقیدے کو ہی حق سمجھنے کے غرور اور تکبّر سے باہر آؤ، وہ تمام موضوعات جن سے مسلک اور گروہی عقیدے تو قائم ہو سکتے ہیں لیکن اسلام کھڑا نہیں ہو سکتا، انہیں چھوڑو اور پہلے اس حدیث پر ایمان لاؤ، اس کو اپناؤ، اسی کو پھیلاؤ اور اسی پر اڑ جاؤ۔ چاہے سامنے والے کا عقیدہ، مسلک اور عمل کتنا ہی برا کیوں نہ ہو، تم اس کا حساب لینے والے اور اس پر لعنت کرنے والے یا سزا دینے والے نہ بنو، اپنی آخرت کا سوچو کیونکہ ہو سکتا ہے یہی ایک حدیث کل قیامت میں تمہارے خلاف نہ کھڑی ہو جائے۔

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے:
"مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور جس کے ہاتھ سے دوسرے لوگ سلامت رہیں۔ اور مومن وہ ہے جس سے دوسرے لوگوں کی جان اور مال امان میں ہوں"۔
بحوالہ: سنن ترمذی 2504 ، بخاری، مشکوۃ۔

آج یقیناً مسلمانوں کے اعمال کفر، شرک، منافقت اور بدعتوں سے بھرپور ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کو قرآن و حدیث میں کہیں ایک جگہ بھی کیا یہ حق دیا گیا ہے کہ ہم کسی کو کافر، مشرک، منافق یا بدعتی کہہ سکتے ہیں؟ اگر اس شخص کا خاتمہ ایمان پر ہو گیا تو کل قیامت میں ہمارا کیا ہوگا؟ کیا ہماری تصانیف، وعظ و تقاریر اور بحث و حجّتیں ہمارے کام آئیں گی؟ یہ الشیخ۔۔۔۔ حفظہ اللہ، دامت برکاتہ، مولانا، سید سادات یا سجّادے ہونے کا لیبل کام آئے گا؟

ہمیں صرف اور صرف دعوت پہنچانے اور اس شخص کے حق میں تہجد میں اٹھ کر دعا کرنے کا حکم دیا گیا۔
لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ
سورہ غاشیہ - آیت: 22

بخدا جس کا مذہب، مسلک یا عقیدہ کسی دوسرے مسلمان کے بارے میں دل میں بھی یہ سوچنے کا حق دے کہ وہ کافر، مشرک، منافق یا بدعتی ہے تو وہ مسلک یا عقیدہ ہی اس کو جہنّم میں لے جائے گا۔
اگر آج ہندوستان میں عزت و وقار کے ساتھ ہم رہنا چاہتے ہیں تو دشمن سے عزت کی بھیک نہ مانگیں، پہلےخود ایک دوسرے کو ویسی عزت دینا سیکھیں جیسی اس حدیث میں حکم دیا گیا ہے۔

***
ڈاکٹر علیم خان فلکی
صدر سوشیو ریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد
aleemfalki[@]yahoo.com
موبائل : 09642571721
ڈاکٹر علیم خان فلکی

Need to change priorities by Muslims. Article by: Dr. Aleem Khan Falaki

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں