مکتوبات محمد حسین آزاد - مرتبہ جالب دہلوی - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-04-14

مکتوبات محمد حسین آزاد - مرتبہ جالب دہلوی - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

maktoobaat-e-azad-jalib-dehlvi

محمد حسین آزاد (پ: 10/جون 1830 ، م: 22/جنوری 1910)
اردو زبان و ادب میں اپنی لازوال تصنیف "آبِ حیات" کے حوالے سے معروف ہیں۔ اردو نظم و نثر میں ایک نئی روح پھونک دینا انہی کا کام تھا۔ فن شاعری میں ذوق مرحوم کے یہ شاگرد رشید عربی اور فارسی میں اعلیٰ دستگاہ رکھتے تھے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں فارسی اور عربی کے پروفیسر کے عہدہ پر فائز رہے۔ ان کے کارہائے نمایاں کے عوض انہیں "شمس العلما" کا خطاب دیا گیا تھا۔
انڈین میڈیکل سروس کے سندیافتہ فوجی ڈاکٹر سید حسن بلگرامی ایک دفعہ بسلسلہ ملازمت امرتسر میں مقیم رہے، جہاں ان کی خط و کتابت محمد حسین آزاد سے رہی۔ یہی منتخب خطوط رسالہ "مخزن" کے 1906 کے شماروں میں سلسلہ وار شائع ہوئے تھے۔ جنہیں بعد میں دفتر مخزن کی اجازت سے لاہور کے ایک اشاعتی ادارہ نے ان منتخب 28 خطوط کو کتابی شکل میں پیش کیا اور جس میں تقریباً 30 صفحات پر مشتمل سید جالب دہلوی کا دیباچہ بھی شامل ہے۔
تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں یہ نادر و نایاب خطوط کا مجموعہ پیش خدمت ہے۔ تقریباً سوا سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 5.5 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

سید جالب دہلوی نے اس کتاب کے دیباچہ کے تحت جو 30 صفحات کی طویل تحریر لکھی ہے (لاہور، 19/مارچ 1907ء) ، اس کا ایک آخری اقتباس ذیل میں ملاحظہ کیجیے ۔۔۔
اہل ملک کی غفلت یا تنگ دلی بھلا اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ کامل چھ ماہ تک آزاد کے ان مکتوبات کی اشاعت کا سلسلہ "مخزن" جیسے وقیع و نامور رسالہ میں جو ماشاءاللہ ہندوستان کے ہر حصہ میں قابل ہاتھوں میں جاتا ہے، برابر جاری رہا اور لائق ایڈیٹر کی جانب سے دو بار یارانِ نکتہ داں کو صلائے عام دیا گیا کہ جن اصحاب کے پاس حضرت آزاد کے کچھ خطوط موجود ہوں وہ انہیں گمنامی کی تاریکی سے نکال کر شہرت کی روشنی میں لائیں اور ان پر تمام شائقینِ اردو کا حق استفادہ تسلیم کر کے مولانا کی سوانح عمری لکھنے والے کے لیے معلومات کا ایک کارآمد ذخیرہ جمع کرنے میں مدد دیں۔ مگر کسی بندۂ خدا نے حامی نہ بھری حالانکہ مولانا کی خط و کتابت جس قدر وسیع تھی اور صرف "آبِ حیات" ہی کی تالیف کے زمانہ میں شعرا و ادبا سے نامہ و پیام کا جو سلسلہ کئی سال تک انہوں نے قائم رکھا تھا، اس کے دیکھتے ہوئے یقین نہیں آتا کہ کسی اور شخص کے پاس ان کی تحریریں نہ ہوں اور ان میں معمولی سے معمولی باعتبار صفائی زبان و افادات مطالب دلآویزی کی شان نہ رکھیں۔ مگر افسوس ہے کہ لوگوں کو توجہ و پروا نہیں اور جو معدودے چند حضرات ان خطوط کی وقعت جانتے بھی ہیں وہ انہیں ضرورت سے زیادہ عزیز رکھتے اور ان کے دکھانے میں بخل سے کام لیتے ہیں، جس سے بڑھ کر کوئی چیز ہماری قدیم صنعتی عظمت کو نقصان پہنچانے والی ثابت نہیں ہوئی۔ حسرت کی بات ہے یا نہیں کہ جس ادیب نے اپنی "آبِ حیات" کے ذریعے سے اساتذۂ قدیم و متاخرین کے ناموں کو زندہ کیا، زبان اردو میں بائیوگرافی کی بنیاد ڈالی اور انشاپردازی کے جنگل میں تذکرہ نویسی اور وقائع نگاری کی ایک سیدھی بٹیا نکالی جس پر اب سینکڑوں اہل قلم چل رہے ہیں اور اپنی ہمت سے اسے شاہراہ بناتے جاتے ہیں، اس کے حالاتِ زندگی کا ہمیں تھوڑا بہت بھی علم نہ ہو، حالانکہ ابھی وہ بفضل خدا ہم میں جیتا جاگتا موجود ہے۔

نامور مصنف و مزاح نگار شوکت تھانوی اپنے ایک مضمون میں سید جالب دہلوی کے تعارف میں لکھتے ہیں ۔۔۔
ترکی ٹوپی پہنے، جس کا پھندنا آگے پڑا ہوا تھا اور پھندنے کے آگے سفید بالوں کا گچھا ٹوپی سے پناہ مانگ کر نکلا بھاگتا تھا۔ پریشان سی سفید ڈاڑھی، ایک ہاتھ میں سگریٹ اور دوسرے میں قلم، میز سے کچھ ہی اٹھا ہوا سر، اس سج دھج سے ایک بزرگ اس طرح لکھنے میں مصروف تھے گویا اونگھ رہے ہیں۔ میرے آنے کا کوئی نوٹس نہ لیا۔ لکھتے رہے، برابر لکھتے رہے، نہ کچھ سوچنا نہ غور کرنا، بس لکھتے جا رہے ہیں۔ اتفاقاً کاتب کے آ جانے سے گردن اوپر اٹھی۔ موقع دیکھ کر میں نے عرض کیا: "السلام علیکم"۔
نہایت کرخت آواز میں جواب ملا: "وعلیکم السلام"۔
خان بہادر صاحب کا خط چپکے سے دے دیا۔ پڑھ کر دزویدہ نگاہوں سے پہلے تو دیکھا، اس کے بعد میرا شجرہ شروع کر دیا:
"آپ کے چچا صاحب قبلہ نے دہلی سے روزانہ اخبار نکالا تھا۔ میں اس میں کام کر چکا ہوں، بلکہ وہ میرے ایک قسم کے استاد ہیں، اور آپ کے ایک بڑے چچا لندن تشریف لے گئے تھے، وہاں سے پھر واپس تشریف ہی نہ لائے۔ آپ کے والد صاحب بھوپال میں تھے ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ"
میں حیرت سے ان کا منہ دیکھ رہا ہوں کہ آخر یہ سب کچھ ان کو کیسے معلوم ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ان کو میرے ہی متعلق نہیں، ہر ایک کے متعلق عام طور پر معلوم ہوا کرتا تھا کہ وہ کون ہے کیا ہے، اس کا خاندان کہاں سے متعلق ہے، اس کی دادی کے کتنی مرتبہ آپریشن ہوا تھا، اس کی نانی کی موت کس مرض میں واقع ہوئی اور اس کے ایک خالو کو کس جرم میں حبسِ دوام بہ عبور دریائے شور کی سزا ہوئی، یہ مقدمہ کن کن عدالتوں میں رہا، کس کس وکیل نے کیا کیا جرح کی وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کی باتیں ہم آپ سب سنا کرتے ہیں مگر یاد نہیں رکھتے۔ میر صاحب کے دماغ میں بلکہ کان میں ایک مرتبہ کوئی بات پڑ جائے، پھر کیا مجال کہ وہ اسے بھول جائیں۔ وہ بات دماغ سے نکلنے کے لیے پھڑپھڑائے گی، مگر میر صاحب کا دماغ یادداشت کا ایسا پنجرہ تھا جس میں کوئی صید ایک مرتبہ آ کر پھر کبھی رہا نہ ہوا۔
میر صاحب کو زندہ انسائیکلوپیڈیا کہا جاتا تھا۔ کسی موضوع پر گفتگو کیجیے، بات کریں گے، بات کی جڑ بتائیں گے، یہاں تک کہ پہنگی بھی بتا جائیں گے۔ حلوہ سوہن، خمیرہ، سرطان، مثنوی مولانا روم، خاندان پہلوی، گاماں پہلوان، پلاؤ کی پخت۔۔۔ غرض تو کیا کوئی موضوع لے لیجیے، گھنٹوں تقریر کریں گے اور اس وثوق سے موضوع کے ہر پہلو کو نمایاں کریں گے کہ جیسے یہ ان کا خاص سبجکٹ رہا ہے۔

***
نام کتاب: مکتوباتِ محمد حسین آزاد
تالیف: سید جالب دہلوی
تعداد صفحات: 115
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 5.5 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
Maktoobaat-e-Azad (Letters of Mohammad Hussain Azad).pdf

Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:

مکتوباتِ محمد حسین آزاد :: فہرست
نمبر شمارعنوانصفحہ نمبر
الفتمہید طبع ثانی5
بدیباچہ مکتوباتِ آزاد (سید جالب دہلوی)7
1خط : 137
2خط : 241
3خط : 344
4خط : 446
5خط : 548
6خط : 651
7خط : 754
8خط : 857
9خط : 960
10خط : 1064
11خط : 1166
12خط : 1271
13خط : 1374
14خط : 1478
15خط : 1581
16خط : 1684
17خط : 1787
18خط : 1889
19خط : 1991
20خط : 2094
21خط : 2196
22خط : 2298
23خط : 23101
24خط : 24103
25خط : 25106
26خط : 26108
27خط : 27112
28خط : 28114

Maktoobaat-e-Azad, the letters of Mohammad Hussain Azad, Urdu pdf download.

1 تبصرہ:

  1. You are doing a marvelous job.Everything is so perfect, all links are valid and all downloads are ideal. No flurry of ads (thank God). The letters by Mohammad Hussain Azad are easily readable and contain the possibly best Urdu as it was written in those days.

    جواب دیںحذف کریں