معشوق جو ہے اپنا، باشندہ دکن کا ہے - مضمون از عبدالصمد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-04-28

معشوق جو ہے اپنا، باشندہ دکن کا ہے - مضمون از عبدالصمد

baig-ehsaas by abdussamad

دکن کی گرم ہوائیں ادھر آتی تھیں تومجھے محسوس ہوتا تھا کہ اس گرمی میں بھی ایک خاص قسم کی ٹھنڈ ک ہے جو گرم ہواؤں کو اثر دار نہیں رہنے دیتی۔ اس ٹھنڈک میں ایک وارفتگی تھی جو دل ودماغ کو محسور کردیتی تھی۔میری سمجھ میں نہیں آتاتھا ایسا کیوں ہے۔ بہت دنوں کے بعدیہ راز کھلا،تب میں اس نتیجے پرپہنچا کہ یہ تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چالیس پینتالیس برس اُدھر کی بات ہے جب نئی کونپلوں نے ابھی جڑ نہیں پکڑاتھا، تازہ واردان بساط ہوائے دل فضاؤں میں اپنے پرپنکھ تول رہے تھے، ہر خراب چیز بھی اچھی لگتی تھی اور ہراچھی چیز کو تو سرپربٹھاکے ناچنے کوجی چاہتاتھا۔ دوستی اور دشمنی کی تعریفیں وضع تو پہلے ہوچکی تھیں،مگر ان کے معنی دل کی بساط سے ابھی کوسوں دور تھے۔ اور منافقت۔۔۔۔۔۔ اس پرتویقین کرنے کوجی ہی نہیں چاہتاتھا جب کہ وہ روز اول ہی سے ذہن وجان کے ساتھ لازم وملزوم کی طرح لگاہواتھا۔اس پس منظر میں ایک نہایت خوبصورت حروف سے مزین خط آپہنچا جس نے اس نئی دنیا میں ایک ہلچل مچادی۔ خط حیدرآباد سے آیاتھا۔ لکھنے والا خود افسانہ نگار تھا مگراس نے افسانہ وغیرہ کی بات کو درکنار کرکے ایک ایسی پیشکش کی تھی جسے جان کرایسا لگا کہ دکن کی جو گرم ہوائیں تھیں وہ اچانک بارش کی خوشگوار اور ٹھنڈی بوندوں میں تبدیل ہوگئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے جسم وجان کومعطر کرگئیں۔
سلسلہ شروع ہوا،دوستی کا۔۔۔۔۔۔
طویل ومختصر دونوں نوعیت کے خطوط۔۔۔۔۔۔ ان میں افسانہ کی باتیں کم ہوتی تھیں،اپنی باتیں زیادہ۔ اپنی پڑھائی لکھائی، اپنے مستقبل کی فکر،آئندہ زندگی کے مبہم نقشے،دکن کے لوگ، وہاں کے موسم، وہاں سے شائع ہونے والے رسالے وغیرہ وغیرہ۔ بھلے ان خطوط میں افسانہ اورکہانی کومخاطب کرکے باتیں نہیں ہوتی تھیں لیکن جوبھی ہوتی تھیں وہ سب بجائے خود کہانیاں تھیں۔ آج محسوس ہو تا ہے کہ ان سے زیادہ اچھی کہانیاں توہم نے کبھی لکھی ہی نہیں۔ ان کے لکھے سے جو سکون بہم پہنچتاتھا اورایک اندرونی تشفی وتسلی کی لہر اوپر سے نیچے تک دوڑتی تھی،وہ پھر کہاں نصیب ہوئیں۔ افسوس چند ناگزیراسباب کے سبب،جن میں کئی بار رہائش گاہ تبدیل کرنا بھی شامل ہے وہ قیمتی خطوط ضائع ہوگئے۔ ورنہ آج ان خطوط کاایک انتخاب مرتب کردیتا توشاید آگے کچھ لکھنے کی ضرورت بھی نہ ہوتی۔ یہ خط ایسے مدہوش کن اورمسحور کن تھے کہ ان کی آمدورفت کی وجہ سے ملنے کاخیال بھی دل میں نہ آتاتھا، ہم ایک دوسرے کوان خطوط میں بہت اچھی طرح دیکھ رہے تھے، پہچان رہے تھے، نہیں ملنے کا غم نہیں ہوتاتھا۔ یوں بھی حیدرآباد بہت دور تھا اور ہم اس لائق ہرگزنہیں تھے کہ تقریب کچھ توبہر ملاقات برپاکرتے۔ وہ توخدا بھلا کرے پروفیسر گوپی چند نارنگ کا کہ انہوں نے مابعدجدیدیت کے تعلق سے دلی میں ایک عظیم الشان اجتماع منعقدکردیا، جس میں ملک کے کونے کونے سے ان تمام لوگوں کوبلایا جن کی تحریروں میں دور دراز کہیں سے بھی معنی کی ہلکی سی روشنی پھوٹتی تھی۔ انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں اتنے لوگ جمع ہوگئے تھے کہ فرداً فرداً سب پردم بھرکے لئے نگاہ ٹکانا بھی مشکل تھا۔ اتنے میں کسی نے پکارا۔
"بیگ احساس ۔۔۔۔۔۔؟"
میں نے چونک کرآواز کوپکڑنے کی کوشش کی۔ آواز ہاتھ آئی تومیں نے اس کے تعاقب میں اپنا ذہن اور اپنی نگاہیں لگادیں۔ دوسری بارآواز کے دوش میں ایک خوبصورت نوجوان سوٹیڈ بوٹیڈ، چہرے پرایک دل فریب مسکراہٹ،خراماں خراماں برآمد ہوا۔ ارے یہی ہیں بیگ احساس ۔۔۔۔۔۔میں لپک کے ان کے پاس گیا۔
"میں ۔۔۔۔۔۔"
"اور میں ۔۔۔۔۔۔"
پھرہم بڑی گرم جوشی سے گلے ملے۔

میں نے کچھ بولنا چاہا،آواز نے ساتھ نہیں دیا،دراصل بہت کچھ قلم سے بولنے کے باوجود اتنی باتیں اندر جمع ہوگئی تھیں کہ ایک ایک کرکے انہیں نکالنا ناممکن ہوگیا اورباتیں تھیں کہ ایک ساتھ باہر نکلنے کو بے تاب تھیں۔ شاید یہی کیفیت بیگ احساس کی بھی تھی۔ وہ گم صم مجھ دیکھ رہے تھے۔ ہم لوگوں کے لئے وہ ایک عجیب لمحہ تھا۔ ہونٹوں پریہ کیسا وقت پڑا ہے۔۔۔۔۔۔ہم بھی چپ اورتم بھی چپ ۔۔۔۔۔۔وہ کسی باغ کا پرسکون گوشہ نہیں تھا جہاں چاہنے والوں کویکسوئی نصیب ہوتی، چاہت توبوندبوند اندراترتی ہے، پہلے تصور میں، پھر سوچ میں، پھرآنکھوں میں، پھر لبوں پر،پھر۔۔۔۔۔۔وہاں توایک جم غفیر تھا،کھوے سے کھوا چِھل رہاتھا۔ بھیڑ نے ہمیں پل بھر میں جدا کردیا۔ ہم کہاں گئے ہمیں پتہ نہیں، وہ کہاں گئے کچھ خبرنہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے بعدہم سمینار کے خاتمے تک ایک دوسرے کودیکھتے رہے، مسکراتے رہے، دیکھا دیکھی سے آگے بات بڑھ ہی نہیں پائی کہ جدائی کا وقت بھی آگیا۔ میں سوچتا رہا،خط میں توباتوں کے دریا بہادیتا ہے، کئی کئی صفحات میں بھی اس کی باتیں مکمل نہیں ہوتیں،لگتا دل میں امڈی ہوئی کسی بات کو باہرلائے بنا نہیں چھوڑے گا۔ اور ملا تو۔۔۔۔۔۔خلوت میں ملے ہیں تو بہت کھل کے ملے ہیں ۔۔۔۔۔۔ محفل میں ملے ہیں توہم انجان بہت ہیں ۔۔۔۔۔۔
پتہ نہیں بیگ احساس کامجھ سے مل کرکیا تاثر ہوا کہ اچانک ہمارے درمیان خط وکتابت کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ اس کی وجہ کم سے کم میں تونہیں جانتا،بیگ بھی یقینا نہیں جانتے ہوں گے،بلکہ وہ توایک پراسرار مسکراہٹ کے ساتھ اتنے اہم سوال کونظرانداز کرنے کی کوشش کریں گے ان کی مسکراہٹ ان کابہت بڑا ہتھیار ہے، اس سے انہوں نے بڑے بڑوں کے تیزوتند ہتھیار کندکردئے ہیں۔ گویا آج تک کوئی ان کی مسکراہٹ کے حقیقی راز تک نہیں پہنچ سکا۔ بیگ ہمارے زمانے کے مونا لیزا ہیں۔ یا توان کی مسکراہٹ بس ایک ہلکا سا تبسم ہے یا پھر اس میں معنی کا ایک جہان پوشیدہ ہے۔ شاید میں سیدھی راہ سے ہٹ گیا، یہ فطری بھی ہے۔ بیگ جیسے سیدھے سادے، شریف انسان پرکچھ لکھنا آسان نہیں، خاص طورپر اس وقت جب یہ احساس ہو کہ اس انسان کے اندر تو بہت سی دنیائیں آباد ہیں،تم کس کس دنیا کوپکڑ کران تک پہنچنے کی کوشش کروگے، کیونکہ ایک دنیا ہاتھ آتی ہے تو دوسری پھسل جاتی ہے، دوسری ہاتھ آتی ہے تو۔۔۔۔۔۔بیگ احساس اس شخصیت کانام ہے جس سے میری قربت نہ ہوتی تو میں شاید اتنی دنیاؤں سے واقف بھی نہیں ہوتا۔
خط وکتابت کا سلسلہ منقطع ہوا تومیں سوچنے لگا کہ یہ تو واقعی عجیب آدمی ہے۔ تحریر میں تواتنا والہانہ پن دکھاتا تھا اورجب روبرو ہوا تو اڑن چھوہوگیا، آخر وجہ کیا ہوئی کہ اس نے یوں منہ موڑ لیا۔ کیا اس سے اب ربط کبھی استوار نہیں ہوسکے گا۔۔۔۔۔۔؟ کیا میں نے ایک عزیز دوست کھودیا۔۔۔۔۔۔؟ایسا تونہیں کہ میں الزام ان کودیتاتھا قصور اپنا نکل آیا۔ میں ان کا کیوں منتظر رہا۔ آخرشروعات توانہیں کی جانب سے ہوئی تھی۔ سب سے پہلے انہوں نے ہی دوستی کا ہاتھ بڑھایاتھا۔ بہر کیف، یہ معاملہ اتنا طولانی ہے کہ آگے بڑھتا ہی جائے گا اور اس کا کوئی حل نہیں نکلے گا۔ یوں بھی آگے چل کر بیگ کی شخصیت کے جودلنواز پہلو میرے سامنے آئے، اس سے اندازہ ہوا کہ وہ ہمارے تعلقات کا محض ایک پڑاؤ تھا اور پڑاؤ پر بہت دنوں ٹھہرانہیں جاتا نہ اسے یاد رکھاجاتا ہے۔
حیدرآباد سے ایک قلبی تعلق تو بہت دنوں سے تھا۔ حیدرآباد اردو کے ہرپڑھے لکھے آدمی کے اندر کسی نہ کسی صورت ضرورت موجود رہتا ہے۔ حیدرآباد ایک حسینہ ہے جس پرنگاہیں دیر تک ٹکی رہتی ہیں۔ اپنے تعلیمی دورمیں،یونیورسٹی کے کچھ ساتھیوں کے ساتھ حیدرآباد گیابھی تھا۔ وہاں سے چند میل کے فاصلے پرراجندر نگر ہے،وہاں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف کمیونٹی ڈیولپمنٹ میں قیام تھا۔ کسی طرح جیلانی بانو صاحبہ اور اقبال متین صاحب سے مل سکاتھا۔ جیلانی بانو سے ان کی پرانی قیام گاہ پر اور اقبال متین سے ان کے دفتر میں۔ کرشن چندر کاابھی ابھی انتقال ہواتھا۔ جیلانی بانو اور بھائی انورمعظم غم سے نڈھال تھے۔ کرشن جی سے ان کے قریبی روابط تھے۔ وہ لوگ زیادہ ترانہیں کی باتیں کرتے رہے۔ اقبال متین نے دفتر سے چھٹی لی اورمیرا ہاتھ پکڑ کر ایک ہوٹل میں لے آئے۔ ان کی محبت اور بے پایاں خلوص میرے ادبی سفر کاایک سنگ میل ہے جسے میں کبھی بھلانہیں پاؤں گا۔ صدی کے اواخر میں حیدرآباد سے میرے تعلقات کی تجدید ہوئی۔ جن لوگوں سے رابطے قائم ہوئے ان میں پروفیسرمغنی تبسم،قدیرزماں، سلیمان اطہرجاوید اوربلاشبہ بیگ احساس۔اس وقت بیگ احساس پروفیسر ہوچکے تھے، عثمانیہ یونیورسٹی میں صدر شعبہ، مغنی تبسم صاحب کے دست راست اور حیدرآباد کی ادبی محفلوں کے روح رواں۔ یہ ایک بالکل نئے احساس تھے جو آہستہ آہستہ حواس ودل پریوں چھاگئے کہ ان کے بغیر نہ حیدرآباد رہا نہ حیدرآباد کا تصور، نہ جنوں رہا نہ پری رہی۔ مغنی تبسم صاحب بڑے آدمی تھے، پیسوں کے معاملے میں بھی، مگران کی بڑائی ان کے پیسوں سے نہیں، ان کی بردباری،سنجیدگی،وسیع القلبی،انسان دوستی، بے پایاں خلوص اوران کی سمندر جیسی خاموشی میں تھی۔ وہ رہتے توایک چھوٹے سے مکان میں تھے مگر صاف محسوس ہوتا کہ وہ پورے حیدرآباد میں رہتے ہیں۔ وہ حیدرآباد میں ہر چہارطرف چھائے ہوئے تھے۔ قلم کے تعلق سے جو بھی حیدرآباد آتا وہ ان کے یہاں حاضری دینا اس لئے ضروری سمجھتا کہ اسے یقین ہوتا اس کے بغیر حیدرآباد کا سفر مکمل نہیں ہوگا۔بیگ احساس ان کے بے حد عزیز شاگرد تھے۔ صرف شاگر دکہنا شاید بیگ کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا، مغنی تبسم صاحب کے شاگرد تو بے شمار تھے، مگربیگ ان تمام شاگردوں میں ایک نگینے کی حیثیت رکھتے تھے، انہوں نے اپنے استاد سے صرف درسی تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ ان سے بہت کچھ سیکھا، سب سے بڑھ کے زندگی کا اسلوب،جو ایک ٹیڑی کھیر ہوتی ہے اورہر کسی کوآسانی سے ہاتھ بھی نہیں آتی۔ بیگ نے ان کی خالی جگہ کویوں بھردیا ہے کہ مغنی صاحب کی کمی کا احساس بہت نہیں کھلتا۔"سب رس" اسی شان کے ساتھ نکل رہا ہے۔ حیدرآباد کی ادبی محفلیں اسی طرح پرونق ہیں، حیدرآباد آنے والے ہر شاعر وادیب کی بیگ اپنے استاد ہی کی طرح پذیرائی کرتے ہیں اوراس کو کسی قسم کی کمی کے احساس سے دوچار ہونے نہیں دیتے۔

بعض شخصیتیں بہت خاموشی سے خالی جگہوں کو پُر کردیتی ہیں۔ خالی جگہیں کچھ دنوں تک خالی خالی نظرآتی ہیں، پھراچانک محسوس ہوتا ہے کہ وہ جگہ خالی نہیں رہی۔ مغنی صاحب کی جگہ کوپُرکرنے کے لیے بیگ کی کوئی باقاعدہ تاجپوشی نہیں ہوئی۔ دیکھنے والوں نے دیکھا، محسوس کرنے والوں نے محسوس کیا کہ بیگ نہایت خاموشی سے مغنی تبسم بن گئے ہیں۔
بیگ احساس نے اپنے چند بزرگوں کے لیے Spaceچھوڑ کررکھا ہے۔ وہ ان بزرگوں کے لیے بھی اسی طرح ناگزیر بن گے ہیں جس طرح مغنی تبسم صاحب کے لیے بن گئے تھے۔ قدیر زماں کے بھی وہ بہت قریب تھے۔ قدیرزماں خود افسانہ نگار تھے۔مگران کی پرامید نگاہیں بیگ پر ٹکی رہتی تھیں۔ دراصل بیگ ان لوگوں کے اوران جیسے دوسرے بزرگوں کے لیے گویا عصا تھے۔
بیگ ایک نہایت قابل بھروسہ دوست ہیں۔ آپ ان سے دل کھول کرایسی باتیں بھی کہہ سکتے ہیں جو دوسروں سے نہیں کہہ سکتے۔ بیگ کبھی آپ کے بھروسے کوٹھیس نہیں پہنچائیں گے۔ ان کے دل کے اندر پتہ نہیں کتنے راز دفن ہیں۔ میرا معاملہ تویہ ہے کہ جب کبھی میرا دل چھوٹی موٹی زہریلی باتوں اور منافقت کی گھٹن سے بھرجاتا ہے، بے چینی بڑھ جاتی ہے،کوئی راستہ دکھائی نہیں پڑتا، کوئی چارہ ساز نظر نہیں آتا تومیں بیگ احساس کو پکڑتا ہوں اور گھنٹوں ان کے سامنے اپنے اندر کے غبار کونکالتا رہتا ہوں، وہ خاموشی سے سنتے رہتے ہیں۔ جہاں جہاں میں غلط ہوتا ہوں، وہاں وہ مجھے ٹوکنے سے باز نہیں آتے، جہاں صحیح ہوتا ہوں وہاں وہ میری تائید کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ ان سے باتیں کرکے مجھے ہمیشہ سکون ملا ہے، اوریہ اطمینان بھی کہ وہ ان باتوں کواپنے ہی تک محدود رکھیں گے۔ کبھی کبھی مجھے محسوس ہوتا ہے کہ بیگ نہ ہوتے تو کیا میں دیوار کے سامنے اپنا بخار نکالتا۔۔۔۔۔۔؟یوں بیگ احساس نے جذبات کے اس تلاطم سے اپنے کوپاک رکھا ہے۔ ان کے قلب میں اتنی وسعت ہے کہ وہ بہت آسانی سے دوست اور دشمن دونوں کواس میں فراخ دلی سے جگہ فراہم کردیتے ہیں۔ ان کا ظرف اتنا بڑا ہے کہ شکایت کا حرف ان کی زبان پرآتا ہی نہیں۔
بیگ احساس کا ایک بڑا کمال یہ ہے کہ دوست تودوست دشمن بھی اپناسمجھنے پر مجبورہوجاتا ہے۔ وہ اِس کی بات کی بھی بہت توجہ سے سنتے ہیں اور اس کی تلخ وتند باتوں کواپنی بے ساختہ ہنسی میں اڑانے کا فن بھی جانتے ہیں۔ میں نے ان کے اس رویے پر اعتراض کیاتھا توان کا جواب تھا، آپ یہ نہیں دیکھتے کہ میں کس طرح انہیں کند کردیتا ہوں۔ یہ خصوصیت بہت کم نصیب ہوتی ہے۔ بیگ وہ دوستوں کے تو دوست ہیں ہی دشمنوں سے بھی رشتہ رکھنے کا فن جانتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں ہے کہ وہ دشمنوں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ ان کا Commitmentہر لحظہ ان کے ساتھ رہتا ہے۔ وہ کسی وقت بھی اسے نہیں چھوڑتے۔ وہ دشمنوں کے درمیان بھی اپنےCommitmentکے ساتھ ہی بیٹھتے ہیں، اوراپنے کسی دوست کے مفاد کا سودا نہیں کرتے۔ وہ اس کے بالکل قائل نہیں کہ اس کے منہ پراس کے جیسی، اس کے منہ پراس کے جیسی۔ جیسا کہ عام وتیرہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن بھی ان پربھروسہ کرتا ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان کی دوستی کسی شرط سے منسلک نہیں ہوتی۔ آپ کے وہ دوست ہیں تو ہیں۔ اس وجہ سے آپ ان سے کسی ایسے فرد سے دوستی کرنے یا راہ ورسم رکھنے سے منع نہیں کرسکتے جو آپ کوپسند نہ ہو۔ کبھی کبھی اس سے الجھن ضرور ہوتی ہے خاص طورپر شروع شروع میں، جب آپ بیگ کو اچھی طرح نہیں جانتے۔ یہ غلط فہمی خود بہ خود دور بھی ہوجاتی ہے کیوں کہ بیگ اپنی دوستی میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھتے، پھر یہ کیوں کسی کو شکایت ہو کہ وہ فلاں کے دوست ہیں۔ بات یہ ہے کہ بیگ اپنے باطن پر بہت محنت کرتے ہیں۔ وہ اسے اتنا صاف رکھتے ہیں کہ وہ ہردم شیشے کی طرح چمکتا رہتا ہے۔ اپنے باطن کے چمکتے ہوئے شیشے پر وہ اپنے ضمیر کویوں منڈ ھ دیتے ہیں کہ ضمیر میاں بھی کھلکھلاکر چمک اٹھتے ہیں۔ بیگ جیسا شخص ہی محبویت کے اونچے درجے پر پہنچتا ہے۔ مجھے تو اس شخص پراکثررشک آتا ہے۔ کس طرح خراماں خراماں اس نے زندگی کے بظاہر کٹھن ماہ وسال گزار لئے، اس کی پیشانی پرکوئی شکن دکھائی نہیں دیتی، اس کے چہرے پرتھکان کے آ ثار نظرنہیں آتے۔
بیگ احساس ان لوگوں میں ہیں جو زمین پربوجھ بن کرنہیں جیتے۔ وہ کٹھن اور سنگلاخ زمین پربھی یوں چلتے ہیں جیسے کسی باغ میں سیر کررہے ہوں۔ انہوں نے دنیا کوکبھی بوجھ نہیں سمجھا اور اسے بوجھ سمجھ کر اپنے اوپر نہیں لادا۔ وہ ریٹائرکرچکے ہیں۔ لیکن ان کے چہرے پراس کے دور دور اثرات دکھائی نہیں دیتے۔ انہیں کوئی پہلی دفعہ دیکھے تویہ سوال اس کے ذہن میں ضرور پیدا ہوا ہوکہ اس شخص کوریٹائرکس نے کردیا،اس کی توابھی نوکری شروع کرنے کی عمر آئی ہے۔
بیگ دنیاوی دوڑ کے حصول میں کبھی شامل نہیں ہوئے۔ورنہ ان کی جو شخصیت ہے اوران کی جوقابلیت ہے ان کی بنا پرانہیں اعلیٰ سے اعلیٰ عہدہ مل سکتاتھا۔ عہدوں کی وجہ سے ان کی شان میں کچھ اضافہ تونہیں ہوتا، عہدوں کی توقیر میں ضروراضافہ ہوتا۔ ویسے انہیں جوکچھ نصیب ہوا، وہ نصیب والوں کوہی نصیب ہوتا ہے۔ انہیں شکرادا کرنا چاہئے اوریقینا وہ خدائے بزرگ وبرتر کے انتہائی شکرگزار ہوں گے کہ انہیں گھربیٹھے وہ سب ملا جس کے لیے دوسروں کوان پررشک آتا ہے۔ فہرست گنوانے سے کوئی فائدہ نہیں، فہرست چھوٹی پڑجائے گی اور قصہ ختم نہیں ہوگا، جو لوگ بیگ احساس کو قریب سے جانتے ہیں وہ اچھی طرح واقف ہیں۔
بیگ جتنے دھیمے اور شانت نظرآتے ہیں ان کے اندر جوش وولولہ اتنا ہی شدید ہے۔ اس جوش وولولے کوانہوں نے محبت، خلو ص، اخلاق اور رواداری میں تبدیل کردیا ہے۔ اخلاق اور خاطرداری میں وہ اس کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ کہیں سے کوئی کمی نہ رہ جائے۔ اس سلسلے میں ان کی بیگم صائمہ ان سے بھی دوقدم آگے ہیں،مگریہ تودیکھنے والے کومحسوس ہوتا ہے ورنہ ہوتا یہ ہے کہ دونوں میں مقابلہ چلتا رہتا ہے کہ اخلاق وخاطر داری میں کون کس سے آگے بڑھتا ہے۔ بیگ کا ذکرکرتے ہوئے صائمہ کانام نہیں لینا سخت بے انصافی ہوگی، صائمہ کے ساتھ نہیں بیگ کے ساتھ۔ وہ ایک دوسرے سے یوں جڑے ہیں کہ ایک اور ایک۔۔۔۔۔۔ ایک ہوگئے ہیں، ان دونوں اکائیوں کوملاکردونہیں کیاجاسکتا۔ صائمہ نے بیگ کی شخصیت میں جہاں تہاں چھوٹی بڑی جو کمی رہ گئی تھی اسے یوں پورا کیا ہے کہ خود بیگ بھی نہیں جانتے کہ ان میں کہاں کہاں صائمہ نے اپنی ہنرمندی دکھائی ہے۔ بیگ کوجاننے والا کبھی بھی صرف بیگ کانام لے کے چپ نہیں ہوسکتا، بیگ صائمہ کے ساتھ ہی مکمل ہوتے ہیں، ایسی بے مثال جوڑی بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں ہرمرد کی ترقی میں عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، اس کی تشریح وتجزیہ بہت کم لوگ کرپاتے ہیں، میرا خیال ہے کہ عورت کا سب سے بڑا Contributionاپنے مرد کوہر طرح سے پرسکون رکھنا ہوتا ہے۔ ان میں سب سے اہم ذہنی سکون ہوتا ہے۔ جس کے بغیر کوئی مرد کوئی بڑا کام انجام دے ہی نہیں سکتا۔ بیگ نے بے شمار بڑے کام انجام دیئے ہیں، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صائمہ نے بیگ پرپس پردہ کس طرح محنت کی ہے۔ بیگ نے دنیاوی فرنٹ کے تقریباً سارے مرحلے طے کرلئے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ نانا بھی بن چکے ہیں لیکن ایک+ایک = ایک کی جوڑی آج بھی سرسبزوشاداب نظرآتی ہے۔ خدا اس جوڑی کونظربدسے بچائے۔

اردو کی ترقی وترویج میں دکن کی جوخدمات رہی ہیں ان کا اعتراف نہ کرنا نہ صرف اردو کے ساتھ بے انصافی ہوگی بلکہ اپنے ساتھ بھی انصاف نہیں ہوگا۔ ادب کا وہ کون ساشعبہ ہے جس پردکن کی گہری چھاپ دکھائی نہیں پڑتی۔ ہم شمال کے لوگوں میں ایک خاص قسم کی ٹیڑھ ہے،جسے ہم خود محسوس کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ صرف زبان اور ادب ہی کے معاملے میں نہیں، زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی ہم اپنے آپ کوحرف آخر سمجھتے ہیں۔ ہندوستان ایک ایسا وسیع اور عجیب ملک جہاں چند میلوں کے فاصلے پرزبان کا ٹون بدل جاتا ہے، زبان نہیں بدلتی،مگرجائزہ لینے والے کواکثر دوسری زبان کا دھوکہ ہوتا ہے۔ دکن اورشمال میں تواتنا فاصلہ ہے کہ ہمارے بعض پڑوسی ممالک ان سے زیادہ قریب ہیں۔ اس لیے لب ولہجے میں فرق نظرآنا عین فطری ہے۔ میں اس سلسلے میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ یہ بحث کا الگ موضوع ہے۔ لیکن میں نے دیکھا کہ شرارتاً بیگ احساس کوبعض لوگوں نے خواہ مخواہ مذاق کا موضوع بنانا چاہا اورمجھے جو شرمندگی ہوئی، اس کے احساس سے میں آج تک پیچھا نہیں چھڑاسکا ہوں، بیگ کے سرخ وسپید چہرے پردونوں بھوؤں کے درمیان ایک ہلکا سا سرخ بھنور ناچ گیا اوربس۔ انہوں نے کبھی اس کا ذکر بھی نہیں کیا۔ یہ ان کی اعلیٰ ظرفی کا ایک ثبوت تھا جو اسی قسم کے بہت سے ثبوتوں میں ایک اضافہ تھا۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اگرآپ حیدرآباد میں چارمینار، گول کنڈہ کا قلعہ، سالار جنگ میوزیم،برلا مندر،عثمانیہ ہوسپیٹل اور وہاں کی یونیورسٹیوں کودیکھنے کا شوق نہیں رکھتے ہوں اور لکھنے لکھانے سے شغف ہوتو آپ کو ہر طرف بیگ احساس ہی بیگ احساس نظرآئیں گے۔ اگرآپ نے حیدرآباد میں بیگ احساس کونہیں دیکھا، ان سے نہیں ملے توآپ نے گویا حیدرآباد کونہیں دیکھا۔ اس کے بعد اگرآپ حیدرآباد کودیکھنا ہی چاہتے ہیں توپھر بیگ احساس کی نظروں سے دیکھئے۔ ان تمام تاریخی مقاموں کو دیکھنے کا لطف دوبالا ہوجائے گا۔ یہ باتیں میں اپنے عزیز دوست بیگ احساس کی محبت میں نہیں کررہا ہوں،مجھے توخیرخواب میں بھی حیدرآباد کے تعلق سے بیگ احساس ہی نظرآتے ہیں۔ میرے لیے حیدرآباد کا نام ہی بیگ احساس ہے۔ میری باتوں کوابھی چھوڑیے اس وقت بیگ احساس کی زبان، اس کی مخصوص ثقافت، اس کی مہمان نوازی، اس کی وسعت قلبی، اس کی رواداری اوراس کے شاندار ماضی کے علامت بن چکے ہیں۔ وہ دنیا میں جہاں بھی جاتے ہیں، حیدرآباد بن کرجاتے ہیں، وہ حیدرآباد کے برینڈ ایمبسیڈر ہیں۔
پرانی اورپائیدار تہذیبیں جس طرح مٹ رہی ہیں اور نئی وغیرپائیدار تہذیبیں سامنے آرہی ہیں اس میں کوئی سنجیدگی سے غور وفکرنہیں کرتا، یہ قومی بحث کا موضوع نہیں بن پاتا۔ لکھنوکی تہذیب تقریباً مٹ گئی، وہ اب لکھنو کے گلی کوچوں اور سمٹی سمٹائی بستیوں میں بھی نظر نہیں آتی۔ اس کی پناہ گاہ کتابیں ہیں، حرفوں نے ابھی تک اس کی حفاظت کررکھی ہے، لیکن جس طرح سے دیمکوں کا فروغ ہورہا ہے، اس کے پیش نظر کہنا مشکل ہے کہ حرف بھی اپنے ہی حرمت کب تک برقرا ررکھ سکیں گے۔ عظیم آباد کی تہذیب فنا ہوگئی۔ کچھ لوگوں نے سینہ بہ سینہ اس کی حفاظت کو ایک مقدس فریضے کی طرح برقرا ررکھا تھا، اب ڈھونڈے سے بھی وہ لوگ نہیں ملتے۔ دلی کی تہذیب، وہاں کی سنگلاخ گلیوں میں کھوگئی، اب جامع مسجد کی سیڑھیوں پربریانیوں کے دیگ پکتے ہیں۔ ایک حیدرآباد ہے جہاں کی جگہ جگہ اپنی جھلک دکھلاجاتی ہے۔ پچھلے دنوں میں حیدرآباد گیا تو وہاں چارمینار کے آس پاس سرخ ترکی ٹوپی پہنے کچھ لوگ نظرآئے۔میری آنکھیں بھیگ گئیں۔ بیگ احساس یوں تو زبان وادب کی حفاظت میں ہمہ تن گوش ہیں، حیدرآبادی تہذیب کا جیتا جاگتا نمونہ، انہیں اس کی حفاظت کے لیے ایک جامع منصوبہ بنانا چاہئے، اس مہم میں انہیں صرف حیدرآباد ہی نہیں پورے ملک کی حمایت ملے گی، کیوں کہ حیدرآبادی تہذیب بھی مٹ گئی توپھر زبان وادب کی بقا پربھی لالے پڑجائیں گے۔
بیگ احساس پرکچھ لکھنا آسان نہیں، وہ اتنی ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں کہ اس کے ہرپہلو پرایک الگ کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے یہاں اس کا موقع نہیں، مجھے توبس اس کی خوشی ہے کہ مختصر ہی سہی، میں نے اپنے بے حد عزیز دوست کی شخصیت پراچٹتی ہوئی نگاہیں ڈالنے کی کوشش کی۔ خدااس کواوراس کی دوستی کو سلامت رکھے۔

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔

Baig Ehsaas, a sketch by Abdus Samad.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں