مجمع الصفات - پروفیسر بیگ احساس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-18

مجمع الصفات - پروفیسر بیگ احساس

Dr-Baig-Ehsas
بیگ احساس نے بڑے ہی تکلف سے مجھے فون پر اطلاع دی کہ 28 تا30 نومبر تین دن کے جشن کا اہتمام ان کے چاہنے والوں نے کیا ہے اور کہا کہ آخری دن کا پروگرام شہر میں ہوگا۔
سوچنے لگا بیگ احساس کی کن صفات پر بات کروں۔ تب بیگ کی صفات تتلیوں کی طرح میری آنکھوں کے سامنے منڈلانے لگیں۔ رنگ برنگی تتلیوں کو پکڑنے کیلئے بچے جس طرح پیچھے بھاگتے ہیں، میں نے بھی ان کا پیچھا کیا۔ زیادہ تتلیاں ہاتھ آئیں تو ان کا سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے۔ چند کا ذکر کئے دیتا ہوں۔ کمی میرے دامن کی کوتاہی کا گلہ ضرور کرے گی۔

اولاً بیگ احساس کی اسی صفت کا ذکر کروں گا کہ وہ ایک معتبر شخصیت کے حامل ہیں۔ ان میں ثقہ پن ہے۔ یہی مثال لے لیں کہ اپنے جشن کے بارے میں اطلاع دیتے ہوئے تکلف کیوں کیا؟ کوئی دوسرا ہوتو اپنے کئی دوستوں کو ٹیلی فون پر اطلاع دیتا۔ خط لکھتا اور یہ بھی فرمائش کرتا کہ اس جشن میں اسے کچھ بولنا ہے۔ بیگ نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ آخر میں شرماتے شرماتے صرف اتنا کہا "گچی باؤلی یا شہر آپ کہیں بھی آسکتے ہیں"۔

دوستوں ہی کی بات ہے تو یہ عرض کردوں کہ بیگ احساس کسی کو آسانی سے دوست نہیں بناتے۔ احتیاط مہینوں اور برسوں تک جاری رہتی ہے۔ خود میرے معاملہ میں چالیس سال سے زائد ہوچکے ہیں۔ نہیں جانتا کہ میں ان کا کتنا دوست ہوں اور کتنا نہیں۔ ورنہ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ وہ کسی سے برسوں تک اجنبی کی طرف ملتے رہے اور اجنبی کی طرح ہی جدا ہوگئے۔ یہ ان کی دوسری صفت ہوئی۔ تتلی بڑی تیزی سے نظر کے سامنے سے اوجھل ہوگئی۔

تیسری بار ایک ساتھ کئی تتلیاں نظروں میں منڈلائیں۔ بیگ احساس کے دوستوں میں چند اہم مشہور و معروف شخصیتیں بھی ہیں۔ ان کی بڑائی وہ دل سے مان لیتے ہیں۔ بہت کم اس بڑائی کا ذکر کرتے ہیں کہ کہیں خوشامد نہ ہوجائے۔ کچھ دوسری طرح کے احباب بھی ہیں۔ ان کی کوتاہیوں سے بھی خوب واقف ہیں لیکن میں نے بیگ احساس کو کبھی ان کی برائی کرتے نہیں سنا۔ معلوم نہیں یہ صفت انہوں نے مغنی تبسم صاحب سے سیکھی ہے یا یہ ان کی اپنی جبلت ہے۔ زیادہ تر خاموش رہنا یا کسی کی تعریف کی بات ہوتو چند گنے چنے الفاظ استعمال کرنا ورنہ چپ رہ جانا ہی ان کا رویہ ہے۔ خاموش رہنے اور خوشامد سے بچے رہنے کی صفات کو آپ تیسری اور چوتھی شمار کرلیں۔

اس کے بعد جو تتلی نظر کے سامنے آئی وہ مچھر کی صفت کی لگتی تھی۔ ابھی ہاتھ آجائے گی لیکن ہاتھ کے پہنچنے سے پہلے وہ نظروں سے غائب ہوجاتی۔ میں نے سوچا بیگ صاحب کا کوئی حریف دشمن بھی تو ہوگا۔ اس سے کوئی ناگوار حرکت سرزد ہوجائے تو اسے درگزر بھی کردیں گے۔ اتنی بھری پری دنیا میں کوئی شخص تو ایسا ہوسکتا ہے جسے ڈنک مارنے کی عادت ہوتی ہے اور جو سب کا دشمن بن جاتا ہے۔ ایسا شخص خود بھی دورسوں کو اپنا دشمن سمجھ بیٹھتا ہے۔ ایسے شخص کو بیگ کبھی نہیں بخشیں گے۔ مرد مجاہد کی یہ بھی تو ایک نشانی؍صفت ہے۔ یہ پانچویں صفت ہے۔

دوستوں کے سلسلے کی یہ بھی ایک کڑی ہے کہ اگر بیگ احساس کے کسی دوست کا کوئی دشمن نکل آئے تو ایسے شخص سے وہ دور رہیں گے اور ساے کبھی اپنا دوست نہیں بنائیں گے۔ اسے آپ چھٹی صفت شمار کرلیں۔

دوستوں اور رشتہ داروں کی بات ہے تو بیگ کی ایک بنیادی اور اہم صفت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے کنبے کو بہت چاہتے ہیں۔ انہیں سنبھال کر رکھتے ہیں۔ یہ عادت انہیں بچپن ہی سے ودیعت ہے۔ شائد اس کا سبب کبر سنی میں اپنے والد کی رحلت اور اس کے بعد قریبی رشتہ داروں سے ہمیشہ کیلئے بچھڑجانا ہوسکتا ہے۔ سبب جو بھی ہو اپنے کنبے سے جڑے رہنا ہندوستانی مرد کی اہم صفت ہے اور ایسے لوگ اور ملک کی خوش حالی اور آسودگی کے بعد بھی فکر مند رہتے ہیں۔ یہ ساتویں صفت ہوئی۔ یہ بسیط اور وسیع ہے۔

اب ذرا ہم تتلیوں کے اس چمن سے نکلتے ہوے آگے بڑھتے ہیں۔ بیگ احساس کی ان دیگر صفات کو تلاش کریں، جو آفاقی ہیں۔ ان کا انکشاف تو ہم پر اس وقت ہوا جب وہ ماہنامہ سب رس کے مدیر بنے۔ قبل ازیں انہیں اپنے پروفیش کے مشاغل سے اتنی فرصت ہی نہ ملی کہ وہ ان کی طرف قدم بڑھاتے۔ اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہیں تو کس سے کریں اور کس ذریعہ سے کریں۔ یہ جاننے کیلئے کچھ اور نہیں سب رس کے جنوری 2013ء کے تازہ شماروں کے اداریوں پر سرسری نظر ڈال لیں۔ ملک میں جو بھی بلات کار ہوئے اور جو دھاندلیاں ہوئیں ان کا ذکر بیگ احساس نے کس دکھ سے کس موثر پیرائے میں کیا اور قوم کو جھنجھوڑا ہے اس کا اندازہ ہوگا۔
23 سالہ فزیو تھراپی کی طالبہ ہوکہ کوئی 80سال کی ضعیف عورت یا پانچ سال کی بچی، ان کے دل دہلادینے والے سانحات، احتجاج کرنے والوں پر پولیس کا لاٹھی چارج، کہیں آبی توپوں کا استعمال تو کہیں بندوق کی گولیاں۔ گلوبلائزیشن، صارفیت، سائنس اور ٹکنالوجی کی کار فرمائیاں۔ آفات سماوی کے حادثات کے دوران انسان کی کمینگیاں، ایک طرف جسٹس مارکنڈے کاٹجو کے بیانات اور اردو کا بدلتا منظر نامہ تو دوسری طرف رشدی، اشیش نندی اور دیپا مہتا کی کارستانیاں۔
کتنی ہی ایسی باتیں ہیں جن پر مدیر صاحب نے اپنے قلم کو دو دھاری نہ بنایا ہو۔ اخبارات میں روز خبریں شائع ہوتی ہیں۔ لوگ پڑھتے اور بھول جاتے ہیں۔ بیگ احساس صرف اردو اخبارات پر اکتفا نہیں کرتے۔ ان کی نظر دیگر جرائد اور ٹی وی پر بھی رہتی ہے اور ہر اس واقعہ کو اپنے اداریے میں شامل کرلیتے ہیں اور ان کا ذکر اس دلخراش اندازمیں کرتے ہیں کہ لوگ ان سے عبرت پاکر ان کے سدباب کیلئے کچھ تو کریں۔ ان کے اداریے بہ یک وقت کئی مسائل پر محیط ہوتے ہیں اور دو تین صفحات سے کم نہیں ہوتے۔ ایک قلم کا دھنی اس سے زیادہ کیا کرسکتا ہے یہاں تک کہ انہوں نے اپنے ہی پیشے سے متعلق تعلیمی جامعات میں ہونے والی بے راہ رویوں کو بڑی بے باکی سے بیان کیا۔
ایک او گوشہ بیگ احساس کے علمی و ادبی اور تخلیقی کارناموں کا رہ جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جشن کے شرکاء اس موضوع پر تفصیلی سے روشنی ڈالیں گے۔ میرا بھی فرض بنتا ہے کہ میں بھی کچھ کہوں۔ بیگ احساس عمر میں مجھ سے 14،15 سال چھوٹے ہوسکتے ہیں، میری طرح انہوں نے بھی اپنی ابتدائی زندگی میں علم حاصل کرنے اور کچھ کر گذرنے کی بڑی جدوجہد کی ہے۔ اسی سے میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس میدان میں میرے ہم عصر ہیں۔ ان سے میری پہلی ملاقات ان دنوں ہوئی جب وہ "فلمی تصویر" میں کام کرتے تھے۔ اس کے بعد ادبی محفلوں میں ملتے رہے لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے وہ کسی کو اپنا دوست بنانے میں بڑی احتیاط برتتے ہیں تاہم ہماری قربتیں بڑھتی گئیں۔ تیزی سے نہیں بلکہ آہستہ آہستہ یہ قربتیں دوستی میں بدل گئیں۔ پھر بھی میں کہہ نہیں سکتا کہ دوستوں کی مختصر فہرست میں میری جگہ کہاں ہے۔
یہ اتفاق کی بات ہے کہ میں نے HSC کے بعد اپنا کیرئیر ٹائپسٹ کی حیثیت سے شروع کیا۔ بیگ احساس نے بھی غالباً اپنا کیریر ٹائپسٹ ہی سے شروع کیا۔ ڈاکٹر آف فلاسفی کی سند حاصل کی۔ لکچرار سے ریڈر اور پھر پروفیسر بنے۔ صدر شعبہ کی حیثیت سے ملک کی نامور یونیورسٹیوں میں فائز رہے۔ استاد کی حیثیت سے نام کمایا۔ اپنے طلباء اور ہم منصبوں میں یکساں مقبول ہوئے۔ درس و تدریس میں جو رتبہ انہوں نے حاصل کیا ان کے بہت کم شریک کاروں کو نصیب ہوا ہوگا۔ تخلیقی فن کار کی حیثیت سے بھی نام کمایا۔ فکشن میں کسی ایک تحریک یا رجحان کے تابع نہ رہے۔ ان کے افسانے جدید بھی ہیں اور علامتوں سے بھرپور بھی۔ تدریس، تخلیق ان کے رگ و پے میں بسی ہوئی ہے۔
ریٹائرمنٹ سے ان کی شخصیت اور کاکردگی میں سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ ان کی اس مستند شخصیت و کوئی دھکا نہیں لگا سکتا جو ان کے پھیلائے ہوئے علم و ادب اور ان کے تحلیقات کی دین ہے۔ بیگ احساس کو ایک اچھے استاد، اچھے فن کار اور ایک اچھے انسان کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

Prof. Baig Ehsas - A bunch of qualities. Article: Qadeer Zaman

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں