بے ثباتی ہی ثبات ہے - معروف اداکار عرفان خان نہیں رہے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-04-29

بے ثباتی ہی ثبات ہے - معروف اداکار عرفان خان نہیں رہے

irrfan-khan

عرفان خان [Irrfan Khan] (اصل نام: صاحبزادہ عرفان علی خان)
(پیدائش: 7/جنوری 1967 ، جےپور، راجستھان)
ممبئی کے کوکیلابین ہسپتال میں آج بروز بدھ 29/اپریل 2020، انتقال کر گئے۔
عرفان خان 2018 سے نیورو اینڈوکرائن ٹیومر نامی کینسر کے ایسے مرض میں مبتلا تھے جو شاذ و نادر ہی کسی کو ہوتا ہے۔ پچھلے مہینے ہی ان کی فلم 'انگریزی میڈیم' ریلیز ہوئی تھی جو ان کی آخری فلم ثابت ہوئی۔ عرفان خان کی والدہ سعیدہ بیگم کا بھی چند روز قبل ہی انتقال ہوا ہے۔ ملک گیر لاک ڈاؤن کے باعث وہ اپنی والدہ کی آخری رسومات میں شامل نہیں ہو سکے تھے بلکہ ویڈیو کالنگ کے ذریعے ان کی آخری رسومات میں شرکت کی تھی۔

نامور اداکار کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے عبیداللہ نور لکھتے ہیں ۔۔۔
"مستقبل میں اگر کوئی اس کشمکش میں ہوا کہ بالی وڈ میں نواز الدین صدیقی اور عرفان دونوں میں بڑا اداکار کون ہے اور اپنی پوری چھان پھٹک کرنے کے بعد دونوں کے کاموں کو اداکاری کے اصول کی ہر کسوٹی سے گزارنے کے بعد اس فیصلے پر پہنچنا مشکل نہیں ہوگا کے عرفان خان نواز سے کہیں بڑا اداکار ہے، اور وہ یہ بات بھی جانے گا کے عرفان کا موازنہ نواز الدین کے علاوہ کسی اور سے ممکن بھی نہیں۔ کسی اور سے عرفان خان کا موازنہ کرنا عرفان کے فن کی توہین ہے"

فلم بینوں کی اکثریت نے عرفان خان کی ایک فلم دیکھی ہوگی جنہوں نے نہیں دیکھی، اور وہ جو سمجھتے ہیں کہ بالی وڈ ادھر ادھر سے اسٹوری چوری کرکے وہی گِھسے پیٹے ایکٹرز کو لے کر فلم بنا کر کروڑوں کا بزنس کرتا ہے، تو وہ بلکل ٹھیک سمجھتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی بالی وڈ اپنی روایت توڑ کر کچھ ایسے شاہکار بھی بنا دیتا ہے جن کو دیکھنا لازم ٹھہرتا ہے۔
عرفان خان کی فلم "مداری" (ریلیز: جولائی-2016) انہی شاہکاروں میں سے ایک ہے۔

ایک مڈل کلاس آدمی جس کا اکلوتا بیٹا ایک پُل گرنے کے حادثے میں مر جاتا ہے تو وہ ایک مڈل کلاس فرد کی طرح خاموشی سے بیٹے کی موت کو حادثہ سمجھ کے بھولتا نہیں بلکہ وہ اس پُل کے گرنے کی تہہ تک پہنچتا ہے اور اس میں ملوث سب کرداروں کے ساتھ مداری لگاتا ہے اور سب کو اپنی ڈگڈگی پہ نچاتا ہے۔

یہ تو ہے فلم کی کہانی کا خلاصہ، مگر شاید یہ فلم اتنی خاص نہ ہوتی اگر اس میں مڈل کلاس باپ کا رول عرفان خان نہ کرتا۔ کبھی یہ فلم یاد نہ رکھی جاتی اگر عرفان خان فلم کے ہر سین میں کہیں اپنی آنکھوں، کہیں مکالمے، کہیں آنسو اور کہیں خاموشی سے حیران نہ کرتا۔ عرفان خان کے فن کی تعریف لفظوں میں کسی صورت بیان نہیں ہو سکتی بلکہ جتنی تعریف کی جائے اتنی کم لگنے والا احساس ہوگا۔

ایک بہترین اداکار کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ اس کے ادا شدہ کرداروں میں سے کسی ایک کو چن کر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو کہ اس کردار میں اداکار نے اپنے پچھلے سبھی کرداروں کو مات دے دی؟ یا اسے کسی بھی رول میں دیکھ کر یہ نہ لگے کہ ارے نہیں، اس رول میں یہ جچا نہیں یا صحیح انصاف نہیں کر پایا۔۔۔ فلم بین اس طرح ہمیشہ کنفیوز رہے اور اس کے فن کو کبھی ضرب تقسیم دے کر حاصل جمع نہ پا سکے۔

عرفان کی اداکاری کا فن تو یہ ہے کہ پوری فلم میں ایک ڈائیلاگ بھی نہ بولے اور آنکھوں سے ساری کہانی سمجھا دے اور فلم سپر ہٹ قرار پائے! یہ مبالغہ آرائی ہرگز نہیں، اس کی آنکھیں ڈائیلاگ بولتی ہیں، غور سے دیکھیے گا۔

مگر واضح رہے کہ ریاضت کے بنا کچھ حاصل نہیں!
عرفان نے خود کو ریاضت کی اس بھٹی میں جھونک کر یہ مقام پایا ہے۔ فلمی بیک گراؤنڈ نہ ہونا، بس دلیپ کمار اور نصیر الدین شاہ کی فلمیں دیکھ کر ایکٹر بننے کا خواب بُن لینا اور خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے گھر سے نکل جانا۔۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ شکل و صورت بول چال کہیں سے بھی ایکٹر مٹیریل نہیں۔ مگر انڈین اسکول آف ڈرامہ جہاں منوج واجپائی جیسا کلاکار آڈیشن میں فیل ہو گیا ہو، وہاں اپنے پہلے ہی آڈیشن میں اسکالر شپ حاصل کرنا، پھر اسی عام سی شکل سے اور آواز کے ذریعے نجانے کتنے انسانوں کو اپنا گرویدہ بنا لینا۔۔۔ محنت تو یقیناً لگی ہے اور ریاضت بھی نظر آئی ہے۔

عرفان کا ہر کرداد لازوال رہا ہے۔ انہوں نے ہر کیٹیگری کی فلم میں کام کیا، چاہے وہ پان سنگھ کا باغی فوجی ہو ، کِلر فلم کا سیریل کلر، مقبول میں ولن، قریب قریب سنگل میں چھچھورا شاعر ، تھینک یو، ہندی میڈیم میں کامک رول۔۔۔ آپ فہرست بناتے جائیں ایک سے بڑھ کر ایک کردار ہر کردار لازوال۔

عرفان کی شروعات ٹی وی سے ہوئی تھی۔ لیکن چھوٹی اسکرین اس کے فن کو سمیٹ نہیں پائی اور پھر لوگوں نے بڑے پردے پر اس کے فن کو دیکھا، سراہا اور چاہا۔ یوں اس ہیرے کی چمک ہالی وڈ تک پہنچی اور اوپر تلے نیچے دس انگلش فلموں میں اداکاری کرکے کے وہاں بھی خود کو ثابت کروایا۔ اب کوئی ایسا فلمی حلقہ نہ تھا جو عرفان کے فن کو نہ پہچانتا ہو، اسے قدر کی نگاہ سے نہ دیکھتا ہو، مگر فلم "کارواں" کی شوٹنگ کے دوارن ان کی زندگی کا کارواں ڈگمگایا اور ہر فلم میں منفرد اداکاری کرنے والے کو بیماری بھی ایسی منفرد لگی کہ اس مرض کے علاج پر بہت کم ریسرچ کی گئی تھی۔ لندن کے اسپتال سے ان کا اپنے دوست کو لکھا خط آیا اور دل چیر کے رکھ دیا جب انہوں نے زندگی کی حقیقت اور اس کے بے معنی ہونے کو بیان کیا۔

عرفان خان کے اس خط کا اردو ترجمہ "قرب عباس" نے کیا ہے۔
بے ثباتی ہی ثبات ہے - عرفان خاں (فلم اسٹار)
کچھ عرصہ قبل معلوم ہوا کہ میں نیورواینڈوکرن کینسر (neuroendocrine cancer) میں مبتلا ہوں۔
میرے ذہن کی لغت میں یہ ایک بالکل نیا نام تھا۔ مزید معلوم ہوا کہ یہ بیماری ہی نایاب ہے، یعنی کم معلومات اور زیادہ خدشات اس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔۔۔ گویا میں اس 'Trial and Error' کھیل کا حصہ بن چکا تھا۔

میں تو کسی اور سمت گامزن تھا۔ ایک تیز رفتار ریل پر سوار۔۔۔ جس میں میرے پاس خوابوں، توقعات، منصوبوں، خواہشوں جیسا سامان تھا۔۔۔ لیکن اچانک ٹی سی نے پیچھے سے آکر میرا کاندھا تھپتھپا کر کہا:
" آپ کی منزل قریب آ چکی ہے، اترنے کی تیاری کیجیے!"
میں بوکھلا سا گیا، میری سمجھ میں کچھ نہ آیا؛
"نہیں نہیں۔۔۔ ابھی میرا اسٹیشن نہیں آیا!"
"نہیں، اس ریل کا یہی اصول ہے، اگلے اسٹیشن پر ہی اترنا ہوگا!"

اور پھراسی لمحے مجھے اچانک احساس ہوا کہ ہم کسی بے وزن کارک کی طرح انجان سمندر میں بے سمت لہروں پر بہہ رہے ہیں، اس غلط فہمی میں کہ ہم ان لہروں پر مکمل اختیار رکھتے ہیں۔
اس بدحواسی، ہڑبڑاہٹ اور ڈر میں گھبرا کر میں اپنے بیٹے سے کہتا ہوں:
" میں فقط اتنا چاہتا ہوں کہ میں اس ذہنی کیفیت کو، اس ہڑبڑاہٹ، ڈر، بدحواسی کی حالت کو اپنے اوپر طاری نہ ہونے دوں۔ مجھے کسی بھی صورت میں اپنے پاؤں چاہیے، مجھے دکھ تکلیف رنج و الم کو اپنے اعصاب پر راج نہیں کرنے دینا!"

میری تو بس یہی خواہش تھی، یہی ارادہ تھا!
کچھ ہفتوں کے بعد ہاسپٹل میں بھرتی ہو گیا۔ بے انتہا درد میرے وجود میں تھا، اس کا تو اندازہ تھا ہی لیکن اس کی شدت سے واقفیت ابھی ہوئی۔ سب کچھ بے سود رہا۔۔۔ نہ کوئی تسلی نہ دلاسہ۔۔۔ یوں کہ جیسے پوری کی پوری کائنات نے درد کا روپ دھار لیا ہو۔ درد جو اس لمحے خدا سے بھی زیادہ عظیم محسوس ہوا۔

میں ناتواں، بے کس، بیزار حالت میں جس ہسپتال میں پہنچا وہاں اسی بے پروائی کے عالم میں معلوم ہوا کہ میرے ہسپتال کے بالکل سامنے لارڈز اسٹیڈیم ہے۔ میرے بچپن کے خوابوں کا مکہ! اسی درد کے حصار میں ہی گھرے ہوئے میں نے دیکھا کہ وہاں ووین رچرڈس کا مسکراتا پوسٹر ہے جس کی جھلک میرے اندر کوئی بھی احساس پیدا نہ کر سکی۔ یوں کہ جیسے وہ دنیا کبھی میری تھی ہی نہیں، میں بالکل اس سے بے نیاز ہوں۔
اسی درد کی گرفت میں جب میں اپنے ہسپتال کی بالکنی میں کھڑا تھا تو یہ احساس ہوا۔۔۔ جیسے موت اور زندگی کے اس کھیل کے درمیان صرف ایک سڑک کا فاصلہ ہے، سڑک کے اُس پار کھیل کا میدان ہے اِس طرف ہسپتال ہے، میں ہوں کہ ان میں سے کسی ایسی چیز کا حصہ نہیں جو متعین ہونے کا دعویٰ کرے۔ نہ ہاسپٹل اور نہ اسٹیڈیم۔۔۔
دل بول اٹھا:
"صرف بے ثباتی کو ہی ثبات ہے۔"

اسی احساس نے مجھے سپردگی اور بھروسے کے لئے تیار کیا۔ اب چاہے جو بھی نتیجہ ہو، یہ چاہے جہاں لے جائے، آج سے 8 مہینوں کے بعد، یا آج سے 4 مہینوں کے بعد، یا پھر 2 سال۔۔۔ فکر رفتہ رفتہ معدوم ہونے لگی اور پھر میرے دماغ سے جینےمرنے کا حساب نکل گیا۔
پہلی بار مجھے لفظ " آزادی" کا احساس ہوا، صحیح معنی میں! ایک کامیابی کا احساس۔

اس کائنات کا یہ سچ میں میرے یقین کو کامل کرگیا اور اس کے بعد لگا کہ وہ یقین میرے جسم کے ریشے ریشے میں بھر گیا ہے۔ وقت ہی بتائے‌گا کہ وہ ٹھہرتا ہے کہ نہیں! فی الحال میں یہی محسوس‌کر رہا ہوں۔
اس سفر میں دنیا بھر سے لوگ میرے صحت مند ہونے کی دعا کر رہے ہیں، میں جن کو جانتا ہوں اور جن کو نہیں جانتا، وہ سبھی الگ الگ جگہوں اور ٹائم زون سے میرے لئے عبادت کر رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کی دعائیں بھی مل‌ کر ایک بڑی طاقت میں تبدیل ہوگئی ہیں۔۔۔ جو کہ تیز رفتار زندگی کی روح کی مانند میرے دھڑ سے ہوتے ہوئے سر سے پھوٹنے لگی ہے۔
یہ پھوٹھنے لگی ہے کبھی کوئی کلی بن کر، کبھی کسی پنکھڑی کی طرح، کبھی ٹہنی اور کبھی شاخ کی طرح!
میں ایک حسین اور پُرلطف احساس کے تابع انہیں دیکھتا ہوں۔ لوگوں کی نیک خواہشات، پرخلوص الفاظ سے پھوٹتی ہر ٹہنی، ہر پتی، ہر پھول میری زندگی کو حیرتوں، خوشیوں اور تجسس سے سرشار کیے جاتی ہے۔
اب احساس ہوتا ہے جیسے ضروری نہیں کہ لہروں پر تیرتے کارک کا ان پر اختیار بھی ہو!
یہ تو یوں ہے کہ جیسے آپ فطرت کی آغوش میں جھول رہے ہوں!

Irrfan Khan, Bollywood's Trailblazer, dies aged 53

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں