ناول رام محمد ڈیسوزا : قسط - 06 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-03-27

ناول رام محمد ڈیسوزا : قسط - 06


Novel Ram Mohammad Desouza, Episode-06

گذشتہ قسط کا خلاصہ :
نندن بچہ کے مسئلہ کو ہمیشہ کے لیے حل کرنا چاہتا تھا، اس لیے اس نے رابرٹ سے مل کر کنکریوں والی مثال سے سمجھانا چاہا کہ بچہ ہندو ہی ہے۔ مگر رابرٹ بھڑک گیا۔ دوسری طرف رحیم رات میں بچہ کو لے کر مسجد کے اندر گھس گیا اور رات اس نے وہیں مسجد کے آنگن میں بسر کی۔ صبح مصلیوں اور امام صاحب کی چیخ پکار پر اس کی آنکھ کھلی ۔۔۔۔ اب آگے پڑھیے ۔۔۔

قسط : 01 --- قسط : 05

"السلام علیکم"
جیسے شنکرا کی دھوتی کوے کی بیٹ گرنے سے اچانک پھر سے گندی ہو گئی ہو۔ اس نے اپنے جاپ کی اسی لے کو قائم رکھتے ہوئے "جے جے ہنومان" سے "السلام علیکم" کی کاٹ کی اور پھر سے دھوتی کو تالاب میں بھگو کر پتھر پر پھیچنے لگا۔
تالاب کی سیڑھیوں کے سب سے اوپر کی سیڑھی پر شانِ اسلام قوال گھٹنوں تک لنگی باندھے بائیں ہاتھ میں مٹی کا بندھنا لئے داہنے ہاتھ سے دتون کرتے ہوئے شنکرا کے ہٹنے کا دیر سے انتظار کر رہے تھے۔ وہ شنکرا کی حرکت کو تاڑ گئے۔
"آپ کا اشنان ہو چکا ہو تو اب۔۔۔۔"
"بس ایک منٹ اسلام صاحب۔"
شنکرا "شان اسلام" پورا نہیں کہہ پاتا تھا اس لئے اس نے اس کا مخفف "اسلام صاحب" کر لیا تھا۔
"ہم ہندوؤں کی بڑی کٹھنائی ہے ، ہم بنا اشنان کئے کبھی پوجا نہیں کر سکتے۔ آپ لوگوں کے مزے ہیں اپنے جمعہ کے جمعہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
اپنے مذہب کی سختی کی اس شکایت کے پیچھے جو شنکرا نے اپنے دھرم کی بڑائی اور اسلام پر ایک ضرب لگائی۔ وہ اسلام صاحب کے جگر کے پار ہوئی، وہ بلک اٹھے۔
"مسلمان تو پیدا ہی پاک ہوتا ہے ، ہم کو روز روز نہانے کی کیا ضرورت ؟ اور پھر مسلمانوں کا غسل غسل ہوتا ہے، یہ نہیں ہوتا۔"
اتنا کہہ کر اسلام صاحب نے شنکرا کے نہانے کی پوری نقل اسی طرح اتاری جس طرح وہ ابھی ڈرتے ڈرتے ایک لٹیا سے نہاکر کپکپا رہا تھا، پھر ایک للکار کے ساتھ انہوں نے شنکرا سے کہا:
"اب مسلمانوں کا غسل دیکھو۔"
یہ کہتے ہوئے اسلام صاحب نے "اللہ اکبر" کا نعرہ لگا کر اسی جگہ سے تالاب میں غوطہ لگا دیا۔
اڑتے ہوئے پانی کے چھینٹوں سے بچنے کے لئے شنکرا دھوتی لے کر تالاب کی چار پانچ سیڑھیاں چھلانگ گیا اور تین چار سیڑھیاں چڑھنے کے بعد اس نے تالاب کی طرف مڑ کر دیکھا۔ پانی کی سطح ہموار تھی اسلام صاحب کا پتہ نہ تھا۔ چار پانچ سیڑھیاں اور چڑھنے کے بعد شنکرا نے پھر نظر ڈالی مگر اسلام صاحب نظر نہ آئے۔ اب شنکرا کو ذرا گھبراہٹ ہونے لگی۔ تالاب کی آخری سیڑھی پر پہنچنے کے بعد بھی جب شان اسلام نے پانی سے سر نہ نکالا تو شنکرا سے رہا نہ گیا۔ وہ بھاگ کر نیچے آیا اور زور سے چیخا:
"اسلام صاحب"
تالاب سے بازگشت ہوئی اور رابرٹ کا بڑا بہنوئی ڈیلبی "گڈ مارننگ" کہتا ہوا پانی سے نکلا۔

ڈیلبی کو بچہ میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ رابرٹ سے سخت عاجز تھا اور بچہ کے بارے میں عیسائی عورتوں نے جو یہ چرچا شروع کر دیا تھا کہ بچہ دراصل رابرٹ اور جولی کا ہی ہے، اس وجہ سے ڈیلبی اور بھی چراغ پا تھا۔ لیکن مشن کے سسٹروں اور فادروں نے اس کو یہ احساس دلایا تھا کہ سوال بچہ ، جولی یا رابرٹ کا نہیں تھا بلکہ یہ پوری عیسائیت کے تحفظ کا مسئلہ تھا اور اس کو راضی کر لیا تھا کہ وہ قصبہ کے با اثر لوگوں سے بات کرکے اس مسئلہ کو حل کرے۔ ڈیلبی نے جب تالاب کے دوسرے کنارے سے شان اسلام اور شنکرا کو باتیں کرتا ہوا دیکھا تو سوچا کہ یہ موقع اچھا ہے دونوں مذہبوں کی سب سے با اثر ہستیاں ایک ہی جگہ موجود ہیں۔ وہ تالاب کے اس کنارے سے غوطہ لگا کر اس کنارے پر آیا، لیکن اس نے دیکھا کہ شان اسلام کا پتہ نہیں ہے۔
"شان اسلام کدھر گل ہو گیا؟"
"لگتا ہے اسلام پر قربان ہو گیا۔"
یہ کہہ کر شنکرا نے تالاب میں اسلام صاحب کو بچانے کے لئے غوطہ مار دیا۔ ڈیلبی اور بھی حیران ہو گیا، جب شنکرا کے غوطہ مارتے ہی شان اسلام نے پانی سے سر نکال کر پھولتی ہوئی آواز میں کہا:
" اس کو کہتے ہیں اسلامی غسل، سمجھے۔"
پھر شان اسلام کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ وہ شنکرا کی جگہ ڈیلبی سے باتیں کر رہے ہیں، انہوں نے پوچھا:
"وہ شنکرا کدھر گیا؟"
"اسلام صاحب کو بچانے۔"
ڈیلبی نے تالاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
"یہ تو صرف ایک ڈبکی تھی۔ جب تک تین ایسی ڈبکیاں نہ لگائی جائیں، اسلامی غسل کو غسل نہیں کہا جا سکتا۔ جب وہ نکلے تو اس سے کہہ دینا۔ اگر وہ نکلے!"
"اپنے کو تم دونوں سے بہت جروری بات کرنی ہے۔"
"میری نماز قضا ہو رہی ہے، میں کوئی بات نہیں کر سکتا۔ مجھ سے نماز کے بعد آ کر ملنا۔"
یہ کہہ کر شان اسلام سردی سے لرزتے ہوئے چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد ہی شنکرا گھبرایا ہوا پانی سے نکلا اور ڈیلبی سے بولا۔
"نہیں نکلا اب تک۔"
"وہ گیا۔ اور کہہ گیا ہے کہ یہ تو ابن کی ایک ڈبکی تھی، جب تک ایسی تین ڈبکیاں نہ لگائی جائیں اسلامی گسل گسل نہیں ہوتا۔"
شنکرا کا دل کوفت سے ٹوٹ گیا۔ اس نے دل ہی دل میں مسلمانوں کو ایک گالی دے کر کہا۔
"اسلام صاحب کے لئے میں نے اپنی پوجا کی دھوتی بھی بھگو لی اور وہ مجھ کو طعنہ مار کر چلا گیا۔ یہ مسلمان۔۔۔۔۔۔۔۔"

ڈیلبی کو اہم بات کرنا تھی اس لئے اس نے ہندو مسلم کے اس جھگڑے میں پڑنا مناسب نہیں سمجھا۔
"شنکرا اپن کو تم سے بہت جروری بات کرنا ہے۔ باہر آ جاؤ۔"
لیکن شنکرا ابھی تک بپھرا ہوا تھا۔
"ڈیلبی، تم پہلے پھیسلہ کرو، تم نے اسلام صاحب کی ڈبکی بھی دیکھی ہے اور میری بھی۔ کون سی ڈبکی لمبی تھی ہندو کہ مسلمان؟"
شنکرا سمجھتا تھا کہ ڈیلبی کو اس سے کوئی غرض اٹکی ہے، اس لئے فیصلہ اس کے حق میں ہوگا۔ لیکن یہ ساری عیسائیت کے تحفظ کا مسئلہ تھا!
"جو یہ بات ٹھیری ہے تو فیصلہ تم کرو ، کرسچینٹی کا کوئی مذہب پوری دنیا میں مقابلہ نہیں کر سکتا۔"
یہ کہہ کر ڈیلبی نے سینہ پر انگلی سے تثلیثی نشان بنا کر تالاب میں ڈبکی مار دی۔

شنکرا نے "دھت تیرے کی" کہہ کر بھیگی دھوتی اتار کر نچوڑی ہوئی دھوتی باندھ لی ، مسجد سے اذان اور مندر سے گھنٹوں کی آوازیں آنے لگیں، اور شنکرا سیڑھیاں چڑھ کر مندر جانے لگا۔ لیکن چلتے چلتے اس کو ایک سچائی کا گیان ہو گیا ،جو اس نے چلاکر ڈوبے ہوئے ڈیلبی سے کہہ دی۔
"ہندو دھرم تلاب کے اندر شریر کی ڈبکیوں میں نہیں ہے ، ڈیلبی، ہندو دھرم آتما کی ڈبکیوں میں ہے جو ہم پرماتما کی کھوج میں لگاتے ہیں۔ سنا تم نے۔۔۔۔۔۔۔اب تم چاہے جندگی بھر ڈوبے رہو۔۔۔۔۔۔۔۔اور ڈوبے ہی رہو تو اچھا ہے۔۔۔۔۔پاپ کٹے گا۔"

رحیم کو اس وقت ان لوگوں کی تکرار اچھی نہیں لگی، جس مسئلہ کا وہ فیصلہ کرنا چاہتے تھے اس سے کہیں اہم مسئلہ کا حل رحیم کو کرنا تھا۔ اس نے یہی ٹھیک سمجھا کہ تالاب کا یہ حصہ چھوڑ کر اس طرف چلا جائے جو حصہ نیچ ذات والوں کے لئے برسہا برس سے مقر ر ہے۔ بستی کے دور کے حصے کی طرف تالاب کٹ کر ایک طرف نکل گیا تھا اور وہاں ایک چھوٹا سا گندا تالاب اور بن گیا تھا ، رحیم اسی حصہ میں پہنچ گیا۔
یہاں سناٹا تھا اس نے بچے کے کپڑے اتار کر اس کو ننگا کیا اور تالاب کے کنارے پانی میں پاؤں ڈال کر اس طرح بیٹھ گیا کہ بچے کو اپنے دونوں گھٹنوں پر بٹھا کر نہلاسکے۔ نہلانے کا خیال آتے ہی رحیم کے دل میں جذبۂ اسلام دہک اٹھا۔ بچہ کو نہلانا پڑ ہی رہا ہے تو کیوں نہ اس کو اسلامی غسل دے کر تمام نجاستوں سے پاک کر لیا جائے؟
وہ گندا تو تھا ہی۔۔۔ آخر اس کو جولی نے بھی چھوا تھا اور نندو نے بھی پیار کیا تھا، اس جذبے کے تحت اس نے بچہ کو خوب رگڑ رگڑ کر نہلایا۔ بچہ جس قدر چیخ سکتا تھا چیخا، اس کو چپ کرانے کے لئے رحیم نے خود بھی چیخنا شروع کر دیا تھا۔ کبھی کوئی لوری، کبھی کوئی قوالی کبھی زور زور سے محض "ڑاڑاڑا" کی رٹ لگاتا تھا۔ بچہ چپ تو نہیں ہوا لیکن اس کی آواز رحیم کی آواز میں ڈوب کر گم ہو گئی اور بچہ صاف ستھرا ہو گیا۔
اب سوال آیا بچہ کو تین ڈبکیاں دینے کا۔ اس کے ایک دل نے اس کو ڈرایا کہ ممکن ہے کہ بچہ کو نقصان پہنچ جائے مگر جذبہ اسلامی نے یاد دلایا کہ وہ لوگ بچہ کو سیلاب سے نکال کر لائے تھے۔ اور بچہ کو کچھ نہیں ہوا۔
یہ خیال آتے ہی اس نے جسارت کرکے بچہ کو تین بار اللہ اکبر کہہ کر تین ڈبکیاں دے دیں اور بچے کے دھوئے ہوئے، نچوڑے کپڑوں سے جلدی جلدی پونچھ کر اس کو سوکھی گھاس کے بستر پر لٹا دیا۔
بچے کے گلے کا چاندی کا کراس اب بھی رحیم کے دل میں کھٹک رہا تھا، لیکن وہ کراس کو بچہ سے علیحدہ نہیں کر سکتا تھا، کیوں جب بھی بچہ روتا تھا وہی کراس اس کے مونہہ میں دے کر اس کو چپ کیا جا سکتا تھا ، بچہ کو لٹا کر وہ خود جلدی سے کپڑے اتار کر تالاب میں کود گیا اور اپنے کپڑے دھوتے دھوتے بھی بچہ سے طرح طرح کی باتیں کرتا رہا تاکہ بچہ بہلا رہے۔ جیسے ہی اس نے اپنے کپڑے دھو کر کنارے پر پھینکے ا س کو جیا تالاب کی طرف آتی ہوئی نظر آئی۔

جیا ہندو تھی، ناپاک تھی، بچہ غسل کر کے پاک ہو چکا تھا اس لئے اس نے تالاب کے اندر سے ہی جیا کو ڈانٹا کہ وہ بچہ کو ہاتھ نہ لگائے ، لیکن بچہ نے جیسے ہی جیا کو دیکھا، کراس کو مونہہ سے نکال دیا، اور ا پنے دونوں ننھے منے ہاتھ اس کی طرف بڑھا کر چیخنے لگا۔ جیسے وہ پہچان گیا کہ وہ اس کا دودھ پی چکا ہے ، جیا سے نہیں رہا گیا۔
"میں تم کو اس کی ہتّیا نہیں کرنے دوں گی سمجھے، تمہارا جو جی چاہے کر لو۔"
یہ کہہ کر جیا نے ٹھنڈ سے سکڑتے ہوئے بچہ کو گود میں اٹھا کر اوڑھنی کے اندر چھپا لیا۔ رحیم تالاب سے للکارا۔
"جیا میں تیری جان لے لوں گا۔"

(باقی اگلی قسط میں ۔۔۔)

Novel: Ram Mohammad Desouza, Episode:06

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں