ناول رام محمد ڈیسوزا : قسط - 05 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-03-23

ناول رام محمد ڈیسوزا : قسط - 05


Novel Ram Mohammad Desouza, Episode-05

گذشتہ قسط کا خلاصہ :
رحیم رات کے اندھیرے میں بچتا بچاتا جیا مالن کے گھر گھسا تو وہاں پتا چلا کہ وہ بکری کے دھوکے میں بکرا اٹھا لایا ہے۔ جیا نے بچہ کو اپنا دودھ پلا دیا۔ دوسری طرف جولی چاہتی تھی کہ پولیس چوکی کے انچارج انسپکٹر سردار گوربچن سنگھ کے پاس رحیم کے خلاف رپٹ لکھا دی جائے مگر رابرٹ یہ نہیں چاہتا تھا۔۔۔ اب آگے پڑھیے ۔۔۔

قسط : 01 --- قسط : 04

نوکر اس قدر زیادہ دہشت زدہ ہوکر اندر بھاگا کہ دیکھنے والے ہکا بکا رہ گئے۔ سردار جی کی گھن گرج آواز۔ ان کی آدھی اردو آدھی پنجابی جملوں کا طوفانی دریا اور دہکتے ہوئے غصہ کی وجہ سے لوگوں کی سمجھ میں اصلی بات ذرا دیر میں آئی۔ بات یہ ہوئی تھی کہ سردار جی کی بیوی رنجنا نے اندر مہمانوں کے لئے لسی تیار کی تھی اور وہ بہت دیر سے نوکر کو آواز دے رہی تھی مگر وہ دن میں بھی بوتل چڑھا کر نشہ میں جھوم رہا تھا۔ جب کہ گھر میں اتنے مہمان ایک گھنٹہ سے آئے بیٹھے ہیں۔ سردار گوربچن سنگھ کی شرمندہ اور مغموم صورت دیکھ کر سب کو ایسا محسوس ہوا جیسے واقعی بچہ سنگھ نے سب کے سامنے سردار جی کی ناک کاٹ ڈالی ہے۔ اور اب فریقین کے لئے اصلی مسئلہ یہ ہے کہ سردار جی کی ناک اور بچہ سنگھ کی جان دونوں کو ایک ساتھ کیسے بچائیں!
بچہ سنگھ جب لسی کے گلاسوں کی ٹرے لئے ڈر سے کپکپاتا ہوا باہر آیا تو اس کے دیو قامت جسم پر اس کا ننھے بچہ کی طرح معصوم چہرہ دیکھ کر سب لوگوں کو اس پر اتنا ترس آیا کہ فریقین بھول سے لسی کے گلاس ایک دوسرے کو تقسیم کرنے لگے۔
لسی پینے کے دوران اپنے نوکر کے اخلاقی گناہ کو لاٹھی بنا کر اس کے سہارے سردار گوربچن سنگھ مہابھارت اور راجپوتی عہد کے سورماؤں کی اخلاقی بلندیوں کا ذکر کرنے لگے۔ ہمارے وہ آباء و اجداد جو کسی بڑے اصول یا پاکیزہ مقصد کے لئے خونی جنگ کرتے تھے۔ بھائی بھائی کے خلاف، دوست دوست کے خلاف، تلواریں نکال کر میدان میں دشمن بن جاتے تھے مگر شام کو جنگ کا نقارہ بند ہوتے ہی ایک دوسرے کے خیموں میں جاکر گلے ملتے تھے ، ہنسی خوشی ساتھ کھاتے پیتے تھے ، ایک دوسرے کے زخموں پر مرہم رکھتے تھے اور فن سپہ گری پر گفتگو کرتے تھے۔ یا وار کرنے والا، گھائل ہونے والے سے شرمندہ ہوکر اعتراف کرتا تھا کہ کمال اس کے وار کا نہیں تھا بلکہ اس نے زخم کھانے والے کی کسی مجبوری کا فائدہ اٹھا لیا تھا، یا جس کا سینہ چاک ہوا ہے وہ اس تلوار کی داد دیتا تھا جس تلوار کی کاٹ نے اس کا سینہ چاک کیا، اپنے قاتل کے ہاتھ چومتا تھا جس کے بے پناہ وار سے وہ بچ نہ سکا۔

اللہ کی کرنی کچھ ایسی ہوئی کہ کہانی کے اس موڑ پر سردار گوربچن سنگھ کی نظریں بھی مڑیں ، اور اب ان کو فریقین کے زخم نظر آئے ، وہ مہابھارت کے زخموں پر ہنستے ہنستے سیدھے قصبہ کے زخموں پر آ گئے اور فن لاٹھی گری کے نازک نکات کی بحث کرتے کرتے انہوں نے کئی ہاھوں کی اکھڑی ہوئی ہڈیاں ایک ایک 'کھٹاکے' میں بٹھا بھی دیں۔ اور اپنی بیوی کا ریشمی دوپٹہ جلوا کر اس کی راکھ سر کے زخموں میں ان ہی ہاتھوں سے بھروا دی جن ہاتھوں نے وہ زخم لگائے تھے۔ کتوں کی طرح آپس میں لڑنے والے جنگلیوں کے دماغ اور دل انہوں نے مہابھارت سورماؤں کے بلند خیالات اور جذبات سے بھرکر ان کو انسان بنا دیا۔
سردار گوربچن سنگھ کی حسین بیوی رنجنا نے اپنا ریشمی دوپٹہ اس مسرت سے جلا کر اس کی راکھ بنائی جیسے وہ مکئی کا آٹا گوندھ کر مہمانوں کے لئے کھانے کے لئے گرم گرم روٹیاں بنا رہی ہو۔
آپس کی سر پھٹول کی وجہ سے رنجنا کے ریشمی دو پٹہ کی قربانی نے فریقین کو شرم سے پانی پانی کر دیا مگر دوپٹہ کی آگ میں ان کی آپس کی نفرت اور کدورت بھی جل کر راکھ ہو گئی۔
بس ایسا ہوتا تھا سردار گربچن سنگھ کا انصاف۔ نہ حق دار کو اس کا حق ملتا تھا نہ مجرموں کو ان کے جرم کی سزا۔ جزا اور سزا دونوں بس بیوی کے ہاتھ کی لسی۔

بچہ کسی حد تک عیسائی بنایا جا چکا تھا۔ اس لئے عیسائی مشنریوں کی پوری مشین بغیر کسی آواز کے حرکت میں آ چکی تھی۔ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی لیکن ایک درجن مشنریز مرد اور عورتیں رحیم کی ٹوہ میں پھر رہے تھے۔ رابرٹ کو ان کی دخل در معقولات بہت بری لگ رہی تھی۔ اس نے ان سب کو بہت منع کیا کہ یہ مسئلہ صرف اس کا اور اس کے دوست کا مسئلہ ہے۔ رحیم اور بچہ کو ڈھونڈنے کے لئے اس کو اپنے کتے جارج پر پورا بھروسہ تھا کہ رحیم جہاں کہیں بھی ہوگا جارج اس کی کھوج لگالے گا لیکن اب مشن والے اس اجڈ کو کس طرح سمجھاتے کہ یہ مسئلہ رابرٹ کا مسئلہ نہیں، گاڈ کا مسئلہ ہے۔ اس لئے ہولی سن [holy son] کا مسئلہ ہے، اس لئے پوپ کا مسئلہ ہے ، رابراٹ کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔

نندن اپنے آپ کو دونوں دوستوں سے زیادہ سمجھدار اور سلجھا ہوا آدمی سمجھتا تھا ، اس نے پاگلوں کی طرح رحیم کا پیچھا کرنا شروع نہیں کیا وہ اس مسئلہ کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فیصلہ کرنا چاہتا تھا۔ اس لئے اس نے ساری رات مراقبہ میں اس اٹل حل کی کھوج میں کاٹی جس سے رحیم اور رابرٹ کوئی منکر نہ ہو سکے۔
تلیہ میں مسلمان اور عیسائی مٹھی بھر تھے اس لئے بچہ کا عیسائی یا مسلمان ہونے کا امکان ہی بہت کم تھا۔ اس لئے سوکھی سخت مٹی کی مٹھی بھر کنکریاں لے کر ان کو اپنے تھوک سے نشان لگانے کے لئے گیلا کیا اور پھر ان کو سوکھی کنکریوں کی ساری ڈھیری میں ملا دیا اور آنکھیں بند کر کے ایک کنکری اٹھا لی۔ دیکھا تو یہ کنکری سوکھی تھی، اس کا یقین اور پکا ہو گیا کہ بچہ ہندو ہی ہے۔ اس نے یہ عمل کئی مرتبہ کیا، ہر دفعہ اس کے ہاتھ میں سوکھی کنکری ہی آتی تھی۔ اس کا جوش اس قدر بڑھ گیا کہ وہ سب کنکریاں اپنی قمیص کے دامن میں لے کر رابرٹ کے پاس پہنچا۔ رحیم کا تو پتہ نہ تھا اس نے سوچا کہ ایک ایک کر کے فیصلہ کر لینا چاہئے۔

نندن کی دلیل تو رابرٹ کی سمجھ میں آ گئی لیکن اس کا اقرار کرنا اس کے دل نے گوارا نہ کیا ، نندن رابرٹ کی ہچکچاہٹ سمجھ رہا تھا اس لئے اپنی منزل کی طرف بڑھتا گیا ، اس نے کنکریوں کا ڈھیر زمین پر ڈال دیا اور پھر ایک مٹھی اٹھا کر کہا۔
"ہندوؤں کے مقابلہ میں عیسائی اس سے زیادہ نہیں ہو سکتے۔" یہ کہہ کر اور تھوڑی سی کنکری مٹھی کی کنکریوں میں ملا دیں تاکہ بعد کو رابرٹ یہ اعتراف نہ کرسکے کہ اس نے عیسائیوں کی تعداد کم رکھی تھی پھر اس نے مٹھی کی کنکریوں پر اچھی طرح تھوکا اور ان کو باقی سب ڈھیری میں اچھی طرح ملا دیا اور فتح کے یقین کے ساتھ رابرٹ سے کہا۔
"رابرٹ اب تم خود آنکھیں بند کر کے اپنے ہاتھ سے ایک کنکری اٹھا لو، اگر سوکھی کنکری آئے تو سمجھ لو بچہ ہندو ہے اور اگر تھوک والی آئے تو مان لوں گا کہ بچہ عیسائی ہے، بند کرو آنکھیں۔"

لیکن اس نے دیکھا کہ رابرٹ کے چہرے کا رنگ سرخ ہو گیا، رابرٹ نے کہا:
"آنکھیں تو میری ہمیشہ سے بند تھیں، اب کھلی ہیں، نندن بچہ تو ویسے عیسائی تھا ہی لیکن اگر نہیں بھی تھا تو ہو چکا ہے۔ رہ گئی کنکریوں کی بات تو میں یہ بے عزتی ہرگز برداشت نہیں کر سکتا۔ میں تم سے اس کا بدلہ لے کر رہوں گا۔ تم نے یہ سب عیسائیوں پر تھوکا ہے۔"
نندن کو اس قسم کا کوئی خیال بھی نہیں آیا تھا۔ وہ صلح آشتی سے ایک فیصلہ کرنے آیا تھا۔ تھوک تھوک نہیں تھا، ایک نشانی تھی، ایک پہچان تھی۔ اس نے رابرٹ کو یہ بات سمجھانے کی پوری کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکا، کامیاب تو تب جب رابرٹ کی سمجھ میں نندن کی بات نہ آ رہی ہوتی۔ رابرٹ سب سمجھ رہا تھا لیکن نندن کی اس بھیانک عملی دلیل سے بچ نکلنے کے لئے اس وقت تھوک سے بہتر کوئی اور ردِ دلیل نہیں ہو سکتی تھی!

قصبہ کے تالاب کی سیڑھیوں پر ، کھیت کی منڈیر پر کسی پہاڑی یا ٹیلے کے دامن میں رحیم کہیں بھی آرام سے سو جاتا تھا، لیکن بچہ کو اوس، نندن اور رابرٹ سے محفوظ رکھنے کے لئے مسجد سے بہتر کوئی جگہ رحیم نہیں سوچ سکا۔ مگر مشکل یہ تھی کہ مسجد میں خدا تھا اور رحیم اپنے آپ کو جہنمی سمجھتا تھا۔ وہ شیر کی کچھار میں بلا کسی خوف و خطر کے جا سکتا تھا لیکن مسجد کے اندر قدم رکھنا اس کے لئے زندگی کا سنگین ترین مسئلہ تھا۔
مسجد کے شکستہ دروازہ کی کنڈی اندر سے بند رہتی تھی۔ یہ فرض آخری نمازی کا ہوتا تھا کہ جب وہ باہر آئے تو دونوں دروازوں کو بھیڑ دے۔ دونوں شکستہ دروازوں کو بند کرنے کے بعد بھی دونوں کے بیچ میں اتنی جگہ رہتی تھی کہ باہر سے پورا ہاتھ اندر ڈال کر کنڈی لگا دی جاتی تھی۔ یہ انتظام کتا، بکری وغیرہ کے لئے تھا کہ وہ اندر نہ جا سکیں۔
کنڈی کھولنے کے لئے اندر ہاتھ ڈالتے ہوئے رحیم ہچکچا رہا تھا جیسے ایک دم سے خدا اس کا ہاتھ پکڑ لے گا کہ: "کیوں بے آج آیا پکڑ میں، بہت بھاگا بھاگا پھر رہا تھا"۔
ہاتھ ڈالنے سے پہلے اس نے بڑے احترام سے پاجامہ کے نیفہ میں اڑسی ہوئی ٹوپی سر پر پہنی، اس کا رواں رواں خوف سے کھڑا ہو گیا تھا۔ رگ رگ پھڑک رہی تھی۔ دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا، کہ وہ ڈرنے لگا کہ بچہ جاگ جائے گا۔ اس کے چہرہ پر پسینہ کی دھاریں بہنے لگیں ، اس کا سارا وجود خدا سے اپنے تمام گناہوں کی معافی مانگ رہا تھا۔
"میں تیرا گناہگار ہوں، میں تیرا کوئی حکم نہیں مانتا۔ میں تیری نماز بھی یاد نہ کر سکا۔ تو مجھ کو جہنم میں جلائے گا تو مجھ کو تجھ سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔ لیکن میں تیرا ہی بندہ ہوں اور آج آخر مجھ کو تیرے دروازے پر پناہ کے لئے آنا پڑا ہے۔ یہ بچہ معصوم ہے۔ مسلمان ہے۔ اس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ اس کو اپنے گھر میں پناہ دے دے۔"

اس نے ہاتھ سے کنڈی کھول کر دروازہ کو ذرا دھکا دیا۔ ایک کریہہ "قین" کے ساتھ دروازہ کھل گیا۔ اور رحیم اچھل کر پانچ قدم پیچھے پہنچ گیا۔ اس نے دور سے داہنے بائیں ہوکر مسجد کے ہر گوشے کو دیکھا جیسے کسی نہ کسی جگہ خدا نظر آ جائے گا۔ لیک مسجد میں سناٹا تھا۔ دروازے کے آگے ایک بیری کا درخت لگا تھا۔ مسجد کے طاق میں ایک روشنی کا نقطہ تھا، بس۔ رحیم آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا مسجد کے اندر آیا۔ بیری کے درخت کے کچھ ہی آگے مسجد کی چوکھٹ شروع ہو جاتی تھی۔ اور اس کے آگے مسجد کا دالان۔ رحیم کے پیٹ میں جولی کی شراب تھی، اس خوف سے وہ مسجد کی چوکھٹ پر قدم نہ رکھ سکا۔ پاس پڑی ہوئی ٹوٹی بیری کی ایک سوکھی ڈال کو بانس بناکر اس نے مسجد کے اندر سے چھوٹی چھوٹی چٹائیاں گھسیٹ لیں اور بیری کے نیچے ان کا گدّا بناکر اس پر بچہ کو لٹا دیا اور ایک چٹائی اوڑھ کر خود بیری کے تنے کا ٹیکہ لے کر بیٹھ گیا۔
مسجد کی شکستہ حالت دیکھ کر رحیم کو خدا کی حالت پر ترس آ رہا تھا ، خدا جس نے دنیا بنائی، چاند ستارے بنائے، جنت و دوزخ بنائی۔ اسی خدا کا اپنا گھر جیا مالن کے جھونپڑے سے بھی بدتر حالت میں تھا!
خدا کی یہ مصلحت اس کی سمجھ میں نہ آئی۔ لیکن آج وہ مسلمانوں کی مصلحت سمجھ گیا کہ وہ کیوں مسلمانوں کے علاوہ اور کسی دوسرے مذہب والے کو مسجد میں نہیں آنے دیتے۔ مسلمان بھائیوں کی اس سمجھ داری کی وجہ سے اس کو ایک خوشی بھی ہوئی۔ کیوں کہ اگر رابرٹ یا نندن مسجد کی یہ حالت دیکھ لیں تو کتنا مذاق اڑائیں، اس کے خدا کا۔ اگر وہ دونوں یہ مسجد دیکھ لیتے تو کیا یہ بات کہنے سے چوکتے کہ جو اپنا گھر بھی نہیں بنا سکتا اس نے بڑی دنیا کیا بنائی ہوگی! رحیم نے طے کیا کہ وہ مسجد کی مرمت کرے گا، سفید چونے سے مسجد کی محرابیں اور دیوار، ہرے رنگ سے مینار اور گنبد رنگے گا، نئی چٹائیاں اور تسبیحیں لائے گا۔ اس طرح اس کی روح نے اس کے دماغ کو سلا کر خود قربت الٰہی کی طرف آہستہ آہستہ پرواز شروع کی۔

رحیم نیند سے چونک کر بہت دیر تو ہکا بکا ہی رہا، وہ بس یہ دیکھ رہا تھا کہ امام صاحب آگ بگولہ بنے اپنی قرات دار گھن گھرج آواز سے اس پر برس رہے ہیں، ان کی اذان سے بھی کبھی اتنے مسلمان اتنی صبح نماز کے لئے مسجد میں جمع نہیں ہوئے تھے جتنے اس وقت جمع ہوکر حیرت سے رحیم کی طرف دیکھ رہے تھے۔ مولوی صاحب کی گرج کے جواب میں صرف بچہ بلک بلک کر فریاد کر رہا تھا۔ جب اس نے بچہ کو گود میں لپٹایا، تب اس کو اچانک احساس ہوا اور اس پر بجلی سی گری۔ بچہ نے نمازیوں کی چٹائیوں پر پاخانہ کر دیا تھا۔ رحیم کی آنکھوں کے تلے اندھیرا چھا گیا۔ امام صاحب اس کو نظر نہیں آرہے تھے لیکن وہ ان سے گڑگڑا گڑگڑا کر کہہ رہا تھا کہ وہ مسجد کی ساری چٹائیاں دھوکر پاک کر دے گا اور بہت سی نئی چٹائیاں لا دے گا۔ لیکن اس کے وعدوں سے امام صاحب کا غصہ اور زیادہ بڑھتا ہی گیا۔
"تو مسجد سے نکل ملعون جہنمی۔"

رحیم بچہ کو لے کر تالاب کی طرف بھاگا۔
پو پھٹنے والی تھی، گاؤں جاگنے لگا تھا، ہوا میں کافی خنکی تھی۔ گاؤں کے تالاب کی کچی سیڑھیوں پر شنکرا پہلوان اشنان کے لئے پہنچ گیا تھا، اس نے تالاب کے پانی میں انگلی ڈال کر دیکھا، پانی بہت ٹھنڈا تھا، اس نے پوری ہمت ایک نکتہ پر سمیٹ کر جلدی سے پیتل کی گول لٹیا اپنے سر پر انڈیل لی اور سردی کی کپکپاہٹ کے احساس کو کم کرنے کے لئے مونہہ ہی مونہہ میں کچھ اشلوک پڑھنے لگا۔ اس نے جلدی سے سوکھی دھوتی باندھ کر بھیگی دھوتی کو پانی میں پھینچ کر باقاعدہ تالاب کے پتھر پر اتنے احتیاط سے دھویا گویا اس کا اصلی جسم جس کی پاکیزگی بہت ضروری تھی وہ وہی دھوتی تھی۔ وہ بھگوان کے نام کا جاپ کرتے کرتے دھوتی نچوڑ رہا تھا کہ آواز آئی:
"السلام علیکم!"

(باقی اگلی قسط میں ۔۔۔)

Novel: Ram Mohammad Desouza, Episode:05

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں