شعلۂ جوالہ - افسانے از رشید جہاں - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-03-28

شعلۂ جوالہ - افسانے از رشید جہاں - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

shola-jawwala-rasheed-jahan

ڈاکٹر رشید جہاں (پ: 25/اگست 1905، علیگڑھ - م: 29/جولائی 1952 ، ماسکو)
پیشہ طب سے وابستہ وہ ترقی پسند افسانہ نگار تھیں جن کا نام ترقی پسند تحریک کے بانیوں میں شمار ہوتا ہے۔ ان کے والد شیخ عبداللہ علی گڑھ کے مشہور ماہر تعلیم، مصنف اور مسلم گرلس اسکول اور ویمنس کالج علیگڑھ کے بانی تھے۔ رشید جہاں نے لیڈی ہارڈنگ میڈیکل کالج سے 1929ء میں ایم۔بی۔بی۔ایس کی ڈگری حاصل کی۔ لڑکپن ہی سے ادب میں گہری دلچسپی ہونے کے سبب لکھنے لکھانے کا بھی شوق پیدا ہو گیا تھا چنانچہ 18 سال کی عمر میں انہوں نے معاشرتی موضوع پر انگریزی میں ایک کہانی "سلمیٰ" تحریر کی جس کا اردو ترجمہ زیرنظر مجموعہ میں شامل ہے۔
ڈاکٹر رشید جہاں کے 15 منتخب افسانوں کا مجموعہ "شعلۂ جوالہ" تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ تقریباً دو سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 9.5 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

رشید جہاں کے شوہر محمود الظفر کی بہن ڈاکٹر حمیدہ سعید الظفر اس کتاب کے ایک تعارفی مضمون "رشید آپا" میں لکھتی ہیں ۔۔۔
رشید جہاں جو اپنے سات بھائی بہنوں میں سب سے بڑی تھیں، دہلی میں 25/اگست 1905 کو پیدا ہوئیں۔ ان کے والد شیخ عبداللہ مرحوم مسلم گرلس کالج اور ویمنس کالج علیگڑھ کے بانی تھے۔ ان کی والدہ وحید جہاں بیگم نے جو اعلٰی بی کے نام سے مشہور تھیں، مدرسہ کی تاسیس میں شیخ عبداللہ کی بڑی مدد کی۔ یہ اسکول رشید جہاں کی پیدائش کے ایک سال بعد 1906 میں قائم ہوا ، اس لیے رشید جہاں نے ایک بار ہنستے ہوئے کہا تھا:
"میں نے تو جب سے ہوش سنبھالا ہے ہمارا تو تعلیم نسواں کا اوڑھنا ہے اور تعلیم نسواں کا بچھونا ہے"۔
اس لیے کوئی تعجب خیز امر نہیں کہ رشید جہاں کم عمری ہی سے اپنے ملک و قوم کے سماجی مسائل میں دلچسپی لینے لگیں اور قومی تحریک سے بھی متاثر ہوئیں۔ 1922ء میں انہوں نے ہائی اسکول پاس کرنے کے بعد علیگڑھ چھوڑا اور لکھنؤ آ کر ازابیلا تھوبرن کالج میں انٹرمیڈیٹ سائنس میں داخلہ لیا تاکہ بالآخر ڈاکٹری پڑھ سکیں۔ 1924 اور 1929 کے درمیان وہ لیڈی ہارڈنگ میڈیکل کالج نئی دہلی کی طالبہ تھیں۔ ان کا رجحان فطری طور پر طب کے عملی اور سماجی پہلو کی طرف زیادہ تھا۔ ڈاکٹری کی تکمیل کے بعد وہ اترپردیش میڈیکل سروس میں منتخب ہوئیں اور سب سے پہلے کانپور اور اس کے بعد بلند شہر اور لکھنؤ میں تعینات ہوئیں۔
1931 میں جب کہ وہ لکھنؤ میں تھیں تو ان کی ملاقات سجاد ظہیر، احمد علی اور میرے بھائی محمود الظفر سے ہوئی۔ یہ نوجوان اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے اور ملک کے سماجی اور سیاسی حالات کے بارے میں ترقی پسند خیالات کے حامل تھے۔ نومبر 1933 میں ان تینوں نوجوان ادیبوں اور رشید جہاں کے افسانوں کا ایک مجموعہ "انگارے" لکھنؤ سے شائع ہوا اور افسانوں کے انقلابی اور غیر روایتی انداز کا شدید ردعمل ہوا، جس کے نتیجہ میں یہ کتاب حکومت نے ضبط کر لی۔ اس میں رشید جہاں کی دو کہانیاں "دل کی سیر" اور "پردے کے پیچھے" شامل تھیں۔ اسی زمانے میں رشید جہاں اور محمود الظفر ایک دوسرے کے قریب آئے اور ان دونوں نے 14/اکتوبر 1934 کو بہرائچ میں، جہاں رشید جہاں تعینات تھیں، شادی کر لی۔
شادی کے وقت محمود امرتسر کے ایم۔اے۔او کالج میں وائس پرنسپل تھے، اس لیے رشید جہاں نے صوبائی میڈیکل سروس سے استعفیٰ دے دیا اور امرتسر پہنچ کر پرائیویٹ سروس شروع کی۔ 1936 میں دونوں نے ترقی پسند ادیبوں کی پہلی کانفرنس (لکھنؤ) میں شرکت کی جس کی صدارت پریم چند نے کی تھی۔ رشید جہاں کی ملاقات جب پریم چند سے ہوئی تو وہ ان کی شخصیت سے گہرے طور پر متاثر ہوئیں۔
1942 میں رشید جہاں لکھنؤ چلی گئیں جہاں انہوں نے ایک ایسا نرسنگ ہوم کھولا تھا جس میں ان لوگوں کا داخلہ ہوتا جنہیں سرکاری اسپتال میں طبی سہولیات نہ ملتیں یا جن کے گھروں میں بھی اچھی دیکھ بھال نہ ہو سکتی تھی۔ اس کام میں انہیں اپنے ڈاکٹر دوستوں کا مفت تعاون حاصل تھا۔
1942 اور 1950 کے درمیان وہ اکثر بیمار رہتی تھیں اور اسی دوران ان کے تین بڑے آپریشن بھی ہوئے لیکن اس کے باوجود وہ جانفشانی سے اپنے کام میں لگی رہتی تھیں۔ انہوں نے اپنی ذاتی منفعت کے بارے میں کبھی نہ سوچا اور برابر دوسروں کی بھلائی اور خدمت میں لگی رہیں۔
ان میں طبقاتی احساس ذرا بھی نہ تھا، وہ اپنے گھر کے نوکروں کو خاندان کا فرد سمجھتی تھیں۔ وہ طبیعت کی غنی تھیں، فیاضی اور ایثار اس قدر تھا کہ احساس ملکیت ختم ہو گیا تھا۔ وہ ساز و سامان کی افراط کو پسند نہ کرتی تھیں اور اپنی چیزیں لوگوں کو بانٹتی رہتی تھیں۔ لکھنؤ میں ان کا گھر ان کے عزیزوں دوستوں اور دوسرے لوگوں کے لیے ہر وقت کھلا رہتا اور وہ ان کی مشکلات اور دشواریوں کو دور کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتیں۔
1950 کی گرمیوں میں یہ معلوم ہوا کہ انہیں سرطان ہے۔ ٹاٹا میموریل اسپتال میں ان کا آپریشن ہوا مگر مرض کا مکمل طور ازالہ نہ ہو سکا لہذا انہیں مشورہ دیا گیا کہ علاج کے لیے ماسکو جائیں۔ روس پہنچنے کے تقریباً تین ہفتے کے اندر سینتالیس (47) سال کی عمر میں 29/جولائی 1952 کو وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ اور ان کی آخری آرام گاہ ماسکو کا ویڈنسکی گورستان بنا۔ ان کے انتقال کے چند مہینے بعد محمود الظفر حسرت و غم کو لیے ہوئے اکیلے ہندوستان لوٹ آئے۔

یہ بھی پڑھیے:
رشید جہاں: ایک انقلابی خاتون افسانہ نگار - از: ضمیراللہ

***
نام کتاب: شعلہ جوالہ (افسانے)
مصنف: ڈاکٹر رشید جہاں
تعداد صفحات: 201
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 9.5 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
Shola Jawwala - Short stories by Dr Rasheed Jahan.pdf

Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:

شعلۂ جوالہ - افسانے از رشید جہاں :: فہرست
نمبر شمارعنوانصفحہ نمبر
الفپیش لفظ6
برشیدہ آپا (ڈاکٹر حمیدہ سعید الظفر)9
جرشید جہاں - ایک تاثر (پروفیسر آل احمد سرور)19
دیادیں28
ھڈاکٹر رشید جہاں کی قبر پر34
1افطاری37
2مجرم کون48
3چھیدا کی ماں64
4فیصلہ75
5صفر96
6آصف جہاں کی بہو106
7وہ116
8ساس اور بہو121
9چور128
10اندھے کی لاٹھی136
11وہ جل گئی147
12انصاف159
13بےزبان164
14مرد و عورت175
15سلمہ183

Shola-e-Jawwala, urdu short stories by Dr. Rasheed Jahan, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں