نمی - مسحور آنکھوں والی اداکارہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-03-26

نمی - مسحور آنکھوں والی اداکارہ

nimmi-bollywood-actress

بالی ووڈ فلمی صنعت کی بیسویں صدی کی 50/60 دہائی کی مشہور اداکارہ نواب بانو عرف نمی ممبئی میں بعمر 88 سال، بدھ 25/مارچ کو انتقال کر گئیں۔ پچھلے کئی مہینوں سے علیل نمی نے ممبئی کے سرلا نرسنگ ہوم میں آخری سانس لی۔
اپنے وقت کی بہترین اداکارہ نمی، 1949 سے لے کر 1965 تک بالی ووڈ فلموں میں سرگرم رہی تھیں۔ پھر 1965 میں انہوں نے ناول "رام محمد ڈیسوزا" کے خالق علی رضا سے شادی کر کے فلموں سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ دونوں تاعمر لاولد رہے۔ علی رضا کا انتقال 2007 میں ہوا۔

ماضی میں عظیم فلمی ستاروں کا ایک سنہرا دور گزرا ہے، وہ دور جس نے یادگار فلمیں ہی نہیں لازوال اداکار پیدا کے جنہیں فلم کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکے گی۔
اس دور میں اداکارائیں بھی فن اداکاری میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں۔ ہر بڑی اداکارہ اپنی منفرد فنی خوبیوں اور خصوصیات سے ممتاز نظر آتی تھی اور ایک ہی دور میں کئی کئی بڑی اداکارائیں اپنے فنی قد و قامت سے ایک دوسرے کی مد مقابل تھیں۔

اسی دور میں نمی اپنی انفرادی فنی خوبیوں اور اعلی کارکردگی سے نرگس، مدھو بالا، مینا کماری، نوتن، وجینتی مالا، ثریا، گیتا بالی اور کامنی کوشل جیسی اداکاراؤں کی صف میں شامل کی گئی۔ نمی میں حسن و دلکشی کی فراوانی نہیں تھی لیکن اس کا انگ انگ اداکاری کرتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ ان کی آواز میں بھی ایک کھنک تھی، انہیں اپنی حساس آنکھوں کے استعمال پر عبور حاصل تھا۔ فلمساز ان کی قہقہہ دار ہنسی کو اپنی فلم کے لئے کامیابی کی کنجی تصور کرتے تھے۔

نمی مکمل طور پر ایک بھرپور اداکارہ تھیں۔ تھیٹر آرٹسٹ و گلوکار وحیدہ نے نواب بانو عرف نمی کو 1933ء میں آگرہ میں جنم دیا۔ ابھی نواب بانو کی عمر صرف نو سال کی ہی تھی کہ وہ اپنے والدین کے سائے سے محروم ہو گئی۔ ان حالات میں ان کی دادی نے ان کی پرورش کا فریضہ انجام دیا۔ بچپن سے شہزادی بننے کے خواب دیکھنے والی اس دوشیزہ نے والدین کے سائے سے محروم ہونے کے بعد غریبی اور کسمپرسی کے دن دیکھے۔ مفلسی کے باوجود ان کے خوابوں نے ہار نہ مانی۔ عمر کے ساتھ اس کے خواب بھی جوان ہوئے، شہزادی بننے کے سپنے ہیروئین بن جانے کی خواہش میں ڈھل گئے۔ ہیروئین بھی اس کی نگاہ میں کسی شہزادی سے کم نظر نہیں آئی۔ اور اداکاری تو اسے ورثے میں ملی تھی۔ وہ اپنے خواب کی تکمیل کے لئے اپنی بوڑھی دادی کے ساتھ آگرہ سے قسمت آزمائی کے لئے ممبئی آ گئی۔
ممبئی میں فلمساز ہدایت کار محبوب خان سے ملیں۔ محبوب خاں ان دنوں انداز بنانے میں مصروف تھے۔ انہوں نے نواب بانو سے کہا کہ وہ اسے اپنی آئیندہ قلم "آن" میں ضرور کوئی کردار کرنے کا موقع دے دیں گے۔ محبوب خان نے نواب بانو کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے اپنے اسٹوڈیو میں اپنے فوٹوگرافر سے اس کی کئی خوبصورت تصاویر بنوائیں اور اسے مشورہ دیا کہ وہ بمبئی کے دوسرے فلم سازوں کو یہ تصاویر دکھائے۔ ممکن ہے اس کی جلد کام حاصل کرنے کی خواہش اس طرح پوری ہو جائے۔ نواب بانو ان تصاویر کو لئے اپنی دادی کے ساتھ ممبئی کے فلمسازوں سے ملاقات کرنے کے لئے جگہ جگہ ٹھوکریں کھاتی پھرتی رہی۔ فلمساز اسے دلاسوں پر ٹالتے رہے۔ ایک وقت ایسا آیا جب وہ اداکارہ بنے سے مایوس ہو گئی۔ اس کے خواب ٹوٹ گئے۔ اس نے ممبئی سے واپس آگرہ جانے کا ارادہ کر لیا۔ وہ محبوب اسٹوڈیو کے دفتر میں محبوب خان سے الوداعی ملاقات کے لئے پہنچی۔ اس وقت دفتر میں محبوب خان موجود نہ تھے۔ راج کپور بھی ان کے منتظر تھے۔ راج کپور نے نواب بانو کی تصاویر دیکھیں تو وہ انہیں دیکھتے رہ گئے۔ محبوب خاں کے آجانے پر راج کپور نے ان سے کہا:
"کیا آپ نے ان کی آنکھوں پر غور کیا؟ پوری فلم انڈسٹری میں ایسی غضب کی آنکھیں کسی اداکارہ کے پاس نہیں ہیں"۔
راج کپور نے فوراً "برسات" میں کام کرنے کی پیش کش کر دی۔

وہ لڑکی بچپن سے سپنے دیکھ رہی تھی، حیرت کی بات ہے وہ خود راج کپور کا خواب تھی۔ نمی، راج کپور کے بچپن کے دنوں کی ایک محبوب دوست تھی، اس کی پہلی محبت۔ راج کپور کو نواب بانو میں اپنی "نمی" کی جھلک نظر آ گئی اور یوں وہ فلم "برسات" میں نواب بانو سے راج کپور کے دئے ہوئے نام "نمی" کی شکل اختیار کر چکی تھی۔
"برسات" میں وہ نرگس ،راج کپور اور پریم ناتھ کے مد مقابل تھی اور یہ اہم بات تھی۔ فلم صنعت میں اب نمی کے چرچے سنائی دینے لگے تھے۔ راج کپور جب اسے بنا سنوار کر، اپنے تخیل میں ڈھال کر کیمرے کے سامنے لے آئے تو پریم ناتھ سے محبت کے مکالمے ادا کرتے ہوئے نمی کے پسینے چھوٹ گئے تھے۔ تب راج کپور اور پریم ناتھ نے سمجھایا کہ یہ محض ناٹک ہے، تم خود پرقابو رکھو۔
"برسات" ریلیز ہوئی تو اس فلم کی پانچ صلاحیتیں شہرت کی طرف گامزن ہو گئیں۔ موسیقار جوڑی شنکر اور جے کشن، نغمہ نگار شیلندر اور حسرت جےپوری اور اداکارہ نمی، جسے اپنے خوابوں کی تعبیر مل گئی۔

محبوب خان نمی کو پہلی ہندوستانی رنگین فلم "آن" میں دلیپ کمار جیسے اداکار کے مقابل پہلے ہی کاسٹ کر چکے تھے۔ نمی کے لئے یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔ "آن" سے قبل وہ متعدد فلموں میں کاسٹ کی جا چکی تھیں۔ "راج کاٹ" میں جےراج کے ساتھ، "باورا" میں راج کپور کے ساتھ، "سبق" اور "وفا" میں کرن دیوان کے ساتھ، "جلتے دیپ" میں رندھیر اور کلدیپ کے ساتھ، "بڑی بہو" اور "سبز باغ" میں شیکھر کے ساتھ اور "بزدل" میں پریم ناتھ کے ساتھ، "آن" اور "دیدار" کی ریلیز کے بعد نمی بھی بڑی اداکاراؤں کی صف میں آ کھڑی ہوئی۔ ان فلموں میں وہ دلیپ کمارکی ہیروئن تھی۔ "داغ" میں دلیپ کمار کے ساتھ اعلی صلاحیتوں کو منوایا۔ محبوب خان کی "امر" میں وہ دلیپ کمار کے ساتھ فن کی اور بھی بلندیوں پر نظر آئی۔ "اڑن کھٹولہ" میں دلیپ کمار اور نمی کے سنگم نے پھر جادو جگایا۔
"ہمدرد" میں شیکھر، 'سزا' اور 'آندھیاں' میں دیوآنند، 'سوسائٹی' میں ناصر خان، 'بھائی بھائی' میں کشور کمار، 'جےشری' میں پردیپ کمار اور 'بسنت بہار' میں بھارت بھوشن اس کے ہیرو تھے۔
انہی دنوں نمی نے اپنی ذاتی فلم "ڈنکا" بنائی۔ امرناتھ اس فلم کے ہیرو تھے۔ نمی کی کامیابیوں کا سفر جاری تھا اور وہ دلیپ کمار، راج کپور اور دیو آنند جیسے فلم صنعت کے تین بڑوں کی ہیروئن تھیں۔ اس دور میں نمی نے کہا تھا:
"مجھے فلم انڈسٹری کے سب سے بڑے اداکار دلیپ کمار کے ساتھ چار مرتبہ ہیروئن بنے کا موقع ملا ہے۔ میرے لئے یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے"۔
اس نے یہ بھی کہا:
"اگر محبوب خان اور راج کپور میری حوصلہ افزائی نہ کرتے تو میں کبھی بھی اپنے خوابوں کو پورا نہ کر سکتی تھی"۔

وجے کمار کے ساتھ نمی نے "الف لیلی" میں ایک مختلف کردار ادا کیا۔ شیکھر کے ساتھ "چھوٹے بابو" میں اور بھارت بھوشن کے ساتھ وہ "سوہنی مہیوال" میں سوہنی کے کردار میں ناقابل فراموش رہی ہے۔ اس دور میں اس نے سنیل دت کے ساتھ "کندن" میں ، رحمن کے ساتھ فلم "پیاسے نین" میں اپنی اداکاری کے نقش گہرے کئے۔
نمی کے فلمی کیرئر کے آخری دور میں درددل، کچے دھاگے، انگولی مالا، انجلی اور 'شمع' کے کردار بھلائے نہیں جا سکتے۔ فلم "شمع" میں نمی اور ثریا کو یکجا کیا گیا تھا۔ دونوں اس فلم میں آخری بار جلوہ گر تھیں جبکہ "میرے محبوب" کو نمی کی آخری فلم کہا جاتا ہے۔ اس فلم میں نمی کے مقابل اشوک کمار اور راجندر کمارکا بھی ٹکراؤ تھا۔

کے آصف نے "مغل اعظم" کے بعد جب فلم "محبت اور خدا" بنانے کا اعلان کیا تھا تو انہوں نے اس فلم میں نمی کو بیروئن منتخب کیا۔ کے۔ آصف نے نمی کے انتخاب سے یہ ثابت کیا کہ اس دور میں نمی سے بڑی اداکارہ کوئی نہیں۔ اس فلم کی فلم بندی زور و شور سے جاری تھی۔ ہندوستان کی سب سے مہنگی فلم بنائی جا رہی تھی فلم کی 14 ریلیں تیار ہو چکی تھیں لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ کے آصف کا انتقال ہو گیا۔ "محبت اور خدا" کا نامکمل رہ جانا نمی کے لئے ایک بہت بڑا المیہ ثابت ہوا۔ یہ فلم اگر کے آصف مکمل کر لیتے تو نمی کے حصے میں وہی مقام ہوتا جو نرگس کو 'مدرانڈیا' میں، مدھو بالا کو 'مغل اعظم' میں اور میناکماری کو 'پاکیزہ' میں حاصل ہوا۔ 'محبت اور خدا' نے نمی کے تمام کیرئر کو داؤ پر لگا دیا تھا۔ اس فلم کو وہ اپنے فن کا نچوڑ ثابت کرنا چاہتی تھی۔ اس فلم میں اداکاری کے دوران اس نے بے شمار فلموں کے معاہدے رد کر دیئے تھے۔ کے آصف کے انتقال کے بعد جب اس فلم کو مختلف ہاتھوں نے دوبارہ شروع کیا تو اس فلم کا ہیرو گرودت چل بسا۔ یہ فلم پھر آگے نہ بڑھ سکی۔
کے آصف کی یہ عظیم فلم چوبیس برس تک یونہی پڑی رہی۔ پھر دلیپ کمار کی بہن اخرجہاں نے، جو کے۔آصف کی بیوی تھیں، اس فلم کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا بیڑہ اٹھایا۔ چنانچہ 1963 میں شروع ہوئی پہلی شوٹنگ کے بعد، یعنی تقریباً 25 سال کے تعطل کے بعد 1986 میں یہ فلم ایک عجوبہ بن کر ریلیز ہوئی اور ایک نئی نسل نے نمی کے دیدار کئے۔ لیکن افسوس کہ فلم عظیم تخلیق ثابت نہ ہو سکی ۔۔۔!!

یہ بھی پڑھیے:
ناول 'رام محمد ڈیسوزا' کے پہلے ایڈیشن کا دوسرا مقدمہ - از: نمی
معروف اداکارہ نواب بانو عرف نِمّی نے دنیائے فانی کو کہا الوداع

***
ماخوذ از کتاب: ہندوستانی فلم کا آغاز و ارتقا
مولف: ڈاکٹر الف انصاری

Nimmi, the bollywood actress of glamorous eyes. Article: Nisar Ahmed Siddiqi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں