ناول رام محمد ڈیسوزا : قسط - 04 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-03-16

ناول رام محمد ڈیسوزا : قسط - 04


Novel Ram Mohammad Desouza, Episode-04

گذشتہ قسط کا خلاصہ :
چرچ میں بچے کا بپتسما کرانے کے دوران جب نندن اور رابرٹ میں جھگڑا ہوا تو رحیم بچہ کو لے کر بھاگ گیا۔ وہ رات میں چھپتا چھپاتا امام صاحب کے گھر پہنچا کہ بچہ بھوک سے تڑپ رہا ہے اسے امام صاحب کی بیوی دودھ پلا دیں۔ امام صاحب بری طرح بھڑک گئے، جس پر رحیم کو ان کے گھر سے بھی فوراً رفوچکر ہو جانا پڑا۔ ۔۔۔ اب آگے پڑھیے ۔۔۔

قسط : 01 --- قسط : 03

اب اس محلے میں ٹھہرنا رحیم کے لئے مناسب نہیں تھا۔ وہ آبادی سے کتراتا اس ٹکڑی سے دور جانے لگا۔ بچہ روتے روتے تھک گیا تھا ، غنودگی نے اس کی مدد کی۔
گھبراہٹ نے رحیم کی عقل کو مفلوج کر دیا تھا۔ لیکن عبدالرحمن خلیفہ کے گھر کی باڑھ سے ایک بکری کی منمناہٹ نے اس کو پھر سے چکا چوند کر دیا۔ اس نے بچہ کو اپنی پیٹھ پر باندھ کر باڑھ کی کچی دیوار پھلانگ لی۔
اندھیرے میں بکریاں سائے کی طرح نظر آ رہی تھیں، رحیم کی چھلانگ سے بکریوں میں کھلبلاہٹ سی ہوئی اور خلیفہ جو حقّہ کی نال منہ میں لگائے لگائے اونگھ گیا تھا ، گھبرا کر باہر آ گیا۔
رحیم بیری کے پیچھے چھپ گیا۔ خلیفہ بکریوں پر ایک طائرانہ نظر ڈال کرحقہ کی آگ دیکھنے اندر واپس چلا گیا۔ رحیم آہستہ آہستہ ایک بکری کی طرف بڑھا اور سیدھے ہاتھ سے اس نے اس کا مونہہ دباکر دونوں بازوؤں پر اس کو اٹھا لیا، خلیفہ کے کان کھڑے ہو چکے تھے، وہ پھر گھبرا کر واپس آیا اور اس نے رحیم کو دیوار پھاندتے دیکھ کر شور مچانا شروع کر دیا۔
پاس پڑوس کے کچھ لوگوں نے رحیم کا پیچھا کیا، لیکن وہ سب کو داؤں دے کر جیا مالن کا ٹاٹ کا پردہ ہٹا کر اس کے مکان میں گھس گیا۔
جیا اپنے بچہ کو دودھ پلانے کے لئے جاگی تھی، گھبرا کر چیخی۔
"کون ہے؟"
رحیم نے آنکھیں نکال کر دھمکایا: "سالی تو نے آواز نکالی تو یہیں کاٹ کر ڈال دوں گا۔ تیری ماں کی۔۔"

دھمکی کی ضرورت بھی نہیں تھی ، جیا یوں بھی نہ چیختی، اس نے سوچا بھی نہ تھا کہ کسی رات کو وہ اس طرح جاگے گی کہ اس کے ساتھ اس کی تقدیر بھی جاگ اٹھے گی۔ رحیم کے لئے تو جیا دیوانی تھی، لیکن رحیم اس کو کبھی مونہہ نہ لگاتا تھا۔
نیند نے بچے کو تھوڑی طاقت دے دی تھی، اب وہ اپنا پیٹ بھرنے کے لئے پھر جدوجہد کرنے لگا۔ اتنے میں خلیفہ کچھ لوگوں کے ساتھ لالٹین لئے ادھر سے گزرا، اور جیا کو آواز دے کر آگاہ کیا کہ ایک چور ادھر آیا ہے، ذرا جاگتی رہے۔ جیا نے تڑاخ کر جواب دیا۔
"ہمارے پاس مال دھرا ہے جو چور آئے گا، رستہ پکڑو، بے کار ہمارے چھورے کو جگا دیا۔"
رحیم نے بچہ کو پیٹ پر سے کھول کر جیا کو حکم دیا کہ بکری کی ٹانگیں پکڑ لے۔ جیا بکری کی ٹانگیں پکڑنے کے بعد بے تحاشہ ہنسنے لگی، تب رحیم کو اپنی غلطی کا احساس ہوا، رحیم نے کھسیا کر بکری کو بہن کی گالی دے کر ایک لات ماری، اس کی ساری محنت بے کار تھی اندھیرے میں وہ بکرا اٹھا لایا تھا۔

بچہ بلک رہا تھا۔
جیا نے ایک جھپٹا مار کر بچہ رحیم کے ہاتھوں سے چھین لیا اور اسی کے سامنے اپنے سیدھے ہاتھ کے ایک جھٹکے سے اپنی چولی کو اوپر اٹھا کر دودھ پلانے بیٹھ گئی۔ رحیم بھونچکا رہ گیا۔ مارے شرم کے اس نے جیا کی طرف سے مونہہ پھیر لیا۔
جیا کو دیکھ کر رحیم کو ہمیشہ گھن سی آتی تھی، حالانکہ جیا جب بھی گاؤں میں نکلتی تھی، ہر آدمی اس سے کوئی نہ کوئی بات کئے بغیر اس کو گزرنے نہیں دیتا تھا ، اکثر تو جیا کو چھیڑتے ہی اس لئے کہ تھے کہ اس کی گالیاں سنیں، مگر رحیم کو جیا کبھی اچھی نہیں لگی تھی۔ جس طرح بھوکا بھکاری حلوائی کے خونچہ کو للچائی نظروں سے دیکھ کر رال ٹپکاتا ہے۔ بالکل ایسی ہی نظروں سے جیا رحیم کو دیکھا کرتی تھی۔ رحیم کو ہمیشہ اس پر غصہ آتا تھا۔ جیا نے کبھی رحیم کو رحیم بھی نہیں کہا اس نے خود رحیم کو اپنا ایک نام دیا تھا: "راجہ"۔
اور راجہ وہ ایسے ایسے لہجوں اور موقعوں پر استعمال کرتی تھی کہ اس ایک لفظ سے الگ الگ پورے پورے جملوں کے معنی نکلتے تھے۔ لیکن اس وقت اچانک جیا پوری کی پوری رحیم کو حسین نظر آنے لگی۔ جیا کی بد نصیبی تھی کہ وہ اچھی بھی لگی تو اتنے بھیانک وقت پر جب کہ رحیم کا دماغ چکر کھا رہا تھا۔
اب رحیم کو امام صاحب پر غصہ آ رہا تھا۔
اسلام کا کیا ہوگا؟

امام صاحب نے اللہ رسول اللہ کے واسطے بھی ایک معصوم بھوک سے بلکتے بچے کو دودھ نہیں پلوایا اور جیا سالی نے بغیر پوچھے گچھے سوچے سمجھے اس کو کلیجے سے لگا لیا۔
رحیم بڑے چکر میں پھنس گیا تھا۔ اب اس کو جیا کے پنجے میں تو ہمیشہ پھنسا رہنا پڑے گا۔ لیکن اگر نندن کو معلوم ہو گیا کہ بچہ کو دودھ پلانے کے لئے مسلمان تیار نہیں ہوئے، ایک ہندو نے ہی دودھ پلایا تو رحیم کو ہمیشہ کے لئے اپنا منہ کالا کر کے گاؤں سے بھاگ جانا پڑے گا۔
رحیم کی پیٹھ پھیر کر بیٹھنے کی ادا جیا کو بہت بھائی۔ بچہ دیر تک جیا کے دودھ کا لطف لیتا رہا اور جیا رحیم کی اس ادا کا۔ آخر جیا نے اس کو مخاطب کیا۔
"اس کی ماں کون ہے راجہ؟"
رحیم غصہ سے ایک دم جیا کی طرف پلٹ پڑا اور اپنی نظر تیر کی طرح اس کی نظروں میں گاڑ کر سخت لہجے میں بولا۔
" دیکھ جیا۔۔۔۔۔۔۔"
اتنا کہنے کے بعد اس کو یقین ہو گیا کہ اب وہ کبھی نظریں ملا کر تو جیا سے کچھ بھی نہیں کہہ سکتا، اس نے نظریں پھیر کر جملہ پورا کیا۔
"حرام جادی تو نے کسی سے آج کی ایک بات بھی کہی تو خلیفہ کے استرے سے تیرا سر مونڈ دوں گا۔، سمجھی، میرا نام رحیم ہے رحیم۔ یاد رکھنا۔"
رحیم اسلام کی عزت بچا رہا تھا لیکن جیا سمجھی حرام کر کے اب گاؤں میں بے عزتی سے ڈر رہا ہے۔
لیکن جیا کا دماغ قیاس آرائیاں کر رہا تھا کہ اس بچہ کی ماں کون ہو سکتی ہے۔ وہ ایک ناپید عورت کے مبہم تصور سے اپنی ایک ذاتی ہتک محسوس کر رہی تھی اور اس کی کاٹ کرنے کے لئے اس نے رحیم سے کہا۔
"اس کو میرے پاس ہی چھوڑ جا۔ میں پال دوں گی راجہ۔"
لیکن رحیم "دھت سالی" کہہ کے نیند سے مست بچے کو لے گیا۔

جولی بچہ کو ایک مضبوط ڈوری بنا کر رابرٹ کو اس سے باندھ لینا چاہتی تھی۔ بچہ کے جانے سے وہ ڈوری ٹوٹ رہی تھی۔ اس لئے جولی نے رونا پیٹنا شروع کیا۔ جتنی زیادہ وہ اپنی حالت خراب کرتی اتنا ہی رابرٹ کو اس کے پاس رہ کر تسلی تشفی دینا پڑتی تھی۔ جولی پولیس چوکی پر رحیم کی رپٹ لکھانا چاہتی تھی لیکن رابرٹ پولیس کے نام پر برہم ہو گیا۔ یہ تینوں دوست پولیس کو کوّے یا گیدڑ قسم کی کوئی چیز سمجھتے تھے جو ہر طرف ہوتی تو ہے لیکن عموماً انسان کا ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ اب ہیں تو کیا کیا جائے ہونے دو، مگر ہم سے کیا مطلب۔۔
اول تو رابراٹ اپنے دوست سے اتنی بڑی غداری نہیں کر سکتا تھا۔ دوسرے یہ کہ اس کو بالکل یقین تھا کہ اگر وہ بچہ کا جھگڑا لے کر پولیس چوکی جائے گا تو چوکی کے انچارج سردار گوربچن سنگھ شاید ان تینوں سے بچہ چھین کو خود پالنے پوسنے لگیں۔
قصبہ والوں کی نظر میں سردار جی ایک عجیب و غریب چیز تھے، بہت سے لوگ ان کو دیوانہ سمجھتے تھے۔ تھے وہ پولیس انسپکٹر، مگر ان کو کبھی چوروں کے پیچھے بھاگتے ہوئے آج تک کسی نے نہیں دیکھا۔ لیکن قرآن شریف کے پیچھے وہ بہت دن دیوانے رہے! ان کی اسلامی تاریخ کی معلومات کی وجہ سے پیش امام کو یقین تھا کہ ہو نہ ہو یہ کوئی پنجاب کا عالم مسلمان ہے جو رنجنا (سردار جی کی بے حد حسین بیوی) کے چکر میں پھنس کر سردار گوربچن سنگھ بنا پھر رہا ہے۔
دوسرے پولیس افسروں کی طرح سردار جی کی زبان سے جرائم کے سنسنی خیز واقعات بھی کبھی نہیں سنے گئے۔ لیکن یوسف کے بھائیوں نے کس طرح یوسف کو ایک کنویں میں پھینک دیا اور پھر اپنے باپ کو ان کے خون بھرے کپڑے یہ یقین دلانے کے لئے دکھائے کہ یوسف کو جنگلی جانور مار کر کھا گئے۔ اور پھر کس طرح حضرت یوسف کو کچھ قافلہ والوں نے بچایا اور کس طرح یعقوب بیٹے کے غم میں روتے روتے اندھے ہو گئے؟
بائبل کے یہ قصے سردار جی اس قدر تفصیل اور یقین کے ساتھ سناتے تھے جیسے حضرت یوسف والا کنواں اسی حلقہ میں تھا، جس حلقہ کے گوربچن سنگھ انسپکٹر تھے۔ اور حضڑت یوسف کے گیارہ مجرم بھائیوں کے نام بہ نام اسٹیٹ منٹس ، بھی خود انہوں نے ریکارڈ کئے تھے۔ غرض بائبل اور اس کی کہانیوں میں سردار جی کی معلومات اتنی خطرناک تھیں کہ قصہ کے عیسائی مشن والوں کو یقین کامل ہوگیا تھا کہ وہ بس کسی گھڑی بھی عیسائی ہونے ہی والے ہیں! اسی لئے احتیاطاً ایک دو مشنریز سردار گوربچن سنگھ کے گرد منڈلاتے ہی رہتے تھے تاکہ جب وہ مبارک گھڑی آ جائے تو کچھ ذمہ دار لوگ موقع واردات پر موجود پائے جائیں!

حق دار کو اس کا حق اور مجرم کو اس کے جرم کی سزا دلانا سردار جی کی قانونی کتاب میں کہیں لکھا ہی نہیں تھا ، سزا یا جزا دونوں پیتل کے ایک فٹ لمبے گلاس میں دہی کی ٹھنڈی لسی کی شکل میں ہی ملتی تھی۔ ایک بار دو گاؤں والوں کے بیچ لاٹھیوں کا گھمسان رن پڑ گیا۔ فریقین اپنے اپنے جتھوں کے ساتھ پھٹے ہوئے سر اور ٹوٹے پھوٹے ہاتھ پیر لے کر پولیس چوکی پہنچ گئے۔
سردار گوبچن سنگھ نے جگہ کی کمی اور فریقین کی زیادتی کی وجہ سے ان سب کو پولیس چوکی کے برابر ہی اپنے مکان پر بلا لیا۔ سردار جی کے پرانے دیو قامت نوکر بچہ سنگھ نے کمپاؤنڈ میں چارپائیاں اور مونڈھے کچھ ایسے بے تکے حساب سے بچھا دئے کہ فریقین کو گھل مل کر بیٹھنے کے سوا اور کوئی راستہ ہی نہیں رہا اور سردار گوربچن سنگھ ایسی خوشی خوشی گھر سے باہر نکلے اور انہوں نے اتنے تپاک سے سب لوگوں کا نام بنام خیر مقدم کیا ، جیسے ان سب کو انہوں نے اپنے یہاں کسی تقریب میں مہمان بلایا تھا، کوئی ایسی تقریب جس میں ان سب کا شریک ہونا ضروری اور سردار جی کے لئے باعث فخر تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اتنے پر خلوص خیر مقدم کے باوجود سردار جی کی نظر کبھی بھول سے بھی نہ فریقین کے لہولہان کپڑوں پر پڑی نہ ان کے شکستہ سروں پر نہ ان کی شکستہ پائی پر۔ جیسے وہ نظروں سے کسی کو دیکھ ہی نہیں رہے ہوں، ایک اندھے کی طرح محض آواز کے ذریعہ ملاقات کر رہے ہوں، باتوں کا ایک نور تھا جو ان کے مونہہ سے پھوٹ رہا تھا۔ جس نور کی شعاعوں میں فریقین کا ہر فرد نہا رہا تھا اور یہ نور انسانی دکھ درد کی دلجوئی کا نور تھا۔

سردار گوربچن سنگھ کا پرانا دیو قامت نوکر بچہ سنگھ ایک کونے میں چھپا دہشت زدہ ہو کر زخمیوں کو حیرت سے تک رہا تھا کہ اتنے گہرے زخموں کے باوجود یہ لوگ زندہ کس طرح بیٹھے ہیں؟ ایک ایک کرکے مرنا شروع کیوں نہیں کرتے؟ کچھ آدمیوں سے خون دیکھا نہیں جاتا ، وہ صرف آرام سے دوسروں کا خون پی سکتے ہیں، بچہ سنگھ بھی شاید اسی قسم کا آدمی تھا۔ غور سے اتنی دیر خون دیکھتے رہنے کی وجہ سے وہ چکرا کر گرنے ہی والا تھا کہ سردار گور بچن سنگھ فریقین میں سے ہی کسی کی سب سے خوب صورت لاٹھی اور اپنی سب سے خوب صورت گالی "الو دے پٹھے" لے کر شیر کی طرح اس پر جھپٹ پڑے۔

(باقی اگلی قسط میں ۔۔۔)

Novel: Ram Mohammad Desouza, Episode:04

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں