انوپم کھیر - ایک اصلی ہیرو : از مہیش بھٹ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-03-15

انوپم کھیر - ایک اصلی ہیرو : از مہیش بھٹ

anupam-kher-mahesh-bhatt

نامور بالی ووڈ ہدایت کار و فلمساز مہیش بھٹ نے اپنی خود نوشت فلمی/ادبی رسالہ "شمع" (نئی دہلی) کے لیے تحریر کی تھی جو بیسویں صدی کی نویں دہائی کے ابتدائی سالوں میں قسط وار اشاعت پذیر ہوئی۔ انوپم کھیر کے مزاج اور کردار سے متعلق بھٹ صاحب نے ایک باب جو تقریباً تین دہائی قبل اپنی خودنوشت میں تحریر کیا تھا، وہ یہاں پیش ہے۔

سطحی سکھ سے بہتر ہے کہ گہرے دکھ کو گلے لگا لو۔ (ولیم ہئیرلٹ)
مقام: بمبئی کے گورے گاؤں میں واقع فلمستان اسٹوڈیو میں "ملن" کا سیٹ
وقت: لنچ کے وقفے سے کچھ پہلے، شاٹ کے درمیان
کردار: میں اور انوپم کھیر

انوپم کھیر نے مجھ سے دریافت کیا:
"بھٹ صاحب، کیا آپ نے میری لکژری وین دیکھی ہے؟"
اس نے دور کھڑی سفید رنگ کی ایک وین کی طرف اشارہ کیا، جو فلمستان کے پارکنگ مقام پر کھڑی تھی۔
ہم دونوں کئی مہینے سے بھاگ دوڑ میں مصروف تھے۔ میں "ملن (ریلیز: 1995)" کی شوٹنگ کر رہا تھا اور انوپم سورج برجاٹیہ کی فلم "ہم آپ کے ہیں کون (ریلیز: 1994)" کی شوٹنگ میں مشغول تھا۔
میں نے انوپم سے پوچھا: "تم نے اس وین کے لیے کتنے پیسے دئے؟"
وہ بولا: "اپنے معاوضے کے بدلے میں یہ وین ملی"۔

اچانک مجھے احساس ہوا کہ انوپم بہت پیسے والا ہو گیا ہے اور ایک بار پھر میں ماضی کی یادوں میں گم ہو گیا۔
فلیش بیک:
فلم "ارتھ (ریلیز: 1982)" کی ریلیز کے وقت میں دلی جا رہا ہوں۔ نیشنل اسکول آف ڈراما سے توقعات وابستہ کیے انوپم کھیر مجھے چھوڑنے ایرپورٹ تک آئے۔ جیسے ہی میں جہاز کی طرف بڑھا، یکایک مجھے خیال آیا کہ شملہ سے آتے ہوئے جفاکش آرٹسٹ کو اپنی پئینگ گیسٹ والی جگہ کا کرایہ دینے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوگی۔ میں نے بغیر کچھ کہے اس کے ہاتھ میں 25 روپے تھما دئے۔ وہ شرمندگی محسوس کر رہا تھا، لیکن پیسے لینے سے انکار نہ کر سکا۔ پیسے لے کر وہ مسکرایا اور بہت ہلکے سے صرف 'تھینک یو' کہہ سکا۔ میں بھی بدلے میں مسکرایا اور آگے بڑھ گیا۔

آج نو سال بعد انوپم کھیر ایک غضب کے آرٹسٹ اور بڑے اسٹار کے طور پر اپنا مقام حاصل کر چکا ہے۔ اس کی زندگی کی کہانی میری کتھا جیسی ہے۔ یہ کہانی ہے پھٹیچر سے امیر بننے کی۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ جب آپ پھٹیچر سے امیر بن جاتے ہیں تو کہیں نہ کہیں آپ اپنی معصومیت کو کم کرتے ہیں۔ کچھ مہینے پہلے ہی ایک فنکشن میں فلم "سارانش (ریلیز: 1984)" کے وقت کے ہمارے ایک سینئر ساتھی نے فقرہ کسا تھا:
"انوپم اب ویسا معصوم نہیں رہا جیسا اس وقت تھا جب شملہ سے آیا تھا اور 'سارانش' میں کام کر رہا تھا۔"
مگر انوپم اس الزام کو نظرانداز کر گیا۔

یہ حقیقت ہے کہ شہرت اور طاقت کی کھوج میں انوپم نے خود کو بہت سخت کوش بنا لیا ہے۔ ایک بار میں نے انوپم سے کہا تھا:
"تم جیتنے کے لیے بہت زیادہ قیمت دے چکے ہو، لیکن یہ قیمت بہترین انوپم کے لیے نہیں ہے۔ اصلی کھیل تو اب شروع ہوا ہے کہ تم فلم انڈسٹری کے اندر اور باہر کس طرح رہو گے؟"
انوپم نے میری اس صلاح کے آدھے حصے کو ہی سنجیدگی سے لیا۔ اس نے خود کو ایک محفوظ گنبد میں قید کر لیا۔ لیکن اس چکر میں وہ اکیلا پڑ گیا۔
انوپم کھیر کی کہانی مجھے یونان کے دہومالائی کردار آئکریس [Icarus] کی یاد تازہ کرا دیتی ہے۔ ایک بار اس نے دو جوڑ پنکھ بنائے۔ ایک جوڑا اپنے لیے اور دوسرا اپنے بیٹے کے لیے۔ پنکھ موم کے تھے اور بڑی خوبصورتی سے تراشے گئے تھے۔ باپ نے اپنے بیٹے کو سمجھایا کہ وہ پنکھ کا کیسے استعمال کرے؟ ساتھ میں یہ بھی کہا کہ وہ (بیٹا) اتنا اونچا کبھی نہ اڑے کہ سورج کی گرمی اسے جلا کر راکھ کر دے۔ یہ سمجھا کر وہ اپنے بیٹے کو ایک اونچے مینار پر لے گیا اور دونوں نے پنکھ پھیلا دئے۔ دونوں پرندوں کی طرح اڑنے لگے۔ ان کی پرواز کو کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ بہت اونچائی پر پہنچ کر بیٹا اپنے باپ کی نصیحت کو بھول گیا اور آسمان کو چھونے کی اپنی خواہش کو فراموش نہ کر سکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سورج کے اتنے نزدیک چلا گیا کہ جل گیا اور سمندر میں ڈوب گیا۔

اتفاق سے جب انوپم آسمان سے نیچے گرا تو اسے کئی ہاتھوں نے بچا لیا۔ لیکن اس نے سورج کے نزدیک جانے کی زبردست قیمت ادا کی۔ شہرت کی آگ نے اسے جھلسا دیا۔ جب وہ چٹپٹا مسالا چھاپنے والے رسالوں کے خلاف اکیلا لڑ رہا تھا تو اس نے فریاد کرتے ہوئے کہا:
"میں نے بھٹ صاحب سے یہ وردان تو نہیں مانگا تھا کہ اتنی ذرا سی شہرت کے لیے اتنی دشمنی، اتنا اکیلا پن مجھے ملے۔"
پھر جب وہ فلم والوں کی تاریخی ریلی نکالنے والا تھا تو ایک دن پہلے میں نے اس سے کہا تھا:
"انوپم، زندگی کے بہترین لمحوں کی قیمت تو دینی ہی پڑتی ہے"۔
واقعی انوپم نے جس فراخ دلی سے میڈیا کے مشتعل لوگوں کو ان کی اصلی جگہ دکھائی، اس فراخ دلی نے مجھے بہت متاثر کیا۔
اتنے میں انوپم کے اسسٹنٹ دتو نے آکر بتایا: "شاٹ ریڈی ہے سر!"
انوپم اٹھا۔ اس نے اپنا میک اپ درست کیا، وہ کچھ تھکا ہوا سا لگ رہا تھا۔ سب سے طاقت ور آدمی وہ ہوتا ہے جو تکان کے وقت کو یاد رکھے۔ شاٹ کے لیے جانے سے پہلے اس نے مجھ سے وین میں آرام کرنے کے لیے کہا اور میرے ہاتھ میں رنگ برنگے کارڈوں کا ایک پیکٹ تھما دیا۔
میں نے معلوم کیا: "یہ کیا ہے؟"
انوپم نے بتایا: "یہ 'دلکش اسپیشل اسکول' کے بچوں کے بھیجے ہوئے کارڈ ہیں۔ اس اسکول میں ان بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے جنہیں دنیا اپاہج کہتی ہے۔ میں وہاں ان سے ملنے ہر بدھ کو جاتا ہوں۔" یہ کہہ کر انوپم شاٹ دینے چلا گیا۔

میں نیچے بیٹھتا چلا گیا۔ ان اپاہج بچوں کے بنائے ہوئے زندگی کے خوبصورت رنگوں سے سجے کارڈ میرے سامنے تھے۔ یہ کارڈ معصوم بچوں کے معصوم جذبات کی خاموش گواہی دے رہے تھے۔ مجھے یہ سوچ کر تعجب ہوا کہ ان کارڈوں سے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ بچے بہت خوش ہیں۔ اچانک میں ایک کارڈ کو دھیان سے دیکھنے لگا۔ اس کارڈ میں ایک چھوٹے بچے کا ہاتھ، ایک بڑے آدمی کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھا:
"تم نے مجھے چھوا اور میں بڑا ہو گیا"
۔۔۔ یہ تحریر اس کارڈ پر تھی۔ میں کمرے میں اکیلا بیٹھا اس کارڈ کے سوا سب کچھ بھول گیا۔ میرے اندر ایک طوفانی خاموشی سرایت کر گئی۔
دو دن بعد شام کو انوپم نے مجھے میرے گھر تک چھوڑنے کی پیش کش کی۔ اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے میرے دماغ میں اس دو دن پہلے کہی ہوئی بات کھلبلی مچا رہی تھی۔ اچانک انوپم نے بڑے معصومانہ انداز میں کہا:
"بھٹ صاحب، کیا آپ دلکش اسپیشل اسکول کے لیے 'ہم ہیں راہی پیار کے' کے ایک پرنٹ کا انتظام کرا سکتے ہیں؟ کیا آپ میرے اس کام میں میری مدد کریں گے کہ شو کے لیے عامر خاں اور جوہی چاؤلہ آ جائیں؟ اس سے بچے بہت خوش ہوں گے۔"
میں انوپم کے اس انداز پر مر مٹا کہ اس نے شو کی بات کس حسین انداز میں رکھی۔
رات گئے تک انوپم مجھے ان بچوں کے ساتھ گزارے ہوئے لمحوں کی روداد سناتا رہا اور میں سنتا رہا۔ یہ اس کی زندگی کا ایک نیا پہلو تھا۔ انوپم کھیر نے نو سال پہلے (1984 میں) فلم "سارانش" میں جس بی۔وی۔پردھان کے جذباتی کردار کو جیا تھا، آج بھی اصلی زندگی میں انوپم اسی کردار کو جی رہا ہے۔
اس رات کو جب انوپم میرے پاس سے گیا تو دیر تک مجھے نیند نہیں آئی۔ جب میں سویا تو میرے خوابوں میں پھر وہی بات گونجنے لگی کہ: "تم نے مجھے چھوا اور میں بڑا ہو گیا"۔
اگلی صبح بھی رات کی طرح بےکلی رہی۔ میں نے اپنی بےچینی کا سبب تلاش کرنا چاہا تو مجھے محسوس ہوا کہ دل کش اسکول سے ایک ہاتھ میری طرف بڑھ رہا ہے۔
صبح کو نو بجے میں نے انوپم کو فون کیا اور کہا:
"تھینک یو انوپم!"
اس نے دریافت کیا: "کس بات کے لیے بھٹ صاحب؟"
میں نے جواباً کہا: "تم نے مجھے چھو لیا انوپم اور میں بڑا ہو گیا۔ شکریہ۔"

نتیجہ:
انوپم کھیر فی الحال بمبئی کارپوریشن سے رابطہ قائم کیے ہوئے ہے کہ دلکش اسپیشل اسکول کی بیرونی دیواروں کو توڑنے سے بچایا جائے۔ انوپم نے کہا:
"میں نے (سنیل) دت صاحب سے بھی مدد مانگی ہے۔ مہیش، راستوں کو چوڑا کرنے کے لیے اسکول کی چاردیواری کو توڑنے کا منصوبہ ہے۔ اس چاردیواری کو ٹوٹنے سے بچانا ہوگا۔ اگر ایسا نہ ہو پایا تو بل ڈوزر کے آگے میں لیٹ جاؤں گا۔"

جس شخص نے یہ بات کہی، وہ فلمی ہیرو سے بدل کر اصلی ہیرو بن گیا ہے!!

***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"شمع" شمارہ: نومبر 1993

Anupam Kher, a real Bollywood Hero. Article: Mahesh Bhatt.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں