ناول رام محمد ڈیسوزا : قسط - 03 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-03-13

ناول رام محمد ڈیسوزا : قسط - 03


rmd-qist03

گذشتہ قسط کا خلاصہ :
رحیم، نندن اور رابرٹ نے ننھے بچے کو سنبھالا اور بکری کا دودھ پلا کر اس کی بھوک مٹائی۔ بچہ نے کچھ اس طرح تینوں کا دل بھی موہ لیا تھا کہ وہ سیلاب زدہ گاؤں کے سامان کو لوٹنا چھوڑ کر واپس اپنے گاؤں جانے پر رضا مند ہو گئے کہ بچے کو اس کے ماں باپ تک پہنچایا جائے۔ مگر بچہ پر حق جتانے والا کوئی فرد نہ ملا۔ تب رابرٹ نے فیصلہ سنایا کہ یہ بچہ وہ جولی کو بطور تحفہ دے دے گا۔ ایک بڑی دعوت کے بعد چرچ میں بچے کا بپتسما کروانے جولی پہنچ گئی۔ ۔۔۔ اب آگے پڑھیے ۔۔۔

قسط : 01 --- قسط : 02

"آخر یہاں فادر کا کیا کام ہے؟"
"فادر کا بچہ سے کیا لینا دینا؟"
"پھر بچہ کو یہ لوگ گرجے کیوں لے جا رہے ہیں؟"
نظروں ہی نظروں میں بغیر ایک لفظ زبان سے نکالے نندن اور رحیم نے ایک دوسرے سے اتنے بہت سے سوالات کر ڈالے۔ آخر رحیم سے نہ رہا گیا۔
"یہ آدمی بچہ کو کہاں لے جا رہا ہے؟"
"گرجا۔"
"کیوں!" نندن نے خشک لہجہ میں پوچھا۔ " اس بچہ کا گرجا میں کیا کام ہے؟"
رابرٹ اپنے دوستوں کی نظریں پہچانتا تھا ، اس نے سمجھ لیا کہ ان کے تیور خراب ہیں۔ اس نے بات کو ہلکا بناتے ہوئے کہا۔
"یہ جولی اس کا بپتسما کروا رہی ہے۔"
رحیم نے گردن کھجاتے ہوئے فادر سے پوچھا۔
"یار فادر یہ تمہارا بپتسما کیا چیز ہوتا ہے؟"
ان دونوں کے اعتراضات سے مہمانوں میں ایک سناٹا چھا گیا تھا اور سب نے ان کو گھیر لیا تھا۔ فادر نے ان بدمعاشوں کے منہ لگنا ٹھیک نہ سمجھا اور نہ ہی رابرٹ نے مناسب جانا۔ وہ فادر اور رحیم کے بیچ میں آ گیا اور سمجھانے لگا کہ وہ دونوں بےکار بےکار باتوں کا بتنگڑ بنا رہے ہیں۔
"بپتسما کچھ بھی نہیں ہوتا۔۔۔۔ بڑا فادر دعا پڑھ کر بچہ کو تھوڑے پاک پانی سے نہلائے گا اور اس کی وجہ سے بچہ ہمیشہ تن درست اور اچھا رہے گا اور اس کی عمر بھی بہت بڑھے گی۔"
قصہ کو جلد ختم کرنے کے لئے تاکہ گرجے کا وقت نہ نکل جائے، جولی بیچ میں آ گئی اور بولی:
"اور اس بچہ کا نام بھی تو رکھنا ہے ، اس کا اب تک کوئی نام بھی نہیں۔ ہم نے اس کا نام ڈیسوزا رکھا ہے، کیسا نام ہے؟"
نندن کے مونہہ میں شراب کا جو گھونٹ تھا، وہ اس نے بڑی حقارت سے ایک طرف تھوک دیا اور جس طرح کانکریٹ مکسچر مشین پتھر، سمینٹ اور بالو کو گھما گھما کر ایک گھنگھناہٹ کے ساتھ زمین پر اگلتی ہے، اسی طرح نندن نے کہا:
"اس بچہ کا نام رام ہے رام۔ کیسا نام ہے؟"
رحیم کی ٹوپی پلک جھپکتے اس کے سر پر پہنچ گئی، مگر اس نے جھگڑا مٹانے کے لئے بالکل سلجھی ہوئی بات کہی:
"تم دونوں کو دنگا کرنا ہے تو ہم بھی جان لو ڈرتے نہیں، ورنہ سیدھی بات یہ ہے کہ یہ بچہ مسلمان ہے۔ جس بھائی کو شک ہو اس کی صورت اچھی طرح دیکھ لے۔ ایک دم ایمان کا نور ہے اس کے چہرے پر ، سالا سیسہ میں بھی ایسی چمک نہیں ہو سکتی، جیسی مسلمان بھائی کے چہرے پر ہوتی ہے۔ یہ نور اسلام ہے کبھی چھپ نہیں سکتا، بولو کیا بولتے ہو؟"
رابرٹ زور سے نہیں بول سکتا تھا، آج ایک حیثیت سے وہ میزبان تھا، اور جولی کی عزت کا نگہبان بھی۔ اس نے صلاح و آشتی سے ہی کام نکالنے کی کوشش کی۔ بیچ میں کچھ عیسائیوں نے ایک ہندو اور ایک مسلمان کو اکیلا پاکر دھمکانے کی جرات کی مگر رابرٹ ان سب پر الٹا برس پڑا کہ کسی کو کچھ بولنے کی ضرورت نہیں ہے اور اپنے دونوں دوستوں کو قائل کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
"دیکھو یار! یہ بچہ تم نے جولی کے لئے مجھے دے دیا تھا نا؟ اور اتنے دن سے یہ جولی بچہ کو اپنا دودھ پلا کر پال رہی ہے تو اب یہی اس کی ماں ہو گئی کہ نہیں؟"
"دودھ تو جولی سے پہلے اس نے بکری کا بھی پیا ہے ، اور بکری کا نام موہنی تھا۔ موہنی۔"
نندن نے فاتحانہ انداز میں، موہنی پر زور دے کر کہا۔
رحیم نے ان دونوں کی عقل کو ماں کی گالی دیتے ہوئے کہا:
"دودھ تو بچہ باٹلی کا بھی پیتا ہے تو اس کی بہن کی۔۔۔۔ باٹلی بچہ کی ماں ہو جاتی ہے؟"

قانونی دلیلوں اور بحث کی نہ کوئی حقیقت ہوتی ہے اور نہ ان کا کوئی انت۔ اصلی بات ہوتی ہے قبضہ۔ اس گُر کو سمجھتے ہوئے نندن بچہ کی طرف بڑھا۔ جولی بچہ کو لے کر دوسرے کمرے میں بھاگ گئی۔ نندن اس کے پیچھے جانا چاہتا تھا۔ لیکن رابرٹ نے اس کی کنپٹی پر ایک مکا رسید کیا۔ جس طرح گھوڑے کی لات گھوڑا ہی سہہ سکتا ہے، اسی طرح یہ تینوں ہی ایک دوسرے کے مکے سہہ سکتے تھے۔ عزت والوں نے تو وہاں رہنا مناسب ہی نہ سمجھا لیکن جن لوگوں نے رات کو گھر پر کھانا پکانے کا انتظام ہی نہیں کیا تھا وہ جولی کو اپنے کردار کی بلندی اور عظمت دکھانے کے لئے جمے رہے۔
گھر میں معلوم ہوتا تھا کہ ایک زلزلہ آ گیا ہے اور آج رابرٹ یا نندن ایک لاش گھر سے ضرور نکلے گی۔ دونوں کے جسم لہو لہان ہو رہے تھے کہ اچانک برابر والے کمرے میں ایک شور ہوا اور جولی روتی چلاتی ہوئی آئی۔
"بچہ کو رحیم لے کر بھاگ گیا۔"

جو مہمان لڑائی کا تماشا دیکھ رہے تھے ، وہ باہر بھاگے تاکہ رحیم کے بھاگنے کی چکلس کی بھی ایک جھلک دیکھ لیں۔ لیکن رابرٹ اور نندن دونوں میں بھاگنے کا دم نہیں تھا۔ ان کی سانسیں پھول رہی تھیں ، اور ہاتھ پاؤں شل ہو چکے تھے۔ لڑائی کا سبب ہی غائب ہو چکا تھا اس لئے لڑائی بند ہو گئی۔ جب نندن کی سانس میں سانس آئی تو وہ اٹھ کر جولی کی الٹی ہوئی کرسیاں، میزیں اور بکھرے ہوئے برتن قاعدے سے واپس ان کی جگہوں پر رکھنے لگا۔ رابرٹ اس کا ساتھ دینے لگا۔ جیسے جن دونوں لفنگوں میں ہاتھا پائی ہو رہی تھی وہ تو بھاگ گئے ، اب یہ دو شریف مظلوم گھر والے اپنا گھر ٹھیک کر رہے ہیں۔
گاؤں میں رحیم کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ رابرٹ اور نندن نے ایک ایک سے پوچھا، ویسے جس نے دیکھا بھی اس میں بتانے کی جرات کہاں تھی؟
رحیم رات کے اندھیرے میں چھپتا چھپاتا امام صاحب کے گھر پہنچ گیا۔ امام صاحب عشاء کی نماز پڑھ کر مسجد سے گھر لوٹ کر مدو کے یہاں کی نیاز کا قورمہ کھانے بیٹھے تھے۔ ان کا مزاج ذرا برہم تھا، اس مردار مدّو کو معلوم تھا کہ بیوی سمیت ان کے گھر میں نو نفر ہیں۔ اس کے باوجود اس نے قورمہ اور روٹیاں اتنی کم بھیجی تھیں کہ ان کا اور ان کی بیوی کا پیٹ بھی مشکل سے بھرتا۔ اوپر سے یہ کہلوا دیا کہ حلوہ ختم ہو گیا۔
بیوی نے قورمہ میں ایک آنے کے آلو، آدھی مٹھی نمک اور دو ڈونگے پانی ڈال کر بچوں کا حساب پورا کر دیا تھا۔ آخر کیا کرتی؟ امام صاحب کی عقل کو سمجھاتی رہتی تھی کہ :
"آج کل کے مسلمانوں کا کوئی ایمان نہیں رہ گیا ہے۔ فاتحہ نیاز کا کھانا ساتھ بندھوا کر ہی لایا کرو۔"
مگر امام صاحب اس کی بات پر دھیان نہیں دیتے تھے۔ اور حلوہ کے معاملے میں تو امام صاحب سے صریحاً چوک ہو گئی تھی۔ نیاز دینے کے بیچ میں ہی ان کو خیال آگیا تھا کہ حلوہ گرم گرم ہے اور ذرا کم ہے۔ اس کو یہیں کھا لینا چاہئے۔ لیکن نیاز دینے کے بعد دوسرا منحوس خیال یہ آ گیا کہ کہیں مدّو یہ سمجھ لے کہ امام صاحب نے تو نیاز چکھ لی اب گھر بھیجنے کی کیا ضرورت ہے ، تو بہت گڑبڑ ہو جائے گی۔
روٹیاں اور بوٹیاں بچے صاف کر چکے تھے۔ امام صاحب ایک آنے کی ڈبل روٹی سے شوربہ زہر مار کررہے تھے۔ غلطی صریحاً ان کی تھی، بیوی سے گلہ کرنا آگ کو ہوا دینا تھا۔ اس وقت مناسب بات رسول مقبول کی وہ روایت ہی لگی کہ کھانا بہت مزے دار ہوتا تھا تو سرکار دو عالم اس میں پانی ملاکر کھاتے تھے۔ اتنے میں ان کے چھوٹے لڑکے بلال نے آکر خبر دی کہ رحیم آیا ہے اور اس کے ہاتھوں میں ایک گٹھری سی ہے۔ امام صاحب کی آس بندھی کہ رحیم ضرور کچھ کھانا لایا ہوگا ورنہ اس کی ہمت کہاں کہ ان کے پاس آئے اور وہ بھی اتنی رات کو!
امام صاحب بیوی کو سرور کائنات کی دوسری روایت کا حوالہ دیتے ہوئے کہ سائل دروازے پر آتا تھا تو حضور کھانا چھوڑ کر کھڑے ہو جاتے تھے ، خود بھی کھڑے ہو گئے ، لیکن بیوی کی توجہ سرکار دو عالم کی روایت پر کم اور اپنے بچہ بلال کی اس روایت پر زیادہ تھی کہ رحیم کے دونوں ہاتھوں میں ایک گٹھری سی ہے۔ اس کو یقین ہوگیا کہ خدا نے اس کی سن لی ہے۔ اب امام صاحب بھوکے نہیں سوئیں گے۔
"کیوں بے جہنمی۔ یہ حرام کاری بھی نہ چھوٹی تجھ سے مردود۔"
امام صاحب بچے کو دیکھ کر گرجے اور مدو کا سارا غصہ وعظ بن کر رحیم پر برسنے لگا۔ رحیم نے قطع کلام کرنے کے لئے تلوار کا وار کیا۔
"امام صاحب! اسلام خطرہ میں ہے!"
"اسلام؟"
"ہاں۔ یہ بچہ مسلمان ہے امام صاحب۔"
"کہاں ملا تجھ کو؟"
"ہم کو ایک جگہ پڑا ملا تھا۔"
"ابے پڑا ملا تھا تو مسلمان کیسے ہو سکتا ہے؟ پھر تو یقیناً ہندو ہوگا۔"
"نہیں امام صاحب آپ اس کو دیکھئے تو۔"
یہ کہتے ہوئے رحیم نے بچہ کے منہ سے کپڑا ہٹایا۔
امام صاحب نے مٹی کے تیل کی کُپی بچہ کے قریب لاکر روشنی میں اس کی صورت دیکھی۔ جولی نے بچہ کے گلے میں چاندی کا ایک خوب صورت کراس پہنا دیا تھا اور بچہ چسنی کی طرح اس کو ہاتھ سے پکڑے چوس رہا تھا۔ امام صاحب پر جیسے بجلی گری۔
"ابے یہ تو کرسٹان ہے۔"
رحیم نے بچہ کے ہاتھ سے کراس چھیننے کی کوشش لیکن بچہ رونے لگا۔ رحیم نے جلدی سے پھر کراس اس کے منہ میں دے دیا۔ بچہ کراس کو چوسنے لگا۔ اور رحیم امام صاحب کو سمجھانے لگا کہ یہ کراس زبردستی جولی اور رابرٹ نے بچے کے گلے میں ڈال دیا ہے۔ بچہ دراصل مسلمان کا ہے۔
رحیم امام صاحب کے گھر کو اسلام کا قلعہ سمجھتا تھا ، اس کو یقین تھا کہ ایک دفعہ بچہ اگر اس قلعہ کے حصار میں پہنچ گیا تو اس پر کوئی آنچ نہیں آ سکتی۔ یہاں وہ دشمنوں سے ایک دم محفوظ رہے گا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ابھی کچھ دن ہوئے کہ امام صاحب کے گھر میں آٹھواں بچہ ہوا ہے۔ امام صاحب اس کو رکھ لیں گے تو بچہ کو خالص اسلامی دودھ بھی ملے گا۔ لیکن جتنا وہ بغیر دلیل کے زور دیتا گیا کہ بچہ مسلمان ہے اور اس کا نام چراغ محمد ہوگا اتنا ہی امام صاحب کو یقین ہوتا گیا کہ ہو نہ ہو بچہ اسی رحیم کا گناہِ کبیرہ ہے۔

"اچھا امام صاحب آپ یہی سمجھ لیجئے ، میں اس کو آپ کے پاس چھوڑوں گا نہیں۔ اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ لیکن ابھی بہت رات ہو گئی ہے اور یہ بھوکا ہے ، آپ ذرا اس کو اپنے گھر میں لے جائیے۔ تھوڑی دیر کے لئے اسے اپنے گھر میں دے دیجئے۔۔۔۔"
رحیم امام صاحب کی منت کرنے لگا۔ اس کامطلب تھا کہ اپنی بیوی سے اس کو امام صاحب دودھ پلوا دیں۔ ایک معصوم شیر خوار مسلمان بچے کے لئے امام صاحب اتنی فراخ دلی ضرور دکھائیں گے یہ رحیم کو یقین تھا۔
مگر جیسے زلزلہ میں مسجد کا مینار لہرا جاتا ہے اسی طرح امام صاحب متزلزل ہو گئے اور اگر رحیم بچہ کو لے کر بھاگ نہ جاتا تو اس پر منہدم ہوکر شہید بھی ہو جاتے۔

رحیم کو امام صاحب پر غصہ نہیں آیا، خود اپنے اوپر غصہ آیا۔ اس کی زندگی کا جو چلن اور بدعنوانیاں تھیں، اس کی وجہ سے کوئی بھی شریف آدمی اس کی کسی بات کا بھروسہ نہیں کر سکتا تھا۔ بچہ کو گود میں دبائے وہ مندر کے تالاب کے پاس اندھیرے میں ایک چھوٹے سے ٹیلے پر بیٹھا تھا۔ مسلمانوں کے محلے کی طرف وہ جان کر نہیں گیا، اس کو معلوم تھا کہ اس کے دونوں دوست اسی ٹکڑی میں اس کے لئے گھوم پھر رہے ہوں گے۔ ایک مرتبہ پھر اس نے بچہ کی صورت کو غور سے دیکھا۔ وہ چاندی کا کراس چوستے چوستے سو گیا تھا۔ رحیم کو اس کے مونہہ میں کراس بہت برا لگا ، کراس سے بچہ کا لگاؤ خواہ مخواہ رحیم کے دل میں ایک وسوسہ پیدا کرتا تھا۔ اس نے آہستہ سے بچے کے مونہہ سے کراس نکالا۔ لیکن بچہ کی آنکھ کھل گئی اور وہ رونے لگا۔ اس نے پھر جلدی سے کراس اس کے مونہہ میں دے دیا۔ بچہ نے رحیم کو اس طرح مسکرا کر دیکھا کہ رحیم کی روح نے آب زمزم سے غسل کر کے اس کے سارے وجود کو پاک کر دیا۔ اس نے بچہ کو سینے سے چمٹا کر پیار کر لیا۔
لیکن کراس کراس ہے، چسنی ، چسنی۔
بچہ نے بھوک سے بلکنا شروع کر دیا، رحیم نے اپنے سینے کے پاس سے قمیص پھاڑدی اور بچہ کو چمٹا لیا۔ بچہ نے ایک ہی منٹ میں اس کی چار سو بیسی پر اور زور سے فریاد شروع کر دی۔

(باقی اگلی قسط میں ۔۔۔)

Novel: Ram Mohammad Desouza, Episode:03

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں